غیر جمہوری طرز عمل…

مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب بھی برسر اقتدار آئی انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام نہیں کیا ..

اس بات میں تو کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات اور ابہام کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ جو کچھ بھی حکومت وقت کی جانب سے کیا جا رہا ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد عمل ہے۔ پاکستان عوامی تحریک ہو یا کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن ہوں ان کا قتل عام کرنا اور انھیں دیوار سے لگانے کا عمل غیر قانونی و غیر آئینی ہے اور اس قسم کا طرز عمل اختیار کرنے والی حکومت کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتی، کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔

حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا اگر ماضی اور حال کا جائزہ لیا جائے تو وہ جتنی بار بھی اقتدار میں رہیں انھوں نے جمہوریت کا راگ تو الاپا لیکن جمہوریت کی آڑ میں اپنا بینک بیلنس اور جائدادیں بناتے رہے یہاں تک کہ بیرون ممالک میں بڑی بڑی انڈسٹریاں اور محلات قائم کیے لیکن عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے قاصر رہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب بھی برسر اقتدار آئی انھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی سرکاری و نیم سرکاری اور پرائیوٹ ملازمین کی تنخواہوں میں کبھی خاطر خواہ اضافہ کیا جس کی وجہ سے عوام آج خود کشی کرنے پر مجبور ہیں جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کا تعلق سرمایہ دار، جاگیردار عناصر سے ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ملک کے سرمائے پر قابض ہیں۔ دونوں جماعتوں میں مفاہمت کی سیاست بھی اسی فارمولے کے تحت ہے کہ اب تمہاری باری ہے تو اگلی ہماری باری ہے لہٰذا جتنا لوٹ سکو لوٹ لو۔

میاں نواز شریف ایک طرف تو وہ اپنے ہی عوام پر جن کے حق رائے دہی سے وہ حکومت میں آئے ہیں ظلم کناں ہیں تو دوسری جانب سیاسی مخالفین کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کے ساتھ جو کچھ چند مہینوں سے ہو رہا ہے وہ قابل مذمت اور جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے اس مسئلے پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا مؤقف ایک ہے۔

جمہوریت کی آڑ میں معصوم عوام کے خون سے پنجاب حکومت جو ہولی کھیل رہی ہے، اس سے ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے جس کا جواب پنجاب حکومت کو عوام کی عدالت میں دینا ہو گا یوں سمجھ لیں یہ انسانیت کی تذلیل کرنے والے عناصر ظلم پر ظلم ڈھا رہے ہیں لیکن جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ سیاسی ماحول جو اس وقت گرم ہے اس کے مطابق کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے جیسا کہ پچھلے دو عشروں سے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں ہوا۔ تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کے مطابق حکومت اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے خود اقدامات کر رہی ہے۔

نواز شریف ہوں یا ان کی حلیف جماعت جو اس سے پہلے اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہے وہ اپنے بینک بیلنس میں مستقل اضافہ کر رہے ہیں اور ملک کے غریب عوام کے خون پسینوں کی کمائی جو اربوں کھربوں ڈالر کی صورت میں بیرون ملک میں جمع کی جا چکی ہے۔ اب عوام ان سیاسی بازیگروں سے تنگ آ چکے ہیں اب فیصلہ پاکستان کے غیور عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ پاکستان کے بہتر مفاد میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی ان کی حکومت آتی ہے تو قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے جب کہ اپوزیشن کو وہ جمہوری حق حاصل نہیں ہوتا جو آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔

یوم شہداء منانے سے روکنے کے لیے حکومت نے تمام غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ جس کے لیے پورے شہر پنجاب کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا، تمام پیٹرول پمپ بند کر دیے گئے یوم شہداء میں شرکت کے لیے آنے والے قافلوں کو روکنے لیے حکومتی دہشت گردی کی گئی غرض تمام غیر آئینی اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے پنجاب کی عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا گیا۔


