آئین قانون جمہوریت کی پاسداری اور 14 اگست
برطانوی راج میں بانیان پاکستان نے مقاصد کے حصول کے لیے احتجاجی سیاست کے بجائے آئینی وقانونی جنگ لڑی
20ویں صدی کا پہلا نصف سیاسی بیداریوں سے عبارت تھا۔ اس کا نقطہ آغاز جلیانوالہ باغ کا اندوہناک واقعہ تھا کہ جب امرتسر میں 13 اپریل 1919 کو بیساکھی کا میلہ منانے والے نہتے پنجابیوں پر سرعام گولیاں چلائی گئی تھیں۔
سیاسی بیداریوں کی اس لہر کا نقطہ عروج اگست 1947 تھا جب برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کردہ''قانون آزادی ہند 1947'' کے تحت دو نئی ریاستیں پاکستان اور بھارت کے نام سے بناتے ہوئے سلطنت برطانیہ کو اس خطہ سے واپس جانا پڑا۔ البتہ جاتے جاتے فسادات کی شکل میں ایسا تحفہ دے گئے جس نے انگریزوں کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں، انصاف اور قانون کے دعوٰؤں کو بے نقاب کر دیا۔
1919 سے 1947کے درمیان گذرے 28 سالوں میں جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے بعد سیاسی جدوجہد کلب سیاست کے محدود دائروں سے نکل کر عوامی قالب میں ڈھلتی چلی گئی۔ جلیانوالہ باغ سانحہ کی کوکھ سے تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک عدم تعاون(ستیہ گرہ) نے جنم لیا مگر ان تحریکوں کی ناکامی نے عوامی سیاست کے داعیوں کو نئے راستے تلاش کرنے پر بھی گامزن کردیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب انگریز حکمران مانٹیگوچیمسفرڈ اصلاحات اور قانون ہند 1919 کے تحت محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا ڈول ڈال چکے تھے۔
20ویں صدی کے تیسرے عشرے میں تواتر سے ہونے والے ان صوبائی انتخابات نے سیاست کو نیا آہنگ دیتے ہوئے ایک طرف اسے تکریم دلائی تو دوسری طرف نئی ''جمہوری گنجائشیں'' بھی پیدا کیں۔ تاہم ایک گروہ ایسا تھا جو ان انتخابات اور محدود جمہوریت کو محض اک ڈھکوسلہ سمجھتا تھا اور ان میں حصہ لینے والوں کو ''انگریزوں کا ٹوڈی'' کہتا تھا۔ انتخابی عمل کا حصہ بننے یا نا بننے کے مسئلہ پر نہ صرف آل انڈیا خلافت کمیٹی میں دڑاڑیں پڑیں بلکہ خود آل انڈیا کانگریس بھی 1922 میں دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔
خلافت کمیٹی پنجاب سمیت چند اور صوبائی خلافت کمیٹیوں نے مرکزی خلافت کمیٹی کے برخلاف صوبائی انتخابات میں برابر حصہ لیا۔ دوسری طرف موتی لال نہرو، سی آر داس وغیرہ پر مشتمل گروہ نے کانگریس سے الگ ہوکر''سواراج پارٹی'' بنا کر مہاتما گاندھی کی سوچ کے برخلاف صوبائی انتخابات میں حصہ لیا۔ خلافت کمیٹی پنجاب کے چوہدری افضل حق، مولانا مظہرعلی اظہرسمیت بہت سے لوگ بشمول میاں فضل حسین، چھوٹو رام وغیرہ ان انتخابات میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے۔
خلافت کمیٹی لکھنو کے چوہدری خلیق الزمان ہوں یا خلافت کمیٹی بنگال کے اے کے فضل الحق اس فہرست میں بہت سے رہنما تھے جنھوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ یہ افراد بھی پہلے احتجاجی سیاست کے ذریعے نتائج حاصل کرنے پریقین رکھتے تھے مگر انھوں نے ناکام تحریکوں سے سبق سیکھ کر صوبائی انتخابات میں حصہ لیا اور جمہوری و سیاسی عمل کا حصہ بنے۔
قائداعظم امپریل مجلس قانون ساز میں رہے تو خود علامہ اقبال نے بھی صوبائی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کا شمار تو ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے خلافت تحریک، تحریک ہجرت اور عدم تعاون جیسی تحریکوں کے بارے میں بروقت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ علامہ اقبال،قائد اعظم، میاں فضل حسین، کے ایم منشی سمیت بہت سے رہنما مذکورہ تحریکوں کے خلاف تو تھے مگر وہ اسے انگریز کے جابرانہ اقدامات خصوصاً ''رولٹ ایکٹ'' کا ردعمل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ بائیکاٹ اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست سے یہاں کے عوام کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
