نذیر عباسی کی جدوجہد…
نذیر عباسی اکثر کہا کرتا تھا کہ جب تک ملک کے مزدور طبقے کو ملک گیر بنیادوں پر فعال و منظم نہ کیا جائے ...
اگرچہ وطن عزیز پاکستان میں چار بار ملکی آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آمریت مسلط کی گئی لیکن بدتر آمریت ضیا الحق نے نافذ کی۔ یہ آمریت پانچ جولائی 1977 کو منتخب وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر نافذ کی گئی۔ یہ طویل ترین آمریت کا دورانیہ 11 برس ایک ماہ اور 12 روز پر مشتمل تھا۔امکان یہ تھا کہ یہ آمریت مزید طوالت پکڑتی کہ 17 اگست 1988 کو ضیا الحق ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے۔
یہ فضائی حادثہ بہاولپور کے قریب پیش آیا۔ اس حادثے کے بعد ایک نئی صبح کا سورج طلوع ہوا۔ اس آمرانہ دور میں ظلم وجبر کا جو بازار گرم ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکانا ہزاروں سیاسی کارکنوں کو پابند سلاسل کرنا، سیاسی کارکنوں کو کوڑوں کی سزا دینا یہ سب تو ضیا آمریت کے دامن پر سیاہ ترین دھبے ہیں۔ اس کے علاوہ لاتعداد بے گناہ سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کا خون ناحق بھیہوا، ان سیاسی رہنماؤں میں ایک نام کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے صف اول کے رہنما نذیر عباسی شہید کا بھی ہے۔
نذیر عباسی ایسا رہنما نہ تھا جوکہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہو، بلکہ نذیر عباسی کا گھرانہ ایک مفلس گھرانہ تھا۔ نذیر عباسی کے والد ایک عرضی نویس نیم تعلیم یافتہ انسان تھے۔ نذیر عباسی نے سندھ کے خوبصورت شہر حیدر آباد کے قریب ٹنڈو الٰہ یار میں 1948 میں جنم لیا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد نذیر عباسی کو جس چیز کا جنون کی حد تک شوق تھا وہ حصول تعلیم کا شوق تھا۔
حصول تعلیم کے دوران نذیر عباسی کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر باہمت نذیر عباسی کسی بھی مشکل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اس سلسلے میں شنید یہ بھی ہے کہ نذیر عباسی نے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹنڈوالٰہ یار کی بسوں میں بھنے ہوئے چنے بھی فروخت کیے، لیکن باہمت نذیر عباسی نے ہمت نہ ہاری اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھتا گیا۔ جب کہ اس وقت نذیر عباسی کی عمر صرف 10 یا 12 برس تھی۔ ان مشکل ترین حالات میں نذیر عباسی نے ٹنڈوالٰہ یار میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے حیدر آباد چلا آیا۔
حیدر آباد میں نذیر عباسی نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں نذیر عباسی طلبا سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتا رہا۔ اس سلسلے میں نذیر عباسی NSF اور DSF کا صدر بھی رہا اسی دوران نذیر عباسی کا سیاسی شعور بھی بیدار ہوچکا تھا اور وہ کمیونزم سے متاثر و آگاہ ہوچکا تھا۔ اب گویا نذیر عباسی کی سیاسی تربیت شروع ہوچکی تھی۔
نذیر عباسی اس اعتبار سے خوش قسمت واقع ہوا تھا کہ نذیر عباسی کو امام علی نازش جیسے جید مارکسٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نذیر عباسی نے چونگی محرر کے طور پر ملازمت اختیار کی اور اپنے مفلس خاندان کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ نذیر عباسی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور انداز میں ایک سچے کامریڈ کی مانند حصہ لیتا رہا کیونکہ اب پارٹی نے نذیر عباسی کو یہ ذمے داری دی تھی کہ وہ کسانوں کے لیے کام کرے اور ان کا سیاسی شعور بیدار کرے۔
