اداکاری سے زیادہ کمپیئرنگ کرنا اچھا لگتا ہے صوفیہ احمد
معروف ٹی وی اداکارہ و کمپیئر صوفیہ احمد کا خصوصی انٹرویو
صوفیہ احمد شوبز انڈسٹری کا ایک جانا پہچانا ہے جنہوں نے اداکاری ، ماڈلنگ اور کمپیئرنگ تینوں شعبوں میں کامیابیاں حاصل کیں، پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رکھنے والی یہ دراز قد، جاذب نظر اور پرکشش شخصیت کی مالک ورسٹائل ماڈل واداکارہ نے کیرئیر کے عروج میں ہی لومیرج کرلی جو کامیاب نہ ہوسکی مگر وہ اس صدمہ کا جوانمردی سے سامنا کرتے ہوئے اپنے چھ سالہ بیٹے کے ساتھ ایک خوشگوارزندگی گزار رہی ہیں۔
معروف ماڈل ، اداکارہ اور کمپیئر صوفیہ احمد کے مطابق شوبز میں آنے کے لئے کوئی پلاننگ نہیں کی اور نہ ہی ایسا کچھ ذہن میں تھا ۔ سکول اور کالج کے زمانے میں ہونیوالے فن فیئرز میں بھرپورحصہ لیتی اور بچپن میں ملکہ ترنم نورجہاں اور بشری انصاری کی نقالی کرتی ۔
میڈیکل کی سٹوڈنٹس تھی، پڑھائی کے دنوں میں ہی کالج میں ایک فیشن کا انعقاد ہوا، جس میں فریحہ الطاف، طارق امین، آمنہ الفت اور رخسانہ نور سمیت دیگر اہم شخصیات جج کے فرائض سرانجام دے رہے تھے جس میں میری پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے طارق امین اور فریحہ الطاف نے شوبز میں آنے کا مشورہ دیا۔ جب میں نے اپنے گھر والوں سے اجازت مانگی تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دوسال تک بات چیت ہی نہ کی، جبکہ میں نے بھی ہار ماننے کی بجائے شوبز کو جوائن کرلیا۔
اداکاری کے ساتھ ماڈلنگ اور کمپئرنگ میںآنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں صوفیہ احمد نے کہا کہ دیکھیں جی ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور ویسے بھی جو تہیہ کرلوں تو پورا کرکے ہی چھوڑتی ہوں۔
ذاتی طور پر مجھے لائیو کمپیئرنگ کرنا اچھا لگتا ہے، کیونکہ وہاں آپ کو ماحول کی مناسبت سے پروگرام کو لے کر چلنا ہوتا ہے۔ آج کل تو کمپیئرنگ کو اتنا آسان سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ میزبان کی حیثیت سے پروگرام کر نے لگ پڑتا ہے۔
ایکٹنگ کے ساتھ پروڈکشن کرنے کا بھی ارادہ کیا تھا ،اس کے لئے ایک نجی چینل سے بات چیت بھی ہوئی مگر حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے سکرپٹ سے آگے معاملات کو بریک لگا دی، کیونکہ پروڈکشن کرنے کے لئے کم ازکم دو کروڑ روپے ہونا ضروری ہے اور مجھ جیسے فنکارجن کے گھریلو اخراجات بھی شوبز سے نہیں نکلتے وہ اتنا سرمایہ کہاں سے لاسکتے ہیں۔
اداکارہ صوفیہ احمد نے کہا کہ فلموں کی طرح ڈراموں میںبھی سکرپٹ کی بجائے گلیمر کو فوکس کیا جارہا ہے اور ایسے موضوعات پر ڈرامہ بنائے جارہے ہیں جن کا ہمارے معاشرے اور ثقافت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند ایک ہی ایسے پروڈیوسر ہیں جوسوشل موضوع پر ڈرامہ بنارہے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
میرے ابو کا آبائی شہر گوجرانوالہ ہے، جہاں ہماری اپنی زمینیں ہیں مگر شادی کے بعد وہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہوگئے تھے، البتہ میں تو سکول اور کالج کی چھٹیاں گوجرانوالہ میں ہی گزارا کرتی تھی، اب بھی فیملی کے ساتھ جاتی ہوں۔
