قائم رہے پاکستان

البتہ قوم کو کم عرصے میں کئی قومی معجزے دکھانے والے کو تختہ دار تک پہنچا کر ہی دم لیا ...

najmalam.jafri@gmail.com

وہ جو کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہوتا ہے صورتحال منٹوں میں بدل سکتی ہے۔ افسوس کہ ہم مستقبل کا حال بتانے والوں میں سے نہیں کہ آپ کو اصل صورت حال سے حتمی طور پر آگاہ کرسکیں۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے لیڈر قوم کے درد میں تڑپتے رہتے ہیں۔ اصل بات مگر یہ بھی ہے کہ یہ لیڈران قوم بھی دراصل انسان ہی ہوتے ہیں آپ مانیں یا نہ مانیں مگر واقعی انسان ہوتے ہیں اس لیے ہی تو قوم کا درد محسوس کرتے ہیں اور جب قوم کا دکھ انھیں اتنا تڑپا سکتا ہے تو خود سوچیے قوم کے مسائل سے کتنا زیادہ اپنے ذاتی غم و الم کو محسوس کرتے ہوں گے۔

آخر ان کا بھی دل ہے اب اگر کسی کا دل وزیراعظم بننے کو چاہ رہا ہے تو وہ اپنی اس ننھی سی خواہش وہ بھی ناجائز نہیں، کی تکمیل کے لیے اپنا سکھ چین تج کر رات دن ایک نہیں کردے گا بلکہ تمام ملکی مفادات کو بھی داؤ پر لگا سکتا ہے۔ ماضی میں پوری قوم اس تجربے سے دوچار ہوچکی ہے۔ کم و بیش ایسی یا اس سے ملتی جلتی صورتحال ہمارے قومی سیاست کے نو جگمگاتے ستارے 1977 میں بحسن و خوبی پیش کرچکے ہیں اور اس کے نتائج سے پوری قوم مستفیض ہوچکی ہے۔اس سے قبل بھی صورتحال دگرگوں تھی اور آخر ایک ملک کے دو ملک بن گئے مگر جن کو وزیر اعظم بننا تھا وہ بن گئے۔

ان میں سے ایک تھوڑے ہی عرصے بعد جن کے کاندھوں پر چڑھ کر وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے تھے ان ہی کے ہاتھوں اپنے ہی گھر میں معہ پورے کنبے کے قتل کردیے گئے۔دوسرے کے ساتھ ذرا دیر سے یہ سب ہوا مگر ہوا وہی تھوڑے ہی عرصے میں غمزدہ قوم کے لیے کئی تاریخی کارنامے انجام دینے کے باوجود اور دوران حکومت مارشل لا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردینے کا یقین کامل دلا کر بھی وہ آج جیسی صورتحال یعنی دھاندلی کو جواز بناکر انتشار بدامنی کا شکار ہوکر رہے اور ہمارے جمہوریت کے پرستار چند حلقوں میں بدعنوانی برداشت نہ کرسکے۔

البتہ قوم کو کم عرصے میں کئی قومی معجزے دکھانے والے کو تختہ دار تک پہنچا کر ہی دم لیا بلکہ مارشل لا وہ بھی وہ مارشل لا جس نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور جو بدنظمی، دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت و تعصب پیدا ہوا ملک آج تک اس سے سنبھل نہ پایا وہ بزعم خود لیڈران قوم جن سے چند حلقوں کی دھاندلی برداشت نہیں ہو رہی تھی وہ پوری جمہوریت کا بستر گول کرکے پرسکون و مطمئن ہوکر اپنی ایئرکنڈیشن خواب گاہوں میں چین کی نیند سوگئے۔

آخر اتنے دن کی تھکن جو دور کرنی تھی۔ جمہوریت کی بساط الٹنے والے ہی اپنی شیروانیاں جھاڑ پونچھ کر آمر کی حکومت میں شامل ہوگئے خوب وزارتیں اور اعلیٰ عہدے قبول کیے، کچھ تو ملکی سیاست میں ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہنا چاہتے تھے اگر عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرسکے تو مارشل لا کے کاندھوں پر ہمیشہ کے لیے سیاستدان بلکہ لیڈر بن گئے اور کچھ اس دور ستم گار نے بھی لیڈر پیدا کیے۔

