قیامِ پاکستان آخری اور فیصلہ کن مرحلہ
تقسیم ِ ہند کے سلسلے میں ماؤنٹ بیٹن نے ہر مرحلہ پر جانبداری کا ثبوت دیا اور کانگریس کے مفادات کو عزیز جانا
ہندوستان میں ایک علیحدہ مسلم وطن کے حصول کی جدوجہد کا آغاز اگرچہ علامتی طور پر پلاسی کی جنگ (1757ء) سے ہی ہوگیا تھا لیکن 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں منظور کی جانے والی علیحدہ وطن کے قیام کی قرارداد کے نتیجہ میں اِس جدوجہد کو واضح خطوط میسر آئے۔
قائداعظم محمد علی جناح جو عرصۂ دراز سے مسلمانانِ ہند کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور 1938ء میں مسلمانوں کے قائد اعظم کے منصب پر فائز ہوچکے تھے، دراصل وہ اِس قرار داد کے روحِ رواں تھے اور انہی کی قیادت اور اِس قرارداد کی روشنی میں وہ عظیم جدوجہد شروع ہوئی جسے تاریخ میں تحریکِ پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ تحریک تقریباً سات سال چار ماہ اور 20 دن جاری رہی۔ اِس تحریک کا آغاز نہایت نامساعد اور حوصلہ شکن حالات میں ہوا تھا لیکن وقت کے ساتھ ہی ساتھ اِس تحریک کے خدّ و خال واضح ہوتے چلے گئے۔ اور مسلمانانِ ہند اِس تحریک کی کامیابی کے لیے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد و منظم ہوگئے۔
23؍مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد کے بعد جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا گیا مارچ 1942ء میں ایک سرکاری وفد نے جو ''کرپس مشن'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اپنی تجاویز پیش کیں۔ یہ تجاویز ہندوستان کی آئینی اصلاحات کے ضمن میں اِس بنا پر بڑی اہمیت کی حامل ہیں کہ اِن تجاویز میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر تقسیم ہند کے اصول کو تسلیم کیا گیاتھا۔ کرپس تجاویز کے بعد عمومی طور پر یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل صرف تقسیم میں مضمر ہے۔
انہی تجاویز کے بعد آئندہ پانچ سال کے دوران مطالبۂ پاکستان ناگزیر ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ 3؍جون1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے کی ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے منظوری دے کر قیامِ پاکستان کی توثیق کردی۔
کرپس تجاویز اور ماؤنٹ بیٹن پلان کی درمیانی مدت تقریباً پانچ سال ہے اور یہ پانچ سال ہندوستان کی تاریخ کے نہایت اہم، پیچیدہ اور سنگین سال تھے۔ ایک طرف برطانیہ اپنے اقتدار کو سمیٹنے کی فکر میں تھا اور دوسری طرف آل انڈیا نیشنل کانگریس ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند نہیں تھی، جبکہ مسلم لیگ کسی قیمت پر بھی مطالبۂ پاکستان سے دستبردار ہونے کے لیے تیارنہیں تھی۔ ایسی صورت حال میں مارچ 1947ء میں ہندوستان کے نئے وائسرائے کی حیثیت سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا تقرر بڑے خدشات کا پیش خیمہ تھا کیوںکہ کانگریس کی قیادت سے اُن کے قریبی مراسم ڈھکے چھپے نہیں تھے۔
مورخین اور مبصرین نے اسی بنا پر اِس دورانیہ کو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے پیچیدہ اور فیصلہ کن دورانیہ قرار دیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اِس دورانیہ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے۔ اِن لکھنے والوں میں برطانیہ ، امریکا، بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے مورخین شامل ہیں اور ہر شخص نے اِس دورانیہ میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کی توضیح و تشریح اپنے اپنے زاویۂ نگاہ کے مطابق کی ہے جس کی بنا پر حقائق کچھ اِس طرح گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ آج بھی اِن تحریروں سے راست نتائج اخذ کرنے میں دشواری اور تذبذب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شاید اِس کی ایک واضح وجہ یہ بھی رہی کہ اِس دور سے متعلق سرکاری دستاویزات سربمہر تھیں لہٰذا 1947ء سے 1970ء تک اِس دورانیہ پر تحقیق کرنے والوں کو اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ثانوی ماخذ پر انحصار کرنا پڑا۔ پھر 1970ء کے بعد جب سرکاری دستاویزات منظر عام پر آنے لگیں تو مذکورہ بالا عرصہ میں تحریر کی جانے والی کتابوں کے بعض مندرجات نہ صرف ترمیم و توثیق طلب ہوگئے بلکہ بعض مورخین اور مبصرین کی کذب بیانیوں کا پردہ بھی چاک ہوگیا۔
اِس کے باوجود چند کتابیں اب بھی ایسی ہیں جو اپنے کچھ مشتبہ مندرجات کے باوجود اساسی حیثیت رکھتی ہیں اور آج بھی جب کہ بیشتر سرکاری دستاویزات سامنے آچکی ہیں اِن کتابوں کے مندرجات پر انحصار کرنے کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔ 1947ء سے 1970ء کے دوران اِس موضوع پر جو اہم کتابیں شایع ہوئیں اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں:۔
