پھر اڑتے پتوں کے پیچھے
عبدالمجید خاں نے پہلے سفر نامے میں مشرقی پنجاب کا ’’رج‘‘ (جی بھر کے) ذکر کیا ہے ...
رانا عبدالمجید خاں کا یہ دوسرا سفرنامہ ہے۔ پہلے سفرنامے کا عنوان ''اڑتے پتوں کے پیچھے'' تھا۔ ایک پتہ شاخ سے ٹوٹ کر ہوا کا ہوا، اور عبدالمجید خاں اس اڑتے پتے کے پیچھے چلتے چلتے واہگہ بارڈر پہنچ گئے، وہاں رک کر بارڈر پار کرتے ہوئے پتے کو دیکھا تو جالب کے شعر کی صورت پتے سے درخواست کی:
میں بھی ہوں تری طرح سے آوارہ و بیکار
اڑتے ہوئے پتے مجھے ہمراہ لیے چل
پتے نے مڑ کر مجید خاں کو دیکھا، مسکرایا اور بولا ''چل آجا'' یوں پہلا سفرنامہ شروع ہوا۔ کرکٹ میچ دیکھنے کا تو بہانہ تھا۔ اصل اگن جو بھڑک رہی تھی وہ اپنے آبا و اجداد اپنے پرکھوں کی مٹی کو چومنا تھا، آنکھوں سے لگانا تھا۔ واہگہ پار کرتے ہی مجید خاں کنڈے کنڈے دیکھتے چلے گئے جہاں راوی اور چناب بہتے تھے زمین کا بٹوارہ ہوا تو دریا بھی بٹ گئے اور ایک دن راوی کا قدرتی بہاؤ بھی روک دیا گیا۔ یوں پاکستانی راوی بارشی نالہ بن کر رہ گیا۔
عبدالمجید خاں نے پہلے سفر نامے میں مشرقی پنجاب کا ''رج'' (جی بھر کے) ذکر کیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے پنڈ (گاؤں) پہنچ گئے۔ مشرقی پنجاب میں بٹوارے کے بعد مسلمان ٹاواں ٹاواں بھی نہیں ملتے، جیسے اپنے ادھر مغربی پنجاب میں ہندو سکھ نہیں ملتے۔ ادھر ادھر کے ہندو مسلم سکھ بٹوارے میں کام آگئے۔ عبدالمجید خاں کے میزبان انھیں ان کے گاؤں لے گئے تھے۔ جہاں مجید خاں کی ملاقات چند عمر رسیدہ حضرات سے ہوئی کہ جو مجید خاں کے باپ دادا کو خوب جانتے تھے، بزرگ چھلکتی آنکھوں کے ساتھ مجید خاں کو گلے لگا کر ان کے باپ، چاچے، مامے اور دادوں کا ذکر کر رہے تھے۔
تب بھی میرے سینے میں ہوک اٹھی تھی۔ جب میں نے مجید خاں کا پہلا سفر نامہ پڑھا تھا اور آج پھر میں اسی کیفیت میں پہنچ گیا ہوں۔ میں بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مشرقی پنجاب (انڈیا) میں تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیار پور کے گاؤں میانی افغاناں میں پیدا ہوا تھا۔ اپنی جنم بھومی سے میرے عشق کو بھائی حبیب جالب کی شاعری نے اور ہوا دی۔ بھائی کی آدھی شاعری اپنے گاؤں کی یاد میں ہے، ان ہی یادوں کو استعارے بنا بناکر بھائی جالب نے اپنے دل کی باتیں کی ہیں۔
میرا بھی بڑا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے گاؤں ''میانی پٹھانا دی'' جاؤں اور مولک رام کا دروازہ کھٹکھٹاؤں، بوڑھا مولک رام باہر آئے تو میں اسے بتاؤں کہ میں مشتاق کا حبیب کا چھوٹا بھائی ہوں۔ سچ مانیں جب جب محترم عبدالقادر حسن اپنے گاؤں جاتے ہیں اور وہاں کی باتیں کرتے ہیں تو میں رشک بھری نگاہوں سے گاؤں کے بیان کردہ نظاروں کو تصور میں دیکھتا ہوں۔ عبدالقادر حسن خوش قسمت ہیں کہ ان کا گاؤں ''ادھر'' ہے۔ میرا گاؤں بھی واہگے سے سترکوس ادھر ہے۔ مگر صدیوں کا پینڈا (فاصلہ) ہے۔