اس شعبے میں کامیابی گویا نذیر عباسی کی منتظر تھی۔ نہایت قلیل عرصے میں سندھ بھر کے کسانوں کا ہر دل عزیز رہنما بن گیا۔لیکن اب نذیر عباسی کے لیے چونگی محرر کی ملازمت برقرار رکھنا ناممکن ہوچکا تھا۔ یوں بھی چونگی کا نظام ایک جبر کا نظام تھا جسے ہمارے حکمرانوں نے بے وجہ جاری رکھا ہوا تھا۔ جوکہ برٹش سامراج کا چھوڑا ہوا نظام تھا۔
یوں بھی چونگی وصولی کا جو طریقہ کار تھا وہ نذیر عباسی کی نظر میں ایک بدترین جبر تھا۔ چنانچہ نذیر عباسی نے یہ ملازمت چھوڑ دی اور کمیونسٹ پارٹی کا کل وقتی رکن بن گیا۔ جب کہ اب نذیر عباسی کو کمیونسٹ پارٹی سندھ کا سیکریٹری بنادیا گیا تھا، لیکن اب نذیر عباسی کسانوں کے ساتھ ساتھ طلبا و صنعتی مزدوروں کا بھی محبوب رہنما بن چکا تھا۔
نذیر عباسی اکثر کہا کرتا تھا کہ جب تک ملک کے مزدور طبقے کو ملک گیر بنیادوں پر فعال و منظم نہ کیا جائے اس وقت تک ہم کامیابی کی منزل نہیں پاسکتے۔ 1980 وہ سال تھا جب نذیر عباسی ضیا الحق کی آمریت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے طوفانی انداز میں پارٹی امور انجام دے رہا تھا، لیکن خفیہ پولیس بھی نذیر عباسی کا مسلسل تعاقب کر رہی تھی۔ 30 جولائی 1980 کو نذیر عباسی کو کراچی سے جمال نقوی کے ہمراہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
ان دونوں کو کراچی کے ایک بدنام زمانہ عقوبت خانے میں رکھا گیا اور جہاں ان پر بے پناہ تشدد کا سلسلہ شروع کردیا گیا جس کے باعث 11 یوم کے بعد یعنی 9 اگست 1980 کو نذیر عباسی شہید ہوگیا۔ اسیری کے دوران وہ اکثر جمال نقوی سے کہتا کہ میں بطورکمیونسٹ گرفتار ہوا ہوں اور اگر رہا ہوا تو بطور کمیونسٹ ہی ہونا پسند کروں گا اور وہ بطور کمیونسٹ ہی رہا ہوا، شہید کی صورت میں اور شہید مرتا کب ہے؟
شہید تو نظروں سے اوجھل ہوکر دلوں میں جابستا ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ نذیر عباسی کی المناک شہادت پر پولیس کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ نذیر عباسی کو دل کا دورہ پڑا، جس سے وہ جانبر نہ ہوسکا، لیکن کراچی کی ایک مشہور سماجی شخصیت جنھوں نے نذیر عباسی کو غسل دیا تھا، اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نذیر عباسی کے جسم پر بدترین تشدد کے نشانات تھے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آخر نذیر عباسی کا قصور کیا تھا؟ جو اسے اس قدر سنگین سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ ہاں نذیر عباسی کا قصور یہ تھا کہ اس نے صدیوں سے ظلم و جبر کی چکی میں پسے ہوئے مظلوم و محکوم لوگوں کو وڈیرا شاہی، سرمایہ داری نظام کے ساتھ ساتھ اس وقت کی ضیائی آمریت سے نجات دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
نذیر عباسی کی یہ بھی کوشش تھی کہ ملک بھر میں معیار تعلیم یکساں ہو اور ملکی وسائل میں ریاست کے ہر ایک شہری کو مساوی حصہ ملے اور ریاست اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے ریاست کے ہر شہری کو خوراک، پوشاک، رہائش، تعلیم، صحت کی سہولتیں، انصاف و سماجی امن فراہم کرے، لیکن آمر تو جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی خود سرپرستی کر رہا تھا اور ان طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کو حکومتی عہدے دے رہا تھا۔