-1کیمبل جانسن، Mission with Mountbatten، (London 1951ء)
-2ای ڈبلیو آر لمبے، The Transfer of Power in India، (London 1954)
-3وی پی مینن، The Transfer of Power، Calcutta 1957) )
-4ابوالکلام آزاد، India wins Freedom، (Calcutta 1959))
-5لیونارڈ موسلے، The last days of British Raj، (London 1961)
-6چوہدری محمد علی، The Emergence of Pakistan، (New York 1967)
-7لطیف احمد شیروانی، Pakistan Resolution to Pakistan، (karachi 1969)
-8ایچ وی ہڈسن، The Great Divide، (London 1969)
1961ء میں لیونارڈ موسلے نے اپنی کتاب "The Last Days of British Raj" کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ ''ہندوستان میں انتقال اقتدار سے متعلق سرکاری دستاویزات 1999ء تک سرکاری طور پر کھولی جائیں گی۔ اِس لیے مجھے یقین ہے کہ پیش نظر کتاب اِس عبوری مدّت میں اُن حالات و واقعات پر روشنی ڈالتی رہے گی جو ہنوز مبہم ہیں''۔
لیونارڈ موسلے کی اس تحریر کے بعد مورخین اور تاریخ کے طالب علموں کو ہندوستان میں انتقال اقتدار کے بارے میں برطانوی موقف اور ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کی کار گزاریوں کو ماننے کے لیے مقررہ مدت تک انتظار نہیں کرنا پڑا کیونکہ 1967ء میں برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ ولسن نے اپنی حکومت کے اِس فیصلہ کا اعلان کیا کہ ہندوستان میں انتقالِ اقتدار سے متعلق تمام دستاویزات جلد شایع کردی جائیں گی اور دستاویزات کی اشاعت کے اِس کام پر ایک غیر جانبدار مورخ کو مامور کیا جائے گا جس کو اِن دستاویزات کے انتخاب، تدوین اور اشاعت کا مکمل اور آزادانہ اختیار ہوگا۔ ہیرالڈ ولسن کے اِس اعلان کے تحت انتقالِ اقتدار سے متعلق دستاویزات کا یہ سلسلہ ممتاز مورخ پروفیسر نکولاس مانسرج کی ادارت میں 1970ء سے 1983ء تک "Transfer of Power 1942-47" کے عنوان سے بارہ جلدوں میں شایع ہوا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔
اِن جلدوں میں کرپس مشن کی ہندوستان آمد سے لے کر 10؍اگست 1947ء تک کی دستاویزات شامل ہیں۔ خصوصاً دسویں جلد سے بارہویں جلد تک میں ماؤنٹ بیٹن کے دور سے متعلق دستاویزات شامل ہیں اور یہی دور ہندوستان کی آزادی، قیامِ پاکستان اور انتقال اقتدار کے ضمن میں آخری اور حتمی دور ہے۔ اس اعتبار سے اِن دستاویزات کے مطالعہ کے بغیر کوئی تحریر انتقالِ اقتدار اور قیام پاکستان کے ضمن میں معتبر اور واضح قرار نہیں پاسکتی۔
انتقالِ اقتدار کی مذکورہ بالا دستاویزات کی اشاعت کے دوران اور اُس کے بعد اکثر مورخین نے اِن دستاویزات کو بنیاد بناکر اپنی تحقیقات مکمل کی ہیں اور اِس دورانیہ سے متعلق متعدد نئے انکشافات و تجزئیے منظر عام پر آئے ہیں۔ اِن انکشافات و تجزیوں میں بھی اگرچہ محقق کا اپنا زاویۂ نگاہ موجود ہے لیکن دستاویزی حوالے اِس زاویۂ نگاہ کو بیک قلم منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ 1970ء سے 1990ء تک کے دو عشروں کے دوران اِن دستاویزات سے استفادہ کی بنیاد پر جو اہم کتابیں شایع ہوئی ہیں اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں:
-1پینڈرل مون، Wavell: The Viceroy's Journal، (New York 1973)
-2لیرے کولنز اینڈ ڈومینکولاپیر، Freedom at Midnight، (New York 1975)
-3لیرے کولنز اینڈ ڈومینکولاپیر، Mountbatten and the Partition of India، (New Delhi 1982)
-4پروفیسر زیگلر، Mountbatten: an Official Biography، (London 1985)
-5عائشہ جلال، The Sole Spoksman، (London 1985)
-6لطیف احمد شیروانی، The Partition of India and Mountbatten، (Karachi 1986)
-7ایچ ایم سیروائی، Legend and Reality: Partition of India، (Bombay 1989)
-8سیّد ہاشم رضا، Mountbatten and Pakistan، (Karachi 1984)
مذکورہ بالا کتب کے مطالعہ سے نہ صرف بے پناہ نئی معلومات سامنے آئی ہیں بلکہ یہ حقیقت بھی طے پاگئی ہے کہ انتقالِ اقتدار اور قیامِ پاکستان کے ضمن میں کوئی کتاب یا تجزیہ اب اُس وقت تک وقیع یا معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ 1942ء سے 1947ء کے دورانیہ سے متعلق دستاویزات سے بھرپور استفادہ نہ کیا جائے۔ مذکورہ بالا کتب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد اور کانگریسی رہنما جواہر لال نہرو کا قریبی دوست تھا۔ وہ 22؍مارچ 1947ء کو ہندوستان پہنچا اور بہت تیزی سے اپنا کام شروع کردیا۔ تحریک پاکستان کے ایک صحافی سید حسن ریاض نے اپنی کتاب ''پاکستان ناگزیر تھا'' میں لکھا ہے کہ ''کوئی اور وائسرائے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر ہندوستان آیا ہویا نہیں لیکن ماؤنٹ بیٹن ہر طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے تھے اور انہوں نے اہتمام و تکلف کے ساتھ اپنے اوپر گھبراہٹ اور جلدی کی کیفیت طاری کررکھی تھی۔''
