پاکستان ایک نظر میں یرغمال جمہوریت

حکومت ملک کی بہتری کا سوچے اور پورے ملک کو ساتھ لے کر حقیقی جمہوری رویوں اور نظام کو فروغ دیں۔

خدارا جمہوریت کے اس کمزور پودے کو مضبوط تو ہونے دیں، اس نظام کو اپنے چکر تو پورے کرنے دیں۔ اگر دو،تین چکروں کے بعد بھی یہ نا ٹھیک ہوا تو بیشک اس چکر کو الٹا دیں۔ فوٹو: فائل

عجیب مخمصہ ہے اس ملک میں۔ بیشتر لوگ ایک بات پر متفق بھی ہیں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل ایک جمہوریت میں ہے مگر پھر بھی یہی بیشتر لوگ ایک دوسرے کو برداشت بھی نہیں کرنا چاہتے۔ہر کسی کو ایک گمان ہے کہ شاید وہی اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے اور ہر کسی کو یہی دعویٰ ہے کہ تمام اٹھارہ کروڑ عوام اسکے ساتھ ہیں۔مگر یہ اٹھارہ کروڑ پر مبنی عوام آخر کس کس کے ساتھ ہے؟؟

پھر جب بوٹ اور بندوق اپنے تخم بھر جانے کےبعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ چلیں پوچھ لیتے ہیں اس اٹھارہ کروڑ عوام سے کہ یہ کس کے ساتھ ہے تو ہر طرف ہاہاکاری مچ جاتی ہے اور ہر کوئی دعویٰ کرنے لگتا ہے کہ اسکا اٹھا رہ کروڑ کا مینڈیٹ چوری ہو گیا ہے ۔۔۔ اور اسی شور میں بھرے ہوئے تخم ڈکا ر لے کر دوبارہ آن وارد ہوتے ہیں۔جانے کب تک یہ ماجرا اور معاملہ چلے گا۔ اتنا تو یقینی ہے کہ جب تک یہ جمہوری لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روش اور اپنی شکست تسلیم کرنے کا رویہ نہیں اپناتے اسوقت تک ہم پر بوٹ اور بندوق ہی مسلط رہے گیں۔ اور ہم ترقی کی تلاش میں بھٹکتے رہیں گیں۔آج کل بھی ملک میں یہی مارا ماری چل رہی ہے اور ہر کوئی یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ اسکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے مگر یہ تسلیم کوئی نہیں کرتا کہ جسکا جہاں بس چلا ہے اس نے وہاں زیادتی کی ہے۔

خدارا اس کمزور پودے کو مضبوط تو ہونے دیں ، اس نظام کو اپنے چکر تو پورے کرنے دیں۔ اگر دو،تین چکروں کے بعد بھی یہ نا ٹھیک ہوا تو بیشک اس چکر کو الٹا دیں۔ ایک اور روش بھی بڑی پریشان کن ہے کہ ملک کے چند مخصوص شہر جو بمشکل پوری آبادی کا پچیس فیصد بنتے ہیں، اب پورے ملک کو اپنی گرفت میں لینا چاہ رہے ہیں۔ آزادی اور لانگ مارچ کو ہی لے لیں، لاہور سے شروع ہو کر شیخوپورہ، گجرانوالہ ، گجرات، راولپنڈی اور اسلام آباد ۔۔تک آکر ختم ۔۔کیا یہ مخصوص شہر ہی اب پورے ملک کا فیصلہ کریں گیں؟ سندھ، بلوچستان اور خیبر جیسے کوئی تماشائی ہوں اور دیکھ رہے ہوں کہ کون اب تخت پر قبضہ کرکے انکو چلاجائے گا؟ جیسے ان شہروں نے پورے ملک کو تقدیر کو یرغمال بنالیا ہو۔۔


پشاور میں کوئی انتشار نہیں، کراچی اور کوئٹہ بھی خاموش ہیں تو پھر یہ سارا شور چھ، سات شہروں میں ہی کیوں ہے، تو کیا آپ یہ روش شروع کرنا چاہتے ہیں کہ ان مخصوص شہروں میں سے سات ، آٹھ لاکھ لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا کریں اور تخت پر اپنا قبضہ کرلیں؟ سبھی مانتے ہیں کہ انتخابات میں کسی نا کسی پیمانے پردھاندلی ہوئی ہے مگر یہ انتخابات گزشتہ کی نسبت بہتر تھے۔ اگر اس نظام کو اپنی مدت پوری کر کے دوبارہ موقع دیا گیا تو یہ مزید شفاف بن جائے گا۔ لیکن اگر آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آپ ہی ٹھیک ہیں اور باقی سب غلط ہیں تو شاید یہ نظام کبھی ٹھیک نہیں ہوگا اور بوٹ اور بندوق کی چاندی لگی رہے گی۔

دوسری طرف حکومت کو بھی چاہیے کہ اس جمہوری نظام کی درستگی کے لیے جلد اقدامات کرے، چار حلقوں میں ووٹوں کی چیکنگ اگر ہو جاتی تو یہ نوبت نا آتی۔حکومت بھی اپنا ہٹ دھرمی کا رویہ اور بھاری مینڈیٹ کا طوق اتار کر پورے ملک کی بہتری کا سوچے۔ملک کی ترقی اور وفاق کی بقا اسی میں مضمر ہے کہ ہم پورے ملک کو ساتھ لے کر چلیں اور حقیقی جمہوری رویوں اور نظام کو فروغ دیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story