یاد رہے اس دور میں نہ تو بالغ رائے دہی کا بندوبست تھا، نہ صوبائی وزیراعلیٰ کا عہدہ ہوتا تھا اور نہ ہی مرکزی اسمبلی کے پاس اختیارات تھے۔ البتہ قانون ہند 1919 کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کو کچھ اختیارات ضرور مل گئے تھے جن میں تعلیم، لوکل سیلف گورنمنٹ وغیرہ نمایاں تھے۔
صوبائی گورنر یا مرکزی وائسرئے اسمبلیوں کے فیصلوں کو رد کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود جن شخصیات نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لیا انہیں اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ آزادی کا حصول جمہوری و سیاسی عمل کو تگڑا کرنے ہی سے ممکن ہوگا ناکہ بائیکاٹ، ہڑتالوں اور گھیراؤ جلاؤ سے۔ اگر آپ 1920 سے 1935 تک کے گزرے 15 سالوں کا جائزہ لیں تو یہ وہ وقت تھا جس میں پرانی سیاسی جماعتیں یعنی آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ نہ صرف عوامی قالب میں ڈھلیں بلکہ ان جماعتوں میں صوبائی انتخابات میں حصہ لینے والوں کا اثر و رسوخ بھی بڑھتا گیا۔
دوسری طرف انہی 15 سالوں میں نئی سیاسی جماعتیں بھی بنیں جن میں جمعیت علماء ہند، یونیسٹ پارٹی آف پنجاب، سندھ ایگریکلچر پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کرشک پرجا پارٹی، مجلس احرارالاسلام، اتحادافغانہ جیسی جتھے بندیاں نمایاں تھیں۔ جن جتھے بندیوں یا شخصیات نے اس محدود انتخابی و جمہوری عمل میں شمولیت اختیار کی انھوں نے ہی مقبول عام سیاست کی باگ ڈور سنبھالی اور جنھوں نے بائیکاٹ و گھیراؤجلاؤکو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ان کی سیاسی اہمیت ختم ہو گئی۔
1937 کے انتخابات میں ان تمام گروہوں کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بالآخر بائیکاٹ اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کو حصول آزادی کا''واحد راستہ'' قرار دینے والوں کا بوریابستر گول ہوگیا اور سب نے محدود انتخابی و جمہوری راستہ کو اپنانے میں عافیت جانی۔
انتخابی و جمہوری راستہ اقتدار کی غلام گردشوں میں براہ راست پیر ڈالتا ہے۔ یہاں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ پاور پالیٹکس کے رموز و اسرار سے آگاہ ہوں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ایسے طاقتور کھلاڑیوں کی بھرمار ہوتی ہے جو مذہبی یا سیکولر اصولوں اور نظریوں کے بجائے کاروباری مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ ان طاقتور کھلاڑیوں کو رام کرنا جوئے شیر لاناہے کہ سیاسی مدبروں کو کاروباری مفادات اور عوامی حما یت کے درمیان رستے بنانے ہوتے ہیں۔
1937 سے 1947 کے عشرے کی سیاست بھی یہی تھی اور وقت نے ثابت کیا کہ کانگریس اور مسلم لیگ نے اپنے کارڈ بڑے دھیان سے کھیلے جبکہ باقی تمام گروہوں کی سوچ غلط ثابت ہوئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم کا رستہ زیادہ کٹھن تھا کہ انہیں 1937 کے انتخابات میں محض مسلم اقلیتی صوبوں کی 30 فی صد نشستوں پر کامیابی ملی تھی مگر مسلم اکثریتی صوبوں میں وہ بوجوہ ناکام رہے تھے۔
مسلم اقلیتی صوبوں میں محدود کامیابی کی وجہ بھی قائداعظم کی سیاسی بصیرت تھی جسے انتخابات سے قبل مسلم پارلیمانی بورڈوں کے عنوان کے تحت پروان چڑھایا گیا تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں تو یہ بورڈ بوجوہ پروان نہ چڑھ سکے البتہ مسلم اقلیتی صوبوں میں ان بورڈوں کی وجہ سے جمعیت علماہند، پرانے خلافتی گروہ اور دیگر چھوٹے موٹے گروپ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوگئے۔
1937 کے انتخابات کے بعد قائد اعظم نے اپنی سیاست کا قبلہ مسلم اکثریتی صوبوں کی طرف موڑ دیا۔ انتخابی و جمہوری سیاست کے ذریعہ وہ حصول آزادی کے جس راستہ پر بذریعہ مسلم سیاست گامزن تھے اس میں کامیابی کی ضمانت مسلم اکثریتی صوبوں سے ہی ملنی تھی۔ پنجاب میں سر سکندر حیات کی زیرِ قیادت یونینسٹ پارٹی آف پنجاب کی حکومت تھی، سندھ میں غلام حسین ہدایت اللہ، سرعبداللہ ہارون وغیرہ کی رلی ملی سرکار تھی، بنگال میں مسلم لیگ کی حمایت سے اکثریتی نشستیں جیتنے والی کرشک پرجا پارٹی کے رہنما اے کے فضل الحق اقتدار پر براجمان تھے جبکہ صوبہ سرحد میں صاحبزادہ سر عبدالقیوم خان حکومت بنا چکے تھے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ صوبہ سرحدکے دونوں مقتدر خان یعنی خان عبدالغفار خان و خان عبدالقیوم خان اس دور میں آل انڈیا کانگریس میں تھے۔ اس صورتحال میں قائداعظم ایک سال کی مدت میں ایک طرف اے کے فضل الحق اور سندھی شخصیات کو مسلم لیگ میں لے آئے تو دوسری طرف جناح سکندر معاہدہ کرکے پنجاب کی حما یت کا معرکہ بھی سر کر لیا۔ دوسری طرف آل انڈیا کانگریس تھی جس نے 1937 کے انتخابات میں آزاد اراکین کو ملا کر 11 میں سے 5 صوبوں میں حکومتیں بنائیں اور بعدازاں جوڑ توڑ سے بشمول صوبہ سرحد دو مزید صوبوں میں اپنے حما یت یافتہ اُمیدواروں کو صوبائی اقتدار دلوایا۔
ڈھائی سالہ اقتدار کے بعد 1939 میں جب کانگریسی وزارتوں نے ان ساتوں صوبوں سے استعفیٰ دیے تو وہ ان میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مثالی اقتدار کی یادگار چھوڑ نہ سکے تھے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی اور کانگریس کا خیال تھا کہ انگریز پر دباؤ ڈالتے ہوئے بلاشرکت غیرے انگریزوں سے ڈیل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ مسلم لیگ پنجاب، سندھ اور بنگال میں حما یت حاصل کر چکی ہے۔ جب بات نہ بنی تو کانگریس میں اضطراب بڑھا اور دوبارہ سے اس میں بائیکاٹیوں اور گھیراؤ جلاؤ والوں کا اثر زیادہ ہوگیا۔ اسی اثر کے تحت اس نے''ہندوستان چھوڑ دو'' نامی تحریک شروع کی۔
کانگریس کے ناقدین اب بجا طور پر اسے طعنے دیتے تھے کہ اس نے ڈھائی سالہ اقتدار میں اپنے صوبوں میں کیا تیر چلائے ہیں؟ حتیٰ کہ اپنی اپنی الگ وجوہات کے تحت مجلس احرارلاسلام اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے بھی''ہندوستان چھوڑ دو'' تحریک کا ساتھ نہ دیا۔
یوں ناکامی کانگریس کا مقدر ٹھہری۔ اس سیاسی خلاء کو قائد اعظم اور مسلم لیگ نے کمال مہارت سے پُر کیا اور مسلم لیگ کا سورج مسلم اکثریتی صوبوں میں 1941 کے بعد بلند ہوتا چلا گیا۔ مسلم لیگ نے انتخابی و جمہوری سیاست کو مقدم جانا اور اس کا ثمر 1946 کے انتخابات میں اسے مل گیا۔ 1946 کے انتخابات بھی محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے تھے مگر قائد اعظم نے اس میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
جنوری 1946 سے جون 1947 تک کے 16 مہینوں کی سیاست انتہائی اہمیت کی حامل رہی کہ ایک طرف عوامی حما یت کا زعم بھی تھا تو دوسری طرف طاقت کے کھلاڑیوں میں محاذ آرائی میں بھی اضافہ ہوگیا ۔ کانگریس اور اس کے ہمنواؤں نے قیام پاکستان کو تقسیم ہند قرار دے کر سیاسی بیانات اور میڈیا کے ذریعے مسلم لیگ کے خلاف محاذ کھول دیا۔ مگر اقبال کی تقلید میں قائداعظم ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ وہ ہندی مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔
ان حقوق کی آئینی و قانونی ضمانت جس بھی صورت ملے گی وہ وہی رستہ اپنائیں گے۔ جب وقت آیا تو قائد اعظم نے اپنے دعویٰ کو سچ کر دکھایا۔ 1946کے انتخابات سے قبل کانگریس ی رہنما راج گوپال اچاریہ نے ان حقوق کے حوالے سے عملی اقدامات پر مبنی درمیانی رستہ نکالا تھا جسے سی آر یا اچاریہ فارمولا کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ مگر مہاتما گاندھی نے قائد اعظم سے 1944 میں ہونے والی ملاقات میں اس مسئلہ کو آگے ہی نہ بڑھایا۔ اب 1946 کے انتخابات کے بعد آنے والے کابینہ مشن نے بھی درمیانہ راستہ دریافت کر ہی ڈالا۔
کمزور مرکز اور مضبوط صوبوں کی بنیاد پر بنایا گیا یہ فارمولا برٹش انڈیا کو متحد رکھنے کی آخری کوشش تھی جو 3 جون کے منصوبہ سے محض گیارہ ماہ پہلے کی بات ہے۔ صوبائی خود مختاری کی شکل میں مسلم لیگ کو نہ صرف سندھ، بنگال، پنجاب کی حکمرانی ملنی تھی بلکہ مسلم اقلیتی صوبوں کی 30 فی صد نشستوں کے ہمراہ وہ مرکزی مجلس قانون ساز میں بھی قابل قدر نمائندگی حاصل کرسکتی تھی اور نئے آئین کی تشکیل کے وقت اپنے تحفظات پر پہرہ بھی دے سکتی تھی۔ انگریز حکمرانوں نے اس فارمولا کو پیش کرکے اور قائد اعظم نے اسے قبول کرکے ثابت کردیا کہ وہ علیحدگی پسند نہیں بلکہ انڈین مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہر راستہ اپنا سکتے ہیں۔