درحقیقت ماؤنٹ بیٹن کو بحیثیت وائسرائے نامزدگی سے قبل ہی ہندوستان کی سیاسی صورت حال سے نہ صرف کماحقہ آگاہی حاصل تھی بلکہ وہ ہندوستان اس ارادے کے ساتھ ہی آیا تھا کہ وہ ہندوستان کو حتی المقدور متحد رکھنے کی کوشش کرے گا۔ لطیف احمد شیروانی کی کتاب میں دستاویزات کی روشنی میں جو حقائق درج کیے گئے ہیں اُن سے نہ صرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کے درمیان ہندوستان میں انتقال اقتدار کے بارے میں وضاحت ہوتی ہے بلکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اُس مخاصمانہ روّیہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو اُس نے روزِ اوّل سے قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے اختیار کررکھا تھا۔
ماؤنٹ بیٹن نے اپنے ایک انٹرویو میں جو اُس نے ''لیرے کولنز''کو دیا تھا اِس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ''میں متحدہ ہندوستان پر پختہ یقین رکھتا تھا۔ اور میرا خیال تھا کہ میں ہندوستان کو متحد رکھنے کی ہرممکن کوشش کروں گا۔'' لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وائسرائے کے عہدے پر متمکن ہونے تک مطالبۂ پاکستان یعنی تقسیم ہند کے خلاف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے اپنے عہدے پر متمکن ہونے کے بعد سب سے پہلے جواہر لال نہرو سے ملاقات کی اور اِس ملاقات کے تقریباً بارہ دن بعد یعنی 5؍اپریل 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح سے مذاکرات کیے۔
لطیف احمد شیروانی کی تحقیق کے مطابق ابتداً ماؤنٹ بیٹن ''کیبنٹ مشن پلان'' کے تحت ہندوستان میں ایک متحدہ حکومت کے قیام کے لیے کوشش کرتا رہا لیکن آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ گفت و شنید کے پہلے دو ہفتوں میں ہی اُسے یقین ہوگیا کہ ''کیبنٹ مشن پلان'' کے نفاذ پر اصرار جاری رکھنا بالکل بے سود ہے اور اِسی یقین نے کسی دوسرے متبادل منصوبہ کی جانب اُس کی رہنمائی کی۔
بقول لطیف احمد شیروانی: ''دراصل ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستانی رہنماؤں سے مذاکرات کے دوران میں ہی ایک متبادل منصوبہ تیار کرلیا تھا''۔ ماؤنٹ بیٹن کے پیپرز سے یہ بات ثابت ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ چوںکہ کانگریس کی طرف تھا اس لیے وہ ہر مرحلہ پر کانگریسی رہنماؤں سے صلاح و مشورے کرتا رہا۔ ایک بھارتی محقق ایچ ایم سیروائی نے لکھا ہے کہ : ''جب ایک مرتبہ ماؤنٹ بیٹن نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ''کیبنٹ مشن پلان'' ناکارہ ہوگیا ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار کیا جائے۔''
بحیثیت وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دور کی سرکاری دستاویزات بھی اِس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنے وضع کردہ تقسیم ہند کے منصوبہ کی تیاری کے دوران بظاہر یہی ظاہر کرتا رہا کہ اُس کی حیثیت ایک غیر جانبدار کی سی ہے لیکن اُس نے اپنے منصوبہ سے متعلق تمام دستاویزات دوستانہ جذبات سے مغلوب ہوکر جواہر لال نہرو کو دکھادی تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اُس نے نہرو کی اِس ضمن میں تجاویز کو قبول کیا اور محمد علی جناح کو بتائے بغیر اور اُن کا رد عمل معلوم کیے بغیر اِن تجاویز کی روشنی میں اپنے پلان میں ترمیم و اضافے کیے۔ بہرحال اب یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ تقسیم ہند کے سلسلے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہر مرحلہ پر جانبداری کا ثبوت دیا اور دانستہ یہ کوشش کی کہ اُس کے منصوبہ کے زیادہ سے زیادہ فوائد کانگریس کو پہنچیں۔
چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 26؍اپریل 1947ء کو ماؤنٹ بیٹن نے اپنے چیف آف اسٹاف لارڈ اسمے اور جارج ایبل کو لندن بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ مذکورہ منصوبے کے ابتدائی مسودہ کی ہر شق پر حکومت برطانیہ اور متعلقہ حکام سے صلاح و مشورہ کیا جاسکے۔ اِس منصوبہ کے تحت جزیرہ نمائے ہند کو دو آزاد اور خود مختار مملکتوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ ایک ہندو اکثریت والی مملکت ''انڈیا'' اور دوسری مسلم اکثریت والی مملکت ''پاکستان''۔ دستاویزات کی روشنی میں تحریر کی جانے والی کتب سے اِس قدیم الزام کی بھی توثیق ہوجاتی ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن قیام پاکستان کا شدید مخالف تھا اور اُس نے آخری لمحہ تک اِس سمت میں اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔
