بیچارا بلھے شاہ

یادوں کے بہاؤ کو روک کر بتانا آپ کو صرف اتنا ہے کہ اسکول کے زمانے میں روزانہ سنی اجتماعی دُعا کا ایک فقرہ ...

nusrat.javeed@gmail.com

جس وقت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے 14 اگست آ کر گزر چکا ہو گا۔ اسی لیے اس دن کے بارے میں تجزیے یا پیش گوئیاں کرنے سے مسلسل اجتناب برت رہا ہوں۔ ویسے بھی میں نے غیر سیاسی معاملات پر لکھنے کی مشق شروع کر رکھی ہے۔ جب تک اس قابل نہیں بن جاتا سیاست پر کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہی پڑے گا۔ روزی جو کمانی ہے۔

بچپن میں مشن اسکول میں جاتا تھا۔ وہاں کلاسیں شروع ہونے سے پہلے ہم سب قطاروں میں کھڑے ''لب پر آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری'' گنگنایا کرتے تھے۔ اس کے بعد دلاوری صاحب جو ہمارے ایک بہت ہی خلیق مگر ڈسپلن لاگو کرنے کے حوالے سے بڑے سخت گیر استاد مانے جاتے تھے ۔انجیل مقدس سے کچھ اقتباسات پڑھتے۔ پھر ہوتی اجتماعی دُعا اور اختتام پر قومی ترانہ جس کے بعد ہم قطاریں بنا کر اپنی اپنی کلاسوں کا رُخ کر لیتے۔

یادوں کے بہاؤ کو روک کر بتانا آپ کو صرف اتنا ہے کہ اسکول کے زمانے میں روزانہ سنی اجتماعی دُعا کا ایک فقرہ میں آج تک نہیں بھول پایا اور وہ تھا ''ہمیں آج کی روٹی آج دے''۔ خبر نہیں کہ میرے ساتھ اس دُعا میں شریک تمام طالب علموں کی زندگیوں پر اس فقرے کا اثر ہوا یا نہیں۔ اپنے بارے میں البتہ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جب بھی کالم لکھنے کے لیے کسی موضوع کو تلاش کرنا شروع کرتا ہوں تو یہ فقرہ نجانے کیوں اچانک ذہن میں گونج اٹھتا ہے۔

شاید اسی فقرے کی بدولت ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی شبیہہ بھی آج ذہن میں آگئی۔ ان کی شبیہہ کا ذکر مگر آپ کو یہ سوچنے پر مجبور نہ کرے کہ میں ان کی وساطت سے ''عالمِ رویا'' میں پہنچ گیا ہوں۔ اس عالم میں پہنچنا میرے جیسے گنہگار کے بس میں نہیں۔ ویسے بھی گزشتہ کئی برسوں سے رات کو سونے سے پہلے بلڈ پریشر کی گولی کے ساتھ ایک خواب آور ٹکیہ بھی نگلنا پڑتی ہے۔ گہری نیند میں سنا ہے خواب نہیں آیا کرتے۔ آئیں تو شاید یاد نہیں رہتے۔

سائنسی حقیقت کچھ بھی رہی ہو مگر اپنے حوالے سے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ مجھے سوتے میں خواب نہیں آتے۔ ہاں کئی بار کچھ ڈرائونے مناظر نیند میں دیکھنے کو ضرور ملتے ہیں۔ ان مناظر میں خود کو کسی انہونی میں پھنسا ہوا محسوس کرتا ہوں اور میرے اردگرد موجود لوگوں میں کوئی ایک شخص بھی میری مدد نہیں کر پاتا بلکہ وہ سفاکی کی حد تک میری مشکل سے لاتعلق نظر آتا ہے۔

ایسے مواقعے پر میری آنکھ کئی بار گھبرا کر کھلی تو پتہ چلا کہ مڑے تڑے تکیے کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ ماہر نفسیات جو مناظر میں دیکھتا ہوں انھیں Night Mares کا نام دیتے ہیں۔ پراگ میں اکیلے بیٹھ کر فرانز کافکا جیسے فقید المثال ناول نگار نے ایسے ہی ڈرائونے مناظر کو یوں بیان کرنا شروع کر دیا جیسے وہ سب روزمرہ زندگی میں درپیش آ رہے ہوں۔ کافکا اور اس کے ہنر کو اس سے زیادہ بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔


ان کی اس بار پاکستان آمد کے بعد مجھے مشہور روسی ناول نگار دوستو فسکی کا ایک ضخیم ناول "The Possessed" بارہا یاد آتا ہے۔ اس کا ہیرو بھی انقلاب لانے کے جنون میں مبتلا ہوتا ہے۔ انقلاب مگر نہیں آتا۔ ہاں اس ہیرو کی بدولت ایک شہر کا پورا نظام تہہ و بالا ہو جاتا ہے۔ دوست دوست نہ رہا جیسے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں۔

