ہیرو بننے کی کبھی خواہش نہیں رہی ارجن رام پال
ارجن رام پال نے اپنے کیریر میں زیادہ تر ایسی فلمیں کی ہیں جن میں ایک سے زائد ہیرو شامل تھے۔
پندرہ برس قبل ارجن رام پال نے ایک جریدے کو انٹرویو میں کہا تھا کہ معیاری فلمیں اور اچھے کردار اس کی ترجیح ہوں گے۔ ان دنوں ارجن ایک معروف ماڈل تھا اور بولی وڈ میں داخل ہونے کے لیے کوششیں کررہا تھا۔
تین برس کی پیہم کوششوں کے بعد بالآخر وہ ڈائریکٹر راجیو راج کی فلم '' پیار، عشق اور محبت'' کے مرکزی کرداروں میں جگہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ پہلی فلم سے لے کر گذشتہ برس ریلیز ہونے والی '' را۔ ون '' تک اس نے ہمیشہ منفرد کرداروں کو ترجیح دی ہے۔
ہر فلم میں ارجن کی خوب صورت پرفارمینس اس کے کیریر کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا سبب بنی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک پختہ اداکار میں ڈھلتا چلا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری میں اس کی مصروفیت بھی بڑھتی چلی گئی۔ گذشتہ ہفتے اس کی فلم '' ہیروئن'' ریلیز ہوئی ہے۔
کرینا کپور کے مقابل اس فلم میں ارجن کی اداکاری بہت پسند کی جارہی ہے۔ رواں برس ارجن کی مزید دو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی جن میں ڈائریکٹر پرکاش جھا کی '' چکر ویو'' اور سدھیرمشرا کی ''انکار'' شامل ہیں۔
ارجن رام پال نے اپنے کیریر میں زیادہ تر ایسی فلمیں کی ہیں جن میں ایک سے زائد ہیرو شامل تھے۔ پرکاش جھا کی '' چکرویو'' میں وہ کئی برس کے بعد سولو ہیرو کی حیثیت سے رول کررہا ہے۔
خاصے عرصے کے بعد پوری فلم کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہوئے وہ نروس تو نہیں؟ اس سوال کے جواب میں اداکار نے کہا،'' نروس بالکل بھی نہیں ہوں۔ میں پہلے بھی سولو ہیرو کے طور پر رول کرچکا ہوں اس لیے یہ میرے لیے کوئی نئی بات نہیں۔
دراصل میں نے ہمیشہ کچھ منفرد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے ہیرو بنناکبھی میری ترجیح نہیں رہا۔ میں صرف وہ رول کرتا ہوںجو میرے دل کو بھاتا ہے۔ اس بات سے مجھے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کردار مرکزی ہے یا معاون۔ ''
''چکر ویو'' نکسل باغیوں کے پس منظر میں بنائی جانے والی فلم ہے۔ اس فلم میں اپنے کردار کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ارجن نے کہا،'' آپ مجھے ایس پی عادل خان کے کردار میں دیکھیں گے۔
عادل خان اچھے کردار کا مالک انسان ہے۔ تاہم یہ ایک پیچیدہ کردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے کیریر میں اب تک جو کردار ادا کیے ہیں، یہ کردار ان سب سے زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔
بہرحال یہ میرے کیریر کا یادگار رول ہے۔ بڑے عرصے سے میری خواہش تھی کہ میں پولیس اہل کار کا رول کروں۔ اور میں یہ رول پرکاش جھا ہی کی فلم میں کرنا چاہتا تھا کیوں کہ ان سے میری اچھی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ ایس پی عادل کے کردار کی وجہ سے میری یہ خواہش پوری ہوگئی۔ اب گیند آڈینس کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس فلم کو کتنا پسند کرتے ہیں۔''
فلم کی شوٹنگ کے دوران اداکاروں کے ساتھ مختلف واقعات پیش آتے ہیں۔ اور کچھ سین ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے ان کے لیے یادگار بن جاتے ہیں۔
'' چکر ویو'' کا بھی ایک سین ارجن کی یادداشت میں محفوظ ہے۔ اس بارے میں ارجن نے اپنی یادداشت کھنگالتے ہوئے کہا،
