میڈیا واچ ڈاگ ’’پیارے افضل‘‘
''دعا مانگ کر بھی ڈرتے رہو تو لگے کا کہ تمہیں قبول کرنے والے پر بلکل اعتبار نہیں ہے۔
گویا کہ لعنت ہے ایسی دعا مانگنے پر''
''مرنے سے ڈر نہیں لگتا یار، مگر جینے کا بہت دل کرتا ہے''۔
''پیار اگر پیار سے کچھ زیادہ ہو تو کیا ہوتا ہے؟''۔
'' اب بے ادبی کرنا مجھ پر واجب ہوگئی ہے''
کہیں سنی ہے ایسی باتیں؟ نہیں نا؟۔ دل کو چھو جانے والی۔ دل دہلا دینے والی۔ بلکہ یوں کہئے کہ جان نکال دینے والی۔ ندیم بیگ کی ڈائریکشن، سیکستھ سگما کی پیشکش اور مصنف خلیل الرحمان کی انتکھ محنت سے بنائے گئے ڈرامہ سیریل ''پیارے افضل'' نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے دیئے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہرگز نہیں کہ '' ایک تھا افضل'' یا اس ڈرامے کا مرکزی خیال، اداکار وغیرہ وغیرہ کیا تھے۔
شاذ و نادر ہی حمزہ علی عباسی یعنی پیارے افضل کو نہیں جانتا ہوگا۔ نوجوان، بچے یہاں تک کہ بوڑھوں نے بھی اس رومانٹک کامیڈی ڈرامہ سیریل کی کوئی بھی قسط نہیں چھوڑی ہو۔ دکھ ، درد، شرارتوں اور مسکراہٹ سے بھرے اس ڈرامے کے یادیں اختتام کے باوجود لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، سوائے ایک یاد کے، جب حمزہ علی عباسی کو گولی لگی تو لوگوں کے دلوں کے دھڑکنیں تھم سی گئیں، وقت رک سا گیا۔ بہت سے لوگوں کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔
فوٹو: فیس بک
ارے نہیں میں مذاق نہیں کررہی۔ دیکھیں اور لوگوں کے دکھ کو محسوس کریں۔
پیارے افضل، عشق ممنون کے بعد وہ واحد پاکستانی ڈرامہ سیریل ہے جس کی آخری قسط چار بڑے شہروں کے سنیما گھروں کی زینت بنی۔ یہاں تک کہ ہمارے شیر دل وزیراعظم بھی پیارے افضل کی مقبولیت سے پریشان ہوگئے ہیں۔
اب ظاہر ہے جب وزیراعظم کی تقریر کے مقابلے میں پیارے افضل کی ریٹنگ اوپر جائے گی تو ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو کتنا زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ خاص طور پر جب ملک اتنے نازک دور سے گزر رہا ہے کہ تیز ہوا بھی چلے تو در و دیوار لرز جاتے ہیں۔ مشتعل لوگوں نے تو افضل کی موت پر وزیراعظم سے استعفے مطالبہ کردیا اور ساتھ ہی بدلہ لینے کا بھی عندیہ دے ڈالا۔
مجھے تو لگتا ہے کہ جتنا دکھ اس قوم کو افضل کی دردناک موت پر ہوا ہے اتنا تو ملک کی بگڑی ہوئی امن و امان کی صورتحال پر بھی نہیں ہوا ہوگا۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے آغاز میں ہی اپنے عروج کی داستانیں رقم کی ہیں۔ 8 بجتے ہیں گلیاں اور سڑکیں سنسان ہوجاتیں، ہر قسط کے بعد اگلی قسط تک اسی ڈرامے کے کرداروں، ڈائیلاگس، انداز و اطوار کا ذکر ہوتا رہتا۔ خدا کی بستی اور تنہائیوں جیسے سالوں پرانے بنے ڈرامے آج بھی لگادیئے جائیں تو لوگ چینل بدلنا بھول جائیں۔
وقت گزرتا چلا گیا اور چینلوں کی بھرمار میں ڈرامے کے حقیقی معنی کہیں کھو گئی۔ عرصہ گزرنے کے بعد 'ہمسفر' اور 'زندگی گلزار ہے' نے پاکستانی ڈراموں کی رونقیں لوٹائیں، اور ان کے بعد پیارے افضل ہی وہ واحد ڈرامہ تھا جس کے شروع ہوتے ہی لوگ کام کاج چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے ربوٹ بن کر بیٹھ جاتے، اور جس نے ڈرامہ انڈسٹری کی تاریخ میں ریٹنگ کے چار چاند لگادیئے۔
پیارے افضل کی شاندار کامیابی کے بعد، مجھے جیسے بہت سے پرستار یہ امید کرتے ہیں کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری ایک بار پھر اپنے عروج کی جانب رواں دواں ہے۔ ڈرامے آتے رہیں اور ہمیں اپنے ہر طرح کے جذباتوں کی ترجمانی کا موقع ملتا رہے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