عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر سپریم کورٹ سے کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے وزیراعظم

پاکستان کو ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہو،وزیراعظم کا قوم سے خطاب

یہ نہیں ہوسکتا کہ ملک میں پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں کیے جائیں،وزیراعظم، فوٹو:فائل

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ حکومت انتخابات 2013 میں دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے کمیشن بنانے کی درخواست کررہی ہے جس میں جج صاحبان تحقیقات کرکے اپنی حتمی رائے دیں گے جبکہ اب اس اقدام کے بعد یہ فیصلہ قوم پر چھوڑتے ہیں کہ اب کسی احتجاج کی ضرورت ہے یا نہیں یہ قوم خود سوچے۔

قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ یوم آزادی پر قوم کو دل کی گہرائیوں سے پیشگی مبارکباد دیتا ہوں، یوم آزادی کی تقریبات کا آغاز یکم اگست سے ہوچکا ہے اور ان تقریبات میں آپریشن ضرب عضب اور شمالی وزیرستان کے بے گھر لوگوں کے خصوصی حوالے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کا اہم تقاضہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز سیاسی استحکام اور پرسکون ماحول میں تعمیر و ترقی کی روشن منزلوں کی طرف بڑھتا رہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا ماضی اسی طرح کے عدم استحکام اورسیاسی انتشار کا شکار رہا ہے جس کی ہم بہت بھاری قیمت ادا کرچکے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج ہماری ہم عمر قومیں ہم سے کہیں زیادہ توانا، ترقی یافتہ اور کہیں زیادہ خوشحال ہوچکی ہیں،اگر ہم ساری دنیا پر نظر ڈالیں تو صرف ان ہی ملکوں نے ترقی اور خوشحالی کی منزل پائی جہاں جہاں سیاسی استحکام رہا ہے، پالیسی تسلسل کے ساتھ جاری رہیں اور تعمیر و ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یوم آزادی کا استقبال کرتے ہوئے قوم کو اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہئے کہ کون سی خرابیاں ہیں جو ہمیں منزل سے دور کررہے ہیں اور وہ کون سے کھوکھلے نعرے ہیں جو ہمیں غربت سے نہیں نکلنے دے رہے۔

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ آج وطن جمہوریت کی راہ پر چل رہا ہے، تمام ریاستی ادارے اور پارلیمنٹ آئین کے مطابق کام کررہے ہیں جبکہ ہماری عدلیہ پوری قوت کے ساتھ آئین اور جمہوریت کی پشت پر کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ نے اپنی آئینی مدت پوری کی جس کے بعد انتقال اقتدارکا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہوا اور اسی سیاسی بلوغت کا نتیجہ تھا کہ 2013 کے انتخابات کے بعد ہر سطح پر عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا، ہم نے کھلے دل سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے نئی جمہوری روایات کی بنیاد ڈالیں جس سے ایک نیا کلچر بنا اور ہم کسی اکھاڑ پچھاڑ میں نہیں پڑے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کی حامل جماعتوں کو یہ سنہری موقع ملا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کا بھرپور مظاہرہ کریں تاکہ 2018 میں عوام اس کاکردگی کے پیمانے پر اپنا فیصلہ کرسکیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملک ہر شعبے میں شدید مشکلات اور بحرانوں میں گھر اہوا تھا جبکہ ہم نے مایوسی اور ناامیدی کی بجائے صورتحال کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور سالوں کا کام مہینوں اور مہینوں کا کام دنوں میں کرنے کا عزم کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم دعویٰ نہیں کرتے کہ ہماری حکومت نے کوئی معجزہ کردکھایا ہے لیکن یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران پاکستان آگے بڑھا ہے، انفرا اسٹرکچر کے نئے منصوبوں، قومی معیشت کی بہتری، بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد، مجموعی قومی پیداور میں اضافے،روپے کے استحکام، برآمدات میں اضافے، اسٹاک ایکسچینج میں مضبوطی اور متعدد دوسرے اقدامات کی وجہ سے ملک نہ صرف بحرانوں کے دلدل سے نکل رہا ہے بلکہ ترقی خوشحالی کی طرف گامزن ہوچکا ہے۔

