اے دیدۂ بینا
حکومتی رویے کی بے حسی اور کذب بیانی نوٹ کرنے کے لائق ہے ۔۔۔۔
غزہ پر مسلسل ریاستی دہشت گردی، عارضی صلح کے وقفے میں بھی بمباری، شہر تو کھنڈر بن گیا لیکن دو ہزار سے زیادہ جانیں بھی گزر گئیں۔ جن میں تقریباً 55 بچے اور 225 خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ 8 جولائی سے شروع ہونے والے اسرائیلی مظالم کا وہ شاہکار ہے جس میں نسل کشی کو بنیاد بنایا گیا، سرمایہ دار ممالک اور عالم اسلام کی حکومتیں ہونٹوں پر انگلی رکھے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ جب کہ عالمی ضمیر نے امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور متعدد ملکوں میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا ہے۔
آج سے گیارہ سال قبل ایسے ہی وحشیانہ تشدد کا زمانہ تھا جب غزہ میں اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے مکانات مسمار کر رہی تھی۔ عالمی ضمیر کی نمایندہ راشیل کوری آگے آئی تھی، راشیل کوری جسے دختر حریت کہنا زیبا ہے۔ 1979 میں امریکا میں پیدا ہوئی، تعلیم و تربیت امریکا میں حاصل کی، ا من عالم اور اقوام کے درمیان مساوات اور اخوت کے فروغ کے لیے وہ امن کی تحریکوں میں شامل ہو گئی، کوری کی عمر 23 سال تھی جب وہ غزہ میں مظلوموں کی حمایت کے لیے پہنچی۔ 16 مارچ 2013 کو رفاہ غزہ میں اسرائیل بلڈوزر ایک فلسطینی کے مکان کو منہدم کرنے کے لیے بڑھ رہا تھا کہ کوری ڈٹ کر سامنے آگئی۔
اس نے کہا یہ ظلم دیکھنے کے لیے میں زندہ رہنا نہیں چاہتی۔ مکان توڑنا ہے تو میری لاش پر سے گزرنا ہو گا۔ جواب میں اسرائیلی درندوں نے بلڈوزر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ کوری ڈٹی کھڑی رہی۔ بلڈوزر اس کے جسم پر سے گزر گیا۔ راشیل کوری وحشیانہ تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ایک استعارہ بن کر زندہ ہے۔ جب کبھی غزہ پر درندے وحشیانہ مظالم کریں گے تو راشیل کوری کی یاد مظلوموں کے حوصلے بڑھانے کے لیے پیغام دے گی۔ گلزار ارم پر تو صحرائے عدم ہے پندار جنوں، حوصلہ راہ عدم ہے، کہ نہیں ہے، پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیٔ سینا، اے دیدۂ بینا..... !
اس میں حکومتی رویے کی بے حسی اور کذب بیانی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جب کوری کے والدین نے امریکا میں قتل کا مقدمہ قائم کرانا چاہا تو عدالت نے سماعت کے بعد حکم دیا کہ بلڈوزر کا ڈرائیور راشیل کوری کو دیکھ نہیں پایا تھا۔ یہ حادثے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ پھر یہی مقدمہ تل ابیب کی عدالت میں چلا جس کا فیصلہ ابھی اپریل 2014میں امریکا کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے جاری ہو گیا۔ ایسی ہی نظیروں پر کارل مارکس کا جملہ یاد آتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں عدالتیں استحصالیوں کا حربہ ہوتی ہیں۔
دیدۂ بینا کی جہاں بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں اسی میں برطانیہ کی بیرونس سعیدہ وارثی بھی ہیں جو سینئر فارن آفس منسٹر اینڈ منسٹر آف فیتھ اینڈ کمیونٹیز تھیں۔ وہ غزہ پر برطانوی حکومت کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے کابینہ سے مستعفی ہوگئیں۔ انھوں نے اپنے استعفے میں، جو آن لائن پوسٹ ہوا ہے واضح طور پر لکھا کہ ''غزہ پر حکومتی پالیسیوں کو مزید سپورٹ نہیں کر سکتی۔ مجھے جن فیصلوں کی حمایت کے لیے کہا گیا تھا ان پر عمل نہیں کر سکتی۔'' انھوں نے برطانوی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگائے۔