اِن دستاویزات کے مندرجات سے یہ بات بھی مزید تقویت پاتی ہے کہ بلاشبہ یہ قائد اعظم کی مہارت ِ کار کشائی اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کا کرشمہ تھا کہ آپ نے تمام مخالف قوتوں کو بالآخر مطالبہ پاکستان کو حق بجانب تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔ ''ٹرانسفر آف پاور'' نامی کتاب کی دسویں گیارہویں اور بارہویں جلد میں شامل دستاویزات اور اِن کے مندرجات سے جس رہنما کی مدبرانہ صلاحیتیں سب سے زیادہ اجاگر ہوتی ہیں وہ بھی قائد اعظم ہیں۔ اِن دستاویزات کی روشنی میں عالمی سطح پر مورخین اور محققین نے قائد اعظم کی فراست اور قیادت کا فراخدلانہ اعتراف کیا اور واضح طور پر لکھا کہ اِس دور میں صرف قائد اعظم محمد علی جناح واحد رہنما تھے جنہوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنا موقف پیش کیا اور کسی مرحلہ پر بھی کسی سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔
جیسا کہ اسٹینلے والپرٹ اور ایچ ایم سیروائی نے لکھا ہے کہ قائد اعظم کے ہاتھوں تحریک پاکستان کے آخری مرحلہ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو قائد اعظم سے مذاکرات میں شدید ہزیمت اٹھانا پڑی اور اُس کے اکثر فیصلے چڑچڑاہٹ کی زد میں آگئے۔ دستاویزات کی روشنی میں تجزیہ نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اِسی ہزیمت کے نتیجہ میں ماؤنٹ بیٹن نے یہ طے کرلیا تھا کہ اگر اُسے تقسیم ہند پر مجبور ہونا پڑا تو وہ بنگال اور پنجاب کو بھی تقسیم کردے گا۔ اُس کا خیال تھا کہ اِس طرح اِن صوبوں کے مسلمانوں پر سے نہ صرف قائد اعظم کا اثر و رسوخ ختم ہوجائے گا بلکہ ایک ایسا پاکستان معرض وجود میں آئے گا جو ناقابلِ عمل ہوگا۔
ماؤنٹ بیٹن نے اپنے اِس مذموم لائحہ عمل سے کانگریسی رہنماؤں کو بھی آگاہ کردیا تھا جس کی بنا پر کانگریسی رہنما پاکستان کے معرضِ وجود میں آجانے کے بعد بھی ایک عرصہ تک اسے قابلِ عمل قرار دیتے رہے۔ سید ہاشم رضا کی مرتبہ کتاب سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ قائد اعظم نے ماؤنٹ بیٹن پلان کے تحت تقسیم کی اِس نوعیت کی شدید مخالفت کی۔ وہ ''کرم خوردہ'' یا ''کٹا پٹھا'' پاکستان قبول کرنے پر ہرگز تیار نہیں تھے۔ انہوں نے اِس ضمن میں نہایت سخت بیانات بھی جاری کیے۔
اُن کا خیال تھا کہ وہ بالآخر ماؤنٹ بیٹن یا حکومت برطانیہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ انصاف و معقولیت کے تقاضے کے پیش نظر مذکورہ دونوں صوبوں کو تقسیم نہ کیا جائے اور اِن دونوں صوبوں کو مکمل طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے مگر قائد اعظم کو اپنی اِن کوششوں میں صرف احتجاج کی حد تک کامیابی ہوئی کیونکہ ایک مرحلہ پر حکومت برطانیہ نے بھی ان دونوں صوبوں میں تقسیم کے سوال پر ریفرنڈم کرانے کی قائد اعظم کی تجویز کونہایت ہٹ دھرمی کے ساتھ مسترد کردیا۔
یہی نہیں بلکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تو اِس مرحلہ پر قائد اعظم سے یہاں تک کہہ دیا کہ ''اگر آپ نے اِس منصوبہ کو تسلیم نہیں کیا تو آپ اُس پاکستان سے بھی محروم ہوجائیں گے جس کے حصول کے لیے آپ برسوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔'' اِن حالات میں قائد اعظم کے پاس اِس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں تھا کہ وہ مشروط طور پر اِس منصوبہ کو منظور کرلیں۔
تقسیمِ ہند کی دستاویزات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے مشترکہ گورنر جنرل کی پیشکش کو ٹھکراکر قائد اعظم نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا تھا کیوں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی کانگریس نواز ذہنیت بہت واضح طور پر سامنے آچکی تھی اور اُس کی مزید کسی بات پر اعتماد و انحصار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے سید ہاشم رضا کی مرتبہ کتاب میں مشترکہ گورنر جنرل کے مسئلہ پر ایک علیحدہ باب میں سیر حاصل بحث کی ہے اور تقسیم ہند کی دستاویزات سے ہی قائد اعظم کے اِس دانشمندانہ فیصلہ کی وضاحت کی ہے۔
غرض 3؍جون 1947ء کو قائد اعظم نے آل انڈیا ریڈیو سے اِس منظوری کا اعلان کیا۔ اگرچہ انہوں نے اِس منصوبہ کی منظوری کا اعلان تاسّف کے ساتھ کیا لیکن اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے ''پاکستان زندہ باد'' کا نعرہ بلند کرکے یہ ثابت کردیا کہ انہوں نے جنگ جیت لی ہے۔ اس نعرے کی گونج ہندوستان کے طول و عرض میں سنائی دی گئی کانگریسی رہنماؤں کے ارادے پاش پاش ہوگئے اور 14؍اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
