سن سن کر پک گئے…

اس ملک کی ترقی کو اگر کسی نے روکا ہے تو وہ بس اپوزیشن کی ہٹ دھرمی ہے جو انتشار پھیلا رہی ہے ۔۔۔


انیس منصوری August 12, 2014
[email protected]

سُن سُن کر کان تو کان پورا جسم سُن ہو گیا لیکن یہ چلانے والوں کے گلے میں پتہ نہیں کون سی ہڈی ہے جو نہ چٹخ رہی اور نہ ہی پھٹک رہی ہے۔ بچپن سے سنتے سنتے چھوٹے کان بڑے ہو گئے لیکن ان کی بولیاں ختم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔

ہم نے سُنا ہے کہ کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی لیکن اب اس محاورے میں تھوڑی جدت کی ضرورت ہے اور کہا جانا چاہیے کہ ''نازک دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا ''۔ اور اگر آپ اپوزیشن میں ہے تو تھوڑا اضافہ کر دیجیے اور کہہ دیجیے ''نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں''۔ ہماری ''لیبر'' تو ہمیشہ ہی نازک دور سے گزرتی ہے لیکن آپ میں سے کوئی جانتا ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا کہ ہماری ''لیبر'' کو اور کتنے نازک دور سے گزرنا پڑے گا۔ یہ میں آپ کی صلاحیت پر چھوڑتا ہوں کہ آپ انگریزی کا کون سا ''لیبر'' سمجھ رہے ہیں جو میں نہیں لکھ سکتا۔

وہی حکومت کے چار جملے۔ ملک ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور یہ اپوزیشن نہیں چاہتی کہ عام پاکستانی ترقی کرے۔ وہی اپوزیشن کی گلا پھاڑ مہم کہ حکومت نام ہی چوری کا ہے۔ ہم آپ کو جلد آزادی دلائینگے اور پھر ایک نیا پاکستان ہو گا۔ اچھے خاصے کالے بال سفید ہو گئے لیکن نیا پاکستان ہے کہ بن کر ہی نہیں دیتا۔ ہر بار کرسیوں پر چہرے بدل جاتے ہیں لیکن جملے یہ ہی رہتے ہیں۔ کچھ نسلیں تو گزر گئیں یہ جملہ سُن سُن کر، اب دیکھنا یہ ہے آیندہ کتنی نسلوں کو کانوں کے ذریعہ یہ نئے پاکستان، آزادی اور انقلاب کو رگوں میں اتارنا ہو گا۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ جب تک یہ آزادی جسم میں اترے گی۔ جسم کے تمام ملبوس ختم ہو چکے ہونگے۔ اور پھر وہی پرانا نعرہ سننا پڑے گا ''مانگ رہا ہے ہر انسان۔ روٹی، کپڑا اور مکان'' ۔

سچ پوچھیں تو ہم نے اس ملک میں ایک ہی تبدیلی دیکھی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہمارے دادا ہمیں خوشحال پاکستان کا خواب دیکھاتے تھے اور اب ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ بس زیادہ نہیں کچھ دنوں میں اورنگی کی پہاڑیوں کے پیچھے چھپا ہوا انقلاب باہر آئیگا ۔ اور ہم سب خوشحال ہوجاینگے ۔ دادا تو ہمیشہ سچ کہتے تھے کہ راوی کے دوسری طرف آزادی ہے جو کچھ عرصے میں اس طرف آ جائے گی ۔ لاہور میں ہمارے رہتے رہتے تو خوشحالی نہر کی دوسری طرف نہیں آئی دریا کے اس طرف پتہ نہیں کب آئیگی؟۔

ہم سُن سُن کر بڑے ہو گئے لیکن یہ نعرے لگانے والے بڑے نہیں ہوئے۔ آج تک اُسی دنیا میں بستے ہیں جہاں صرف خوابوں کی ملکہ ہوتی ہے۔ بڑی محنت سے بیچارے نعروں کے ذریعہ زمین ہموار کرتے ہیں، پانی کی جگہ اپنا لہو مٹی کو دیتے ہیں اور اپنے جسموں کی قربانی دے کر جب فصلیں پک جاتی ہے تو منوں مٹی تلے دبا دیے جاتے ہیں۔

اُن منوں مٹی کے نیچے سے ایک نئی نسل نکلتی ہے وہ پھر زمین کو ہموار کرتی ہے اور اپنی پچھلی نسل کی طرح منوں مٹی کے نیچے چلی جاتی ہے۔ مگر یہ فصلوں پر کیڑوں کی طرح ٹوٹ کر حملہ کرنے اور اُس پر قبضہ کرنے والی مخلوق ہمیشہ ایسی ہی رہتی ہے۔ سُن سُن کر اپنی جوانی کو بڑھاپے کے حوالے کرنے والے آخر کب تک سنتے رہینگے کہ اصل حاکم کبھی بھی''صور'' پھونک سکتے ہیں۔ جیسے خرچے کا دور سے آتاــ ''صور'' تنخواہ نگل جاتا ہے ایسے ہی اصل حاکم کا ''صور'' بغیر قیامت ڈھائے ہی حکومت نگل جاتا ہے۔