سعیدہ وارثی کے استعفے نے کنزرویٹو پارٹی کے لیے برطانیہ میں مسئلہ پیدا کر دیا اور بالخصوص آنے والے انتخابات میں سعیدہ وارثی کا پالیسی بیان گہرا اثر ڈالے گا۔ لیبر پارٹی کے شیڈو فارن سیکریٹری ڈگلس الیگزنڈر نے استعفے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے دانش مند ان جذبات سے اتفاق کریں گے جن کا اظہار بیرونس وارثی نے اپنے استعفے میں کیا ہے۔
یہ وزیر اعظم کی غزہ کی صورت حال کی بدنظمی کی افسوس ناک جھلک ہے کہ ان کی با صلاحیت وزیر کو بھی چھوڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی'' برطانیہ کے ان لاکھوں شہریوں کو اس استعفے سے طاقت ملی ہے جو متواتر احتجاجی جلوس نکال رہے ہیں اور غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں اس اتفاق کو اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں کہ سعیدہ وارثی ایک پاکستانی مسلمان کی بیٹی ہیں۔
انگریزی کے علاوہ اردو بھی مادری زبان کی حیثیت سے ش اور ق درست انداز میں بولتی ہیں جب کہ نسلی طور پر ان کا پنجاب سے تعلق ہے۔ اس میں مسلمان یا پاکستانی سے زیادہ اس بات کو دخل ہے کہ برطانیہ میں پیدا ہونے کے ساتھ ساری تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی جس تعلیم و تربیت نے انھیں کردار کی استقامت، اخلاق میں تہذیب اور شعور میں تاثر کے بجائے حقائق کو سمجھنے کی طاقت دی ہے۔
ان شخصی اوصاف کی وجہ سے انھوں نے غزہ کے معاملے پر سچائی کو سمجھتے ہوئے مظلوموں کی حمایت میں برطانیہ کی وزارت جیسے اہم عہدے سے استعفیٰ دے کر عام لوگوں کی صف میں شامل ہونا پسند کیا۔ ایسے ہی کسی موقعے کے لیے فیضؔ نے سر وادیٔ سینا میں کہا ہے:
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
سعیدہ وارثی کا استعفیٰ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ ہمیں امید رکھنا چاہیے کہ برطانوی عوام ان کے شعور کا اتباع کریں گے۔ برطانیہ اور امریکا کی حکومتوں کو اسرائیل کے ساتھ کاروباری بھائی بندی کی مصلحت کے تحت اگر جڑے رہنا ہے تو اس وقت تک جب تک عالم اسلام ان ملکوں کے ساتھ تجارتی مراعات پر نظر ثانی نہیں کرتا اور کاروباری تعلق کو محدود کر کے ان سے فاصلہ قائم نہیں کرتا، راشیل کوری اور سعیدہ وارثی جیسے لوگ انفرادی حیثیت سے تو قربانی دیتے رہیں گے لیکن نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلے گا۔
آج سے گیارہ سال قبل ایسے ہی وحشیانہ تشدد کا زمانہ تھا جب غزہ میں اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے مکانات مسمار کر رہی تھی۔ عالمی ضمیر کی نمایندہ راشیل کوری آگے آئی تھی، راشیل کوری جسے دختر حریت کہنا زیبا ہے۔ 1979 میں امریکا میں پیدا ہوئی، تعلیم و تربیت امریکا میں حاصل کی، ا من عالم اور اقوام کے درمیان مساوات اور اخوت کے فروغ کے لیے وہ امن کی تحریکوں میں شامل ہو گئی، کوری کی عمر 23 سال تھی جب وہ غزہ میں مظلوموں کی حمایت کے لیے پہنچی۔ 16 مارچ 2013 کو رفاہ غزہ میں اسرائیل بلڈوزر ایک فلسطینی کے مکان کو منہدم کرنے کے لیے بڑھ رہا تھا کہ کوری ڈٹ کر سامنے آگئی۔
اس نے کہا یہ ظلم دیکھنے کے لیے میں زندہ رہنا نہیں چاہتی۔ مکان توڑنا ہے تو میری لاش پر سے گزرنا ہو گا۔ جواب میں اسرائیلی درندوں نے بلڈوزر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ کوری ڈٹی کھڑی رہی۔ بلڈوزر اس کے جسم پر سے گزر گیا۔ راشیل کوری وحشیانہ تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ایک استعارہ بن کر زندہ ہے۔ جب کبھی غزہ پر درندے وحشیانہ مظالم کریں گے تو راشیل کوری کی یاد مظلوموں کے حوصلے بڑھانے کے لیے پیغام دے گی۔ گلزار ارم پر تو صحرائے عدم ہے پندار جنوں، حوصلہ راہ عدم ہے، کہ نہیں ہے، پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیٔ سینا، اے دیدۂ بینا..... !