مرکزیت پسند کانگریس نے اس فارمولا کو مسترد کرکے سیاسی حماقت کا ثبوت فراہم کیا کہ اب تقسیم ہند کا الزام بھی اس کے پلے پڑ گیا۔ خود کانگریس کے راہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے نہرو کے اس فیصلہ کوایسی ہمالائی غلطی قرار دیا جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نواز دانشور اور تاریخ دان کابینہ مشن کے بارے میں بحث سے کنی کتراتے ہیں۔
البتہ کانجی دوار کا داس، عائشہ جلال اور جسونت سنگھ نے لگی لپٹی کے بغیر اس واقعہ پر سردار پٹیل ،مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کی خوب خبر لی ہے۔ کابینہ مشن کو مسترد کرنے کے فیصلہ پر ہونے والی تنقید سے گھبرا کر کانگریس سیاسی دیوالیہ پن کاشکار ہوگئی اور اب انھوں نے سارا زور تقسیم بنگال و پنجاب پر ڈال دیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بات بھول گئے اس ڈیموگرافک تبدیلی کا سارا ملبہ انہیں نومولود ریاستوں پر گرے گا جس کا اقتدار اب مسلم لیگ اور کانگریس کا مقدر قرار دیا جا چکا ہے۔
جب انگریز تقسیم بنگال و پنجاب پر کانگریس کی طرح راضی ہوگئے تو قائد اعظم نے اس پر سخت ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔ کابینہ مشن کو مسترد کرنے کی مجرم تو کانگریس تن تنہا تھی مگر 1947 کے فسادات کی ذمہ داری انگریزوں اور کانگریس دونوں پرعائد ہوتی ہے۔ 3 جون 1947 کو تمام متعلقہ فریقین سے ایک معاہدے کی منظوری کے بعد وائسرائے لارڈماؤنٹ بیٹن نے اسے برطانوی پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا۔ افسوس کہ جمہوریت کی ماں کہلانے والی انگریز پارلیمنٹ نے بھی تقسیم پنجاب و بنگال کو ضروری گردانا اور فسادات و قتل عام کے ذمہ داروں میں شامل ہوگئی۔ یوں دنیا نے خصوصاً پنجاب کے فسادات و ہجرت کی شکل میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے سب سی بڑی ڈیموگرافک تبدیلی کا شرمناک مظاہرہ دیکھا۔
ان فسادات میں دوکروڑ ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو نقل مکانی، قتل عام اور دنگوں سے گزرنا پڑا کہ یہ سودا دونوں نومولود ریاستوں اور معاشروں کو بہت مہنگا پڑا۔ 11 اگست 1947 کی مشہور تقریر میں قائداعظم پنجاب و بنگال کی تقسیم، فسادات اور قتل و غارت پر خون کے آنسو رو رہے تھے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ان تمام تر نازک لمحات میں بھی آئینی، قانونی و جمہوری رستہ ہی کو اوّلیت دیتے ہوئے سیاسی جدو جہدکو آگے بڑھایا گیا مگر اس سبق کو بعدازاں بھلا دیا گیا۔ سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ بانیان پاکستان نے غیر ملکی تسلط کے دور میں بھی گھیراؤ جلاؤ اور بائیکاٹ کی سیاست کو نہ اپنایا اور محدود پیمانے پر دستیاب جمہوری و انتخابی گنجائش کو استعمال کرتے ہوئے عوامی حقوق کے لیے سرگرم عمل رہے۔
افسوس جو ملک اس قدر بالغ نظر قیادت کی کامیاب جدوجہد سے بنا وہیں پر چار بار مارشل لاء لگا کر عملاً بانیانِ ریاست کے افکار کامذاق اڑایا گیا۔ آئین کو بار بار پامال کیا گیا ۔ اس کے باوجود ڈکٹیٹر عوامی حما یت سے محروم رہے اور ہر ڈکٹیٹر کے جانے یا کمزور ہونے کے بعد جب بھی انتخابات ہوئے تو پاکستانیوں نے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کرنے والوں ہی کو ووٹ دیے۔ عام پاکستانی بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون آئینی، قانونی و جمہوری حقوق کی پاسداری کے لیے متحرک رہا اور کون طاقت کی غلام گردشوں کا اسیر۔ آج تو پاکستان میں برٹش انڈیا سے بدرجہا بہتر آئینی، قانونی و جمہوری نظام موجود ہے۔
محدود حق انتخاب کی بجائے ہر 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ 1973 کا آئین موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں، میڈیا، عدالتیں، انگریز حاکمیت سے نکل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہورہے ہیں۔ عدالتوں نے پرانا وطیرہ ترک کر دیا ہے اور نئے راستے پر گامزن ہیں۔ مگر دوسری طرف ایسے گروہ بھی ہیں جو 1920 کی دہائی کی طرح ملک پاکستان میں گھیراؤ جلاؤ اور بائیکاٹ کی سیاست کو ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں جمہوری بندوبست، میڈیا اور عدالتوں سے صرف اس وقت عداوت پیدا ہوتی ہے جب انہیں اقتدارنہیں ملتا۔
سیاسی بیداریوں کی اس لہر کا نقطہ عروج اگست 1947 تھا جب برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کردہ''قانون آزادی ہند 1947'' کے تحت دو نئی ریاستیں پاکستان اور بھارت کے نام سے بناتے ہوئے سلطنت برطانیہ کو اس خطہ سے واپس جانا پڑا۔ البتہ جاتے جاتے فسادات کی شکل میں ایسا تحفہ دے گئے جس نے انگریزوں کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں، انصاف اور قانون کے دعوٰؤں کو بے نقاب کر دیا۔
1919 سے 1947کے درمیان گذرے 28 سالوں میں جلیانوالہ باغ کے واقعہ کے بعد سیاسی جدوجہد کلب سیاست کے محدود دائروں سے نکل کر عوامی قالب میں ڈھلتی چلی گئی۔ جلیانوالہ باغ سانحہ کی کوکھ سے تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک عدم تعاون(ستیہ گرہ) نے جنم لیا مگر ان تحریکوں کی ناکامی نے عوامی سیاست کے داعیوں کو نئے راستے تلاش کرنے پر بھی گامزن کردیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب انگریز حکمران مانٹیگوچیمسفرڈ اصلاحات اور قانون ہند 1919 کے تحت محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا ڈول ڈال چکے تھے۔
20ویں صدی کے تیسرے عشرے میں تواتر سے ہونے والے ان صوبائی انتخابات نے سیاست کو نیا آہنگ دیتے ہوئے ایک طرف اسے تکریم دلائی تو دوسری طرف نئی ''جمہوری گنجائشیں'' بھی پیدا کیں۔ تاہم ایک گروہ ایسا تھا جو ان انتخابات اور محدود جمہوریت کو محض اک ڈھکوسلہ سمجھتا تھا اور ان میں حصہ لینے والوں کو ''انگریزوں کا ٹوڈی'' کہتا تھا۔ انتخابی عمل کا حصہ بننے یا نا بننے کے مسئلہ پر نہ صرف آل انڈیا خلافت کمیٹی میں دڑاڑیں پڑیں بلکہ خود آل انڈیا کانگریس بھی 1922 میں دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔
خلافت کمیٹی پنجاب سمیت چند اور صوبائی خلافت کمیٹیوں نے مرکزی خلافت کمیٹی کے برخلاف صوبائی انتخابات میں برابر حصہ لیا۔ دوسری طرف موتی لال نہرو، سی آر داس وغیرہ پر مشتمل گروہ نے کانگریس سے الگ ہوکر''سواراج پارٹی'' بنا کر مہاتما گاندھی کی سوچ کے برخلاف صوبائی انتخابات میں حصہ لیا۔ خلافت کمیٹی پنجاب کے چوہدری افضل حق، مولانا مظہرعلی اظہرسمیت بہت سے لوگ بشمول میاں فضل حسین، چھوٹو رام وغیرہ ان انتخابات میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے۔
خلافت کمیٹی لکھنو کے چوہدری خلیق الزمان ہوں یا خلافت کمیٹی بنگال کے اے کے فضل الحق اس فہرست میں بہت سے رہنما تھے جنھوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ یہ افراد بھی پہلے احتجاجی سیاست کے ذریعے نتائج حاصل کرنے پریقین رکھتے تھے مگر انھوں نے ناکام تحریکوں سے سبق سیکھ کر صوبائی انتخابات میں حصہ لیا اور جمہوری و سیاسی عمل کا حصہ بنے۔
قائداعظم امپریل مجلس قانون ساز میں رہے تو خود علامہ اقبال نے بھی صوبائی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کا شمار تو ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے خلافت تحریک، تحریک ہجرت اور عدم تعاون جیسی تحریکوں کے بارے میں بروقت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ علامہ اقبال،قائد اعظم، میاں فضل حسین، کے ایم منشی سمیت بہت سے رہنما مذکورہ تحریکوں کے خلاف تو تھے مگر وہ اسے انگریز کے جابرانہ اقدامات خصوصاً ''رولٹ ایکٹ'' کا ردعمل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ بائیکاٹ اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست سے یہاں کے عوام کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
یاد رہے اس دور میں نہ تو بالغ رائے دہی کا بندوبست تھا، نہ صوبائی وزیراعلیٰ کا عہدہ ہوتا تھا اور نہ ہی مرکزی اسمبلی کے پاس اختیارات تھے۔ البتہ قانون ہند 1919 کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کو کچھ اختیارات ضرور مل گئے تھے جن میں تعلیم، لوکل سیلف گورنمنٹ وغیرہ نمایاں تھے۔
