بھتہ وصولی کیخلاف درخواست پر ڈی جی رینجرز و دیگر کو نوٹس

رینجرز کے اعلیٰ حکام کیخلاف بھتے سمیت سنگین الزامات عائد ہیں لیکن وہ خود موجود ہیں اور نہ ہی ان کا وکیل، ہائیکورٹ


Staff Reporter August 12, 2014
گاڑی کے سودے کو متنازع قرار دیکرغیر متعلقہ فریق کار ڈیلر کو 23لاکھ ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے،درخواست گزار۔ فوٹو: فائل

SIRTE/LIBYA: سندھ ہائیکورٹ نے بھتے کی وصولی اور تاجر کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواست پرڈی جی رینجرز اوردیگر افسران کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے احمد شاہ کی درخواست کی سماعت کے موقع پر رینجرز افسران کی جانب سے کسی نمائندے کے پیش نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ اس درخواست میں رینجرز کے اعلیٰ حکام کیخلاف بھتے سمیت سنگین الزامات عائد ہیں لیکن وہ خود موجود ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی وکیل موجود ہے، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ رینجرز ونگ 53 کے کرنل مظہر، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس یعقوب، منظور اور جاوید درخواست گزار کی گاڑی کے سودے کو متنازع قرار دیکر اس سلسلے میں غیر متعلقہ فریق کار ڈیلر کو 23 لاکھ روپے ادا کرنے کیلیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ رینجرز افسران نے درخواست گزار پردباؤ ڈال کر25 جون کو 12 لاکھ روپے مالیت کا چیک نمبر 13201726 حاصل کیا جو اسی روز کیش کرالیا گیا، درخواست گزار احمد شاہ کا موقف ہے کہ وہ صاف ستھرے کردار کے ممتاز تاجر ہیں جو لکھنؤ، دہلی، اکبر کلاتھ مارکیٹس کی یونینز کے صدر ہیں اور ان کے 2بیٹوں کے خالد بن ولید روڈ پر نئی و پرانی کاروں کے شورومز تھے۔

درخواست گزار کے مطابق رینجرز حکام بعض ایسی مشکوک گاڑیوں کا سودا بھی ان کے بیٹوں کے ذمے ڈال رہے ہیں جن سے ان کا کوئی تعلق بھی نہیں لیکن رینجرز حکام وگو، امریکن گاڑی ٹینڈرا، ہنڈا سوک سمیت ایک کے بعد دوسری گاڑی کا حوالہ دیکر انھیں رینجرز آفس بلاتے ہیں اوردھمکیاں دیتے ہیں کہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج بھگتنا ہوں گے، عدالت نے مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پرکوئی سینئر رینجرز افسر پیش ہوکر وضاحت کرے بصورت دیگر عدالت دستیاب شواہد کی بنیادپر احکامات جاری کرے گی۔

علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے حساس ادارے کے ڈائریکٹرکے ملازمین کو غیر قانونی حراست میں رکھنے کے خلاف درخواست پر ایس ایچ او پاک کالونی اور تفتیشی افسر بوٹ بیسن کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے، مسمات شریفاں خاتون نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اس کے بیٹے جاوید اور 4 کم سن بیٹوں کو حساس ادارے کے ڈائریکٹر وہاب شیخ نے ذاتی ملازمت کرنے سے انکار پر مختلف تھانوں میں غیر قانونی طور پر گرفتار کرادیا۔

انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی بہو روبینہ اور بیٹا جاوید سابق ڈائریکٹر آئی بی مرید چانڈیو کی رہائش گاہ پر ذاتی ملازم تھے، ان کے تبادلے کے بعد وہاب شیخ یہاں پر آئے اور انھیں کہا کہ ملازمت کو جاری رکھو مگران کے رویے کی وجہ سے انھوں نے ملازمت سے انکار کردیا جس کو بنیاد بناکر انھوں نے جاوید اس کے کمسن بیٹے کامروش، سانول ،جوئیل ،شاہ رخ کو مختلف تھانوں میں غیر قانونی حراست میں رکھوادیا۔

سماعت کے موقع پرعدالت کی جانب سے جواب طلبی پر مدعا علیہان کی جانب سے کوئی جواب داخل نہیں کیا گیا جس پر سندھ ہائی کورٹ کے حکم پرریڈراور بیلف پر مشتمل ٹیم نے تھانہ بوٹ بیسن اور ملیر میں چھاپہ مارکر سانول، جوئیل اور شاہ رخ کو بازیاب کرالیا تھا، پیر کو سماعت کے موقع پر عدالت کو مطمئن نہ کرنے پر تفتیشی افسر بوٹ بیسن ذوالفقار اور تفتیشی افسر پاک کالونی سب انسپکٹر وسیم کو عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں تفتیشی افسران نے پاک کالونی تھانے سے درخواست گذار کے بیٹے جاوید اور کامروش کو بھی عدالت میں پیش کردیا،بازیاب ہونے والوں نے عدالت میں بیان دیا کہ ان پر کسی قسم کا مقدمہ نہیں تھا، حساس ادارے کے ڈائریکٹر نے ذاتی رنجش کی بنا پر انہیں مختلف تھانوں میں بند کرادیا جس پر عدالت نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے غیر قانونی حراست میں رکھنے پر ایس ایچ او پاک کالونی منیر چانڈیو اور تفتیشی افسر تھانہ بوٹ بیسن ذوالفقار کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں