سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک کے تمام ادارے اور اہلکار آئین کے تحت کام کریں اور کوئی غیر آئینی اقدام نہ اٹھائیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ کی درخواست کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر کامران مرتضیٰ نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ملکی صورت حال میں حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے آئین کے تحت عوام کو دیئے گئے بنیادی حقوق معطل ہوگئے ہیں، اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی خطرہ ظاہر کیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں کوئی غیر آئینی اقدام ہوسکتا ہے اور اس سلسلے میں قومی اسمبلی نے قرارداد بھی منظور کی ہے۔
کامران مرتضیٰ کے دلائل کے جواب میں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ عمران خان اور طاہر القادری کے مطالبات کو غیر آئینی قراردے چکی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے کراچی اسٹاک ایکسچینج میں اربوں روپے کا نقصان ہوگیا ہے، آرٹیکل 9 اور 13 بھی بنیادی حقوق ہیں جو دھرنوں کی وجہ سے معطل ہوسکتے ہیں، جسٹس اصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں کہیں ایک مرتبہ پھر 3 نومبر کا اقدام نہ ہو اور سنگین غداری ہونے سے روکا جائے۔
ابتدائی سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے اپنے عبوری فیصلے میں کہا کہ تمام ادارے اور اہلکار آئین کے تحت کام کریں اور کوئی غیر آئینی اقدام نہ اٹھائیں۔ اگر کوئی غیر آئینی واقدام اٹھایا گیا تو اسے آئین سے غداری تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں عدالت عظمیٰ 31 جولائی 2009 کو بھی ایک فیصلہ سناچکی ہے۔ کیس کی مزید سماعت 18 اگست کو ہوگی۔