یہ سب جبھی ممکن تھا جب نذیر عباسی جیسے لوگوں کو منظر سے غائب کردیا جاتا جوکہ ضیا الحق کی آمریت نے کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نذیر عباسی کا غریب دوست مشن پورا ہوا ہے یا مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں سخت ترین انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم نذیر عباسی کی 34 ویں برسی کے موقعے پر نذیر عباسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
یہ فضائی حادثہ بہاولپور کے قریب پیش آیا۔ اس حادثے کے بعد ایک نئی صبح کا سورج طلوع ہوا۔ اس آمرانہ دور میں ظلم وجبر کا جو بازار گرم ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکانا ہزاروں سیاسی کارکنوں کو پابند سلاسل کرنا، سیاسی کارکنوں کو کوڑوں کی سزا دینا یہ سب تو ضیا آمریت کے دامن پر سیاہ ترین دھبے ہیں۔ اس کے علاوہ لاتعداد بے گناہ سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کا خون ناحق بھیہوا، ان سیاسی رہنماؤں میں ایک نام کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے صف اول کے رہنما نذیر عباسی شہید کا بھی ہے۔
نذیر عباسی ایسا رہنما نہ تھا جوکہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہو، بلکہ نذیر عباسی کا گھرانہ ایک مفلس گھرانہ تھا۔ نذیر عباسی کے والد ایک عرضی نویس نیم تعلیم یافتہ انسان تھے۔ نذیر عباسی نے سندھ کے خوبصورت شہر حیدر آباد کے قریب ٹنڈو الٰہ یار میں 1948 میں جنم لیا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد نذیر عباسی کو جس چیز کا جنون کی حد تک شوق تھا وہ حصول تعلیم کا شوق تھا۔
حصول تعلیم کے دوران نذیر عباسی کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر باہمت نذیر عباسی کسی بھی مشکل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اس سلسلے میں شنید یہ بھی ہے کہ نذیر عباسی نے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹنڈوالٰہ یار کی بسوں میں بھنے ہوئے چنے بھی فروخت کیے، لیکن باہمت نذیر عباسی نے ہمت نہ ہاری اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھتا گیا۔ جب کہ اس وقت نذیر عباسی کی عمر صرف 10 یا 12 برس تھی۔ ان مشکل ترین حالات میں نذیر عباسی نے ٹنڈوالٰہ یار میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کے حصول کے لیے حیدر آباد چلا آیا۔
حیدر آباد میں نذیر عباسی نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے طالب علمی کے زمانے میں نذیر عباسی طلبا سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتا رہا۔ اس سلسلے میں نذیر عباسی NSF اور DSF کا صدر بھی رہا اسی دوران نذیر عباسی کا سیاسی شعور بھی بیدار ہوچکا تھا اور وہ کمیونزم سے متاثر و آگاہ ہوچکا تھا۔ اب گویا نذیر عباسی کی سیاسی تربیت شروع ہوچکی تھی۔
نذیر عباسی اس اعتبار سے خوش قسمت واقع ہوا تھا کہ نذیر عباسی کو امام علی نازش جیسے جید مارکسٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نذیر عباسی نے چونگی محرر کے طور پر ملازمت اختیار کی اور اپنے مفلس خاندان کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ نذیر عباسی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور انداز میں ایک سچے کامریڈ کی مانند حصہ لیتا رہا کیونکہ اب پارٹی نے نذیر عباسی کو یہ ذمے داری دی تھی کہ وہ کسانوں کے لیے کام کرے اور ان کا سیاسی شعور بیدار کرے۔
اس شعبے میں کامیابی گویا نذیر عباسی کی منتظر تھی۔ نہایت قلیل عرصے میں سندھ بھر کے کسانوں کا ہر دل عزیز رہنما بن گیا۔لیکن اب نذیر عباسی کے لیے چونگی محرر کی ملازمت برقرار رکھنا ناممکن ہوچکا تھا۔ یوں بھی چونگی کا نظام ایک جبر کا نظام تھا جسے ہمارے حکمرانوں نے بے وجہ جاری رکھا ہوا تھا۔ جوکہ برٹش سامراج کا چھوڑا ہوا نظام تھا۔
