دنیا بھر سے سستی حب الوطنی

پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے ملے رہنے کے لئے ہی ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔

پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے ملے رہنے کے لئے ہی ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

زمین سے محبت کسے نہیں ہوتی۔ دھرم کی طرح دھرتی بھی بہت عزیز ہوتی ہے اور 67 برس قبل بپا ایک دن کی یاد میں ہر برس اگست کی 14 تاریخ کو اس وطن کا دن منایا جاتا ہے اور اگلے ہی دن15 اگست بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس دن حب الوطنی کا سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے۔ محبت تو ویسے بھی پر لطف احساس ہے، چاہے وطن سے ہی کیوں نہ ہو، جانیں دے دیں گے، کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا، تو اس کے دیدے نکال باہر کریں گے اور دشمن کے دانت کھٹے کر دیں گے اور دشمن کی توایسی کی تیسی!

یہ ہے وہ سستی ترین حب الوطنی جسے بیچتے بیچتے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ حقیقتاً ہمیں آزاد ی کا دھوکا ہے بس چہرے بدلے۔ گورے چٹے انگریز کے بہ جائے ہم کالے انگریز کے شکنجے میں ہیں اور آنکھیں کھولیں تو اس سستی جذباتیت کا بھی سب سے بڑا بیوپار بھی آج وہی کالا انگریز بنا ہوا ہے۔ ہم ٹھہرے تماش بین یا اس کی ڈگڈگی پہ رقصاں۔

''حقیقی آقا'' کا مفاد اب اسی میں ہے کہ اب ایسی ہی حب الوطنی کا پرچار کیا جائے، اسی میں اس کی بقا ہے۔ نفرت پر استوار سستی حب الوطنی! جیسے آگ کو ایندھن کے بجائے محض پھونکنی کے ذریعے بھڑکائے رکھنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی محض ہندوستان دشمنی!

کفر کے فتوے کے بعد اس دھرتی کے ناخداؤں نے ہندوستان دوستی کو سب سے بڑا ''گناہ'' بنا یا ہے۔ محدود تاریخ پڑھا کر مٹ جانے کے خوف دلائے جاتے ہیں۔''خبردار، کیا اسی دن کے لیے تمہارے باپ دادا نے قربانیاں دی تھیں؟'' شرم نہیں آتی قربانیوں کی بات بھی وہاں سے ہوتی ہے، جو سدا کے انگریز کے وفادار رہے رات ہندوستان میں سوئے، صبح پاکستان میں اٹھے۔

یعنی حادثاتی طور پر ''پاکستانی'' بننے والوں کی حب الوطنی۔ اور بہت سوں نے تو قربانیوں کے نام پر سودے بازی کی، انگریزوں سے حاصل جاگیریں بچانے کی خاطر۔

اور آج ہمیں سکھاتے ہیں وطن سے محبت! محسن بھوپالی نے انہیں کے لیے کہا تھا؛
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل ملی انہیں جو شریک سفر نہ تھے


کیا ہندوستان دشمنی کے بنا پاکستان سے محبت ممکن نہیں؟ جو ہمیں سنایا اور پڑھایا جاتاہے، اس کے مطابق تو پھر باقی تو کچھ بچتا ہی نہیں ہے!

ذرا تاریخ تو پڑھیں! پاکستان کو بنانے والے ہی ہندوستانی! جی ہاں، جو پاکستان بننے کے باوجود بھی اس کا حصہ نہیں بنے! 1946ء کے انتخابات میں مسلمانان برصغیر کی مخصوص 30 نشستوں میں سے 17 نشستیں ان علاقوں کی تھیں، جو کبھی پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔ یعنی دلی، بمبئی، بہار اور یوپی، سی پی وغیرہ۔ باقی 6،6نشستیں بنگال اور پنجاب، جب کہ ایک نشست سندھ کی! اب بتائیے کہ اُن 17نشستوں والوں کے لیے اس پاکستان نے کیا، کیا؟ پھر یہ یاد بھی نہیں کہ مسلم لیگ کی جائے پیدئش اور پاکستان بنانے کے لیے 6 نشستوں کا ووٹ دینے والے بنگال کو کس طرح کاٹ پھینکا گیا۔ اب 23 نشستوں کو چھوڑ کر باقی 7 نشستوں والے پاکستان کی بات کیسے کی جائے؟۔

پاکستان مسلمانان برصغیر کے لیے بنا، مگر ہم نے خطے کے لیے کیا کیا؟ ہندوستان میں انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں، پھر 1971ء میں بنگال کا اکثریتی علاقہ ہم سے نکل گیا۔ وہاں بھی آج لاکھوں بہاری کیمپوں میں پڑے ہیں، جی وہاں وہی بہار، جہاں کی نشست نے پاکستان کے لیے ووٹ دیااور آج کی اس ریاست جسے پاکستان کہا جاتا ہے، وہاں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں!کیوں کہ سستی حب الوطنی کے پیمانے ہی اور ہیں!

ہمیں نہیں بتایا جاتا کہ قائداعظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکا اور کینیڈا جیسے قریبی تعلقات کی بات کی۔ بالفاظ دیگر، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے ملے رہنے کے لئے ہی ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ ہم نے یہ ملک بنا کر بہت کچھ حاصل کیا، مگر اس خطے کا اکثریتی مسلمان آج بھی ہندوستان میں ہماری آزادی کی قیمت چُکا رہا ہے۔ پاکستان سے پہلے بھی مسلمان اقلیت میں تھا، مگر پاکستان بن کے برصغیر کی سب سے بڑی اقلیت کا حجم کئی گنا گھٹ گیا اور ہم ہیں اپنی ''آزادی'' میں مست۔

آج وقت ہے کہ ہم اندھی جذباتیت کی دلدل میں غرق ہو کر سستی حب الوطنی کے بجائے حقیقت پسندانہ اور حقیقی حب الوطنی دکھائیں، تاکہ خود مختاری، امن، چین وانصاف، رواداری اور سکون کے ساتھ حقیقی طور پر آزاد ہو سکیں!

یقیناً ہندوستان کو کوسے بغیر حاصل ہونے والی حب الوطنی کافی ''منہگی'' ہوگی اور اس کی قیمت بھی ''بہت'' ہوگی، مگر یہ بھی جان لیجیے کہ آزادی حاصل کرنے کے لئے ابھی کرنے کے کام اور بھی ہیں۔ مگر اس سے پہلے سستی حب الوطنی کے آسیب سے نجات ضروری ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story