خیر یہ تو رانا عبدالمجید خاں کے سفر نامے کی وجہ سے میانی افغاناں کا بھی ذکر ہوگیا۔ رانا مجید اب پکے لاہوریے ہیں۔ ملازمتایک پرائیویٹ ادارے میں کی، وہاں آڈٹ آفیسر رہے، اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری کی وجہ سے شہر شہر گاؤں گاؤں خوب گھومے پھرے ہیں اور پھر اسی گھمائی پھرائی نے انھیں سفر کا دلدادہ بنا دیا۔ اب جب کہ وہ ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں تو انھوں نے اپنے پاس موجود ڈائریوں کو کھنگالنا شروع کیا، مختلف نوٹس کو جمع کیا پھر یادوں کے جھروکے کھلتے گئے اور وہ سفر نامہ لکھتے گئے۔
''پھر اڑتے پتوں کے پیچھے'' میں سفر حجاز، ایران اور ساتھ ساتھ اپنے وطن کے مختلف علاقوں، بلوچستان، کاغان، ناران، ڈیرہ غازی خان۔ ڈیرہ غازی خان سے صوبہ بلوچستان کی طرف سفر کرتے خطرناک پہاڑی راستے اور پھر بلوچستان کا پہلا شہر لورا لائی۔ اس کتاب میں مسافر جہاں جہاں سے گزرا وہاں وہاں کی تاریخ، تہذیب و تمدن، سماجی، ثقافتی اور معاشی حالات کا تفصیلاً تذکرہ کیا ہے جسے پڑھ کر خاص کیف و سرور ملتا ہے۔ میں چاہوں بھی تو وہ تفصیل یہاں بیان نہیں کرسکتا کہ مختصر کالم میں یہ ممکن نہیں ہے، پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ ایک آدھ فقرہ مسافر کے رستے چنتا جاؤں۔
''محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، روحانی حوالے سے حضرت سخی سرور، خواجہ سلیمان تونسوی اور شاعر حسن و جمال حضرت خواجہ غلام فرید کا فیض جاری ہے۔'' حضرت سخی سرور کا تفصیلی ذکر کتاب میں موجود ہے، جن کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادق بن زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ کوہلو بھی رستے میں آتا ہے، جہاں کا سیب بڑا مشہور ہے۔
فورٹ منرو، ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک پہاڑی مقام ہے، سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند یہ سرد مقام ہے۔ اسے انگریز جرنیل منرو نے آباد کیا تھا، جو ملتان میں تعینات تھا، اور گرمیوں میں اپنا دفتر فورٹ منرو میں لگاتا تھا۔ بلوچستان میں پہلا مقام بارکھان آیا، بارکھان پنجاب کا گیٹ وے بھی کہلاتا ہے ، لورالائی کا تفصیلی تذکرہ کتاب میں موجود ہے، ایک خاص واقعہ کتاب سے نقل کر رہا ہوں۔
''1938 میں باران خان نے خدائی خدمت گار خان عبدالغفار خان کو لورا لائی آنے کی دعوت دی اور وہاں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا، انجمن وطن کے بانی عبدالصمد خان اچکزئی بھی تشریف لائے، رات عبدالصمد خان اچکزئی اور باچا خان (خان عبدالغفار خان) نے باران خان کے حجرے میں اکٹھے کھانا کھایا۔ کچلاک راستے میں آیا۔ جہاں کے سیب، خوبانی، آڑو اور بادام مشہور ہیں۔
زیارت قائد اعظم نے جہاں اپنی زندگی کے چند آخری ایام گزارے۔ اس شہر کی ٹھنڈی ہواؤں اور بہتے چشموں کے ساتھ پھلوں کا ذکر خوب ہے۔ ملاں طاہر بابا خراواری کے مزار جہاں بے نظیر بھٹو بھی دعا کے لیے حاضر ہوئی تھیں۔ کوئٹہ کے لغوی معنی قلعے کے ہیں اور کوئٹہ کا بھی تفصیلی ذکر تاریخ جغرافیے کے ساتھ کتاب میں موجود ہے۔ مسافر رانا عبدالمجید خان کا سفر جاری ہے۔ اور اب وہ مستونگ سے ہوتے ہوئے ایرانی بارڈر تفتان پہنچ گئے ہیں ادھر ایران میں ''میرجاوہ'' بارڈر پر موجود مقام ہے۔