قائداعظم محمد علی جناح جو عرصۂ دراز سے مسلمانانِ ہند کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور 1938ء میں مسلمانوں کے قائد اعظم کے منصب پر فائز ہوچکے تھے، دراصل وہ اِس قرار داد کے روحِ رواں تھے اور انہی کی قیادت اور اِس قرارداد کی روشنی میں وہ عظیم جدوجہد شروع ہوئی جسے تاریخ میں تحریکِ پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ تحریک تقریباً سات سال چار ماہ اور 20 دن جاری رہی۔ اِس تحریک کا آغاز نہایت نامساعد اور حوصلہ شکن حالات میں ہوا تھا لیکن وقت کے ساتھ ہی ساتھ اِس تحریک کے خدّ و خال واضح ہوتے چلے گئے۔ اور مسلمانانِ ہند اِس تحریک کی کامیابی کے لیے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد و منظم ہوگئے۔
23؍مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد کے بعد جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا گیا مارچ 1942ء میں ایک سرکاری وفد نے جو ''کرپس مشن'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اپنی تجاویز پیش کیں۔ یہ تجاویز ہندوستان کی آئینی اصلاحات کے ضمن میں اِس بنا پر بڑی اہمیت کی حامل ہیں کہ اِن تجاویز میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر تقسیم ہند کے اصول کو تسلیم کیا گیاتھا۔ کرپس تجاویز کے بعد عمومی طور پر یہ محسوس کیا جانے لگا کہ ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل صرف تقسیم میں مضمر ہے۔
انہی تجاویز کے بعد آئندہ پانچ سال کے دوران مطالبۂ پاکستان ناگزیر ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ 3؍جون1947ء کو ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے کی ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے منظوری دے کر قیامِ پاکستان کی توثیق کردی۔
کرپس تجاویز اور ماؤنٹ بیٹن پلان کی درمیانی مدت تقریباً پانچ سال ہے اور یہ پانچ سال ہندوستان کی تاریخ کے نہایت اہم، پیچیدہ اور سنگین سال تھے۔ ایک طرف برطانیہ اپنے اقتدار کو سمیٹنے کی فکر میں تھا اور دوسری طرف آل انڈیا نیشنل کانگریس ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند نہیں تھی، جبکہ مسلم لیگ کسی قیمت پر بھی مطالبۂ پاکستان سے دستبردار ہونے کے لیے تیارنہیں تھی۔ ایسی صورت حال میں مارچ 1947ء میں ہندوستان کے نئے وائسرائے کی حیثیت سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا تقرر بڑے خدشات کا پیش خیمہ تھا کیوںکہ کانگریس کی قیادت سے اُن کے قریبی مراسم ڈھکے چھپے نہیں تھے۔
مورخین اور مبصرین نے اسی بنا پر اِس دورانیہ کو ہندوستان کی تاریخ کا سب سے پیچیدہ اور فیصلہ کن دورانیہ قرار دیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اِس دورانیہ پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے۔ اِن لکھنے والوں میں برطانیہ ، امریکا، بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے مورخین شامل ہیں اور ہر شخص نے اِس دورانیہ میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کی توضیح و تشریح اپنے اپنے زاویۂ نگاہ کے مطابق کی ہے جس کی بنا پر حقائق کچھ اِس طرح گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ آج بھی اِن تحریروں سے راست نتائج اخذ کرنے میں دشواری اور تذبذب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شاید اِس کی ایک واضح وجہ یہ بھی رہی کہ اِس دور سے متعلق سرکاری دستاویزات سربمہر تھیں لہٰذا 1947ء سے 1970ء تک اِس دورانیہ پر تحقیق کرنے والوں کو اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ثانوی ماخذ پر انحصار کرنا پڑا۔ پھر 1970ء کے بعد جب سرکاری دستاویزات منظر عام پر آنے لگیں تو مذکورہ بالا عرصہ میں تحریر کی جانے والی کتابوں کے بعض مندرجات نہ صرف ترمیم و توثیق طلب ہوگئے بلکہ بعض مورخین اور مبصرین کی کذب بیانیوں کا پردہ بھی چاک ہوگیا۔
اِس کے باوجود چند کتابیں اب بھی ایسی ہیں جو اپنے کچھ مشتبہ مندرجات کے باوجود اساسی حیثیت رکھتی ہیں اور آج بھی جب کہ بیشتر سرکاری دستاویزات سامنے آچکی ہیں اِن کتابوں کے مندرجات پر انحصار کرنے کی ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔ 1947ء سے 1970ء کے دوران اِس موضوع پر جو اہم کتابیں شایع ہوئیں اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں:۔
-1کیمبل جانسن، Mission with Mountbatten، (London 1951ء)