صوبائی گورنر یا مرکزی وائسرئے اسمبلیوں کے فیصلوں کو رد کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود جن شخصیات نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لیا انہیں اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ آزادی کا حصول جمہوری و سیاسی عمل کو تگڑا کرنے ہی سے ممکن ہوگا ناکہ بائیکاٹ، ہڑتالوں اور گھیراؤ جلاؤ سے۔ اگر آپ 1920 سے 1935 تک کے گزرے 15 سالوں کا جائزہ لیں تو یہ وہ وقت تھا جس میں پرانی سیاسی جماعتیں یعنی آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ نہ صرف عوامی قالب میں ڈھلیں بلکہ ان جماعتوں میں صوبائی انتخابات میں حصہ لینے والوں کا اثر و رسوخ بھی بڑھتا گیا۔
دوسری طرف انہی 15 سالوں میں نئی سیاسی جماعتیں بھی بنیں جن میں جمعیت علماء ہند، یونیسٹ پارٹی آف پنجاب، سندھ ایگریکلچر پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کرشک پرجا پارٹی، مجلس احرارالاسلام، اتحادافغانہ جیسی جتھے بندیاں نمایاں تھیں۔ جن جتھے بندیوں یا شخصیات نے اس محدود انتخابی و جمہوری عمل میں شمولیت اختیار کی انھوں نے ہی مقبول عام سیاست کی باگ ڈور سنبھالی اور جنھوں نے بائیکاٹ و گھیراؤجلاؤکو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ان کی سیاسی اہمیت ختم ہو گئی۔
1937 کے انتخابات میں ان تمام گروہوں کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بالآخر بائیکاٹ اور گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کو حصول آزادی کا''واحد راستہ'' قرار دینے والوں کا بوریابستر گول ہوگیا اور سب نے محدود انتخابی و جمہوری راستہ کو اپنانے میں عافیت جانی۔
انتخابی و جمہوری راستہ اقتدار کی غلام گردشوں میں براہ راست پیر ڈالتا ہے۔ یہاں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ پاور پالیٹکس کے رموز و اسرار سے آگاہ ہوں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ایسے طاقتور کھلاڑیوں کی بھرمار ہوتی ہے جو مذہبی یا سیکولر اصولوں اور نظریوں کے بجائے کاروباری مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ ان طاقتور کھلاڑیوں کو رام کرنا جوئے شیر لاناہے کہ سیاسی مدبروں کو کاروباری مفادات اور عوامی حما یت کے درمیان رستے بنانے ہوتے ہیں۔
1937 سے 1947 کے عشرے کی سیاست بھی یہی تھی اور وقت نے ثابت کیا کہ کانگریس اور مسلم لیگ نے اپنے کارڈ بڑے دھیان سے کھیلے جبکہ باقی تمام گروہوں کی سوچ غلط ثابت ہوئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم کا رستہ زیادہ کٹھن تھا کہ انہیں 1937 کے انتخابات میں محض مسلم اقلیتی صوبوں کی 30 فی صد نشستوں پر کامیابی ملی تھی مگر مسلم اکثریتی صوبوں میں وہ بوجوہ ناکام رہے تھے۔
مسلم اقلیتی صوبوں میں محدود کامیابی کی وجہ بھی قائداعظم کی سیاسی بصیرت تھی جسے انتخابات سے قبل مسلم پارلیمانی بورڈوں کے عنوان کے تحت پروان چڑھایا گیا تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں میں تو یہ بورڈ بوجوہ پروان نہ چڑھ سکے البتہ مسلم اقلیتی صوبوں میں ان بورڈوں کی وجہ سے جمعیت علماہند، پرانے خلافتی گروہ اور دیگر چھوٹے موٹے گروپ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوگئے۔
1937 کے انتخابات کے بعد قائد اعظم نے اپنی سیاست کا قبلہ مسلم اکثریتی صوبوں کی طرف موڑ دیا۔ انتخابی و جمہوری سیاست کے ذریعہ وہ حصول آزادی کے جس راستہ پر بذریعہ مسلم سیاست گامزن تھے اس میں کامیابی کی ضمانت مسلم اکثریتی صوبوں سے ہی ملنی تھی۔ پنجاب میں سر سکندر حیات کی زیرِ قیادت یونینسٹ پارٹی آف پنجاب کی حکومت تھی، سندھ میں غلام حسین ہدایت اللہ، سرعبداللہ ہارون وغیرہ کی رلی ملی سرکار تھی، بنگال میں مسلم لیگ کی حمایت سے اکثریتی نشستیں جیتنے والی کرشک پرجا پارٹی کے رہنما اے کے فضل الحق اقتدار پر براجمان تھے جبکہ صوبہ سرحد میں صاحبزادہ سر عبدالقیوم خان حکومت بنا چکے تھے۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ صوبہ سرحدکے دونوں مقتدر خان یعنی خان عبدالغفار خان و خان عبدالقیوم خان اس دور میں آل انڈیا کانگریس میں تھے۔ اس صورتحال میں قائداعظم ایک سال کی مدت میں ایک طرف اے کے فضل الحق اور سندھی شخصیات کو مسلم لیگ میں لے آئے تو دوسری طرف جناح سکندر معاہدہ کرکے پنجاب کی حما یت کا معرکہ بھی سر کر لیا۔ دوسری طرف آل انڈیا کانگریس تھی جس نے 1937 کے انتخابات میں آزاد اراکین کو ملا کر 11 میں سے 5 صوبوں میں حکومتیں بنائیں اور بعدازاں جوڑ توڑ سے بشمول صوبہ سرحد دو مزید صوبوں میں اپنے حما یت یافتہ اُمیدواروں کو صوبائی اقتدار دلوایا۔