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ لوڈشیڈنگ کے اندھیروں سےنجات کیلئے 10 ہزار چار سو میگا واٹ بجلی کے منصوبے کا معاہدہ طے پاچکا ہے جبکہ تربیلا منگلا کے بعد بھاشہ ڈیم کی تعمیر کا بھی آغاز کررہے ہیں جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈیم ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی سے لاہور موٹروے سمیت حکومت متعدد ایسے منصوبوں پر کام کررہی ہے جو ملکی تاریخ میں اتنی تیز رفتاری کے ساتھ کبھی نہیں لگائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت ماضی کی خرابیوں اور کمزویوں سے نجات حاصل کرکے تعمیرو ترقی اور خوشحالی کی نئی راہوں پر سفر کا آغاز کرچکی ہےتو دوسری طرف ستم ظریفی ہے کہ کچھ عناصر کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر احتجاجی سیاست کی راہ پر چل نکلے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایک عرصے سے پسماندگی کے اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی قوم کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ان ہنگاموں اور فسادات کا مقصد کیا ہے، قوم کو بتایا جائے کہ یہ احتجاج کس وجہ سے ہورہا ہے، کیا یہ لوگ ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں یا پھر ملک میں توانائی کےبحرانوں کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کو اس ہنگامے اور فساد کی کوئی ایک وجہ بتائی جائے، یہ لوگ ایک بار پھر ملک کو غربت پسماندگی، دہشتگردی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جس پر قوم کو ان سے پوچھنا چاہئے کہ ان کے کیا مقاصد ہیں اور یہ کیوں ترقی میں رخنہ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اہل خانہ سمیت جلا وطن کیا گیا جس کے باوجود ہم نے 2002 کے انتخابات لڑے اور ہماری جماعت کو ڈیڑھ درجن نشستوں تک محدود کیا گیا لیکن ہم نے پھر بھی ثابت قدمی سے جمہوری کردارادا کیا جبکہ 2008 کے انتخابات میں ہمیں نا اہل کرایا گیا لیکن ہم نے پھر بھی صبرو تحمل کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے کردار ادا کیا اور دوسرے لوگوں کی طرح دھاندلی کا رونا نہیں رویا۔


وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ 2013 کے الیکشن پہلی بار اتفاق رائے سے چنے گئے چیف الیکشن کمشنر کی نگرانی میں ہوئے جس میں انتخابات پہلی بار نئی آئینی ترمیم کے نتیجے میں قائم ہونےوالی نگراں حکومتوں کی نگرانی میں کرائے گئے جبکہ ان ہی الزام تراشیاں کرنے والوں کے مطالبے پر عدالت عظمیٰ نے اجازت دی کہ عدلیہ کے جج صاحبان ریٹرننگ افسران کے فرائض سرانجام دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کو ملکی و غیر ملکی میڈیا نے کوریج دیا اور انہیں غیر ملکی مبصرین نے ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات ہمارے منشور کا حصہ ہے جس کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیرمین سینیٹ کو خط لکھا تھا کہ دونوں ایوانوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو وسیع تر بنیادی اور موثر انتخابی اصلاحات کا جامع نقشہ تجویز کریں جس کے بعد 33 اراکین پر بننے والی کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے اور حکومت اس کمیٹی کے متفقہ سفارشات پر صدق دل سے عمل کرے گی، چاہےاس کے لیے قانون بدلنا پڑا یا آئین میں ترمیم کرنا پڑی تو کریں گے، بلکہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا ڈھانچہ بدلنے کو بھی تیار ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے، ہم کوئی فیصلہ اکیلے کرنا نہیں چاہتے جس کیلئے انتخابی اصلاحات میں پوری پارلیمنٹ اور اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ شامل کریں گے کیونکہ ہم نے سیاسی جمہوری سفر کے دوران جتنی بھی اصلاحات کیں ان سب کا سہرہ عوامی نمائندوں کے سر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آزادی کی طرح جمہوریت کیلئے بھی بڑی قربانیں دیں اور اب یہاں پارلیمنٹ موجود ہے جو عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ملک میں پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں کیے جائیں کیونکہ اب یہاں کسی کی بادشاہت ہے اور نہ ہی آمریت۔

