تشدد کا ایک رنگ یہ بھی ہے

جب مہا بھارت کی تباہ کن جنگ کو کئی پیڑھیاں گزر گئیں تو ارجن کے پڑوتے نے ...

rmvsyndlcate@gmail.com

ہمارا ایک دوست بہت کچھ سن کر آ رہا تھا۔ تختہ الٹنے سے لے کر قتل کی دھمکیاں تک۔ سر سے پیر تک کانپ رہا تھا اور کہہ رہا تھا ''پاکستان کا یہ بدترین زمانہ ہے''۔

ہم نے کہا کہ عزیز تو نے ٹھیک جانا۔ اصل میں ہم اب ایک پرتشدد دور میں سانس لے رہے ہیں۔ اور تشدد کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف خوں ریزی سے عبارت نہیں ہے۔ تشدد کی اس فضا سے آدمی کو ڈرنا چاہیے جب بولنے والوں کی زبان سے انسانی لہجہ رخصت ہو جاتا ہے۔ جو لفظ ان کے منہ سے نکلتا ہے وہ تیر تلوار کا حکم رکھتا ہے۔ اور بقول ایک شاعر تیر تلوار کا زخم تو پھر بھی بھر جاتا ہے۔ مگر؎

لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا

اور ہمیں فراقؔ گورکھپوری کا لکھا ہوا فقرہ یاد آ گیا۔ انھوں نے کچھ ایسے ہی حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جو قومیں چیخوں سے جگائی جاتی ہیں وہ بیدار ہونے پر بھی وحشی ہی رہتی ہیں۔ کیا واقعی ہم کچھ ایسے ہی عمل سے گزر رہے ہیں۔

ہمیں ایک اور زمانہ یاد آ گیا۔ یہ وہ پرآشوب وقت تھا جب برصغیر میں یہاں سے وہاں تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ لگتا تھا کہ انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اسی زمانے میں جوشؔؔ صاحب نے کچھ رباعیات لکھی تھیں۔ ایک رباعی کا دوسرا شعر ہمیں یاد رہ گیا ہے ؎

خاقانیؔ و انوریؔ سمجھتا ہوں اسے

مصرعہ بھی مرا آج جو دہراتا ہے

اور واقعی اس زمانے میں ایسا ہی لگتا تھا کہ شاعر جو کہہ رہے ہیں افسانہ نگار جو لکھ رہے ہیں وہ سب بے اثر ہے۔ ہجوم کا راج ہے۔ ان کی زبان ہجوم کی سمجھ سے بالا ہے۔ ایسے زمانوں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

لیجیے اس پر ہمیں ایک اور مثال یاد آ گئی۔ شاید وہ ہمارے اسکول کا زمانہ تھا۔ ہماری اردو کی کتاب میں کسی بھلے لکھنے والے نے شکسپیئر کے ڈرامہ جولیس سیزر کا ترجمہ کیا تھا۔ اس ڈرامہ کا ایک سین یہاں کتاب میں شامل تھا۔ جولیس سیزر قتل ہو چکا ہے۔ اس کا جنازہ درمیان میں رکھا ہے۔ ہجوم جمع ہے اور تقریریں کرنے والے جذبات سے لبریز تقریریں کر رہے ہیں۔ آخر میں یہ نوبت آتی ہے کہ ہجوم بپھر کر بے قابو ہو جاتا ہے۔ اور توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ تب تقریر کرنے والا یہ کہہ کر اپنی بات ختم کرتا ہے کہ فتنہ تو بیدار ہو گیا ہے۔ میرا کام ختم ہوا۔ میں چلا۔

ایسے مواقع پر اور ایسے حالات میں یہی ہوا کرتا ہے شعلہ فشاں تقریریں کرنے والوں سے خبردار رہنا چاہیے۔ کبھی کبھی خود انھیں بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ آدمی بہت مہذب مخلوق ہے' لیکن اس کے باطن میں ایک وحشی بھی سویا پڑا ہے۔ اسے جگانے کی حماقت مت کرو۔ لیجیے آج کے ایک انگریزی اخبار کے اداریے کا عنوان ہی یہ ہے۔

March of Folly۔ اردو میں کہہ لیجیے حماقت کا (لانگ) مارچ۔ اس پر ہمیں پھر ہندوستان کے قدیم ادب سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔

جب مہا بھارت کی تباہ کن جنگ کو کئی پیڑھیاں گزر گئیں تو ارجن کے پڑوتے نے جو اب راج سنگھاسن کو سنبھالے ہوئے تھا قربانی کی ایک رسم بڑے پیمانے پر منعقد کی۔ کتنے راجہ مہاراجہ اس میں شریک ہوئے۔ کورو پانڈو کے مورث اعلیٰ ویاس رشی جو ابھی تک زندہ تھے جنگلوں سے نکل کر وہاں آن موجود ہوئے۔ راجہ نے اپنے مورث اعلیٰ کو دیکھا تو چاندی کے لگن میں ان کے پاؤں دھوئے۔ پھر گزارش کی کہ مہابھارت کی جنگ میں کیا کچھ ہوا۔ کچھ ہمیں بتایئے۔


انھوں نے اپنے ایک شاگرد کو اشارہ کیا۔ اس نے اول سے آخر تک اس جنگ کا احوال سنا ڈالا۔ تب راجہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور بولا پوچھنے کی آگیا ہے تو ا یک بات پوچھوں۔ پوچھ بیٹا۔ پوچھا کہ دونوں ہی طرف کیسے کیسے گنی مہا ودھوان موجود تھے۔ انھیں یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اس جنگ کا انجام کیا ہو گا۔ ویاس رشی چپ ہوئے۔ ٹھنڈا سانس بھرا۔ پھر بولے۔ آدمی مورکھ ہے۔ وقت آنے پر اس کی مت ماری جاتی ہے۔ اور ہونی ہو کر رہتی ہے۔ یہ کہہ کر کھڑے ہوئے اور الٹے پیروں جنگلوں میں چلے گئے۔ ہماری داستانیں بھی یہی کہتی ہیں کہ بندہ بشر ہے۔ نادان ہے۔ بھول چوک سے بنا ہے۔ اور کلام پاک یہ کہتا ہے کہ انسان ظالم و جاہل ہے۔

ارے یہ تو ہم بہت دور نکل گئے

بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات

اب کی بات یہ ہے کہ جو الیکٹرانک میڈیا ہے یہ بڑی ظالم شے ہے۔ ہم دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے۔ لوگو سن لو' میں شہید کیا جا سکتا ہوں' مگر میری ایک وصیت ہے وہ سن لو۔ میں شہید کر دیا جاؤں تو انھیں زندہ مت چھوڑنا' اور ہاں ہم انقلاب کے لیے جا رہے ہیں۔ بغیر انقلاب کے حصول کے واپس نہیں آئیں گے۔ کوئی واپس آئے تو اسے مار ڈالنا۔ ارے اپنے ہی ساتھیوں کو۔

ہم سن رہے تھے اور غالبؔ کا یہ شعر ذہن میں گونج رہا تھا؎

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

مگر ہمارے ٹی وی چینل بڑے ظالم ہیں۔ انھوں نے یہ سارے بیانات بار بار دکھائے اور سنوائے۔ ایک بار' دو بار' تین بار' بار بار آخر کو ہم نے کان بند کر لیے کہ سن لیا۔ بس کرو۔ وصیت ایسے کی جاتی ہے۔ چیخ کر' قتل کے احکامات جاری کرتے ہوئے۔ عالم جنون میں یا بقائمی ہوش و حواس۔ الیکٹرانک میڈیا نے اسے مقید کر لیا۔

ایسی کتنی سمع خراش غصیلی آوازیں بلکہ چیخیں دل و دماغ میں گونج رہی ہیں اور پریشان کر رہی ہیں۔

وزیر اعظم کا خطاب۔ ارے یہاں تو لہجہ کتنا بدلا ہوا ہے۔ سیدھا سچا شریفانہ لہجہ۔ مگر جب ہجوم کے دل و دماغ پر تشدد بھری چیخیں قابو پا لیں تو پھر ہجوم تو اندھی طاقت ہے ؎

مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

جس اداریے کا ہم نے حوالہ دیا تھا اس کی سیاسی بصیرت بھی اتنا ہی بتا سکی کہ حماقت کا یہ لانگ مارچ شروع ہے۔ کب اور کہاں جا کر ختم ہو گا۔ یہ سب ابھی پردہ اخفا میں ہے۔ دیکھو اور نتظار کرو۔ پردۂ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے۔
Load Next Story