ڈھائی سالہ اقتدار کے بعد 1939 میں جب کانگریسی وزارتوں نے ان ساتوں صوبوں سے استعفیٰ دیے تو وہ ان میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مثالی اقتدار کی یادگار چھوڑ نہ سکے تھے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی اور کانگریس کا خیال تھا کہ انگریز پر دباؤ ڈالتے ہوئے بلاشرکت غیرے انگریزوں سے ڈیل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ مسلم لیگ پنجاب، سندھ اور بنگال میں حما یت حاصل کر چکی ہے۔ جب بات نہ بنی تو کانگریس میں اضطراب بڑھا اور دوبارہ سے اس میں بائیکاٹیوں اور گھیراؤ جلاؤ والوں کا اثر زیادہ ہوگیا۔ اسی اثر کے تحت اس نے''ہندوستان چھوڑ دو'' نامی تحریک شروع کی۔
کانگریس کے ناقدین اب بجا طور پر اسے طعنے دیتے تھے کہ اس نے ڈھائی سالہ اقتدار میں اپنے صوبوں میں کیا تیر چلائے ہیں؟ حتیٰ کہ اپنی اپنی الگ وجوہات کے تحت مجلس احرارلاسلام اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے بھی''ہندوستان چھوڑ دو'' تحریک کا ساتھ نہ دیا۔
یوں ناکامی کانگریس کا مقدر ٹھہری۔ اس سیاسی خلاء کو قائد اعظم اور مسلم لیگ نے کمال مہارت سے پُر کیا اور مسلم لیگ کا سورج مسلم اکثریتی صوبوں میں 1941 کے بعد بلند ہوتا چلا گیا۔ مسلم لیگ نے انتخابی و جمہوری سیاست کو مقدم جانا اور اس کا ثمر 1946 کے انتخابات میں اسے مل گیا۔ 1946 کے انتخابات بھی محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے تھے مگر قائد اعظم نے اس میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
جنوری 1946 سے جون 1947 تک کے 16 مہینوں کی سیاست انتہائی اہمیت کی حامل رہی کہ ایک طرف عوامی حما یت کا زعم بھی تھا تو دوسری طرف طاقت کے کھلاڑیوں میں محاذ آرائی میں بھی اضافہ ہوگیا ۔ کانگریس اور اس کے ہمنواؤں نے قیام پاکستان کو تقسیم ہند قرار دے کر سیاسی بیانات اور میڈیا کے ذریعے مسلم لیگ کے خلاف محاذ کھول دیا۔ مگر اقبال کی تقلید میں قائداعظم ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ وہ ہندی مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔
ان حقوق کی آئینی و قانونی ضمانت جس بھی صورت ملے گی وہ وہی رستہ اپنائیں گے۔ جب وقت آیا تو قائد اعظم نے اپنے دعویٰ کو سچ کر دکھایا۔ 1946کے انتخابات سے قبل کانگریس ی رہنما راج گوپال اچاریہ نے ان حقوق کے حوالے سے عملی اقدامات پر مبنی درمیانی رستہ نکالا تھا جسے سی آر یا اچاریہ فارمولا کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ مگر مہاتما گاندھی نے قائد اعظم سے 1944 میں ہونے والی ملاقات میں اس مسئلہ کو آگے ہی نہ بڑھایا۔ اب 1946 کے انتخابات کے بعد آنے والے کابینہ مشن نے بھی درمیانہ راستہ دریافت کر ہی ڈالا۔
کمزور مرکز اور مضبوط صوبوں کی بنیاد پر بنایا گیا یہ فارمولا برٹش انڈیا کو متحد رکھنے کی آخری کوشش تھی جو 3 جون کے منصوبہ سے محض گیارہ ماہ پہلے کی بات ہے۔ صوبائی خود مختاری کی شکل میں مسلم لیگ کو نہ صرف سندھ، بنگال، پنجاب کی حکمرانی ملنی تھی بلکہ مسلم اقلیتی صوبوں کی 30 فی صد نشستوں کے ہمراہ وہ مرکزی مجلس قانون ساز میں بھی قابل قدر نمائندگی حاصل کرسکتی تھی اور نئے آئین کی تشکیل کے وقت اپنے تحفظات پر پہرہ بھی دے سکتی تھی۔ انگریز حکمرانوں نے اس فارمولا کو پیش کرکے اور قائد اعظم نے اسے قبول کرکے ثابت کردیا کہ وہ علیحدگی پسند نہیں بلکہ انڈین مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہر راستہ اپنا سکتے ہیں۔