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا حکومت واضح کرنا چاہتی ہے کہ ہر سیاسی، آئینی، قانونی اور قومی معاملے میں اصلاح احوال کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں اور ہم ملکی سیاسی قیادت کی مشاورت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض رہنماؤں کی مشاورت پر کھلے دل کے ساتھ معاملات کو بات چیت سے حل کرنے کی آمادگی ظاہر کی اور ان کی تجاویز تسلیم قبول کیں جبکہ اب بھی ہر اس کوشش کو خوش آمدید کہیں گے جو پاکستان کی سلامتی استحکام اور عوام کی تقدیر بدلنے کیلئے ہوں ہم اس میں اپنی کسی انا کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں کوئی انا نہیں ہے ہم جمورہیت پر یقین رکھتے ہیں اور آئینی و قانونی اداروں میں رہتے ہوئے پرامن احتجاج کا احترام کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنا آئین اپنا قانون اور اپنا جمہوری نظام رکھنے والی ریاست ہے ہم پاکستان کے آئین و جمہوری تشخص پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے،کسی کو انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے اور کسی کو یہ بھی اجازت نہیں دی جائیگی کہ وہ مذہب کی آڑ میں لوگوں کی گردنیں کاٹنے پر اکسائےاور انتہا پسندی، دہشتگردی کے خلاف جتھا بندیوں کے ذریعے ریاستوں نظام کو یرغمال بنالیں۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنےوالی قوم نئے عنوان سے فتنے کی اجازت نہیں دے گی اور کسی فسادی ٹولے کو یہ حق نہیں دیا جائیگا کہ وہ توانائی انفرا اسٹرکچر، قومی خوشحالی کیلئے اربوں کے منصوبوں کو کھنڈر بنا کر قوم کو پھر سے غربت اور پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل دے۔

وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہو،سڑکوں پر ہنگامہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کو کروڑوں عوام کا مینڈیٹ یرغمال نہیں بنانے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارےمیڈیا نے جمہوریت کی سربلندی اور عدلیہ کی بحالی کیلئے تاریخی کردار ادا کیا اس سے گزارش کرتاہوں کہ موجودہ سیاسی ہلچل کے حوالے سے اپنے کردار کا جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ میڈیا کی آزادی کو کچھ عناصر اپنے پرتشدد اور غیر آئینی ایجنڈے کیلئے تو استعمال نہیں کررہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پوری قوم کی طرح میں بھی حیرت اورافسوس کے ساتھ ایک خاص جماعت کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کو سنتا رہا، اب کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر مسلسل دھرائے جانے والے بے بنیاد الزامات کو بنیاد بنا کر پورے جمہوری نظام کو چیلنج کیا جارہا ہے اور ملک میں بے یقینی کی فضا پیدا کرکے ملکی معیشت، سیاسی استحکام اور عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے سامنے عوام کی فلاح وبہبود اور خوشحالی کا ایجنڈا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ کسی طرح کی بدامنی اور انتشار اس پر منفی اثر ڈالے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملکی صورتحال کا جائزہ لینے اور اجتماعی سوچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 2013 کے انتخابات کےبارے میں لگائے گئے الزامات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کا ایک کمیشن قائم کیا جائے اور اس مقصد کیلئے حکومت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کرے گی کہ وہ عدالت عظمیٰ کے تین ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیں جو ان الزماات کی مکمل چھان بین کے بعد اپنی حتمی رائے دے۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام کے بعد کیا کسی احتجاجی تحریک کی گنجائش ہے اس سوال کا جواب میں قوم پر چھوڑتا ہوں۔
Load Next Story