زاہدان، ایران کے صوبہ بلوچستان اور سیستان کا صدر مقام ہے یہ بلوچی اور سیستانی باشندوں کا شہر ہے۔ فارسی، خراسانی اور سیستانی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مشہد شہر، مشہد عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں جائے شہادت مسلمانوں کے لیے مقدس شہر ہے۔ امام رضا کا روضہ اسی شہر میں ہے، شاہنامہ کے شاعر فردوسی دوسرا بڑا حوالہ بنے باقی تاریخ جغرافیہ کتاب میں تفصیلاً موجود ہے، مسافر کا اتنا کہا اور لکھ دوں ''مشہد'' زمین پر جنت کا نمونہ ہے۔'' ایران کا جس قدر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کتاب کے مصنف نے اکتوبر 2011 میں حج بیت اللہ اور روضہ رسول پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔ یوں سفرنامے میں حج کی تمام تفصیل شامل ہوگئی ہے۔ جدہ ایئرپورٹ سے مکہ شریف، مدینہ شریف، مکہ میں بیت اللہ شریف، میدان عرفات، منیٰ، مزدلفہ، مدینہ شریف میں روضہ رسول، مسجد نبوی، جنت البقیع، احد کا میدان، یادگار مساجد، جدید سعودی عرب کا احوال، سب کچھ تفصیل سے بیان کیا گیا۔
کتاب میں اوچ شریف کا بھی تفصیلی ذکر ہے جہاں سوا لاکھ بزرگوں کے مزارات ہیں، سیہون شریف، شاہ لطیف بھٹائی، ہالہ شریف، شکار پور، دادو اور اس شہر میں کلہوڑوں کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد۔ اسی کتاب میں ملکہ نور جہاں کا ذکر بھی ہے، یوں مغل اعظم، مغل بادشاہ اکبر کے دربار، محل کی راہداریوں، بارہ دریوں، جھروکوں، باغات میں جنم لیتی داستانوں کا بھی ذکر ہے۔
سفر نامے کا مسافرکاغان، سوات، دریائے کنہار کے دونوں کناروں پر آباد بالاکوٹ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ناران، سہالہ، کہوٹہ کی حسین وادیوں میں بھی قاری کو ساتھ لیے گھومتا پھرتا ہے۔ ''پھر اڑتے پتوں کے پیچھے'' اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر بکھرے خوبصورت ترین رنگوں کا بہت اچھا اظہار ہے۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب دلچسپ بھی ہے اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گائیڈ بھی ہے۔
میں بھی ہوں تری طرح سے آوارہ و بیکار
اڑتے ہوئے پتے مجھے ہمراہ لیے چل
پتے نے مڑ کر مجید خاں کو دیکھا، مسکرایا اور بولا ''چل آجا'' یوں پہلا سفرنامہ شروع ہوا۔ کرکٹ میچ دیکھنے کا تو بہانہ تھا۔ اصل اگن جو بھڑک رہی تھی وہ اپنے آبا و اجداد اپنے پرکھوں کی مٹی کو چومنا تھا، آنکھوں سے لگانا تھا۔ واہگہ پار کرتے ہی مجید خاں کنڈے کنڈے دیکھتے چلے گئے جہاں راوی اور چناب بہتے تھے زمین کا بٹوارہ ہوا تو دریا بھی بٹ گئے اور ایک دن راوی کا قدرتی بہاؤ بھی روک دیا گیا۔ یوں پاکستانی راوی بارشی نالہ بن کر رہ گیا۔
عبدالمجید خاں نے پہلے سفر نامے میں مشرقی پنجاب کا ''رج'' (جی بھر کے) ذکر کیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے پنڈ (گاؤں) پہنچ گئے۔ مشرقی پنجاب میں بٹوارے کے بعد مسلمان ٹاواں ٹاواں بھی نہیں ملتے، جیسے اپنے ادھر مغربی پنجاب میں ہندو سکھ نہیں ملتے۔ ادھر ادھر کے ہندو مسلم سکھ بٹوارے میں کام آگئے۔ عبدالمجید خاں کے میزبان انھیں ان کے گاؤں لے گئے تھے۔ جہاں مجید خاں کی ملاقات چند عمر رسیدہ حضرات سے ہوئی کہ جو مجید خاں کے باپ دادا کو خوب جانتے تھے، بزرگ چھلکتی آنکھوں کے ساتھ مجید خاں کو گلے لگا کر ان کے باپ، چاچے، مامے اور دادوں کا ذکر کر رہے تھے۔
