پاکستان ایک نظر میں ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو تمام مذہبی، قومی، لسانی اختلافات کو پسِ پُشت ڈال کر ایک قوم بننا ہوگا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ !!
آج جب اقبالؒ کا یہ شعر نظروں سے گزرا تو پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر جتنے بھی سوالات میرے ذہن میں جنم لیتے آ رہے تھے گویا اُن تمام کا جواب اِسی ایک شعر میں ہی مجھے مل گیا ہو۔
تھوڑی دیر اگر ہم سب اپنی ذات پہ غور کریں تو ہم میں سے تقریباََ ہر کوئی پاکستان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے، اور بنیادی حقوق نہ ملنے کی صورت میں گلہ،شکوہ زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ ہم نے کبھی اِس امر کو ضروری نہیں گردانا کہ جہاں حقوق کے حصول کا واویلہ مچایا جاتا ہے وہاں سب سے پہلے اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنایا جاتا ہے، پھر جاکر حقوق کے مطالبے کا علم بلند کیا جاتا ہے۔
آج ہم سب نے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوکر صرف سیاستدانوں پہ مکمل تکیہ کیا ہوا ہے کہ وہ ہماری حالت کو سدھاریں گے؟ تو یہ محض ایک دیوانے کے خواب کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر یہی سوچ ہماری رہی تو ہم خاکم بدہن مزید خستہ حالی کا شکار ہوتے جائیں گے۔ ہم اس جدید مشینی دور میں ذہنی اور جسمانی طور پہ سہل پسند ہو گئے ہیں کہ بس سب کچھ خود بخود ہو جائے اور ہمیں کوئی محنت، کوئی مشقت بھی نہ اٹھانی پڑے۔ اسی وجہ سے تو ہمارے منتخب کردہ اربابِ اقتدار بھی ہماری سوچ کو عملی جامہ پہناتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ آخر جیسی عوام الناس کی سوچ ہوگی ویسا ہی ان کے حکمرانوں کا عمل ہوگا۔ تو پھر ایسی سوچ رکھتے ہوئے، اور اپنی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے حکمرانوں کو منختب کرکے ملک کو ان کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر اپنے بنیادی حقوق نہ ملنے پر شور مچانا یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔
ہم اپنے اپنے کام، کاروبار، دفاتر میں تو بددیانتی بڑی خوش اصلوبی سے کرتے ہیں، پر جب کبھی گفتگو کے دوران کسی بددیانت سیاستدانوں کا ذکر ہوتا ہے تو ہم انھیں خرافات بکنا شروع ہوجاتے ہیں اور ان کے احتساب کی بات کرتے ہیں۔ اشیائےخوردو نوش میں ملاوٹ کرنے والے ہم، ذخیرہ اندوزی کرنے والے ہم، اپنی من مانی قیمتوں کا اطلاق کرنے والے ہم۔ اور گلہ،شکوہ صرف حکومت سے؟ اور پاکستان کو بُرا کہنا یہ تو خیر صریح ناانصافی ہے۔
اس کا حل یہی ہے کہ ہم سب کو سب سے پہلے تمام مذہبی، قومی، لسانی، اور صوبائی تمام تر اختلافات کو پسِ پُشت ڈال کر ایک قوم بننا ہوگا، ویسی ہی ایک قوم جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا، ویسی ہی ایک قوم جیسا کہ ہمارے قائدؒ ہمیں بنانا چاہتے تھے۔ ایمان، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کی پابند ویسی ہی ایک قوم بننا ہوگا۔ اُس کے بعد ہمیں اپنی ذات سے اصلاح شروع کرنی ہوگی۔ کیونکہ ہر ایک فرد سے ملت کا مقدر جڑا ہوا ہے۔ ہر فرد کو اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنے حصے کا کام خود کرنا ہے، دوسروں پہ تکیہ نہیں کرنا۔ ہمیں خود کو بہترین پاکستانی بنانا ہوگا۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں ناں کہ قطرہ قطرہ باہم شود دریا۔ اسی طرح جب ہم اچھائی کو اپنائیں گے تو ہمارے گردونواح کے لوگ بھی اُس اچھائی کی طرف مائل ہونگیں۔
آئیں اس یومِ آزادی پہ مل کر یہ عزم کریں کہ ہم سب سے پہلے اپنے فرائض خوشنودی سے سرانجام دیں گے، پھر اپنے حقوق کی بات کریں گے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پہ عمل کریں گے تبھی یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بنے گا۔ آزادی ایک نعمت ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے۔ ذرا دیکھیں تو سہی جو قومیں آزاد نہیں اُن کا کیا حال ہے؟ کشمیر، فلسطین، چیچنیا ان پہ کتنے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں؟ اور ہم ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں یا بے حِس ہو گئے ہیں۔ اپنے رب کا کا شُکر ادا کیجیئے کہ آج کے دِن کہ ہم آزاد فضا میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں اور آزادی سے اپنے مزہبی، روایتی اور سماجی تہوار مناتے ہیں۔ کم از کم اگر ہم مُلک کے لیئے کچھ اور نہیں کر سکتے تو گلہ، شکوہ بھی نہ کریں۔ صرف اپنی ذات کو سدھاریں، اور حالات کی بہتری کی ڈُعا کریں۔ باقی سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ !!