ہم لوگ بھی نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ سُن سُن کر کبھی بے زار نہیں ہوتے اگر کبھی تھوڑا موڈ خراب ہو جائے تو بس چیکھنے والا مائیک بدل دیتے ہیں لیکن جملے وہ ہی رہتے ہیں۔ کرسی پر بیٹھا ہر شخص دعوی کرتا ہے کہ اُن سے زیادہ مخلص قیادت اس قوم کو قیامت تک نہیں مل سکتی۔ جتنی محنت سے یہ لوگ کام کرنے کا دعوی کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خلائی مخلوق کو بھی کچھ سالوں میں جنت کی سیر کرا دینگے۔ مگر آج تک ایک جملہ نہیں بدلا کہ ہم نے تو جنت کے تمام راستے ہموار کر لیے لیکن یہ اپوزیشن کی ہٹ دھرمی ہے جو جنت میں جانا نہیں چاہتی۔

اس ملک کی ترقی کو اگر کسی نے روکا ہے تو وہ بس اپوزیشن کی ہٹ دھرمی ہے جو انتشار پھیلا رہی ہے اور انارکی پھیلا کر ہمارے انار خود کھانا چاہتی ہے۔ آخر ایسی کون سی بانسری یہ اپوزیشن والے بجاتے ہیں کہ ہر حکومت کی سیٹی بج جاتی ہے۔ یہ جملہ سُن سُن کرہم نے اپنی زبان چبا ڈالی اور ہمارے جوانی کے دانت ڈاکٹر نے اپنے قبضے میں لے لیے لیکن پتہ نہیں یہ اپوزیشن 1947 سے کون سی روٹی کھاتی ہے جو ان میں انتشار پھیلانے کی صلاحیت ختم نہیں ہو رہی اور حکمران کون سی چکی کا آٹا کچا کھانا شروع کرے جس سے وہ ہمیں نعروں کی بجائے پکی ہو ئی روٹی دینا شروع کریں۔

اور آپ تو جانتے ہیں کہ جو روٹی دیتا ہے گُن اُسی کے گائے جاتے ہیں۔ اور یہ گُن سُن سُن کر ہم اتنے شرمندہ ہو گئے ہیں کہ اب دنیا بھر میں گھومنے سے پہلے اپنا رومال منہ پر ضرور رکھ لیتے ہیں۔ دیدار ہو ا ہو یا نہ ہو لیکن ہم تو اپنی بولتی ہوئی دیواروں سے ہمیشہ سنتے آئے کہ ڈالر کی جھنکار نے حکمرانوں کو غلام بنا دیا۔ ہائے اللہ ۔۔ یہ جھنکاریں۔ سُن کر سب کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ یہ ڈالر کی کہانیاں سُن سُن کر ہم اتنے ماہر ہو گئے ہیں کہ اب پتا بھی ہل جائے تو ہمیں اُس کے پیچھے سے وہ جھنکار سنائی دینے لگ جاتی ہے۔ اور ہم مدہوش ہو کر جھومنے لگ جاتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست کہتے ہے کہ رقاصہ ناچتی ہی اُس وقت ہے جب ڈالر کی جھنکار سنائی دے۔ سیانے آج کل بار بار کہہ رہے ہیں کہ حالیہ تاریخ میں ہونے والا آخری لانگ مارچ نواز شریف نے کیا تھا۔ اور یہ ڈالر والوں کی جھنکار تھی جس کی وجہ سے اوپر سے نیچے تک سب کے فون بجنا شروع ہو گئے تھے اب دیکھنا یہ ہے اس بار کے لانگ مارچ میں ڈالر کی جھنکار آتی ہے یا ڈالر والوں کی پکار آتی ہے جو سُن سُن کر ہم اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کوئی بھی کچھ بھی سنُا لے ہم کسی کی نہیں چلنے دیتے۔ وہ بھی لاہور سے اسلام آباد تک چلے تھے وہ بھی کنٹینر اُٹھا اُٹھا کر پھینک رہے تھے اپنے ساتھ کرین لائے تھے۔

اور ایک بار پھر ہم وہی سُن رہے ہیں اسی طرح کا لانگ مارچ ، وہ ہی عوام کا مستقبل اور وہی نعرے۔ آپ تکا لگائیں ڈالر کی جھنکار سنائی دے گی یا نہیں ۔۔؟ ارے بھائی صاحب، جو میں سمجھ چکا ہوں وہ میں آپ کو سمجھانا نہیں چاہتا۔ کیونکہ اگر آپ سمجھ گئے تو میری دکان کیسے چلے گی۔؟ ہر سال چودہ اگست کو اپنے بچوں کے لیے میری دکان سے جھنڈے خریدتے ہو اگر میں نے جھنڈا بنانا سکھا دیا تو میری لگ جائے گی۔

کہاں جھنڈے بنانے اور ڈنڈے لگانے میں لگ گئے۔ آرام سے چھٹی منائو۔ اور میری سُن سُن کر پک جائو گے۔ کانوں میں ہیڈ فون لگائو اور کوئی ریکارڈڈ گانا سننا شروع کر دیں۔ اگر آپ کا موڈ ہو رہا ہو کہ آگے کیا ہو گا تو کوئی بھی پرانی پاکستان کی تاریخ کی کتاب اٹھا کر کوئی بھی ورق کھول لو سمجھ جائو گے کہ کیا ہونے والا ہے۔ پچھلے سال کا ڈنڈا تو میرے پاس ہے آپ کہانیاں سنیں میں چلا جھنڈا لینے ڈنڈے میں لگانے کے لیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