تب بھی میرے سینے میں ہوک اٹھی تھی۔ جب میں نے مجید خاں کا پہلا سفر نامہ پڑھا تھا اور آج پھر میں اسی کیفیت میں پہنچ گیا ہوں۔ میں بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مشرقی پنجاب (انڈیا) میں تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیار پور کے گاؤں میانی افغاناں میں پیدا ہوا تھا۔ اپنی جنم بھومی سے میرے عشق کو بھائی حبیب جالب کی شاعری نے اور ہوا دی۔ بھائی کی آدھی شاعری اپنے گاؤں کی یاد میں ہے، ان ہی یادوں کو استعارے بنا بناکر بھائی جالب نے اپنے دل کی باتیں کی ہیں۔
میرا بھی بڑا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے گاؤں ''میانی پٹھانا دی'' جاؤں اور مولک رام کا دروازہ کھٹکھٹاؤں، بوڑھا مولک رام باہر آئے تو میں اسے بتاؤں کہ میں مشتاق کا حبیب کا چھوٹا بھائی ہوں۔ سچ مانیں جب جب محترم عبدالقادر حسن اپنے گاؤں جاتے ہیں اور وہاں کی باتیں کرتے ہیں تو میں رشک بھری نگاہوں سے گاؤں کے بیان کردہ نظاروں کو تصور میں دیکھتا ہوں۔ عبدالقادر حسن خوش قسمت ہیں کہ ان کا گاؤں ''ادھر'' ہے۔ میرا گاؤں بھی واہگے سے سترکوس ادھر ہے۔ مگر صدیوں کا پینڈا (فاصلہ) ہے۔
خیر یہ تو رانا عبدالمجید خاں کے سفر نامے کی وجہ سے میانی افغاناں کا بھی ذکر ہوگیا۔ رانا مجید اب پکے لاہوریے ہیں۔ ملازمتایک پرائیویٹ ادارے میں کی، وہاں آڈٹ آفیسر رہے، اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری کی وجہ سے شہر شہر گاؤں گاؤں خوب گھومے پھرے ہیں اور پھر اسی گھمائی پھرائی نے انھیں سفر کا دلدادہ بنا دیا۔ اب جب کہ وہ ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں تو انھوں نے اپنے پاس موجود ڈائریوں کو کھنگالنا شروع کیا، مختلف نوٹس کو جمع کیا پھر یادوں کے جھروکے کھلتے گئے اور وہ سفر نامہ لکھتے گئے۔
''پھر اڑتے پتوں کے پیچھے'' میں سفر حجاز، ایران اور ساتھ ساتھ اپنے وطن کے مختلف علاقوں، بلوچستان، کاغان، ناران، ڈیرہ غازی خان۔ ڈیرہ غازی خان سے صوبہ بلوچستان کی طرف سفر کرتے خطرناک پہاڑی راستے اور پھر بلوچستان کا پہلا شہر لورا لائی۔ اس کتاب میں مسافر جہاں جہاں سے گزرا وہاں وہاں کی تاریخ، تہذیب و تمدن، سماجی، ثقافتی اور معاشی حالات کا تفصیلاً تذکرہ کیا ہے جسے پڑھ کر خاص کیف و سرور ملتا ہے۔ میں چاہوں بھی تو وہ تفصیل یہاں بیان نہیں کرسکتا کہ مختصر کالم میں یہ ممکن نہیں ہے، پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ ایک آدھ فقرہ مسافر کے رستے چنتا جاؤں۔
''محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، روحانی حوالے سے حضرت سخی سرور، خواجہ سلیمان تونسوی اور شاعر حسن و جمال حضرت خواجہ غلام فرید کا فیض جاری ہے۔'' حضرت سخی سرور کا تفصیلی ذکر کتاب میں موجود ہے، جن کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادق بن زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ کوہلو بھی رستے میں آتا ہے، جہاں کا سیب بڑا مشہور ہے۔
فورٹ منرو، ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک پہاڑی مقام ہے، سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند یہ سرد مقام ہے۔ اسے انگریز جرنیل منرو نے آباد کیا تھا، جو ملتان میں تعینات تھا، اور گرمیوں میں اپنا دفتر فورٹ منرو میں لگاتا تھا۔ بلوچستان میں پہلا مقام بارکھان آیا، بارکھان پنجاب کا گیٹ وے بھی کہلاتا ہے ، لورالائی کا تفصیلی تذکرہ کتاب میں موجود ہے، ایک خاص واقعہ کتاب سے نقل کر رہا ہوں۔
