پرانی عادتیں مشکل ہی بدلتی ہیں
یہ وہ وقت تھا جب میں وزیر بے محکمہ لال بہادر شاستری کا پریس سیکریٹری تھا۔ ...
بھارتی سیاسی منظرنامے کو اندر سے دیکھنے والوں کے ذاتی خیالات نے اس نظارے کو دلچسپ چہچہاہٹ سے معمور کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ خالصتاً موضوعی اطلاعات ہیں لیکن انھوں نے عوام کو ان پہلوئوں سے آگاہ کر دیا ہے جس کا انھیں پہلے ادراک نہیں تھا۔ گو ان انکشافات میں زمین ہلا دینے والی تو کوئی بات نہیں لیکن یہ ہماری حکمرانی کے بارے میں ہمارے تاثرات کو ضرور درست ثابت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر یہ افواہ تھی کہ سونیا گاندھی اپنے اختیارات کا استعمال بغیر ذمے داری کے کرتی ہیں اور اپنی رہائش گاہ میں بیٹھے بیٹھے ہی حکومت چلاتی ہیں۔ یہ بات اب ثابت ہو گئی ہے۔ سرکاری فائلیں موصوفہ کی ہدایت کے لیے ان کی رہائش گاہ پر لے جائی جاتی ہیں اس حوالے میں انھوں نے آج تک اپنی کوئی صفائی پیش نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اسے حکمران خاندان کا استحقاق خیال کرتی ہیں اور جو ان کی پیروی کر رہے ہیں انھیں اس میں کوئی تعجب محسوس نہیں ہو گا۔
جواہر لعل نہرو نے اپنی علالت کے ایام میں اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو حکومت چلانے کی اجازت دیدی تھی۔ اپنی طرف سے اندرا نے ہم خیالوں کا ایک مختصر سا ٹولہ بنا لیا جو بلاشبہ آئین سے بالاتر اتھارٹی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب میں وزیر بے محکمہ لال بہادر شاستری کا پریس سیکریٹری تھا۔ نہرو نے شاستری کو اپنی حکومت پر تنقید کرنے کی بنا پر خارج کر دیا تھا تاہم بعد میں واپس بلا لیا۔ نہرو کے نکتہ چینوں میں مرارجی ڈیسائی اور جگجیون رام بھی شامل تھے ان کو بھی حکومت سے نکال دیا گیا تھا۔
وزیر اعظم کی رہائش گاہ ایک دو منزلہ عمارت تھی۔ نہرو اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ ملاقاتیوں میں سے کن کو اوپر جانے کی اجازت دی جائے گی یہ فیصلہ مسز اندرا گاندھی کرتی تھیں۔ انھیں شاستری پسند نہیں تھا لہٰذا اسے لمبا انتظار کرایا جاتا تھا۔ میں ابھی تک ان کے پریس آفیسر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ میں نے نہرو کے ایک معتمد ٹی این شیشان کو اس بات کی نشان دہی کی کہ شاستری جب وزارت سے باہر تھے تو انھیں طویل انتظار کرایا جاتا تھا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں اس معاملے سے الگ ہی رہوں تو بہتر ہے کیونکہ مسز اندرا گاندھی جان بوجھ کر اسے انتظار کراتی ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ اسی کا نام تو سیاست ہے۔
مرکز میں حکمران پارٹی بدل گئی ہے لیکن سیاسی کلچر نہیں بدلا۔ ہم باہر سے دِکھنے میں جاگیردار نظر آتے ہیں اور ہماری یہ شناخت دیگر تمام چیزوں پر حاوی ہے۔ اگرچہ جمہوری مزاج سے یہ ہم آہنگ نہیں ہوتی لیکن یہ بدستور ہمارے حکمرانوں میں موجود ہے اور ماضی کے تمام اتار چڑھائو کے باوجود اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ وہ لوگ جو اقتدار میں آ جاتے ہیں وہ اپنے عمل میں ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں۔ وہ بے شک منہ سے کہتے رہیں کہ اقتدار عوام کے پاس ہے لیکن یہ محض کہنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اصل حکمرانی چند مخصوص لوگ کرتے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت بھی چنداں مختلف نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے تحت وزیر اعظم کا جو دفتر (پی ایم او) ہے وہ پہلے دفاتر کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ یہ پی ایم او اسقدر مضبوط ہے کہ اس کا کیا ہوا ہر فیصلہ فائلوں کے ذریعے وزیر داخلہ کو بجھوائے جانے سے قبل ہی نافذ العمل ہو چکا ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ نے بس نقطوں والی لائن پر دستخط ہی کرنے ہوتے ہیں تا کہ کہا جا سکے کہ سارا اقتدار صرف مودی کے دفتر میں ہی نہیں۔ اس صورت حال سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وزیر خزانہ ارون جیٹلے اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ خواہ کتنے ہی طاقتور نظر آئیں وہ اصل میں مودی کی آنکھیں اور کان کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے بیانات بیشک پارٹی کی سوچ سے الگ ہی نظر آتے ہوں۔
بہتر یہ ہوتا کہ مودی کی حکومت انتظامی مشینری کو تبدیل کر دیتی جس پر ابھی تک نہرو خاندان کی چھاپ بڑی نمایاں ہے۔ آزادی کے بعد نہرو نے، جنھوں نے خود تحریک آزادی کی طویل جدوجہد میں حصہ لیا تھا، حکومت سازی کے تمام تر اسباب و لوازم خود ہی وضع کیے۔ انھوں نے آزاد خیالی کو مسترد کر دیا جو کہ مختلف خیالات والوں کو جوڑنے کا ذریعہ تھا۔ مگر بی جے پی مختلف ہے۔ اس کا کوئی بھی لیڈر تحریک آزادی کے دوران جیل نہیں گیا۔ اس پارٹی کو چاہیے کہ وہ سیاست میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرے جو اس کی سوچ سے ہم آہنگ ہوں اور وہ ان پر اپنے طریقے سے عمل درآمد کریں۔
افسوس کہ بی جے پی نے بھی وہی فرسودہ انتظامی طریقہ کار اختیار کیا ہے جس سے ساری طاقت بیورو کریٹس کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے۔ بی جے پی کو چاہیے تھا کہ وہ حکومتی مشینری کا رخ اس سمت میں موڑ دیتی جو اس کے مقاصد کو پورا کرے۔ شاید مودی حکومت انتظامی اصلاحات کا ایک کمیشن قائم کر دے جو زعفرانی لباس والوں کا اس کا ایجنڈا نافذ کرنے کے طریقے تجویز کرے۔ انتظامیہ ابھی تک اسی پرانی ڈگر پر قائم ہے۔ کچھ کچھ سیکولر' کچھ کچھ جمہوری لیکن زیادہ تر آر ایس ایس کے لیڈرز سے متاثر ہے۔
درست کہ اس سے پہلے انتظامی تبدیلیوں کے لیے بہت سے کمیشن قائم کیے گئے جن کی رپورٹیں گرد اور دھول میں اٹی پڑی ہیں لیکن اگر کوئی کمیشن مودی حکومت بناتی ہے تو اسے ماضی سے مختلف ہونا چاہیے اور نہرو کے آزاد خیال دور حکومت کے مطابق ہونا چاہیے۔ مودی جس تحکمانہ انداز سے حکومت کرتے ہیں اس کے لیے نئے اصول و ضوابط اور ہدایات جاری ہونی چاہئیں۔ بی جے پی جو کمیشن تشکیل دے گی وہ مودی کی حکومت کو اپنے انتظامی ڈھانچے کو ہندوتوا کے مطابق ڈھالنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔
کاش کہ میں یہ کہہ سکتا کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت سبق سیکھ لیا ہے جو لوگ ذمے داری کے بغیر اختیارات کو استعمال کرتے ہیں انھیں بھی سبق سیکھنا چاہیے افسر شاہی کو وزیروں کی تابعداری کرتے ہوئے ایسے قواعد و ضوابط نہیں بنانے چاہئیں جن سے انھیں باری کے بغیر ترقی اور من چاہے مقامات پر تعیناتیاں مل جائیں۔