'' ایک سین ہے جس میں، میں ایک گاؤں کے باسیوں کو بتاتا ہوں کہ حکومت کیوں چاہتی ہے کہ وہ نکسل باغیوں کے خلاف اُس کا ساتھ دیں۔ پرکاش جھا یہ سین اس وقت عکس بند کرنا چاہتے تھے جب سورج کی روشنی گاؤں پر ایک خاص زاویے سے پڑ رہی ہو۔
لہٰذا یہ سین شوٹ کروانے کے لیے میرے پاس صرف پندرہ منٹ تھے۔ اگر مجھ سے کوئی گڑبڑ ہوجاتی تو پھر اگلے روز ہی یہ سین شوٹ ہوسکتا تھا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ دباؤ کی وجہ سے میں یہ سین مقررہ وقت میں مکمل نہیں کرواسکا۔شوٹنگ سے واپس آتے ہوئے میرے ذہن میں یہی بات گھوم رہی تھی کہ پرکاش جی میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔
کچھ دیر کے بعد پرکاش جھا میرے کمرے میں آئے اور بولے،'کیسا ہے تو؟'۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے یہ سین شوٹ کروانے کے لیے ایک موقع اور دیا جائے۔ وہ مسکراتے ہوئے راضی ہوگئے۔ چار دن کے بعد ہم نے پھر اس گاؤں کا رُخ کیا اور اس بار میں نے ری ٹیک کے بغیر سین عکس بند کروادیا۔''
ارجن رام پال پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اس میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ صرف اپنی مردانہ وجاہت کے بل بوتے پر فلم انڈسٹری میں موجود ہے۔
لیکن پھر '' راک آن''( 2008ء) میں بہترین پرفارمینس پر نیشنل ایوارڈ کے حصول اور باکس آفس پراس کی فلموں کی کارکردگی نے ناقدین کے منہ بند کردیے۔
اس بارے میں ارجن کا کہنا تھا،'' جو لوگ مجھ پر تنقید کرتے تھے، میں ان پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اداکاری کوئی بھی کرسکتا ہے۔ یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ بس اس کے لیے محنت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ اب میرے بارے میں ان کی رائے تبدیل ہوگئی ہے۔ اور اگر نہ بھی ہوتی تو مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔''
تین برس کی پیہم کوششوں کے بعد بالآخر وہ ڈائریکٹر راجیو راج کی فلم '' پیار، عشق اور محبت'' کے مرکزی کرداروں میں جگہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ پہلی فلم سے لے کر گذشتہ برس ریلیز ہونے والی '' را۔ ون '' تک اس نے ہمیشہ منفرد کرداروں کو ترجیح دی ہے۔
ہر فلم میں ارجن کی خوب صورت پرفارمینس اس کے کیریر کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا سبب بنی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک پختہ اداکار میں ڈھلتا چلا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری میں اس کی مصروفیت بھی بڑھتی چلی گئی۔ گذشتہ ہفتے اس کی فلم '' ہیروئن'' ریلیز ہوئی ہے۔
کرینا کپور کے مقابل اس فلم میں ارجن کی اداکاری بہت پسند کی جارہی ہے۔ رواں برس ارجن کی مزید دو فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی جن میں ڈائریکٹر پرکاش جھا کی '' چکر ویو'' اور سدھیرمشرا کی ''انکار'' شامل ہیں۔
ارجن رام پال نے اپنے کیریر میں زیادہ تر ایسی فلمیں کی ہیں جن میں ایک سے زائد ہیرو شامل تھے۔ پرکاش جھا کی '' چکرویو'' میں وہ کئی برس کے بعد سولو ہیرو کی حیثیت سے رول کررہا ہے۔
خاصے عرصے کے بعد پوری فلم کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہوئے وہ نروس تو نہیں؟ اس سوال کے جواب میں اداکار نے کہا،'' نروس بالکل بھی نہیں ہوں۔ میں پہلے بھی سولو ہیرو کے طور پر رول کرچکا ہوں اس لیے یہ میرے لیے کوئی نئی بات نہیں۔