مارشل لا تو گیارہ سال رہے یا پانچ سال بہرحال کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت ختم ہوجاتا ہے۔ اس دوران جنم لینے والے لیڈر جوکہ آمروں کے پروردہ اور ساختہ ہوتے ہیں اپنے آمرانہ انداز فکر کے ساتھ جمہوری دور میں اپنے خالقوں اور پرورش کنندہ کے افکار و نظریات کو جمہوریت کا نام دے کر اس دورکے بھی بھرپور مزے اٹھاتے ہیں ہمیشہ خبروں میں موجود رہتے ہیں۔ وہ اپنے انداز و فکر و عمل سے جمہوریت کا پودا پنپنے ہی نہیں دیتے۔ جمہوری حکمرانوں کو بھی آمرانہ فیصلے کرنے کے مشورے بصد خلوص دیتے رہتے ہیں۔


یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے سارے دانشور، کالم نگار، عوامی نمائندے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جمہوریت بچاؤ، جمہوریت کا کوئی نقصان برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تو کیا وہ واقعی جمہوریت ہے بھی؟ سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس جمہوریت نما بادشاہت کے نورتنوں میں آپ کو وہ چہرے صاف نظر آجائیں گے جنھوں نے بڑی کاوش سے بار بار مارشل لا کی راہ ہموار کی اور حکومت مخالف عناصر کے ساتھ بھی یہی لوگ نظر آئیں گے جو جمہوریت کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کرنے میں سرگرم رہے۔

حکومت کے مشیروں میں وہ بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنی وزارت کے زمانے میں آمرانہ فیصلے کیے، آج بھی وہ حکومت کو مفت اور پرخلوص مشوروں سے نواز رہے ہیں۔ وہ سارے کارکنان جو آج حکومت کے چاروں طرف ستاروں کی مانند جمگھٹا بنائے ہوئے جگمگا رہے ہیں ان میں سے ایک بھی بوجوہ ایئرپورٹ پر انھیں لینے، ان کا استقبال کرنے نہیں پہنچا تھا۔ اب عالم یہ ہے کہ یہی سب غلط مشورے دے کر حکومت کو بندگلی میں لے آئے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب مشیران و لیڈران ملک و قوم کے درد میں مبتلا ہیں اور حکومت کے ہمدردوں میں بھی شامل ہیں۔ شاید ایسوں ہی کے لیے اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج لیڈر کو بہت ہیں' مگر آرام کے ساتھ

قومکو ایک نادر موقع ملا ہے کہ وہ اچھی طرح دیکھ لیں، پرکھ لیں کہ فریقین کس قدر قوم و ملک سے مخلص اور محب وطن ہیں کہ بے شمار قربانیوں سے حاصل کردہ آزادی کی نعمت کی آج یوم آزادی پر ویسا جوش و خروش نہیں ۔ ملکی حالات تو عرصے سے بگڑے چلے آرہے ہیں مگر یوم آزادی تو لوگ جوش خروش اور عقیدت و احترام سے مناتے تھے۔ اس بار بھی منانے والے منائیں گے مگر خوف ودہشت بیم و رجا کے درمیان۔ بہرحال یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا۔

14 اگست کے بعد کی صورتحال ابھی غیر واضح ہے مگر ایک بات طے ہے کہ یہی چہرے کسی بھی طرز حکمرانی کے ساتھ آپ کو پھر مسند اقتدار پر کہیں نہ کہیں نظر آجائیں گے آپ اس خوش فہمی میں ہرگز مبتلا نہ ہوجائیے گا کہ سلطانی جمہور کا زمانہ آ ہی جائے گا۔ رہے قائم پاکستان باقی آئندہ، انشاء اللہ!
Load Next Story