پرانی قسم کے سول سرونٹ اب حاصل کرنا خاصا مشکل ہو گا۔ تاہم افسر شاہی کا متبادل اور کوئی نہیں جس نے چوٹی سے جڑوں تک پورے نظام میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ بی جے پی کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ خود دس سال سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ نظام اسقدر مضبوطی اختیار کر چکا ہے حالانکہ الیکشن کا کام ایسی چیزوں کو ہی درست کرنا ہے۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ رائے دہندگان کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔ لوگوں نے لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ انھیں یہ پارٹی پسند ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانگریس کی حکومت سے حد سے زیادہ تنگ آ چکے تھے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے خود تسلیم کیا ہے کہ رائے دہندگان کو کانگریس پسند نہیں رہی لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ انھیں اس بات کا خیال ہی نہیں تھا کہ لوگوں کی ناراضگی انتقام میں بدل جائے گی۔
انھوں نے بی جے پی کو ووٹ دیکر اقتدار میں پہنچا دیا ہے حتٰی کہ اس پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل ہو گئی ہے لیکن اب اگر لوگ بی جے پی سے بھی مایوس ہو گئے تب وہ کدھر جائیں گے؟ وہ کانگریس کے پاس واپس نہیں جانا چاہتے آخر ان کے سامنے اور کیا متبادل ہے؟ یہی وجہ ہے کہ کانگریس اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ مودی حکومت کارکردگی دکھائے اور اپنی اہلیت ثابت کرے لیکن اس کے بجائے زعفرانی لبادوں والوں کے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں۔
عام آدمی پارٹی (عاپ) متبادل قیادت فراہم کر سکتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب گاندھی کے پیروکار انا ہزارے نے ملک کے مختلف علاقوں میں کرپشن کے خلاف احتجاجی دھرنے دیے تو لوگوں کے دل میں ایک امید پیدا ہوئی تھی اور ان کا ردعمل بہت ٹھوس تھا جس کے نتیجے میں عاپ کے اروند گجریوال کو دہلی کی حکومت مل گئی لیکن ہزارے کی کجریوال سے دوری اور کجریوال کے آمرانہ انداز سے چند لوگوں کی خواہشات تو یقیناً پوری ہوئی ہونگی لیکن اس نے ایک صاف ستھرا متبادل بننے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پرانی عادتیں جلد تبدیل نہیں ہوتیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
مثال کے طور پر یہ افواہ تھی کہ سونیا گاندھی اپنے اختیارات کا استعمال بغیر ذمے داری کے کرتی ہیں اور اپنی رہائش گاہ میں بیٹھے بیٹھے ہی حکومت چلاتی ہیں۔ یہ بات اب ثابت ہو گئی ہے۔ سرکاری فائلیں موصوفہ کی ہدایت کے لیے ان کی رہائش گاہ پر لے جائی جاتی ہیں اس حوالے میں انھوں نے آج تک اپنی کوئی صفائی پیش نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اسے حکمران خاندان کا استحقاق خیال کرتی ہیں اور جو ان کی پیروی کر رہے ہیں انھیں اس میں کوئی تعجب محسوس نہیں ہو گا۔
جواہر لعل نہرو نے اپنی علالت کے ایام میں اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو حکومت چلانے کی اجازت دیدی تھی۔ اپنی طرف سے اندرا نے ہم خیالوں کا ایک مختصر سا ٹولہ بنا لیا جو بلاشبہ آئین سے بالاتر اتھارٹی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب میں وزیر بے محکمہ لال بہادر شاستری کا پریس سیکریٹری تھا۔ نہرو نے شاستری کو اپنی حکومت پر تنقید کرنے کی بنا پر خارج کر دیا تھا تاہم بعد میں واپس بلا لیا۔ نہرو کے نکتہ چینوں میں مرارجی ڈیسائی اور جگجیون رام بھی شامل تھے ان کو بھی حکومت سے نکال دیا گیا تھا۔