اس میں حکومتی رویے کی بے حسی اور کذب بیانی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جب کوری کے والدین نے امریکا میں قتل کا مقدمہ قائم کرانا چاہا تو عدالت نے سماعت کے بعد حکم دیا کہ بلڈوزر کا ڈرائیور راشیل کوری کو دیکھ نہیں پایا تھا۔ یہ حادثے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ پھر یہی مقدمہ تل ابیب کی عدالت میں چلا جس کا فیصلہ ابھی اپریل 2014میں امریکا کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے جاری ہو گیا۔ ایسی ہی نظیروں پر کارل مارکس کا جملہ یاد آتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں عدالتیں استحصالیوں کا حربہ ہوتی ہیں۔
دیدۂ بینا کی جہاں بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں اسی میں برطانیہ کی بیرونس سعیدہ وارثی بھی ہیں جو سینئر فارن آفس منسٹر اینڈ منسٹر آف فیتھ اینڈ کمیونٹیز تھیں۔ وہ غزہ پر برطانوی حکومت کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے کابینہ سے مستعفی ہوگئیں۔ انھوں نے اپنے استعفے میں، جو آن لائن پوسٹ ہوا ہے واضح طور پر لکھا کہ ''غزہ پر حکومتی پالیسیوں کو مزید سپورٹ نہیں کر سکتی۔ مجھے جن فیصلوں کی حمایت کے لیے کہا گیا تھا ان پر عمل نہیں کر سکتی۔'' انھوں نے برطانوی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگائے۔
سعیدہ وارثی کے استعفے نے کنزرویٹو پارٹی کے لیے برطانیہ میں مسئلہ پیدا کر دیا اور بالخصوص آنے والے انتخابات میں سعیدہ وارثی کا پالیسی بیان گہرا اثر ڈالے گا۔ لیبر پارٹی کے شیڈو فارن سیکریٹری ڈگلس الیگزنڈر نے استعفے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے دانش مند ان جذبات سے اتفاق کریں گے جن کا اظہار بیرونس وارثی نے اپنے استعفے میں کیا ہے۔
یہ وزیر اعظم کی غزہ کی صورت حال کی بدنظمی کی افسوس ناک جھلک ہے کہ ان کی با صلاحیت وزیر کو بھی چھوڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی'' برطانیہ کے ان لاکھوں شہریوں کو اس استعفے سے طاقت ملی ہے جو متواتر احتجاجی جلوس نکال رہے ہیں اور غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں اس اتفاق کو اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں کہ سعیدہ وارثی ایک پاکستانی مسلمان کی بیٹی ہیں۔
انگریزی کے علاوہ اردو بھی مادری زبان کی حیثیت سے ش اور ق درست انداز میں بولتی ہیں جب کہ نسلی طور پر ان کا پنجاب سے تعلق ہے۔ اس میں مسلمان یا پاکستانی سے زیادہ اس بات کو دخل ہے کہ برطانیہ میں پیدا ہونے کے ساتھ ساری تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی جس تعلیم و تربیت نے انھیں کردار کی استقامت، اخلاق میں تہذیب اور شعور میں تاثر کے بجائے حقائق کو سمجھنے کی طاقت دی ہے۔
ان شخصی اوصاف کی وجہ سے انھوں نے غزہ کے معاملے پر سچائی کو سمجھتے ہوئے مظلوموں کی حمایت میں برطانیہ کی وزارت جیسے اہم عہدے سے استعفیٰ دے کر عام لوگوں کی صف میں شامل ہونا پسند کیا۔ ایسے ہی کسی موقعے کے لیے فیضؔ نے سر وادیٔ سینا میں کہا ہے:
اب صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
سعیدہ وارثی کا استعفیٰ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ ہمیں امید رکھنا چاہیے کہ برطانوی عوام ان کے شعور کا اتباع کریں گے۔ برطانیہ اور امریکا کی حکومتوں کو اسرائیل کے ساتھ کاروباری بھائی بندی کی مصلحت کے تحت اگر جڑے رہنا ہے تو اس وقت تک جب تک عالم اسلام ان ملکوں کے ساتھ تجارتی مراعات پر نظر ثانی نہیں کرتا اور کاروباری تعلق کو محدود کر کے ان سے فاصلہ قائم نہیں کرتا، راشیل کوری اور سعیدہ وارثی جیسے لوگ انفرادی حیثیت سے تو قربانی دیتے رہیں گے لیکن نتیجہ خاطر خواہ نہیں نکلے گا۔