آج جب اقبالؒ کا یہ شعر نظروں سے گزرا تو پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر جتنے بھی سوالات میرے ذہن میں جنم لیتے آ رہے تھے گویا اُن تمام کا جواب اِسی ایک شعر میں ہی مجھے مل گیا ہو۔
تھوڑی دیر اگر ہم سب اپنی ذات پہ غور کریں تو ہم میں سے تقریباََ ہر کوئی پاکستان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے، اور بنیادی حقوق نہ ملنے کی صورت میں گلہ،شکوہ زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ ہم نے کبھی اِس امر کو ضروری نہیں گردانا کہ جہاں حقوق کے حصول کا واویلہ مچایا جاتا ہے وہاں سب سے پہلے اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنایا جاتا ہے، پھر جاکر حقوق کے مطالبے کا علم بلند کیا جاتا ہے۔
آج ہم سب نے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوکر صرف سیاستدانوں پہ مکمل تکیہ کیا ہوا ہے کہ وہ ہماری حالت کو سدھاریں گے؟ تو یہ محض ایک دیوانے کے خواب کے سوا اور کچھ نہیں۔ اگر یہی سوچ ہماری رہی تو ہم خاکم بدہن مزید خستہ حالی کا شکار ہوتے جائیں گے۔ ہم اس جدید مشینی دور میں ذہنی اور جسمانی طور پہ سہل پسند ہو گئے ہیں کہ بس سب کچھ خود بخود ہو جائے اور ہمیں کوئی محنت، کوئی مشقت بھی نہ اٹھانی پڑے۔ اسی وجہ سے تو ہمارے منتخب کردہ اربابِ اقتدار بھی ہماری سوچ کو عملی جامہ پہناتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ آخر جیسی عوام الناس کی سوچ ہوگی ویسا ہی ان کے حکمرانوں کا عمل ہوگا۔ تو پھر ایسی سوچ رکھتے ہوئے، اور اپنی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے حکمرانوں کو منختب کرکے ملک کو ان کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر اپنے بنیادی حقوق نہ ملنے پر شور مچانا یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔
ہم اپنے اپنے کام، کاروبار، دفاتر میں تو بددیانتی بڑی خوش اصلوبی سے کرتے ہیں، پر جب کبھی گفتگو کے دوران کسی بددیانت سیاستدانوں کا ذکر ہوتا ہے تو ہم انھیں خرافات بکنا شروع ہوجاتے ہیں اور ان کے احتساب کی بات کرتے ہیں۔ اشیائےخوردو نوش میں ملاوٹ کرنے والے ہم، ذخیرہ اندوزی کرنے والے ہم، اپنی من مانی قیمتوں کا اطلاق کرنے والے ہم۔ اور گلہ،شکوہ صرف حکومت سے؟ اور پاکستان کو بُرا کہنا یہ تو خیر صریح ناانصافی ہے۔
اس کا حل یہی ہے کہ ہم سب کو سب سے پہلے تمام مذہبی، قومی، لسانی، اور صوبائی تمام تر اختلافات کو پسِ پُشت ڈال کر ایک قوم بننا ہوگا، ویسی ہی ایک قوم جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا، ویسی ہی ایک قوم جیسا کہ ہمارے قائدؒ ہمیں بنانا چاہتے تھے۔ ایمان، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کی پابند ویسی ہی ایک قوم بننا ہوگا۔ اُس کے بعد ہمیں اپنی ذات سے اصلاح شروع کرنی ہوگی۔ کیونکہ ہر ایک فرد سے ملت کا مقدر جڑا ہوا ہے۔ ہر فرد کو اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنے حصے کا کام خود کرنا ہے، دوسروں پہ تکیہ نہیں کرنا۔ ہمیں خود کو بہترین پاکستانی بنانا ہوگا۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں ناں کہ قطرہ قطرہ باہم شود دریا۔ اسی طرح جب ہم اچھائی کو اپنائیں گے تو ہمارے گردونواح کے لوگ بھی اُس اچھائی کی طرف مائل ہونگیں۔
آئیں اس یومِ آزادی پہ مل کر یہ عزم کریں کہ ہم سب سے پہلے اپنے فرائض خوشنودی سے سرانجام دیں گے، پھر اپنے حقوق کی بات کریں گے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات پہ عمل کریں گے تبھی یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بنے گا۔ آزادی ایک نعمت ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے۔ ذرا دیکھیں تو سہی جو قومیں آزاد نہیں اُن کا کیا حال ہے؟ کشمیر، فلسطین، چیچنیا ان پہ کتنے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں؟ اور ہم ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں یا بے حِس ہو گئے ہیں۔ اپنے رب کا کا شُکر ادا کیجیئے کہ آج کے دِن کہ ہم آزاد فضا میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں اور آزادی سے اپنے مزہبی، روایتی اور سماجی تہوار مناتے ہیں۔ کم از کم اگر ہم مُلک کے لیئے کچھ اور نہیں کر سکتے تو گلہ، شکوہ بھی نہ کریں۔ صرف اپنی ذات کو سدھاریں، اور حالات کی بہتری کی ڈُعا کریں۔ باقی سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