وزیر اعظم کی رہائش گاہ ایک دو منزلہ عمارت تھی۔ نہرو اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ ملاقاتیوں میں سے کن کو اوپر جانے کی اجازت دی جائے گی یہ فیصلہ مسز اندرا گاندھی کرتی تھیں۔ انھیں شاستری پسند نہیں تھا لہٰذا اسے لمبا انتظار کرایا جاتا تھا۔ میں ابھی تک ان کے پریس آفیسر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ میں نے نہرو کے ایک معتمد ٹی این شیشان کو اس بات کی نشان دہی کی کہ شاستری جب وزارت سے باہر تھے تو انھیں طویل انتظار کرایا جاتا تھا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں اس معاملے سے الگ ہی رہوں تو بہتر ہے کیونکہ مسز اندرا گاندھی جان بوجھ کر اسے انتظار کراتی ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ اسی کا نام تو سیاست ہے۔
مرکز میں حکمران پارٹی بدل گئی ہے لیکن سیاسی کلچر نہیں بدلا۔ ہم باہر سے دِکھنے میں جاگیردار نظر آتے ہیں اور ہماری یہ شناخت دیگر تمام چیزوں پر حاوی ہے۔ اگرچہ جمہوری مزاج سے یہ ہم آہنگ نہیں ہوتی لیکن یہ بدستور ہمارے حکمرانوں میں موجود ہے اور ماضی کے تمام اتار چڑھائو کے باوجود اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ وہ لوگ جو اقتدار میں آ جاتے ہیں وہ اپنے عمل میں ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں۔ وہ بے شک منہ سے کہتے رہیں کہ اقتدار عوام کے پاس ہے لیکن یہ محض کہنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اصل حکمرانی چند مخصوص لوگ کرتے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت بھی چنداں مختلف نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے تحت وزیر اعظم کا جو دفتر (پی ایم او) ہے وہ پہلے دفاتر کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ یہ پی ایم او اسقدر مضبوط ہے کہ اس کا کیا ہوا ہر فیصلہ فائلوں کے ذریعے وزیر داخلہ کو بجھوائے جانے سے قبل ہی نافذ العمل ہو چکا ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ نے بس نقطوں والی لائن پر دستخط ہی کرنے ہوتے ہیں تا کہ کہا جا سکے کہ سارا اقتدار صرف مودی کے دفتر میں ہی نہیں۔ اس صورت حال سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وزیر خزانہ ارون جیٹلے اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ خواہ کتنے ہی طاقتور نظر آئیں وہ اصل میں مودی کی آنکھیں اور کان کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے بیانات بیشک پارٹی کی سوچ سے الگ ہی نظر آتے ہوں۔
بہتر یہ ہوتا کہ مودی کی حکومت انتظامی مشینری کو تبدیل کر دیتی جس پر ابھی تک نہرو خاندان کی چھاپ بڑی نمایاں ہے۔ آزادی کے بعد نہرو نے، جنھوں نے خود تحریک آزادی کی طویل جدوجہد میں حصہ لیا تھا، حکومت سازی کے تمام تر اسباب و لوازم خود ہی وضع کیے۔ انھوں نے آزاد خیالی کو مسترد کر دیا جو کہ مختلف خیالات والوں کو جوڑنے کا ذریعہ تھا۔ مگر بی جے پی مختلف ہے۔ اس کا کوئی بھی لیڈر تحریک آزادی کے دوران جیل نہیں گیا۔ اس پارٹی کو چاہیے کہ وہ سیاست میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرے جو اس کی سوچ سے ہم آہنگ ہوں اور وہ ان پر اپنے طریقے سے عمل درآمد کریں۔
افسوس کہ بی جے پی نے بھی وہی فرسودہ انتظامی طریقہ کار اختیار کیا ہے جس سے ساری طاقت بیورو کریٹس کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے۔ بی جے پی کو چاہیے تھا کہ وہ حکومتی مشینری کا رخ اس سمت میں موڑ دیتی جو اس کے مقاصد کو پورا کرے۔ شاید مودی حکومت انتظامی اصلاحات کا ایک کمیشن قائم کر دے جو زعفرانی لباس والوں کا اس کا ایجنڈا نافذ کرنے کے طریقے تجویز کرے۔ انتظامیہ ابھی تک اسی پرانی ڈگر پر قائم ہے۔ کچھ کچھ سیکولر' کچھ کچھ جمہوری لیکن زیادہ تر آر ایس ایس کے لیڈرز سے متاثر ہے۔
