خالی ہاتھ
عمران خان اپنے اس عزم و ارادے کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں کہ اپنے’’ٹارگٹ‘‘ کے حصول تک وہ اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے
KARACHI:
عین اس روز یعنی 14 اگست کو جب ملک کے 18 کروڑ عوام جشن آزادی مناتے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ''آزادی مارچ'' کرتے ہوئے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے کی بھرپور تیاریاں کر رہے ہیں۔
خان صاحب کا واحد ''ٹارگٹ'' نواز حکومت کا خاتمہ ہے وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے استعفے سے کم کسی بات پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ عمران کا موقف یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت مئی 2013 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کی پیداوار ہے لہٰذا اسے حقیقی جمہوری و آئینی حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا چونکہ نواز حکومت کا مینڈیٹ جعلی ہے لہٰذا اس حکومت کا خاتمہ اور ایک آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن کے ذریعے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جانا از بس ضروری ہے۔
عمران خان اپنے اس عزم و ارادے کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں کہ اپنے ''ٹارگٹ'' کے حصول تک وہ اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے جوں جوں14 اگست قریب آ رہی ہے عمران خان کے لہجے میں سختی و تلخی، عزائم خطرناک اور انداز جارحانہ ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے مذاکرات کی تمام ''آفرز'' کو انھوں نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا ہے اور اپنے کارکنوں کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ وہ حکومت کی جانب سے کھڑی کی گئی تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے اسلام آباد پہنچیں انھوں نے اپنے کارکنوں کو واضح طور پر یہ ''پیغام'' دیا ہے کہ اگر انھیں کچھ ہوا تو کارکن شریف خاندان کو نہ چھوڑیں۔
عمران خان کے جو مطالبات میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہے ہیں ان میں لاہور، سیالکوٹ اور لودھراں کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانا، مئی 2013کے انتخابات کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ایک خود مختار کمیشن کا قیام، دھاندلی میں ملوث ریٹرننگ افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنا، اگر گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ثابت ہو جائے (عمران کے بقول دھاندلی کے ٹھوس ثبوت ان کے پاس موجود ہیں) تو دوبارہ عام انتخابات کرانا، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور بڑے پیمانے پر انتخابی اصلاحات شامل ہیں۔
پہلے قدم کے طور پر حکومت نے انتخابی اصلاحاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو متفقہ طور پر کمیٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے اور اس کالم کی اشاعت تک کمیٹی کا پہلا اجلاس بھی منعقد ہوچکا ہوگا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فساد پھیلانے والا انقلاب نہیں چاہتے۔ سیاسی جماعتیں ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔ کانفرنس میں موجود سیاسی و عسکری قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ملک اس وقت بحران کا شکار ہے دہشت گردی نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا ملک کو اس وقت امن کی ضرورت ہے ملک محاذ آرائی و لانگ مارچ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر عمران خان کو ان کے مطالبات پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ 10 حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے و دیگر شکایات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ کانفرنس سے قبل وزیر اعظم نے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں و مشاورت بھی کی کہ کسی صورت عمران کو لانگ مارچ سے روکا جا سکے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کو حل کیا جائے۔ اس ضمن میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔
انھوں نے عمران خان، طاہر القادری، چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی، اسفند یار ولی، سراج الحق سمیت کئی سیاستدانوں سے ٹیلی فونک رابطے کیے ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں بالغ نظر اور یکسوئی کا مظاہرہ کریں اور اس حوالے سے کسی سیاسی جماعت کو پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے تو یہ کام خوش دلی سے ہونا چاہیے۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ ملک سیاسی ہلچل سے دوچار ہے لہٰذا مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور طاقت، دھونس دھمکی کا طرز عمل اختیار نہ کیا جائے اس سے ملک کو نقصان ہوگا اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی محاذ آرائی سے گریز پر زور دے رہے ہیں۔ ایک طرف عمران خان تو دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ مولانا طاہر القادری نے بھی اسلام آباد کی جانب پرواز کرتے ہوئے ''انقلاب مارچ'' کا اعلان کر دیا ہے وہ بھی خان صاحب کی طرح اپنے کارکنوں کو منظم و متحد کر رہے ہیں۔ قادری صاحب کا بھی واحد ایجنڈا نواز حکومت کا خاتمہ ہے وہ 31 اگست کی ''ڈیڈ لائن'' بھی دے چکے ہیں۔
آج وطن عزیز بحرانوں کا شکار ہے مختلف النوع مسائل و مشکلات کوہ ہمالیہ بن کے سامنے کھڑے ہیںدہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ پاک فوج آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی بیخ کنی میں مصروف ہے یہ وقت اتحادو قومی یکجہتی کا تقاضہ کرتا ہے۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ ملک میں ایک طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ 13 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں پر امن طریقے سے انتقال اقتدار کے ذریعے جمہوریت کا تسلسل قائم ہوا ہے جس کو قائم رکھنا اور دوام دینا تمام سیاسی جماعتوں کی اجتماعی ذمے داری ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ماضی کے تمام انتخابات کی طرح مئی 13 کے انتخابات کو بھی پوری طرح شفاف، منصفانہ و آزادانہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ان انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں جنھیں ہر لحاظ سے کلی طور پر شفاف، آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ سند عطا کی گئی ہو اور تمام فریقین نے انتخابی نتائج کو صدق دل سے تسلیم کرلیا ہو۔
تاہم جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے سیاسی بلوغت، صبر و تحمل، دور اندیشی اور حالات کے تقاضوں کے مطابق افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرنا بہرحال شعور و آگہی کی علامت ہوتا ہے جیسا کہ پیپلز پارٹی نے عملی طور پر مبینہ دھاندلیوں کے باوجود جمہوریت کے استحکام کی خاطر 13 مئی کے انتخابی نتائج کو قبول کر کے ثابت کیا، باوجود اس کے کہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کو ''انجینئرڈ'' طریقے سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سائیڈ لائن کر دیا گیا لیکن جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر پی پی پی نے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا۔
عمران خان بھی ایک سال تک دھیمے انداز سے احتجاج کرتے ہوئے محض 4 حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرتے رہے اگر حکومت ان کا یہ مطالبہ مان لیتی تو آج عمران کو لانگ مارچ کا جواز نہ ملتا لیکن میاں صاحب اپنی افتاد طبع کے باعث بھاری مینڈیٹ کے زعم میں نہ صرف اپنوں سے لاتعلق ہو گئے بلکہ ''طاقتور'' حلقوں کی ناراضگی بھی مول لے لی یہاں تک کہ میڈیا میں انھیں ''بادشاہ'' قرار دیا جانے لگا۔ جس کا نتیجہ عمران خان کے لانگ مارچ کی شکل میں اب ان کے سامنے ہے۔
حکومت دفعہ 144 و آرٹیکل 245 کے نفاذ اور پی ٹی آئی و عوامی تحریک کے کارکنوں و رہنماؤں کی گرفتاریوں و رکاوٹوں کے ذریعے لانگ مارچ کو روکنا چاہتی ہے لیکن عمران اور طاہر القادری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے لیکن محاذ آرائی و خون خرابے سے بچنے کے لیے دونوں رہنماؤں اور حکومت کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مارچ ہر صورت پر امن رہے جمہوریت کے تسلسل کو ہرگز نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ورنہ غیر جمہوری قوتوں کے آنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ مناسب ہو گا کہ وزیر اعظم تمام سیاسی قائدین کو آن بورڈ لے کر اسلام آباد میں عمران خان سے ان کے مطالبات پر سنجیدہ مذاکرات کر کے جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچائیں ورنہ سب کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑے گا۔