فنکار بھی عام انسان ہی ہوتے ہیں ، ان کے بھی مسائل اور پریشانیاں ہوتی ہیں مگر سکرین پر وہ اپنی شخصیت کی نفی کرتے ہیں۔ وہ بھی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے شدید گرمی اور سردی میں ریکارڈنگز کر رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران انہیں موبائل فون تک سننے کی اجازت نہیں ہوتی ۔کئی کئی دن اپنے گھر والوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔
پروڈیوسر کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں اپنا کام مکمل کرلے۔ ایک مشرقی لڑکی کی طرح میں نے بھی سوچا کہ شادی تو ایک دن کرنی ہے اگر اچھا جیون ساتھی مل جائے تو دیر لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ وہ پہلے ہی تین بچوں کا باپ ہے اس سے شادی کی ۔ان سے علیحدگی کے بعد میرا زندگی کا دارو مدار چھ سالہ بیٹا محمد ابراہیم ہے جس نے مجھے زندگی جینے کا ایک حوصلہ دیا ہے، شاید مردحضرات کو معلوم نہیں کہ عورت جب ماں بن جاتی ہے تو وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے، جس کے اندر ہر مشکل کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں اور نہ ہی ایسی کسی فضول بحث میں پڑنا چاہتی ہوں۔ میری بہترین دوست جگن کاظم ہے جس نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا ہے۔ زندگی کے تلخ تجربات اور مشکلات نے جینے کا ہنر سکھا دیا ہے۔
اس وقت کراچی میں متعدد ٹی وی ڈرامہ سیریلز میں کام کر رہی ہوں جن کی ریکارڈنگز کے لئے جلد ہی جاؤں گی جہاں اپنا کام مکمل کرواکر دوبارہ لاہور آجاؤں گی۔ اداکارہ نے کہا کہ شوبز ہی میرا ذریعہ معاش نہیں ہے، اپنے بھائی کے ساتھ مل کر چھوٹا سا بزنس کر رہی ہوں جس سے میرے گھریلو اخراجات اللہ کے فضل وکرم سے چل رہے ہیں ۔
معروف ماڈل ، اداکارہ اور کمپیئر صوفیہ احمد کے مطابق شوبز میں آنے کے لئے کوئی پلاننگ نہیں کی اور نہ ہی ایسا کچھ ذہن میں تھا ۔ سکول اور کالج کے زمانے میں ہونیوالے فن فیئرز میں بھرپورحصہ لیتی اور بچپن میں ملکہ ترنم نورجہاں اور بشری انصاری کی نقالی کرتی ۔
میڈیکل کی سٹوڈنٹس تھی، پڑھائی کے دنوں میں ہی کالج میں ایک فیشن کا انعقاد ہوا، جس میں فریحہ الطاف، طارق امین، آمنہ الفت اور رخسانہ نور سمیت دیگر اہم شخصیات جج کے فرائض سرانجام دے رہے تھے جس میں میری پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے طارق امین اور فریحہ الطاف نے شوبز میں آنے کا مشورہ دیا۔ جب میں نے اپنے گھر والوں سے اجازت مانگی تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دوسال تک بات چیت ہی نہ کی، جبکہ میں نے بھی ہار ماننے کی بجائے شوبز کو جوائن کرلیا۔
اداکاری کے ساتھ ماڈلنگ اور کمپئرنگ میںآنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں صوفیہ احمد نے کہا کہ دیکھیں جی ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور ویسے بھی جو تہیہ کرلوں تو پورا کرکے ہی چھوڑتی ہوں۔