درست کہ اس سے پہلے انتظامی تبدیلیوں کے لیے بہت سے کمیشن قائم کیے گئے جن کی رپورٹیں گرد اور دھول میں اٹی پڑی ہیں لیکن اگر کوئی کمیشن مودی حکومت بناتی ہے تو اسے ماضی سے مختلف ہونا چاہیے اور نہرو کے آزاد خیال دور حکومت کے مطابق ہونا چاہیے۔ مودی جس تحکمانہ انداز سے حکومت کرتے ہیں اس کے لیے نئے اصول و ضوابط اور ہدایات جاری ہونی چاہئیں۔ بی جے پی جو کمیشن تشکیل دے گی وہ مودی کی حکومت کو اپنے انتظامی ڈھانچے کو ہندوتوا کے مطابق ڈھالنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔
کاش کہ میں یہ کہہ سکتا کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت سبق سیکھ لیا ہے جو لوگ ذمے داری کے بغیر اختیارات کو استعمال کرتے ہیں انھیں بھی سبق سیکھنا چاہیے افسر شاہی کو وزیروں کی تابعداری کرتے ہوئے ایسے قواعد و ضوابط نہیں بنانے چاہئیں جن سے انھیں باری کے بغیر ترقی اور من چاہے مقامات پر تعیناتیاں مل جائیں۔
پرانی قسم کے سول سرونٹ اب حاصل کرنا خاصا مشکل ہو گا۔ تاہم افسر شاہی کا متبادل اور کوئی نہیں جس نے چوٹی سے جڑوں تک پورے نظام میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ بی جے پی کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ خود دس سال سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ نظام اسقدر مضبوطی اختیار کر چکا ہے حالانکہ الیکشن کا کام ایسی چیزوں کو ہی درست کرنا ہے۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ رائے دہندگان کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔ لوگوں نے لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ انھیں یہ پارٹی پسند ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانگریس کی حکومت سے حد سے زیادہ تنگ آ چکے تھے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے خود تسلیم کیا ہے کہ رائے دہندگان کو کانگریس پسند نہیں رہی لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ انھیں اس بات کا خیال ہی نہیں تھا کہ لوگوں کی ناراضگی انتقام میں بدل جائے گی۔
انھوں نے بی جے پی کو ووٹ دیکر اقتدار میں پہنچا دیا ہے حتٰی کہ اس پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل ہو گئی ہے لیکن اب اگر لوگ بی جے پی سے بھی مایوس ہو گئے تب وہ کدھر جائیں گے؟ وہ کانگریس کے پاس واپس نہیں جانا چاہتے آخر ان کے سامنے اور کیا متبادل ہے؟ یہی وجہ ہے کہ کانگریس اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ مودی حکومت کارکردگی دکھائے اور اپنی اہلیت ثابت کرے لیکن اس کے بجائے زعفرانی لبادوں والوں کے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں۔
عام آدمی پارٹی (عاپ) متبادل قیادت فراہم کر سکتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب گاندھی کے پیروکار انا ہزارے نے ملک کے مختلف علاقوں میں کرپشن کے خلاف احتجاجی دھرنے دیے تو لوگوں کے دل میں ایک امید پیدا ہوئی تھی اور ان کا ردعمل بہت ٹھوس تھا جس کے نتیجے میں عاپ کے اروند گجریوال کو دہلی کی حکومت مل گئی لیکن ہزارے کی کجریوال سے دوری اور کجریوال کے آمرانہ انداز سے چند لوگوں کی خواہشات تو یقیناً پوری ہوئی ہونگی لیکن اس نے ایک صاف ستھرا متبادل بننے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پرانی عادتیں جلد تبدیل نہیں ہوتیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)