دراصل میں نے ہمیشہ کچھ منفرد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے ہیرو بنناکبھی میری ترجیح نہیں رہا۔ میں صرف وہ رول کرتا ہوںجو میرے دل کو بھاتا ہے۔ اس بات سے مجھے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کردار مرکزی ہے یا معاون۔ ''
''چکر ویو'' نکسل باغیوں کے پس منظر میں بنائی جانے والی فلم ہے۔ اس فلم میں اپنے کردار کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے ارجن نے کہا،'' آپ مجھے ایس پی عادل خان کے کردار میں دیکھیں گے۔
عادل خان اچھے کردار کا مالک انسان ہے۔ تاہم یہ ایک پیچیدہ کردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے کیریر میں اب تک جو کردار ادا کیے ہیں، یہ کردار ان سب سے زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔
بہرحال یہ میرے کیریر کا یادگار رول ہے۔ بڑے عرصے سے میری خواہش تھی کہ میں پولیس اہل کار کا رول کروں۔ اور میں یہ رول پرکاش جھا ہی کی فلم میں کرنا چاہتا تھا کیوں کہ ان سے میری اچھی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ ایس پی عادل کے کردار کی وجہ سے میری یہ خواہش پوری ہوگئی۔ اب گیند آڈینس کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس فلم کو کتنا پسند کرتے ہیں۔''
فلم کی شوٹنگ کے دوران اداکاروں کے ساتھ مختلف واقعات پیش آتے ہیں۔ اور کچھ سین ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے ان کے لیے یادگار بن جاتے ہیں۔
'' چکر ویو'' کا بھی ایک سین ارجن کی یادداشت میں محفوظ ہے۔ اس بارے میں ارجن نے اپنی یادداشت کھنگالتے ہوئے کہا،
'' ایک سین ہے جس میں، میں ایک گاؤں کے باسیوں کو بتاتا ہوں کہ حکومت کیوں چاہتی ہے کہ وہ نکسل باغیوں کے خلاف اُس کا ساتھ دیں۔ پرکاش جھا یہ سین اس وقت عکس بند کرنا چاہتے تھے جب سورج کی روشنی گاؤں پر ایک خاص زاویے سے پڑ رہی ہو۔
لہٰذا یہ سین شوٹ کروانے کے لیے میرے پاس صرف پندرہ منٹ تھے۔ اگر مجھ سے کوئی گڑبڑ ہوجاتی تو پھر اگلے روز ہی یہ سین شوٹ ہوسکتا تھا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ دباؤ کی وجہ سے میں یہ سین مقررہ وقت میں مکمل نہیں کرواسکا۔شوٹنگ سے واپس آتے ہوئے میرے ذہن میں یہی بات گھوم رہی تھی کہ پرکاش جی میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔
کچھ دیر کے بعد پرکاش جھا میرے کمرے میں آئے اور بولے،'کیسا ہے تو؟'۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے یہ سین شوٹ کروانے کے لیے ایک موقع اور دیا جائے۔ وہ مسکراتے ہوئے راضی ہوگئے۔ چار دن کے بعد ہم نے پھر اس گاؤں کا رُخ کیا اور اس بار میں نے ری ٹیک کے بغیر سین عکس بند کروادیا۔''
ارجن رام پال پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اس میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ صرف اپنی مردانہ وجاہت کے بل بوتے پر فلم انڈسٹری میں موجود ہے۔
لیکن پھر '' راک آن''( 2008ء) میں بہترین پرفارمینس پر نیشنل ایوارڈ کے حصول اور باکس آفس پراس کی فلموں کی کارکردگی نے ناقدین کے منہ بند کردیے۔
اس بارے میں ارجن کا کہنا تھا،'' جو لوگ مجھ پر تنقید کرتے تھے، میں ان پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اداکاری کوئی بھی کرسکتا ہے۔ یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ بس اس کے لیے محنت اور توجہ درکار ہوتی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ اب میرے بارے میں ان کی رائے تبدیل ہوگئی ہے۔ اور اگر نہ بھی ہوتی تو مجھے کوئی پروا نہیں تھی۔''