سیاسی تحریکیں عوام اور قیادت
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ جماعتیں خواہ کسی بھی طرح کے ’اصلاحاتی‘ اقدامات ....
ISLAMABAD:
اگرچہ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر انقلاب کا پرچم لہرانے والی سیاسی جماعتیں اپنی ساخت میں ردِ انقلابی قوتیں ہیں، جو آخری تجزیے میں ان تمام اصولوں و قواعد کی نفی کر دیں گی کہ جن کی وہ بظاہر داعی نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود سوال یہ اٹھتا ہے کہ جن اقدامات کا یہ جماعتیں تقاضا کر رہی ہیں ان کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور کیا ان کی حمایت کرنی چاہیے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا سامنا تاریخ میں کئی بار بائیں بازو کو کرنا پڑا ہے، مگر اس حوالے سے کوئی بھی مشترکہ حکمتِ عملی دیکھنے میں نہیں آتی۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ جماعتیں خواہ کسی بھی طرح کے 'اصلاحاتی' اقدامات اٹھانے کی تبلیغ کرتی رہیں، ان کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس قسم کے نقطہ نظر پر کاربند رہنے کا مطلب جدوجہد سے احتراز کرنا اور صدیوں پرانے گھڑے گھڑائے اصولوں پر محض نظریاتی سطح پر کاربند رہتے ہوئے سماج کو اس کی جدلیاتی حیثیت میں دیکھنے کی بجائے اٹھارویں صدی سے ماخوذ اصولوں کو ایک جامد اور حتمی آئیڈیالوجی کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔ اور یہی وہ بنیادی نکات ہیں کہ جہاں انقلابی نظریات سماج کو جدلیاتی انداز میں دیکھنے کی بجائے اسے مابعد الطبیعاتی نظریات کے ماتحت لاکھڑا کر دیا جاتا ہے۔
''انقلابی تحریکوں'' کا دعویٰ کرنے والی یہ جماعتیں پاکستان میں ''جمہوری نظام'' کو پٹری پہ ڈالنے کے لیے اصلاحات کا تقاضا کر رہی ہیں، لہذا بنیادی مطالبہ اصلاحات ہیں انقلاب نہیں! عمومی تاثر یہ ہے کہ بایاں بازو اصلاحات کی مخالفت کرتا ہے، میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ 166 برس قبل مارکس اور اینگلز نے''مینی فیسٹو'' میں تحریر کیا تھا کہ دنیا کی تاریخ حقیقت میں طبقاتی جدوجہد ہی سے عبارت رہی ہے۔ یہ بات بظاہر تو سادہ سی لگتی ہے مگر اس مقدمے کی حیثیت ماورائی یا بالائے تاریخ ہرگز نہیں ہے۔
طبقاتی جدوجہد کہیں خلا میں جنم نہیں لیتی، اس کی جڑیں ان تضادات میں پیوست ہوتی ہیں جو پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کے درمیان مختلف طبقات کے مابین تصادم کی صورت میں جنم لیتے ہیں۔ تاریخی مادیت کی روشنی میں اشتراکی مفکرین کا یہ تجزیہ انتہائی معنی خیز ہے اور یہ ان اصلاحات کی تجریدی حیثیت پر یلغار کرتا ہے کہ جن کی حیثیت طبقاتی تضادات سے کٹی ہوئی ہو۔ یعنی اصلاحات کو طبقاتی جدوجہد سے ماورا سمجھنا کہ جن کا خیال حکمرانوں کے ذہن میں تجریدی طور پر کسی اخلاقی اصول کے تحت ابھرتا ہے اور جس کی کوئی مقرونی (Concrete) بنیاد نہیں ہوتی، درست نہیں ہے۔
ایسا سمجھنا تاریخی مادیت کے بنیادی اصولوں کی عدم تفہیم کا نتیجہ ہے کہ جن کے تحت سماجی تضادات کی حیثیت حقیقی ہوتی ہے اور یہ تضادات کسی نہ کسی مطالبے یا تقاضے کی شکل میں اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ بائیں بازو کے دانشوروں کو اصلاحات کی مخالفت کرنے کی بجائے ان اصلاحات کی جانب لے جانے والے مقرونی عوامل سمیت ردِ انقلابی قوتوں کے مطالبات کو ان کی تاریخ اور سماج کے جدلیاتی کردار میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی سماج میں انقلابیت کا تعلق ان عوامل کے ساتھ ہوتا ہے جو زندہ ہوتے ہیں، جو زندہ یا موجود ہی نہ ہوں وہ انقلابی کیسے ہو سکتے ہیں!
