کوئی پرسان حال نہیں
امن عامہ اور بجلی و گیس کے بحران کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قیامت خیز مہنگائی ہے ۔۔۔
وطن عزیز پاکستان آج کل شدید ترین مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، جن میں امن و امان کا بحران اب سر فہرست آ گیا ہے۔ تشدد کی لہر جس نے شہر قائد کراچی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہوا تھا اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہر طرف ایک افراتفری کی سی کیفیت ہے اور ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ دوسروں کی جانوں کی حفاظت پر مامور اداروں کے اہل کاروں کو خود اپنی جان تک کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کیفیت یہ ہے کہ:
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
ہر سمت اور ہر جانب خلفشار، انتشار اور ہاہاکار ہی ہاہا کار ہے اور عالم یہ ہے کہ ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت نام کی کسی شے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور جدھر نظر اٹھا کر دیکھیے صرف لاقانونیت کی حکمرانی ہے۔ حکومت وقت اگرچہ بار بار طرح طرح کی یقین دہانیاں کرا رہی ہے لیکن عملاً اس کی بے بسی کے اظہار کے باعث عوام کا اعتبار مسلسل اٹھتا جا رہا ہے۔ بس اندھیر نگری چوپٹ دل کا سماں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت جسے برسراقتدار آئے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے عجیب و غریب بے عملی کا شکار ہے۔ فیصلہ سازی کا فقدان ہر شعبے اور ہر معاملے میں نمایاں ہے اور کنفیوژن ہے کہ کم ہونے کے بجائے ہر آنے والے لمحے کے ساتھ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ گومگوں کی سی اس کیفیت کی وجہ سے عوام کی مایوسی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور قانون شکن قوتوں اور عناصر کے حوصلے دن بہ دن بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کے بارے میں عوام کا یہ تاثر اب عام ہو چکا ہے کہ وہ اپنی چوکڑی بھول گئی ہے اور وہ اب صرف اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔
حکومت کے بعض وزرائے کرام اور ذمے داران کو بعض اوقات ہم نے یہ دہائی دیتے ہوئے سنا اور دیکھا ہے کہ ملک و قوم کو اس وقت جن سنجیدہ اور سنگین مسائل کا سامنا ہے وہ اس کے خود کے پیدا کیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اسے سابقہ حکمرانوں سے ورثے میں ملے ہیں، مگر یہ دفاعی دلیل بودی اور ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ تمام صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے سے قبل (ن) لیگ نے کوئی ہوم ورک ہی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پر بوکھلاہٹ کی سی کیفیت طاری ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے معروضی حقائق کو جانتے بوجھتے ہوئے عام انتخابات میں نہ صرف حصہ لیا تھا بلکہ عوام سے بڑے بلند و بانگ دعوے بھی کیے تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ملک و قوم کی کایا پلٹ کر رکھ دے گی۔ اس وقت سب سے بڑا اور توجہ طلب مسئلہ بجلی کا بحران تھا جس نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنماؤں نے جن میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پیش پیش تھے، یہ یقین دہانیاں بھی بار بار کرائی تھیں کہ وہ صرف چند ماہ کے اندر اندر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیں گے۔
لیکن برسراقتدار آنے کے کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی جب انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو وہ نہ صرف اپنے وعدوں اور دعوؤں سے منحرف ہوتے ہوئے دکھائی دیے بلکہ محض جھوٹی اور خالی خولی یقین دہانیوں پر اتر آئے۔ بجلی کا بحران تو حل کرنا دور کی بات ہے ان کے چند ماہ پر مشتمل دور حکمرانی میں سی این جی کے بحران نے بھی اس قدر شدت اختیار کر لی کہ ٹرانسپورٹ اور صنعتوں کا پہیہ جام ہو گیا اور غریب عوام کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اس حکومت سے تو پچھلی حکومت ہی بہتر تھی۔
امن عامہ اور بجلی و گیس کے بحران کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قیامت خیز مہنگائی ہے جس میں کمی آنے کے بجائے ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف بے روزگاری بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف افراط زر کے بے لگام ہونے کے باعث عوام کی قوت خرید روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے جس نے متوسط اور غریب گھرانوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جب کہ رشوت خور افسران، اور منافع خور و ذخیرہ اندوز تاجران کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور نرخوں کی نگرانی کرنے والے تمام ادارے گراں فروشوں سے سازباز اور مک مکا کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق محض خاموش تماشائی بنے ہوئے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ مہنگائی کے طوفان میں سب سے برا حال محدود آمدنی والے تنخواہ دار طبقے کا ہے جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔ اس طبقے کی آمدنی میں نام نہاد اضافہ سالانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے جب کہ مہنگائی میں اضافہ سالانہ اور ماہانہ نہیں بلکہ روزانہ کے حساب سے ہو رہا ہے۔