عالمی ادب کا سنجیدہ قاری نہ ہوتے ہوئے میں حتمی طور پر یہ دعویٰ کرنے سے قاصر ہوں کہ دورِ حاضر کے ایک بہت بڑے ناول نگار جس کا تعلق ترکی سے ہے یعنی اورحان پامک اس نے اپنا شاہکار Snow شاید دوستوفسکی کے اسی ناول سے متاثر ہو کر لکھا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ میں نے لفظ ''متاثر'' لکھا ہے ''نقل'' نہیں۔

علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے حوالے سے خیال میرا یہ ہے کہ ان جیسے انقلابی پتہ نہیں دوستوفسکی یا اورحان پامک کو دیکھنے کو ملے یا نہیں۔ مگر انھوں نے اپنے زور تخیل سے انھیں تخلیق کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ادب حقیقی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پاکستان میں معاملہ مگر کچھ الٹ محسوس ہوتا ہے جہاں اکثر ہمیں اپنی زندگی میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جیسے یکتا کردار مل جاتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے صرف چند ناول پڑھے ہوتے ہیں۔

افسانوی کردار جب عملی زندگی میں نظر آ جائیں تو فکشن لکھنے والوں کے لیے کسی کام کے نہیں رہتے۔ ہاں میرے جیسے ''آج کی روٹی آج کمانے والے'' کالم نگار ان کی سیاست پر نہایت سنجیدگی سے تجزیے لکھنے پر ضرور مجبور ہو جاتے ہیں۔ اُردو میں میرے جیسے ''ڈنگ ٹپائو'' کالموں کو سنجیدگی سے مگر کوئی نہیں لیتا۔ انگریزی میں لکھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے اور میں نے انگریزی اخباروں کے لیے محض رپورٹنگ کرتے ہوئے ایسے ہی مزے کافی لیے ہیں۔

اسلام آباد اصل میں سفارت کاروں کا شہر بھی ہے۔ ان سفارت کاروں کو اپنے اپنے ملکوں کے لیے پاکستان کے سیاسی حالات کا روزانہ تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر اُردو نہیں جانتے۔ جنھیں اس زبان سے تھوڑی بہت واقفیت ہے تو اسے وہ بس روزمرہ گفتگو کے لیے کبھی کبھار استعمال کر لیتے ہیں۔ ایسے سفارت کاروں کے تجزیوں کا تمام تر انحصار انگریزی اخباروں میں چھپے کالموں پر ہوتا ہے۔ ان دنوں ہمارے ڈاکٹر علامہ طاہر القادری صاحب نے ایک بار پھر جو رونق لگا رکھی ہے اس کی وجہ سے اکثر سفارت کار یہ معلوم کرنے کی تڑپ میں مبتلا نظر آ رہے ہیں کہ Qadri Phenomena ہے کیا۔

ایسے سفارت کاروں کی سہولت کے لیے انگریزی میں لکھنے والے ہمارے دو جید کالم نگار میدان میں آئے ہیں۔ ان کے نام کیا لینے۔ ہمیں تو ویسے بھی آم کھانا ہیں پیڑ گننا نہیں۔ آپ کو اطلاع بس یہ دینا ہے کہ ان جید کالم نگاروں نے انتہائی سنجیدگی سے انگریزی پڑھنے والوں کو سمجھا دیا ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری درحقیقت مذہبی انتہاء پسندی کی شدت کا ''بریلوی'' نسخوں کے ذریعے تدارک کرنے پاکستان تشریف لائے ہیں۔ ان کے پیروکار نوجوان بچے اور بچیاں ہیں جن کا تعلق ہمارے قصبوں اور دیہاتوں کے محروم طبقات سے ہے۔

آپریشن ''ضرب عضب'' کی کامیابی کے بعد پاکستان کی ریاست کو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جیسے کرشماتی طاقت کے حامل افراد کی سخت ضرورت ہے جو ہمارے عوام کے ذہنوں میں اسلام کے Soft یا Moderate رخ کو اجاگر کر سکیں۔ صحافی سے دانشور بننے کی کوششیں کرتے ہوئے میں ہرگز اس قابل نہیں کہ فیصلہ کر سکوں کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا جو رخ میرے چند محترم اور جید کالم نگاروں نے سفارت کاروں کو دکھانے کی کوشش کی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں۔

ان کے قادری صاحب کے بارے میں خیالات پڑھتے ہوئے مجھے چوہدری شجاعت حسین صاحب البتہ بہت یاد آئے جنھوں نے جنرل مشرف کی چھتری تلے پاکستان میں ''صوفیانہ سوچ'' کا احیاء کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی سرپرستی کی بدولت کئی برگر قسم کے پاپ سنگرز نے اپنی بے سری آوازوں میں گٹار اور ڈرم کے ذریعے بلھے شاہ کو بھی گانا شروع کر دیا تھا۔ بے چارہ بلھے شاہ۔
Load Next Story