نقاب پوش سیاست اور عوام۔
حکومت گرانے کو جمہوریت گرانے کے تصور یا فلسفے کے پیچھے یہ خوف کار فرما رہتا ہے ....
آج کل پاکستان کے میڈیائی محاذ پر جو جنگ جاری ہے اس کا اصل موضوع ''جمہوریت'' ہے اور المیہ یہ ہے کہ جمہوریت اور حکومت کو ہم معنیٰ سمجھا یا سمجھایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ملک سیاسی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا ہے لیکن ان دونوں حصوں میں بے چارے اٹھارہ کروڑ عوام کہیں نظر نہیں آتے صرف حکومت نظر آتی ہے اور حکومت کے مخالف نظر آتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ''ہم حکومت کو ہر گز گرنے نہیں دیں گے'' اہل سیاست جب یہ کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ''ہم حکومت کو ڈی ریل ہونے نہیں دیں گے'' ۔
حکومت گرانے کو جمہوریت گرانے کے تصور یا فلسفے کے پیچھے یہ خوف کار فرما رہتا ہے کہ اگر حکومت گرا دی گئی تو فوج اقتدار سنبھال لے گی اگر ایسا ہوا تو جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی یہی وہ خوف ہے جو سیاست دانوں کو حکومت اور جمہوریت میں فرق کو سمجھنے نہیں دیتا۔ 2008 سے 2013 تک مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی حکومت کو بچاتی رہی اور کہا یہی جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) نے جمہوریت کو بچایا ہے۔
حکومتیں آنے جانے والی چیز ہوتی ہیں اور حکومتوں کو ختم کرنے کے آئینی طریقے بھی موجود ہیں اگر کسی حکومت کے خلاف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لاتی ہے اور یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت تو گر جاتی ہے لیکن جمہوریت باقی رہتی ہے۔
حکومتوں کو گرانے کے تین معروف طریقے ہیں۔ ایک تحریک عدم اعتماد۔ اس کا تعلق قانون ساز اداروں کے بحران سے ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار یا ہزاروں ہی میں ہوتے ہیں۔ اس عدم اعتماد کے پیچھے عموماً سیاسی مفادات ہوتے ہیں، عوامی مفادات کا اس عدم اعتماد سے عموماً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرا عدم اعتماد حکومتوں کے خلاف عوام کا ہوتا ہے جس کا تعلق عوام کے اپنے مفادات سے ہوتا ہے اور اس عدم اعتماد میں لاکھوں کروڑوں عوام شامل ہوتے ہیں۔
اس قسم کے عدم اعتماد کا مشاہدہ ہم نے پاکستان میں 1968 اور 1977 میں کیا اور مشرق وسطیٰ میں مصر، لیبیا اور تیونس میں کیا عوام جن حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں اسے دبانے اور کچلنے کے لیے حکومتیں ریاستی مشینری کا استعمال کرتی ہیں۔ کیوں کہ ریاستی مشینری آئین کے تحت حکومتوں کے تابع ہوتی ہے اور حکومتیں اس ریاستی مشینری کو اپنے مفادات اپنے بقا کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ اس معرکے میں عوام کے سامنے ریاستی مشینری آ جاتی ہے اور عوام کے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ یہ عدم اعتماد پر تشدد ہوتا ہے ماضی میں فرانس میں یہی ہوا۔
1968 اور 1977 میں پاکستان میں بھی عوام کا اعتماد کسی حد تک پر تشدد ہی ہوا۔ البتہ مشرق وسطیٰ میں یہ تشدد عوام کے بجائے حکمرانوں کا مقدر بنا۔ انقلاب فرانس میں حکومت کے خلاف عوام کا عدم اعتماد جاگیر دار طبقے کے قتل عام کا باعث بنا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں پر عوام کا اعتماد کیوں ختم ہو جاتا ہے؟ جمہوریت میں سیاست دان انتخابات کے موقعے پر عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتے ہیں۔ انتخابی دعوے کرتے ہیں سنہرے سپنے دکھاتے ہیں۔ عوام کے لیے دودھ اور شہر کی نہریں نکالنے کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور عوام کے ووٹ سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد عوام کے سامنے سے گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔
صرف غائب ہی نہیں ہوتے بلکہ عوام کی اس دولت کی لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں جو ان کی بہتری پر خرچ ہونی چاہیے۔ جب عوام حکمرانوں کی اس بد دیانتی کو دیکھتے ہیں تو فطری طور پر ان کا اعتماد حکمرانوں پر سے اٹھ جاتا ہے اور یہی بے اعتمادی کہیں 1968 اور 1977 کی شکل میں باہر آتی ہے کہیں عرب بہار کی شکل میں اگر عوام کی یہ بے اعتمادی مایوسی اور نفرت میں بدل جاتی ہے تو انقلاب فرانس کا روپ دھار لیتی ہے۔ سیاست دان عوام کی اس بے چینی اور بے اعتمادی کو احتجاجی تحریک کا نام دیتے ہیں۔
وہ احتجاجی تحریکیں جن میں صرف سیاسی کارکن اور محدود تعداد میں عوام شرکت کرتے ہیں ناکام ہو جاتی ہیں اور اس قسم کی ناکامی کی وجہ احتجاجی تحریکوں کی قیادت پر عوام کی عدم اعتمادی ہوتا ہے اگر احتجاجی تحریکوں کی قیادت پر عوام اعتماد کرتے ہیں تو وہ ایسی احتجاجی تحریکوں میں لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور عوام کی بھاری تعداد میں شرکت سے ایسی تحریکیں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اگر قیادت عوام سے مخلص ہوتی ہے تو احتجاجی تحریکوں کو انقلابی تحریکوں میں بدل دیتی ہے۔
پاکستان ایک ایسی احتجاجی تحریک کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں عوام حکومت سے بد ظن بھی ہیں اور مایوس بھی لیکن ابھی تک احتجاجی تحریک کی قیادت کے اخلاص پر بھی مطمئن نظر نہیں آتے۔ ہم نے سیاست دانوں کے دو حصوں میں بٹ جانے کی نشان دہی کر دی ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو حکومت کو اپنی مدت پوری کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔
دوسرا حصہ وہ ہے جو سیاسی مسائل کا حل حکومت کے خاتمے میں دیکھتا ہے۔ حکومت کی بقا کے حامیوں میں ایک بڑی تعداد ان سیاست دانوں کی ہے جو جمہوریت کے ثمرات سے اپنی جھولیاں بھرتے رہے ہیں اور جمہوریت کے تسلسل میں ہی اپنی باری دیکھتے ہیں اور ایک چھوٹی سی تعداد ایسے سیاست دانوں کی ہے جو خلوص نیت سے اس تنازعہ جمہوریت کو عوام کے مسائل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں دانشور بھی ہیں اہل قلم بھی۔!
سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی قیمت پر حکومت کو گرنے یا گرانے نہیں دیں گے۔ جب کہ سید خورشید شاہ کے پاس آصف علی زرداری کا بیان ہے کہ ''ہم نے میاں صاحب کو وزیر اعظم بنایا تھا اور وہ بادشاہ بن گئے'' کیا خورشید شاہ کے بیان اور آصف علی زرداری کے انکشاف میں کوئی ہم آہنگی ہے۔؟ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں مزدور، کسان راج لانا چاہتے تھے۔ لیکن وہ پاکستان میں مزدور کسان راج تو نہیں لا سکے جب کہ ان کے ''ہم پیشہ'' سیاست دانوں نے پاکستان میں مغلوں کا بادشاہی راج نافذ کر دیا۔ جس کی تصدیق بھٹو خاندان کے سیاسی وارث آصف علی زرداری کر رہے ہیں۔
اگر عمران خان اس بادشاہت کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں تو منطقی طور پر پیپلز پارٹی کو عمران خان کی حمایت کرنی چاہیے لیکن پیپلز پارٹی بادشاہت کو بچانے کی کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ پیپلز پارٹی بھی اسی بادشاہت کے راستے پر چل پڑی ہے جس کا الزام آصف علی زرداری میاں نواز شریف پر لگا رہے ہیں۔