سرکاری ملازمین میں بھی سب سے بدتر حالت ریٹائرڈ ملازمین کی ہے جن کی پنشن ان کی گزر اوقات سے بہت ہی کم ہے۔ دوسری جانب عمر میں اضافے کے ساتھ ان کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دواؤں کی قیمتیں ہیں کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مفت طبی علاج کی سہولتیں ناپید ہیں اور ڈاکٹروں کی فیسوں میں آئے دن اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ قابل رحم حالت کم معاوضہ پانے والے نجی اداروں کے ملازمین کی ہے جن کا حال یہ ہے کہ بقول شاعر:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
ایک زمانہ تھا کہ کم مہنگائی کے دور میں عام نجی تجارتی ادارے اپنے نچلے درجے کے ملازمین کو 5 سے 7 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے اور اپنی مرضی کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ بھی کر دیا کرتے تھے۔ لیکن آج کل کیفیت یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ تو درکنار الٹا کاروبار نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کسی بھی ملازم کو کسی بھی لمحے ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور نکالے جانے والے ملازم کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہوتا۔ یوں تو ہمارے ملک میں لیبر قوانین سمیت ہر شعبے کو کنٹرول کرنے کے لیے طرح طرح کے قوانین اور ان پر عمل درآمد کرانے والے مختلف اور متعدد ادارے بھی موجود ہیں لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس مملکت خداداد کا ہر کام عبوری بنیاد پر چل رہا ہے اور یہاں عملاً جنگل کا قانون رائج ہے۔
ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں جب کہ ہمارے روایتی حکمراں موروثی سیاست کو مزید فروغ دینے کے لیے اپنی اپنی بندوقیں عوام کے کندھوں پر رکھ کر چلاتے ہوئے اپنے اہل خاندان کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں مصروف ہیں۔ بے چارے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جب کہ حکمرانوں کو اپنی کرسی اقتدار بچانے کی فکر لاحق ہے۔ انھیں 14 اگست کا خوف ستا رہا ہے جب ایک زبردست سیاسی دنگل ہونے والا ہے جس کی تیاریاں بڑے زور و شور کے ساتھ جاری ہیں۔
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
ہر سمت اور ہر جانب خلفشار، انتشار اور ہاہاکار ہی ہاہا کار ہے اور عالم یہ ہے کہ ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت نام کی کسی شے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور جدھر نظر اٹھا کر دیکھیے صرف لاقانونیت کی حکمرانی ہے۔ حکومت وقت اگرچہ بار بار طرح طرح کی یقین دہانیاں کرا رہی ہے لیکن عملاً اس کی بے بسی کے اظہار کے باعث عوام کا اعتبار مسلسل اٹھتا جا رہا ہے۔ بس اندھیر نگری چوپٹ دل کا سماں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت جسے برسراقتدار آئے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے عجیب و غریب بے عملی کا شکار ہے۔ فیصلہ سازی کا فقدان ہر شعبے اور ہر معاملے میں نمایاں ہے اور کنفیوژن ہے کہ کم ہونے کے بجائے ہر آنے والے لمحے کے ساتھ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ گومگوں کی سی اس کیفیت کی وجہ سے عوام کی مایوسی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور قانون شکن قوتوں اور عناصر کے حوصلے دن بہ دن بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کے بارے میں عوام کا یہ تاثر اب عام ہو چکا ہے کہ وہ اپنی چوکڑی بھول گئی ہے اور وہ اب صرف اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔
حکومت کے بعض وزرائے کرام اور ذمے داران کو بعض اوقات ہم نے یہ دہائی دیتے ہوئے سنا اور دیکھا ہے کہ ملک و قوم کو اس وقت جن سنجیدہ اور سنگین مسائل کا سامنا ہے وہ اس کے خود کے پیدا کیے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اسے سابقہ حکمرانوں سے ورثے میں ملے ہیں، مگر یہ دفاعی دلیل بودی اور ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ تمام صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے سے قبل (ن) لیگ نے کوئی ہوم ورک ہی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پر بوکھلاہٹ کی سی کیفیت طاری ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے معروضی حقائق کو جانتے بوجھتے ہوئے عام انتخابات میں نہ صرف حصہ لیا تھا بلکہ عوام سے بڑے بلند و بانگ دعوے بھی کیے تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ملک و قوم کی کایا پلٹ کر رکھ دے گی۔ اس وقت سب سے بڑا اور توجہ طلب مسئلہ بجلی کا بحران تھا جس نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنماؤں نے جن میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پیش پیش تھے، یہ یقین دہانیاں بھی بار بار کرائی تھیں کہ وہ صرف چند ماہ کے اندر اندر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دیں گے۔
لیکن برسراقتدار آنے کے کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی جب انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو وہ نہ صرف اپنے وعدوں اور دعوؤں سے منحرف ہوتے ہوئے دکھائی دیے بلکہ محض جھوٹی اور خالی خولی یقین دہانیوں پر اتر آئے۔ بجلی کا بحران تو حل کرنا دور کی بات ہے ان کے چند ماہ پر مشتمل دور حکمرانی میں سی این جی کے بحران نے بھی اس قدر شدت اختیار کر لی کہ ٹرانسپورٹ اور صنعتوں کا پہیہ جام ہو گیا اور غریب عوام کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اس حکومت سے تو پچھلی حکومت ہی بہتر تھی۔
امن عامہ اور بجلی و گیس کے بحران کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قیامت خیز مہنگائی ہے جس میں کمی آنے کے بجائے ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف بے روزگاری بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف افراط زر کے بے لگام ہونے کے باعث عوام کی قوت خرید روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے جس نے متوسط اور غریب گھرانوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جب کہ رشوت خور افسران، اور منافع خور و ذخیرہ اندوز تاجران کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور نرخوں کی نگرانی کرنے والے تمام ادارے گراں فروشوں سے سازباز اور مک مکا کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق محض خاموش تماشائی بنے ہوئے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ مہنگائی کے طوفان میں سب سے برا حال محدود آمدنی والے تنخواہ دار طبقے کا ہے جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔ اس طبقے کی آمدنی میں نام نہاد اضافہ سالانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے جب کہ مہنگائی میں اضافہ سالانہ اور ماہانہ نہیں بلکہ روزانہ کے حساب سے ہو رہا ہے۔
سرکاری ملازمین میں بھی سب سے بدتر حالت ریٹائرڈ ملازمین کی ہے جن کی پنشن ان کی گزر اوقات سے بہت ہی کم ہے۔ دوسری جانب عمر میں اضافے کے ساتھ ان کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دواؤں کی قیمتیں ہیں کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مفت طبی علاج کی سہولتیں ناپید ہیں اور ڈاکٹروں کی فیسوں میں آئے دن اضافے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ قابل رحم حالت کم معاوضہ پانے والے نجی اداروں کے ملازمین کی ہے جن کا حال یہ ہے کہ بقول شاعر:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
ایک زمانہ تھا کہ کم مہنگائی کے دور میں عام نجی تجارتی ادارے اپنے نچلے درجے کے ملازمین کو 5 سے 7 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے اور اپنی مرضی کے مطابق تنخواہوں میں اضافہ بھی کر دیا کرتے تھے۔ لیکن آج کل کیفیت یہ ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ تو درکنار الٹا کاروبار نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کسی بھی ملازم کو کسی بھی لمحے ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور نکالے جانے والے ملازم کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہوتا۔ یوں تو ہمارے ملک میں لیبر قوانین سمیت ہر شعبے کو کنٹرول کرنے کے لیے طرح طرح کے قوانین اور ان پر عمل درآمد کرانے والے مختلف اور متعدد ادارے بھی موجود ہیں لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس مملکت خداداد کا ہر کام عبوری بنیاد پر چل رہا ہے اور یہاں عملاً جنگل کا قانون رائج ہے۔
ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں جب کہ ہمارے روایتی حکمراں موروثی سیاست کو مزید فروغ دینے کے لیے اپنی اپنی بندوقیں عوام کے کندھوں پر رکھ کر چلاتے ہوئے اپنے اہل خاندان کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں مصروف ہیں۔ بے چارے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جب کہ حکمرانوں کو اپنی کرسی اقتدار بچانے کی فکر لاحق ہے۔ انھیں 14 اگست کا خوف ستا رہا ہے جب ایک زبردست سیاسی دنگل ہونے والا ہے جس کی تیاریاں بڑے زور و شور کے ساتھ جاری ہیں۔