-2ای ڈبلیو آر لمبے، The Transfer of Power in India، (London 1954)
-3وی پی مینن، The Transfer of Power، Calcutta 1957) )
-4ابوالکلام آزاد، India wins Freedom، (Calcutta 1959))
-5لیونارڈ موسلے، The last days of British Raj، (London 1961)
-6چوہدری محمد علی، The Emergence of Pakistan، (New York 1967)
-7لطیف احمد شیروانی، Pakistan Resolution to Pakistan، (karachi 1969)
-8ایچ وی ہڈسن، The Great Divide، (London 1969)
1961ء میں لیونارڈ موسلے نے اپنی کتاب "The Last Days of British Raj" کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ ''ہندوستان میں انتقال اقتدار سے متعلق سرکاری دستاویزات 1999ء تک سرکاری طور پر کھولی جائیں گی۔ اِس لیے مجھے یقین ہے کہ پیش نظر کتاب اِس عبوری مدّت میں اُن حالات و واقعات پر روشنی ڈالتی رہے گی جو ہنوز مبہم ہیں''۔
لیونارڈ موسلے کی اس تحریر کے بعد مورخین اور تاریخ کے طالب علموں کو ہندوستان میں انتقال اقتدار کے بارے میں برطانوی موقف اور ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کی کار گزاریوں کو ماننے کے لیے مقررہ مدت تک انتظار نہیں کرنا پڑا کیونکہ 1967ء میں برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ ولسن نے اپنی حکومت کے اِس فیصلہ کا اعلان کیا کہ ہندوستان میں انتقالِ اقتدار سے متعلق تمام دستاویزات جلد شایع کردی جائیں گی اور دستاویزات کی اشاعت کے اِس کام پر ایک غیر جانبدار مورخ کو مامور کیا جائے گا جس کو اِن دستاویزات کے انتخاب، تدوین اور اشاعت کا مکمل اور آزادانہ اختیار ہوگا۔ ہیرالڈ ولسن کے اِس اعلان کے تحت انتقالِ اقتدار سے متعلق دستاویزات کا یہ سلسلہ ممتاز مورخ پروفیسر نکولاس مانسرج کی ادارت میں 1970ء سے 1983ء تک "Transfer of Power 1942-47" کے عنوان سے بارہ جلدوں میں شایع ہوا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔
اِن جلدوں میں کرپس مشن کی ہندوستان آمد سے لے کر 10؍اگست 1947ء تک کی دستاویزات شامل ہیں۔ خصوصاً دسویں جلد سے بارہویں جلد تک میں ماؤنٹ بیٹن کے دور سے متعلق دستاویزات شامل ہیں اور یہی دور ہندوستان کی آزادی، قیامِ پاکستان اور انتقال اقتدار کے ضمن میں آخری اور حتمی دور ہے۔ اس اعتبار سے اِن دستاویزات کے مطالعہ کے بغیر کوئی تحریر انتقالِ اقتدار اور قیام پاکستان کے ضمن میں معتبر اور واضح قرار نہیں پاسکتی۔
انتقالِ اقتدار کی مذکورہ بالا دستاویزات کی اشاعت کے دوران اور اُس کے بعد اکثر مورخین نے اِن دستاویزات کو بنیاد بناکر اپنی تحقیقات مکمل کی ہیں اور اِس دورانیہ سے متعلق متعدد نئے انکشافات و تجزئیے منظر عام پر آئے ہیں۔ اِن انکشافات و تجزیوں میں بھی اگرچہ محقق کا اپنا زاویۂ نگاہ موجود ہے لیکن دستاویزی حوالے اِس زاویۂ نگاہ کو بیک قلم منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ 1970ء سے 1990ء تک کے دو عشروں کے دوران اِن دستاویزات سے استفادہ کی بنیاد پر جو اہم کتابیں شایع ہوئی ہیں اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں:
-1پینڈرل مون، Wavell: The Viceroy's Journal، (New York 1973)
-2لیرے کولنز اینڈ ڈومینکولاپیر، Freedom at Midnight، (New York 1975)
-3لیرے کولنز اینڈ ڈومینکولاپیر، Mountbatten and the Partition of India، (New Delhi 1982)
-4پروفیسر زیگلر، Mountbatten: an Official Biography، (London 1985)
-5عائشہ جلال، The Sole Spoksman، (London 1985)
-6لطیف احمد شیروانی، The Partition of India and Mountbatten، (Karachi 1986)
-7ایچ ایم سیروائی، Legend and Reality: Partition of India، (Bombay 1989)
-8سیّد ہاشم رضا، Mountbatten and Pakistan، (Karachi 1984)
مذکورہ بالا کتب کے مطالعہ سے نہ صرف بے پناہ نئی معلومات سامنے آئی ہیں بلکہ یہ حقیقت بھی طے پاگئی ہے کہ انتقالِ اقتدار اور قیامِ پاکستان کے ضمن میں کوئی کتاب یا تجزیہ اب اُس وقت تک وقیع یا معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ 1942ء سے 1947ء کے دورانیہ سے متعلق دستاویزات سے بھرپور استفادہ نہ کیا جائے۔ مذکورہ بالا کتب کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد اور کانگریسی رہنما جواہر لال نہرو کا قریبی دوست تھا۔ وہ 22؍مارچ 1947ء کو ہندوستان پہنچا اور بہت تیزی سے اپنا کام شروع کردیا۔ تحریک پاکستان کے ایک صحافی سید حسن ریاض نے اپنی کتاب ''پاکستان ناگزیر تھا'' میں لکھا ہے کہ ''کوئی اور وائسرائے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر ہندوستان آیا ہویا نہیں لیکن ماؤنٹ بیٹن ہر طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے تھے اور انہوں نے اہتمام و تکلف کے ساتھ اپنے اوپر گھبراہٹ اور جلدی کی کیفیت طاری کررکھی تھی۔''