اس طرز عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے یہاں تک کہ ایم کیو ایم کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جو کھانا پینا اور دیگر اشیاء جو یوم شہداء میں شریک عوام کے لیے ایم کیو ایم کا وفد منہاج القرآن سیکریٹریٹ لے کر پہنچا تو انھیں انتظامیہ کی جانب سے روک دیا گیا جب بانی و قائد متحدہ قومی موؤمنٹ الطاف حسین نے الیکٹرونک میڈیا پر آ کر حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر انھیں آدھے گھنٹے میں آگے نہیں جانے دیا گیا تو رابطہ کمیٹی کے اراکین و کارکنان آیندہ کے لائحہ عمل کے لیے آزاد ہیں لیکن افسوس کہ حکومت نے کھانے پینے کی اشیاء کو لے جانے کے لیے پیدل جانے پر مجبور کیا جو بڑی دشواری کے ساتھ پہنچایا گیا ایسا طرز عمل اختیار کرنا حکومت کو زیب نہیں دیتا جو پاکستان بھر کی عوام کے لیے لمحہء فکریہ ہے۔

پاکستان عوامی تحریک ، پاکستان تحریک انصاف اور دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جمہوری اور آئینی طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں اور انھیں اس حق سے روکنا حکومت کی ہٹ دھرمی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کو جمہوری طریقے سے ڈیل کرے تا کہ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔ پاکستان کے عوام حکومت وقت کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت کے اس طرز عمل سے جمہوریت داؤ پر لگ سکتی ہے ساری دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ دیکھیں ایک اور جمہوری حکومت کا کیا انجام ہوتا ہے؟

بہرحال وقت و حالات نے جمہوریت کے دعویداروں کے چہرے بے نقاب کر دیے ہیں جس نیک مقاصد کو پورا کرنے کے لیے عوامی تحریک کے سربراہ و کارکنان نے مظلوم عوام کو ان کے غصب شدہ حقوق دلانے کے لیے بیڑہ اٹھایا ہے وہ خوش آیند ہے لیکن اگر حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو اُس وقت تک ملک کے مظلوم عوام کی داد رسی ممکن نہیں ہو سکتی جب تک اس ملک میں فرسودہ نظام کا خاتمہ عمل میں نہیں لایا جاتا اور غریب عوام کو ایوانوں کی زینت نہیں بنایا جاتا جب تک فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر ایوان میں رہیں گے اس وقت تک عوام کو ان کے دیرینہ و جائز حقوق دلانا ممکن نہیں ہو گا۔

انقلاب اس ملک کا مقدر بن چکا ہے اور اس انقلاب کی دستک سندھ کی شہری آبادی سے تعلق رکھنے والے حق پرست عوام کی جانب سے کئی دہائیوں پہلے دی جا چکی ہے یہی وہ جرم ہے جس کی پاداش میں سندھ کی شہری آبادی سے تعلق رکھنے والوں کو مسلسل نا انصافیوں اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس پر ملک کی بیشتر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ان کی حمایت اور داد رسی کرنے کی بجائے حق پرست قیادت کے ان اقدامات کی ہمیشہ سے نفی کی ہے۔

انقلاب تو کئی دہائیوں پہلے ہی اس ملک کا مقدر بن چکا ہوتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں بھی حق پرستوں کی قیادت کرنیوالے قائد الطاف حسین کو جلا وطنی پر مجبور کیا گیا بلکہ متعدد بار ان کو راستے سے ہٹانے کے لیے قاتلانہ حملے بھی کیے گئے اس کے علاوہ ہزاروں کارکنا ن کو ریاستی دہشتگردی سے بیدردی سے شہید کر دیا گیا ان تمام تر نشیب وفراز کے باوجود قائد تحریک کی جدو جہد آج بھی ملک کے غریب و متوسط طبقے کے لیے جاری ہے۔

پاکستانی عوام کی یہ خواہش ہے کہ اس ملک سے ظلم و جبر کا خاتمہ ہو اور عوام کو ان کے غصب شدہ حقوق جلد از جلد مل سکیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا اقدام اس وقت بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے ان کا یہ طرز عمل قائد تحریک الطاف حسین کے طرز عمل کے عین مطابق نظر آتا ہے کیونکہ قائد تحریک الطاف حسین بھی اس ملک سے ظلم و ستم اور وڈیرہ ، جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری کا منشور بھی یہی نظر آتا ہے اور یہ ملک کے غریب و متوسط طبقے کے لیے راہ نجات کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ان تمام باتوں کے پیش نظر وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے جمہوری طرز عمل اختیار کریں یہی ہر محب وطن کی آواز ہے اور اگر اس آواز کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کی گئی تو اس حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ 14اگست کو ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی جانب سے انقلابی مارچ اور آزادی مارچ کیا جارہا ہے وہ ان کا آئینی و قانونی و جمہوری حق ہے جس میں حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ پیش نہیں آنی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جس کی تمام تر ذمے داری حکومت وقت پر عائد ہوگی۔
Load Next Story