پاکستان ایک نظر میں ذمے دار کون

درجنوں بے گناہوں کی قربانی کے بعد سونامی اور انقلاب کے موجدین بھی حسب سابق اپنے اپنے عالی شان محلات کا رخ کریں گے۔


محمد صغیر August 12, 2014
درجنوں بے گناہوں کی قربانی کے بعد سونامی اور انقلاب کے موجدین بھی حسب سابق اپنے اپنے عالی شان محلات کا رخ کریں گے۔ فوٹو فائل

پاکستان میں آنے والے متوقع'' سونقلاب'' یعنی سونامی اور انقلاب کے تیزابی مکسچر کو جھیل کر اس ملک و ملت کی حالت کیا ہو گی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا،تاہم اس کے ابتدائی ثمرات تو واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔حکمرانوں نے اگست کے مہینے کو مارچ میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل کو بھر پور طریقے سے استعمال کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے تو دوسری جانب سونامی اور انقلاب کے موجدین بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اپنے بیانات میں مزید جدت،شدت اور حدت لاتے جا رہے ہیں ،جبکہ حکومت دفاعی پوزیشن کی آڑ لے کرسونقلابیوں کو دفاعی پوزیشن میں لا کر کھدیڑنے کی ہر ممکن تیاری کر رہی ہے۔

سونقلابیوں کی جانب سے اس دنگل کی تاریخ چودہ اگست اور مقام اسلام آباد طے کیا گیا تھا،تاہم آزمائیشی جھڑپوں کا آغاز ایک بار پھر لاہور سے ہو چکا ہے ، غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں اسٹاک ا یکسچینج کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے اور ہر طرف خوف و ہراس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، سرد ترین موسم میں گرم و پر آسائیش کنٹینر سیاست کے موجد ڈاکٹروں کے بھی ڈاکٹر صاحب تو حسب سابق اس بار بھی اپنی ذات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن جدید طریقے استعمال کریں گے ۔تو دوسری جانب عوامی سونامی کی ایجاد کا سہرہ اپنے سر پر سجانے والے خان صاحب کے گرد بھی جانثاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

نواز لیگ کے وزیروں ،مشیروں و دیگر قائدین کی جانب سے دےئے جانے والے آتشی بیانات کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سونقلاب جیسی ناگہانی آفت کو اس کے تخلیق کاروں سمیت قانون و اقتدار کے مظبوط شکنجے میں کس دیا جائے گا،تو حذب مخالف کی جانب سے بھی حکومت وقت کو دندان شکن جواب دئیے جانے کے بلندو بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں ۔ان کشیدہ حالات سے صاف ظاہر ہے کہ ہر بار کی طرح وفاقی حکومت اور سونقلاب کے ان دو بھاری پاٹوں کے درمیان باریک آٹے کی مانند پسنا دہشت گردی،بے روز گاری ،غربت و مہنگائی سے بدحال پاکستانی عوام کے مقدر میں ہی لکھا ہے۔

خیر سے ڈاکٹر صاحب تو حال ہی میں درجن سے زائد محنت کشوں کی قربانی کا عملی مظاہرہ کر کے انھیں شہادت کے عظیم ترین مرتبے پر فائز کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں جبکہ خان صاحب کی جماعت تو اپنے قیام کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجوداہم ترین پارٹی اثاثے یعنی شہدا سے قظعی طور پر محروم ہے، اور صاف ظاہر ہے کہ خان صاحب اس موقع پر اپنی دیرینہ کمی کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے،جس کے نتیجے میں برپا ہونے والاطوفان جوکہ محض اسلام آباد تک محدود نہیں رہے گا،نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ گل کرنے کا سبب بن جائے اور حسب روایت شہیدوں کے مراتب پر فائز ہونے کا شرف محض رعیت کو ہی حاصل ہو گا ،کیونکہ حکمرانوں ،سیا ستدانوں ،وزیروں ،مشیروں ،اعلی حکام ،ارباب اختیار اور ان کے عزیز و اقارب نے اس عظیم ترین درجے پر فائز ہونے کے تمام تر حقوق صرف اور صرف غریبوں ،بے روز گاروں اور مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور عوام الناس کے نام کر رکھے ہیں ،اور ان مسیحاوں کو اقتدار کے سوا کسی بھی اورشے کی طلب نہیں ہے۔

سوشل میڈیا کی عینک اتار کر سچائی کے عدسے سے اس حقیقت کو پرکھا جائے تو انکشاف ہو گاکہ پاکستانی عوام کسی سونامی کی شکل اختیار کرنے یا کوئی انقلاب برپا کرنے کی سکت رکھتے ہی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو یہ قوم بہت پہلے یکجا ہو کر دہشت گردی،لاقانونیت ، بدعنوانی ،بے انصافی،اقربا پروری سمیت دیگر تمام ناسوروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی اور خادمین کے نام پر ملکی وسائل اور دولت کی لوٹ مار میں مصروف سیاسی بازیگروں کا سختی سے محاسبہ کرکے اپنے تمام تر حقوق حاصل کر چکی ہوتی۔

طویل ملکی تاریخ میں ایسا وقت پہلے کبھی آیا ہے اور نہ ہی آئندہ کئی سالوں تک یہ وقت آنے کوئی امکان ہے، کیونکہ انقلاب یا عوامی سونامی ہمیشہ باشعور و اپنے بنیادی حقوق سے آگاہ محنت کش و استحصال زدہ طبقے سے وجود میں آتا ہے،اسے پر تعیش اور طویل و عریض ڈراینگ رومز میں بیٹھ کر ایجاد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مجھے تو یہی توقع ہے کہ حسب روایت درجنوں بے گناہوں کی قربانی کے بعد سونامی اور انقلاب کے موجدین بھی حسب سابق اپنے اپنے عالی شان محلات کا رخ کریں گے ،تاکہ شہیدوں کی قربانیاں یاد دلا کر ایک بار پھر شہادت پانے کے نئے امیدواروں کو جمع کیا جا سکے۔اور اگر یہی سب کرنا تھا تو قوم کے لہو کو ٹیکس کے نام پر نچوڑ کر حاصل کی جانے والی خطیر رقم کو الیکشن جیسے فلاپ ڈراموں پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی، اور اب اس کا بدترین صورتحال کا ذمے دار کون ہے ؟۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