ذاتی طور پر مجھے لائیو کمپیئرنگ کرنا اچھا لگتا ہے، کیونکہ وہاں آپ کو ماحول کی مناسبت سے پروگرام کو لے کر چلنا ہوتا ہے۔ آج کل تو کمپیئرنگ کو اتنا آسان سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ میزبان کی حیثیت سے پروگرام کر نے لگ پڑتا ہے۔
ایکٹنگ کے ساتھ پروڈکشن کرنے کا بھی ارادہ کیا تھا ،اس کے لئے ایک نجی چینل سے بات چیت بھی ہوئی مگر حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے سکرپٹ سے آگے معاملات کو بریک لگا دی، کیونکہ پروڈکشن کرنے کے لئے کم ازکم دو کروڑ روپے ہونا ضروری ہے اور مجھ جیسے فنکارجن کے گھریلو اخراجات بھی شوبز سے نہیں نکلتے وہ اتنا سرمایہ کہاں سے لاسکتے ہیں۔
اداکارہ صوفیہ احمد نے کہا کہ فلموں کی طرح ڈراموں میںبھی سکرپٹ کی بجائے گلیمر کو فوکس کیا جارہا ہے اور ایسے موضوعات پر ڈرامہ بنائے جارہے ہیں جن کا ہمارے معاشرے اور ثقافت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند ایک ہی ایسے پروڈیوسر ہیں جوسوشل موضوع پر ڈرامہ بنارہے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
میرے ابو کا آبائی شہر گوجرانوالہ ہے، جہاں ہماری اپنی زمینیں ہیں مگر شادی کے بعد وہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہوگئے تھے، البتہ میں تو سکول اور کالج کی چھٹیاں گوجرانوالہ میں ہی گزارا کرتی تھی، اب بھی فیملی کے ساتھ جاتی ہوں۔
فنکار بھی عام انسان ہی ہوتے ہیں ، ان کے بھی مسائل اور پریشانیاں ہوتی ہیں مگر سکرین پر وہ اپنی شخصیت کی نفی کرتے ہیں۔ وہ بھی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے شدید گرمی اور سردی میں ریکارڈنگز کر رہے ہوتے ہیں۔ اس دوران انہیں موبائل فون تک سننے کی اجازت نہیں ہوتی ۔کئی کئی دن اپنے گھر والوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔
پروڈیوسر کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں اپنا کام مکمل کرلے۔ ایک مشرقی لڑکی کی طرح میں نے بھی سوچا کہ شادی تو ایک دن کرنی ہے اگر اچھا جیون ساتھی مل جائے تو دیر لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ وہ پہلے ہی تین بچوں کا باپ ہے اس سے شادی کی ۔ان سے علیحدگی کے بعد میرا زندگی کا دارو مدار چھ سالہ بیٹا محمد ابراہیم ہے جس نے مجھے زندگی جینے کا ایک حوصلہ دیا ہے، شاید مردحضرات کو معلوم نہیں کہ عورت جب ماں بن جاتی ہے تو وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے، جس کے اندر ہر مشکل کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں اور نہ ہی ایسی کسی فضول بحث میں پڑنا چاہتی ہوں۔ میری بہترین دوست جگن کاظم ہے جس نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا ہے۔ زندگی کے تلخ تجربات اور مشکلات نے جینے کا ہنر سکھا دیا ہے۔
اس وقت کراچی میں متعدد ٹی وی ڈرامہ سیریلز میں کام کر رہی ہوں جن کی ریکارڈنگز کے لئے جلد ہی جاؤں گی جہاں اپنا کام مکمل کرواکر دوبارہ لاہور آجاؤں گی۔ اداکارہ نے کہا کہ شوبز ہی میرا ذریعہ معاش نہیں ہے، اپنے بھائی کے ساتھ مل کر چھوٹا سا بزنس کر رہی ہوں جس سے میرے گھریلو اخراجات اللہ کے فضل وکرم سے چل رہے ہیں ۔