درحقیقت ماؤنٹ بیٹن کو بحیثیت وائسرائے نامزدگی سے قبل ہی ہندوستان کی سیاسی صورت حال سے نہ صرف کماحقہ آگاہی حاصل تھی بلکہ وہ ہندوستان اس ارادے کے ساتھ ہی آیا تھا کہ وہ ہندوستان کو حتی المقدور متحد رکھنے کی کوشش کرے گا۔ لطیف احمد شیروانی کی کتاب میں دستاویزات کی روشنی میں جو حقائق درج کیے گئے ہیں اُن سے نہ صرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کے درمیان ہندوستان میں انتقال اقتدار کے بارے میں وضاحت ہوتی ہے بلکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اُس مخاصمانہ روّیہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو اُس نے روزِ اوّل سے قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے اختیار کررکھا تھا۔
ماؤنٹ بیٹن نے اپنے ایک انٹرویو میں جو اُس نے ''لیرے کولنز''کو دیا تھا اِس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ''میں متحدہ ہندوستان پر پختہ یقین رکھتا تھا۔ اور میرا خیال تھا کہ میں ہندوستان کو متحد رکھنے کی ہرممکن کوشش کروں گا۔'' لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وائسرائے کے عہدے پر متمکن ہونے تک مطالبۂ پاکستان یعنی تقسیم ہند کے خلاف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے اپنے عہدے پر متمکن ہونے کے بعد سب سے پہلے جواہر لال نہرو سے ملاقات کی اور اِس ملاقات کے تقریباً بارہ دن بعد یعنی 5؍اپریل 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح سے مذاکرات کیے۔
لطیف احمد شیروانی کی تحقیق کے مطابق ابتداً ماؤنٹ بیٹن ''کیبنٹ مشن پلان'' کے تحت ہندوستان میں ایک متحدہ حکومت کے قیام کے لیے کوشش کرتا رہا لیکن آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ گفت و شنید کے پہلے دو ہفتوں میں ہی اُسے یقین ہوگیا کہ ''کیبنٹ مشن پلان'' کے نفاذ پر اصرار جاری رکھنا بالکل بے سود ہے اور اِسی یقین نے کسی دوسرے متبادل منصوبہ کی جانب اُس کی رہنمائی کی۔
بقول لطیف احمد شیروانی: ''دراصل ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستانی رہنماؤں سے مذاکرات کے دوران میں ہی ایک متبادل منصوبہ تیار کرلیا تھا''۔ ماؤنٹ بیٹن کے پیپرز سے یہ بات ثابت ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ چوںکہ کانگریس کی طرف تھا اس لیے وہ ہر مرحلہ پر کانگریسی رہنماؤں سے صلاح و مشورے کرتا رہا۔ ایک بھارتی محقق ایچ ایم سیروائی نے لکھا ہے کہ : ''جب ایک مرتبہ ماؤنٹ بیٹن نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ''کیبنٹ مشن پلان'' ناکارہ ہوگیا ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار کیا جائے۔''
بحیثیت وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دور کی سرکاری دستاویزات بھی اِس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنے وضع کردہ تقسیم ہند کے منصوبہ کی تیاری کے دوران بظاہر یہی ظاہر کرتا رہا کہ اُس کی حیثیت ایک غیر جانبدار کی سی ہے لیکن اُس نے اپنے منصوبہ سے متعلق تمام دستاویزات دوستانہ جذبات سے مغلوب ہوکر جواہر لال نہرو کو دکھادی تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اُس نے نہرو کی اِس ضمن میں تجاویز کو قبول کیا اور محمد علی جناح کو بتائے بغیر اور اُن کا رد عمل معلوم کیے بغیر اِن تجاویز کی روشنی میں اپنے پلان میں ترمیم و اضافے کیے۔ بہرحال اب یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ تقسیم ہند کے سلسلے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہر مرحلہ پر جانبداری کا ثبوت دیا اور دانستہ یہ کوشش کی کہ اُس کے منصوبہ کے زیادہ سے زیادہ فوائد کانگریس کو پہنچیں۔
چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 26؍اپریل 1947ء کو ماؤنٹ بیٹن نے اپنے چیف آف اسٹاف لارڈ اسمے اور جارج ایبل کو لندن بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ مذکورہ منصوبے کے ابتدائی مسودہ کی ہر شق پر حکومت برطانیہ اور متعلقہ حکام سے صلاح و مشورہ کیا جاسکے۔ اِس منصوبہ کے تحت جزیرہ نمائے ہند کو دو آزاد اور خود مختار مملکتوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ ایک ہندو اکثریت والی مملکت ''انڈیا'' اور دوسری مسلم اکثریت والی مملکت ''پاکستان''۔ دستاویزات کی روشنی میں تحریر کی جانے والی کتب سے اِس قدیم الزام کی بھی توثیق ہوجاتی ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن قیام پاکستان کا شدید مخالف تھا اور اُس نے آخری لمحہ تک اِس سمت میں اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔
اِن دستاویزات کے مندرجات سے یہ بات بھی مزید تقویت پاتی ہے کہ بلاشبہ یہ قائد اعظم کی مہارت ِ کار کشائی اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کا کرشمہ تھا کہ آپ نے تمام مخالف قوتوں کو بالآخر مطالبہ پاکستان کو حق بجانب تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔ ''ٹرانسفر آف پاور'' نامی کتاب کی دسویں گیارہویں اور بارہویں جلد میں شامل دستاویزات اور اِن کے مندرجات سے جس رہنما کی مدبرانہ صلاحیتیں سب سے زیادہ اجاگر ہوتی ہیں وہ بھی قائد اعظم ہیں۔ اِن دستاویزات کی روشنی میں عالمی سطح پر مورخین اور محققین نے قائد اعظم کی فراست اور قیادت کا فراخدلانہ اعتراف کیا اور واضح طور پر لکھا کہ اِس دور میں صرف قائد اعظم محمد علی جناح واحد رہنما تھے جنہوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنا موقف پیش کیا اور کسی مرحلہ پر بھی کسی سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔
جیسا کہ اسٹینلے والپرٹ اور ایچ ایم سیروائی نے لکھا ہے کہ قائد اعظم کے ہاتھوں تحریک پاکستان کے آخری مرحلہ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو قائد اعظم سے مذاکرات میں شدید ہزیمت اٹھانا پڑی اور اُس کے اکثر فیصلے چڑچڑاہٹ کی زد میں آگئے۔ دستاویزات کی روشنی میں تجزیہ نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اِسی ہزیمت کے نتیجہ میں ماؤنٹ بیٹن نے یہ طے کرلیا تھا کہ اگر اُسے تقسیم ہند پر مجبور ہونا پڑا تو وہ بنگال اور پنجاب کو بھی تقسیم کردے گا۔ اُس کا خیال تھا کہ اِس طرح اِن صوبوں کے مسلمانوں پر سے نہ صرف قائد اعظم کا اثر و رسوخ ختم ہوجائے گا بلکہ ایک ایسا پاکستان معرض وجود میں آئے گا جو ناقابلِ عمل ہوگا۔
ماؤنٹ بیٹن نے اپنے اِس مذموم لائحہ عمل سے کانگریسی رہنماؤں کو بھی آگاہ کردیا تھا جس کی بنا پر کانگریسی رہنما پاکستان کے معرضِ وجود میں آجانے کے بعد بھی ایک عرصہ تک اسے قابلِ عمل قرار دیتے رہے۔ سید ہاشم رضا کی مرتبہ کتاب سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ قائد اعظم نے ماؤنٹ بیٹن پلان کے تحت تقسیم کی اِس نوعیت کی شدید مخالفت کی۔ وہ ''کرم خوردہ'' یا ''کٹا پٹھا'' پاکستان قبول کرنے پر ہرگز تیار نہیں تھے۔ انہوں نے اِس ضمن میں نہایت سخت بیانات بھی جاری کیے۔
اُن کا خیال تھا کہ وہ بالآخر ماؤنٹ بیٹن یا حکومت برطانیہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ انصاف و معقولیت کے تقاضے کے پیش نظر مذکورہ دونوں صوبوں کو تقسیم نہ کیا جائے اور اِن دونوں صوبوں کو مکمل طور پر پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے مگر قائد اعظم کو اپنی اِن کوششوں میں صرف احتجاج کی حد تک کامیابی ہوئی کیونکہ ایک مرحلہ پر حکومت برطانیہ نے بھی ان دونوں صوبوں میں تقسیم کے سوال پر ریفرنڈم کرانے کی قائد اعظم کی تجویز کونہایت ہٹ دھرمی کے ساتھ مسترد کردیا۔
یہی نہیں بلکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تو اِس مرحلہ پر قائد اعظم سے یہاں تک کہہ دیا کہ ''اگر آپ نے اِس منصوبہ کو تسلیم نہیں کیا تو آپ اُس پاکستان سے بھی محروم ہوجائیں گے جس کے حصول کے لیے آپ برسوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔'' اِن حالات میں قائد اعظم کے پاس اِس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں تھا کہ وہ مشروط طور پر اِس منصوبہ کو منظور کرلیں۔
تقسیمِ ہند کی دستاویزات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے مشترکہ گورنر جنرل کی پیشکش کو ٹھکراکر قائد اعظم نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا تھا کیوں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی کانگریس نواز ذہنیت بہت واضح طور پر سامنے آچکی تھی اور اُس کی مزید کسی بات پر اعتماد و انحصار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے سید ہاشم رضا کی مرتبہ کتاب میں مشترکہ گورنر جنرل کے مسئلہ پر ایک علیحدہ باب میں سیر حاصل بحث کی ہے اور تقسیم ہند کی دستاویزات سے ہی قائد اعظم کے اِس دانشمندانہ فیصلہ کی وضاحت کی ہے۔
غرض 3؍جون 1947ء کو قائد اعظم نے آل انڈیا ریڈیو سے اِس منظوری کا اعلان کیا۔ اگرچہ انہوں نے اِس منصوبہ کی منظوری کا اعلان تاسّف کے ساتھ کیا لیکن اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے ''پاکستان زندہ باد'' کا نعرہ بلند کرکے یہ ثابت کردیا کہ انہوں نے جنگ جیت لی ہے۔ اس نعرے کی گونج ہندوستان کے طول و عرض میں سنائی دی گئی کانگریسی رہنماؤں کے ارادے پاش پاش ہوگئے اور 14؍اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