مرکزیت پسند کانگریس نے اس فارمولا کو مسترد کرکے سیاسی حماقت کا ثبوت فراہم کیا کہ اب تقسیم ہند کا الزام بھی اس کے پلے پڑ گیا۔ خود کانگریس کے راہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے نہرو کے اس فیصلہ کوایسی ہمالائی غلطی قرار دیا جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس نواز دانشور اور تاریخ دان کابینہ مشن کے بارے میں بحث سے کنی کتراتے ہیں۔
البتہ کانجی دوار کا داس، عائشہ جلال اور جسونت سنگھ نے لگی لپٹی کے بغیر اس واقعہ پر سردار پٹیل ،مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کی خوب خبر لی ہے۔ کابینہ مشن کو مسترد کرنے کے فیصلہ پر ہونے والی تنقید سے گھبرا کر کانگریس سیاسی دیوالیہ پن کاشکار ہوگئی اور اب انھوں نے سارا زور تقسیم بنگال و پنجاب پر ڈال دیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بات بھول گئے اس ڈیموگرافک تبدیلی کا سارا ملبہ انہیں نومولود ریاستوں پر گرے گا جس کا اقتدار اب مسلم لیگ اور کانگریس کا مقدر قرار دیا جا چکا ہے۔
جب انگریز تقسیم بنگال و پنجاب پر کانگریس کی طرح راضی ہوگئے تو قائد اعظم نے اس پر سخت ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔ کابینہ مشن کو مسترد کرنے کی مجرم تو کانگریس تن تنہا تھی مگر 1947 کے فسادات کی ذمہ داری انگریزوں اور کانگریس دونوں پرعائد ہوتی ہے۔ 3 جون 1947 کو تمام متعلقہ فریقین سے ایک معاہدے کی منظوری کے بعد وائسرائے لارڈماؤنٹ بیٹن نے اسے برطانوی پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا۔ افسوس کہ جمہوریت کی ماں کہلانے والی انگریز پارلیمنٹ نے بھی تقسیم پنجاب و بنگال کو ضروری گردانا اور فسادات و قتل عام کے ذمہ داروں میں شامل ہوگئی۔ یوں دنیا نے خصوصاً پنجاب کے فسادات و ہجرت کی شکل میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے سب سی بڑی ڈیموگرافک تبدیلی کا شرمناک مظاہرہ دیکھا۔
ان فسادات میں دوکروڑ ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو نقل مکانی، قتل عام اور دنگوں سے گزرنا پڑا کہ یہ سودا دونوں نومولود ریاستوں اور معاشروں کو بہت مہنگا پڑا۔ 11 اگست 1947 کی مشہور تقریر میں قائداعظم پنجاب و بنگال کی تقسیم، فسادات اور قتل و غارت پر خون کے آنسو رو رہے تھے جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ان تمام تر نازک لمحات میں بھی آئینی، قانونی و جمہوری رستہ ہی کو اوّلیت دیتے ہوئے سیاسی جدو جہدکو آگے بڑھایا گیا مگر اس سبق کو بعدازاں بھلا دیا گیا۔ سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ بانیان پاکستان نے غیر ملکی تسلط کے دور میں بھی گھیراؤ جلاؤ اور بائیکاٹ کی سیاست کو نہ اپنایا اور محدود پیمانے پر دستیاب جمہوری و انتخابی گنجائش کو استعمال کرتے ہوئے عوامی حقوق کے لیے سرگرم عمل رہے۔
افسوس جو ملک اس قدر بالغ نظر قیادت کی کامیاب جدوجہد سے بنا وہیں پر چار بار مارشل لاء لگا کر عملاً بانیانِ ریاست کے افکار کامذاق اڑایا گیا۔ آئین کو بار بار پامال کیا گیا ۔ اس کے باوجود ڈکٹیٹر عوامی حما یت سے محروم رہے اور ہر ڈکٹیٹر کے جانے یا کمزور ہونے کے بعد جب بھی انتخابات ہوئے تو پاکستانیوں نے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کرنے والوں ہی کو ووٹ دیے۔ عام پاکستانی بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون آئینی، قانونی و جمہوری حقوق کی پاسداری کے لیے متحرک رہا اور کون طاقت کی غلام گردشوں کا اسیر۔ آج تو پاکستان میں برٹش انڈیا سے بدرجہا بہتر آئینی، قانونی و جمہوری نظام موجود ہے۔
محدود حق انتخاب کی بجائے ہر 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ 1973 کا آئین موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں، میڈیا، عدالتیں، انگریز حاکمیت سے نکل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہورہے ہیں۔ عدالتوں نے پرانا وطیرہ ترک کر دیا ہے اور نئے راستے پر گامزن ہیں۔ مگر دوسری طرف ایسے گروہ بھی ہیں جو 1920 کی دہائی کی طرح ملک پاکستان میں گھیراؤ جلاؤ اور بائیکاٹ کی سیاست کو ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں جمہوری بندوبست، میڈیا اور عدالتوں سے صرف اس وقت عداوت پیدا ہوتی ہے جب انہیں اقتدارنہیں ملتا۔