بہر حال یہ ایک امتحان طلب مرحلہ ہے کیوں کہ ہر سیاست دان اپنے چہرے پر کوئی نہ کوئی خوبصورت نقاب ڈالے ہوئے ہے۔ عوام بلا شبہ موجودہ حکومت سے ناخوش بھی ہیں اور مایوس بھی وہ اس حکومت سے نجات چاہتے ہیں لیکن انھیں اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ کنویں سے نکلنے کی خواہش میں کھائی میں نہ گر جائیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہر سیاست دان ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوا ہے عوام اپنا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں۔؟
حکومت گرانے کو جمہوریت گرانے کے تصور یا فلسفے کے پیچھے یہ خوف کار فرما رہتا ہے کہ اگر حکومت گرا دی گئی تو فوج اقتدار سنبھال لے گی اگر ایسا ہوا تو جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی یہی وہ خوف ہے جو سیاست دانوں کو حکومت اور جمہوریت میں فرق کو سمجھنے نہیں دیتا۔ 2008 سے 2013 تک مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی حکومت کو بچاتی رہی اور کہا یہی جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) نے جمہوریت کو بچایا ہے۔
حکومتیں آنے جانے والی چیز ہوتی ہیں اور حکومتوں کو ختم کرنے کے آئینی طریقے بھی موجود ہیں اگر کسی حکومت کے خلاف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لاتی ہے اور یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت تو گر جاتی ہے لیکن جمہوریت باقی رہتی ہے۔
حکومتوں کو گرانے کے تین معروف طریقے ہیں۔ ایک تحریک عدم اعتماد۔ اس کا تعلق قانون ساز اداروں کے بحران سے ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار یا ہزاروں ہی میں ہوتے ہیں۔ اس عدم اعتماد کے پیچھے عموماً سیاسی مفادات ہوتے ہیں، عوامی مفادات کا اس عدم اعتماد سے عموماً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرا عدم اعتماد حکومتوں کے خلاف عوام کا ہوتا ہے جس کا تعلق عوام کے اپنے مفادات سے ہوتا ہے اور اس عدم اعتماد میں لاکھوں کروڑوں عوام شامل ہوتے ہیں۔
اس قسم کے عدم اعتماد کا مشاہدہ ہم نے پاکستان میں 1968 اور 1977 میں کیا اور مشرق وسطیٰ میں مصر، لیبیا اور تیونس میں کیا عوام جن حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں اسے دبانے اور کچلنے کے لیے حکومتیں ریاستی مشینری کا استعمال کرتی ہیں۔ کیوں کہ ریاستی مشینری آئین کے تحت حکومتوں کے تابع ہوتی ہے اور حکومتیں اس ریاستی مشینری کو اپنے مفادات اپنے بقا کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ اس معرکے میں عوام کے سامنے ریاستی مشینری آ جاتی ہے اور عوام کے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ یہ عدم اعتماد پر تشدد ہوتا ہے ماضی میں فرانس میں یہی ہوا۔
1968 اور 1977 میں پاکستان میں بھی عوام کا اعتماد کسی حد تک پر تشدد ہی ہوا۔ البتہ مشرق وسطیٰ میں یہ تشدد عوام کے بجائے حکمرانوں کا مقدر بنا۔ انقلاب فرانس میں حکومت کے خلاف عوام کا عدم اعتماد جاگیر دار طبقے کے قتل عام کا باعث بنا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں پر عوام کا اعتماد کیوں ختم ہو جاتا ہے؟ جمہوریت میں سیاست دان انتخابات کے موقعے پر عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتے ہیں۔ انتخابی دعوے کرتے ہیں سنہرے سپنے دکھاتے ہیں۔ عوام کے لیے دودھ اور شہر کی نہریں نکالنے کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور عوام کے ووٹ سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد عوام کے سامنے سے گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔
صرف غائب ہی نہیں ہوتے بلکہ عوام کی اس دولت کی لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں جو ان کی بہتری پر خرچ ہونی چاہیے۔ جب عوام حکمرانوں کی اس بد دیانتی کو دیکھتے ہیں تو فطری طور پر ان کا اعتماد حکمرانوں پر سے اٹھ جاتا ہے اور یہی بے اعتمادی کہیں 1968 اور 1977 کی شکل میں باہر آتی ہے کہیں عرب بہار کی شکل میں اگر عوام کی یہ بے اعتمادی مایوسی اور نفرت میں بدل جاتی ہے تو انقلاب فرانس کا روپ دھار لیتی ہے۔ سیاست دان عوام کی اس بے چینی اور بے اعتمادی کو احتجاجی تحریک کا نام دیتے ہیں۔
وہ احتجاجی تحریکیں جن میں صرف سیاسی کارکن اور محدود تعداد میں عوام شرکت کرتے ہیں ناکام ہو جاتی ہیں اور اس قسم کی ناکامی کی وجہ احتجاجی تحریکوں کی قیادت پر عوام کی عدم اعتمادی ہوتا ہے اگر احتجاجی تحریکوں کی قیادت پر عوام اعتماد کرتے ہیں تو وہ ایسی احتجاجی تحریکوں میں لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور عوام کی بھاری تعداد میں شرکت سے ایسی تحریکیں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اگر قیادت عوام سے مخلص ہوتی ہے تو احتجاجی تحریکوں کو انقلابی تحریکوں میں بدل دیتی ہے۔
پاکستان ایک ایسی احتجاجی تحریک کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں عوام حکومت سے بد ظن بھی ہیں اور مایوس بھی لیکن ابھی تک احتجاجی تحریک کی قیادت کے اخلاص پر بھی مطمئن نظر نہیں آتے۔ ہم نے سیاست دانوں کے دو حصوں میں بٹ جانے کی نشان دہی کر دی ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو حکومت کو اپنی مدت پوری کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔
دوسرا حصہ وہ ہے جو سیاسی مسائل کا حل حکومت کے خاتمے میں دیکھتا ہے۔ حکومت کی بقا کے حامیوں میں ایک بڑی تعداد ان سیاست دانوں کی ہے جو جمہوریت کے ثمرات سے اپنی جھولیاں بھرتے رہے ہیں اور جمہوریت کے تسلسل میں ہی اپنی باری دیکھتے ہیں اور ایک چھوٹی سی تعداد ایسے سیاست دانوں کی ہے جو خلوص نیت سے اس تنازعہ جمہوریت کو عوام کے مسائل کے لیے ضروری سمجھتے ہیں دانشور بھی ہیں اہل قلم بھی۔!
سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی قیمت پر حکومت کو گرنے یا گرانے نہیں دیں گے۔ جب کہ سید خورشید شاہ کے پاس آصف علی زرداری کا بیان ہے کہ ''ہم نے میاں صاحب کو وزیر اعظم بنایا تھا اور وہ بادشاہ بن گئے'' کیا خورشید شاہ کے بیان اور آصف علی زرداری کے انکشاف میں کوئی ہم آہنگی ہے۔؟ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں مزدور، کسان راج لانا چاہتے تھے۔ لیکن وہ پاکستان میں مزدور کسان راج تو نہیں لا سکے جب کہ ان کے ''ہم پیشہ'' سیاست دانوں نے پاکستان میں مغلوں کا بادشاہی راج نافذ کر دیا۔ جس کی تصدیق بھٹو خاندان کے سیاسی وارث آصف علی زرداری کر رہے ہیں۔
اگر عمران خان اس بادشاہت کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں تو منطقی طور پر پیپلز پارٹی کو عمران خان کی حمایت کرنی چاہیے لیکن پیپلز پارٹی بادشاہت کو بچانے کی کوشش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ پیپلز پارٹی بھی اسی بادشاہت کے راستے پر چل پڑی ہے جس کا الزام آصف علی زرداری میاں نواز شریف پر لگا رہے ہیں۔
بہر حال یہ ایک امتحان طلب مرحلہ ہے کیوں کہ ہر سیاست دان اپنے چہرے پر کوئی نہ کوئی خوبصورت نقاب ڈالے ہوئے ہے۔ عوام بلا شبہ موجودہ حکومت سے ناخوش بھی ہیں اور مایوس بھی وہ اس حکومت سے نجات چاہتے ہیں لیکن انھیں اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ کنویں سے نکلنے کی خواہش میں کھائی میں نہ گر جائیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہر سیاست دان ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوا ہے عوام اپنا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں۔؟