یوں بھی چونگی وصولی کا جو طریقہ کار تھا وہ نذیر عباسی کی نظر میں ایک بدترین جبر تھا۔ چنانچہ نذیر عباسی نے یہ ملازمت چھوڑ دی اور کمیونسٹ پارٹی کا کل وقتی رکن بن گیا۔ جب کہ اب نذیر عباسی کو کمیونسٹ پارٹی سندھ کا سیکریٹری بنادیا گیا تھا، لیکن اب نذیر عباسی کسانوں کے ساتھ ساتھ طلبا و صنعتی مزدوروں کا بھی محبوب رہنما بن چکا تھا۔
نذیر عباسی اکثر کہا کرتا تھا کہ جب تک ملک کے مزدور طبقے کو ملک گیر بنیادوں پر فعال و منظم نہ کیا جائے اس وقت تک ہم کامیابی کی منزل نہیں پاسکتے۔ 1980 وہ سال تھا جب نذیر عباسی ضیا الحق کی آمریت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے طوفانی انداز میں پارٹی امور انجام دے رہا تھا، لیکن خفیہ پولیس بھی نذیر عباسی کا مسلسل تعاقب کر رہی تھی۔ 30 جولائی 1980 کو نذیر عباسی کو کراچی سے جمال نقوی کے ہمراہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
ان دونوں کو کراچی کے ایک بدنام زمانہ عقوبت خانے میں رکھا گیا اور جہاں ان پر بے پناہ تشدد کا سلسلہ شروع کردیا گیا جس کے باعث 11 یوم کے بعد یعنی 9 اگست 1980 کو نذیر عباسی شہید ہوگیا۔ اسیری کے دوران وہ اکثر جمال نقوی سے کہتا کہ میں بطورکمیونسٹ گرفتار ہوا ہوں اور اگر رہا ہوا تو بطور کمیونسٹ ہی ہونا پسند کروں گا اور وہ بطور کمیونسٹ ہی رہا ہوا، شہید کی صورت میں اور شہید مرتا کب ہے؟
شہید تو نظروں سے اوجھل ہوکر دلوں میں جابستا ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ نذیر عباسی کی المناک شہادت پر پولیس کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ نذیر عباسی کو دل کا دورہ پڑا، جس سے وہ جانبر نہ ہوسکا، لیکن کراچی کی ایک مشہور سماجی شخصیت جنھوں نے نذیر عباسی کو غسل دیا تھا، اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نذیر عباسی کے جسم پر بدترین تشدد کے نشانات تھے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آخر نذیر عباسی کا قصور کیا تھا؟ جو اسے اس قدر سنگین سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ ہاں نذیر عباسی کا قصور یہ تھا کہ اس نے صدیوں سے ظلم و جبر کی چکی میں پسے ہوئے مظلوم و محکوم لوگوں کو وڈیرا شاہی، سرمایہ داری نظام کے ساتھ ساتھ اس وقت کی ضیائی آمریت سے نجات دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
نذیر عباسی کی یہ بھی کوشش تھی کہ ملک بھر میں معیار تعلیم یکساں ہو اور ملکی وسائل میں ریاست کے ہر ایک شہری کو مساوی حصہ ملے اور ریاست اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے ریاست کے ہر شہری کو خوراک، پوشاک، رہائش، تعلیم، صحت کی سہولتیں، انصاف و سماجی امن فراہم کرے، لیکن آمر تو جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی خود سرپرستی کر رہا تھا اور ان طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کو حکومتی عہدے دے رہا تھا۔
یہ سب جبھی ممکن تھا جب نذیر عباسی جیسے لوگوں کو منظر سے غائب کردیا جاتا جوکہ ضیا الحق کی آمریت نے کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نذیر عباسی کا غریب دوست مشن پورا ہوا ہے یا مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں سخت ترین انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم نذیر عباسی کی 34 ویں برسی کے موقعے پر نذیر عباسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