''1938 میں باران خان نے خدائی خدمت گار خان عبدالغفار خان کو لورا لائی آنے کی دعوت دی اور وہاں ایک بہت بڑا اجتماع ہوا، انجمن وطن کے بانی عبدالصمد خان اچکزئی بھی تشریف لائے، رات عبدالصمد خان اچکزئی اور باچا خان (خان عبدالغفار خان) نے باران خان کے حجرے میں اکٹھے کھانا کھایا۔ کچلاک راستے میں آیا۔ جہاں کے سیب، خوبانی، آڑو اور بادام مشہور ہیں۔
زیارت قائد اعظم نے جہاں اپنی زندگی کے چند آخری ایام گزارے۔ اس شہر کی ٹھنڈی ہواؤں اور بہتے چشموں کے ساتھ پھلوں کا ذکر خوب ہے۔ ملاں طاہر بابا خراواری کے مزار جہاں بے نظیر بھٹو بھی دعا کے لیے حاضر ہوئی تھیں۔ کوئٹہ کے لغوی معنی قلعے کے ہیں اور کوئٹہ کا بھی تفصیلی ذکر تاریخ جغرافیے کے ساتھ کتاب میں موجود ہے۔ مسافر رانا عبدالمجید خان کا سفر جاری ہے۔ اور اب وہ مستونگ سے ہوتے ہوئے ایرانی بارڈر تفتان پہنچ گئے ہیں ادھر ایران میں ''میرجاوہ'' بارڈر پر موجود مقام ہے۔
زاہدان، ایران کے صوبہ بلوچستان اور سیستان کا صدر مقام ہے یہ بلوچی اور سیستانی باشندوں کا شہر ہے۔ فارسی، خراسانی اور سیستانی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مشہد شہر، مشہد عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں جائے شہادت مسلمانوں کے لیے مقدس شہر ہے۔ امام رضا کا روضہ اسی شہر میں ہے، شاہنامہ کے شاعر فردوسی دوسرا بڑا حوالہ بنے باقی تاریخ جغرافیہ کتاب میں تفصیلاً موجود ہے، مسافر کا اتنا کہا اور لکھ دوں ''مشہد'' زمین پر جنت کا نمونہ ہے۔'' ایران کا جس قدر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کتاب کے مصنف نے اکتوبر 2011 میں حج بیت اللہ اور روضہ رسول پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔ یوں سفرنامے میں حج کی تمام تفصیل شامل ہوگئی ہے۔ جدہ ایئرپورٹ سے مکہ شریف، مدینہ شریف، مکہ میں بیت اللہ شریف، میدان عرفات، منیٰ، مزدلفہ، مدینہ شریف میں روضہ رسول، مسجد نبوی، جنت البقیع، احد کا میدان، یادگار مساجد، جدید سعودی عرب کا احوال، سب کچھ تفصیل سے بیان کیا گیا۔
کتاب میں اوچ شریف کا بھی تفصیلی ذکر ہے جہاں سوا لاکھ بزرگوں کے مزارات ہیں، سیہون شریف، شاہ لطیف بھٹائی، ہالہ شریف، شکار پور، دادو اور اس شہر میں کلہوڑوں کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد۔ اسی کتاب میں ملکہ نور جہاں کا ذکر بھی ہے، یوں مغل اعظم، مغل بادشاہ اکبر کے دربار، محل کی راہداریوں، بارہ دریوں، جھروکوں، باغات میں جنم لیتی داستانوں کا بھی ذکر ہے۔
سفر نامے کا مسافرکاغان، سوات، دریائے کنہار کے دونوں کناروں پر آباد بالاکوٹ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ناران، سہالہ، کہوٹہ کی حسین وادیوں میں بھی قاری کو ساتھ لیے گھومتا پھرتا ہے۔ ''پھر اڑتے پتوں کے پیچھے'' اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر بکھرے خوبصورت ترین رنگوں کا بہت اچھا اظہار ہے۔ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب دلچسپ بھی ہے اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گائیڈ بھی ہے۔