بورژوا تصور اصلاحات اور مارکسی تصور اصلاحات میں بنیادی فرق بہرحال موجود ہے: وہ یہ کہ بورژوا دانشوروں کے نزدیک اصلاحات کا عمل محض ظاہری سطح پر موجود طبقاتی تضادات کی تحلیل پر منتج ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اصلاحات کا مطالبہ کسی گہرے سماجی عمل کا بالائی سطح پر اظہار نہیں ہے کہ جس کے بعد انقلاب کی ضرورت پیش آتی ہو۔ ان کے نزدیک اصلاحات کا عمل طے پاتے ہی خود میں مکمل ہو جاتا ہے، یعنی ان اصلاحات کے مطالبے کو بنیاد بنا کر کسی بنیادی تبدیلی یا انقلاب کی جانب متحرک نہیں کیا جا سکتا۔
اس تصور میں بنیادی نقص یہ ہے کہ اس کے تحت 'ظاہر'(Appearance) کو تو اہمیت دی جاتی ہے مگر ظاہر سے پرے ان تضادات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ جن کی حیثیت ''جوہر'' کی سی ہوتی ہے اور جو 'ظاہر' کو 'مظہر' کی سطح پر لانے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
جدلیاتی انداز فکر سے ان بنیادی عوامل کا تجزیہ کرنے میں مدد ملتی ہے جو بالائی سطح پر اپنا اظہار 'تضادات' کی صورت میں کرتے ہیں۔ اصلاحات چونکہ طبقاتی جدوجہد کا شاخسانہ ہوتی ہیں، اس لیے ان تضادات میں بڑھتی ہوئی خلیج اور گہرائی پر نظر رکھتے ہوئے انھیں مزید گہرا کرنے اور ان میں شدت لانے کی ضرورت کو واضح کرنا انقلاب کی جانب بڑھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو بائیں بازو کو پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی قیادت کو سامنے رکھ کر سمجھنے کی بجائے عوامی نقطہ نظر سے ان تضادات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ جن کی وجہ سے موجودہ سیاسی منظر نامہ پیدا ہوا ہے۔
انقلابی تحریکوں کی کامیابی کے لیے قیادت کا کردار اہم ہوتا ہے مگر تبدیلی اور اصلاحات کے تصورات کو ردِ انقلابی قوتوں کے تعلق سے دیکھا جائے تو تحریکوں میں حصہ لینے والے عوامل کی شمولیت کے تصور کو مرکزی حیثیت عطا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت بائیں بازو کی قیادت کا فقدان ہے۔ بایاں بازو اس وقت ایک انقلابی قیادت سے محروم ہے۔ ہر عہد کے لیے انقلابی وہ نہیں ہو سکتا جو اٹھارویں صدی میں انقلابی تھا، انقلابیت کو دیے گئے حالات میں شناخت کرنے کی ضرورت ہے اور ہر اس تحریک کی حمایت کرنی ضروری ہے جس میں عوام کی وسیع سطح پر شمولیت ہو۔
بایاں بازو جب دائیں بازو کی قوتوں کے متوازی ایک مضبوط قوت کے طور پر موجود ہو تو اس کی ترجیحات ردِ انقلابی قوتوں سے مختلف ہونی چاہیں اور جب اس کے وجود کا تعین ہی نہ کیا جا سکتا ہو تو انقلابیت کے حامیوں کو موجود قوتوں میں سے ترقی پسندانہ رجحانات کی حمایت کرنی چاہیے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں حقیقی ترقی پسندانہ کردار حکمران سیاسی جماعتوں اور حکمرانی کی خواہش مند جماعتوں کی سیاسی آمریت کی لامرکزیت کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ لہذا موجودہ صورتحال میں انقلابیت کے پہلو کو ''جمہوری آمریت'' کی تشکیل میں نہیں اس کی لاتشکیل میں دیکھنے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔
ردِ انقلابی جماعتوں کی قیادتیں عام طور پر مصالحت پسند اور موقع پرست ہوتی ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انقلابی قیادت کبھی موقع پرست نہیں ہوتی۔ انقلابی مفکرین کی بھی ایک طویل فہرست موجود ہے کہ جنہوں نے کئی بار موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی اندر ردِ انقلابی کردار کو منکشف کیا ہے۔ مغرب میں انقلابی قیادتوں نے کئی بار لوگوں کو دھوکا دیا ہے۔ مزاحمتی تحریکوں کو کلی طور پر ان کی قیادت یا پھران کی کامیابی یا ناکامی کے پس منظر میں دیکھنے کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ انقلاب صرف قیادت ہی کی بدولت رونما ہوتا ہے، تاہم تاریخ اس بات کی تصدیق نہیں کرتی۔
مزاحمتی تحریکوں کو عوامی شعور پر اثرات کے حوالے سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ مزاحمتی تحریکوں میں شمولیت سے عوامی شعور کو ایک واضح سمت ملتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں کئی بار عوام کی وسیع سطح پر شمولیت سے کئی تحریکیں جنم لے چکی ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ معقول ہو گا کہ تھوڑے عرصے میں عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پر نکل کر مزاحمتوں کو برپا کر چکا ہے۔
سماجی حالات کے تحریکوں پر اثرات اور تحریکوں کے عوامی شعور پر اثرات سے اگرچہ عوامی شعور ابھی تک طبقاتی شعور میں تبدیل نہیں ہو سکا، تاہم اس کے باوجود عوام کا بہتری یا اصلاحات کے لیے سڑکوں پر نکل آنا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ عوامی شعور کو اجاگر کرنے والی تحریکیں اگر اسی تسلسل سے برپا ہوتی رہیں تو امکان غالب ہے کہ عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے طریقہ کار کا شعور ہونے لگا ہے اور عین ممکن ہے کہ جلد طبقاتی شعور کو بھی ممیز کر لیا جائے۔
بعد ازاں وسیع سطح پر ایک انقلابی تحریک کو بروئے کار لانے کی ضرورت کو محسوس کیا جانے لگے۔ اس لیے مزاحمتی تحریکوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ استحصال زدہ اور مظلوم عوام کی اکثریت کی نیندیں تو حکمران ہمہ وقت اڑا کر رکھتے ہیں، لیکن ان کے سڑکوں پر نکلنے سے حکمرانوں کی نیندیں بھی حرام ہونے لگتی ہیں۔
وہ اگر کچھ عرصے بعد حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں کہ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت اور استحصال و تشدد جو کہ جمہوری آمریت کا نتیجہ ہے انھیں اس کا گہرا شعور ہے اور وہ کسی بھی وقت اپنے حقوق کے لیے میدان عمل میں اتر سکتے ہیں تو یہ مزاحمتی عمل عوامی نقطہ نظر سے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