ناکام مارچ
یوم آزادی درحقیقت صرف آزاد قوموں کو منانے کا حق ہے ۔۔۔
میں جتنا زیادہ عام آدمی کے فہم اور فراست پر غور کرتا ہوں، اتنا اپنے ملک کے متعلق پُر امید ہوتا جاتا ہوں۔ ہمارے ملک کی اصل طاقت ہمارے عام سے لوگ ہیں۔ ان کی اجتماعی دانش نے کبھی غلط فیصلہ نہیں کیا۔ عام آدمی زندگی کے تمام عذاب سہنے کے باوجود اپنے اندر ایک شعوری احساس رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کون اسے بیوقوف بنا رہا ہے اور کون اس کا خیر خواہ ہے۔ چودہ اگست کے حوالے سے میرا نقطہ نظر ہے کہ آزادی کے ثمرات ہمارے اُس طبقے تک نہیں پہنچ پائے جس کی بہبود کے لیے یہ ملک تخلیق کیا گیا تھا۔
میں 14 اگست کو کسی بھی سرکاری تقریب میں نہیں گیا۔ اس کی وجہ ان تقریبات کا مصنوعی پن یا بے جان ہونا نہیں۔ پیہم ناکامیاں، نشان منزل کے بغیر دائروں میں سفر اور مکمل جھوٹ و منافقت کی حاکمیت کی بدولت میں اپنے ذہن کو کسی بھی تقریب میں شرکت کے لیے قائل نہیں کر پایا۔ جب میں حقیقت کی دنیا میں اپنے مقتدر حلقوں کی جانب دیکھتا ہوں تو دل میں سوائے غم و غصہ کے کوئی اور جذبہ نہیں ہوتا۔ مگر اب یہ کیفیت، میں مخلوق خدا کی آنکھوں میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ انجام کیا ہو گا، مجھے علم نہیں۔
یوم آزادی درحقیقت صرف آزاد قوموں کو منانے کا حق ہے۔ میری نظر میں ہم لوگ ابھی تک آزاد نہیں ہیں۔ آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیے۔ آپ کو قدم قدم پر ایسے واقعات دکھائی دیں گے جو کسی بھی دور غلامی سے بھی بدتر ہیں۔ برصغیر میں تقسیم سے پہلے متعدد چھوٹے چھوٹے راجواڑے اور ریاستیں تھیں۔ کئی شاہی ریاستیں تو صرف ایک یا دو گائوں تک محدود تھیں۔
وہاں بیٹھا ہوا شاہی حاکم، اپنی مرضی سے لوگوں پر ٹیکس لگاتا تھا۔ اپنی مرضی کی تعلیم رائج کرتا تھا۔ اپنے حکم سے لوگوں میں زندگی اور موت تقسیم کرتا تھا۔ آزادی کے بعد ایک تبدیلی ضرور آئی ہے۔ اب ایک یا دو اشخاص کے بجائے چند خاندانوں کی مستقل حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اس طرح کی شخصی حکومت کو آپ اپنی مرضی سے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔ مگر یہ جمہوریت کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ مثال سے کم تر ہے۔
ہم سارا دن عدلیہ کی آزادی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپ اگر عدلیہ کے اندرونی معاملات دیکھیے تو ششدر رہ جائیں گے۔ اگر کسی کے بزرگِ محترم کسی بھلے دور میں اعلیٰ عدالتی عہدے پر فائز رہے ہیں، تو ان کے داماد، بیٹے اور تمام نزدیکی رشتے دار دہائیوں مستفید ہوتے رہیں گے۔ مجھے ایک بار ایک نامور وکیل نے بتایا کہ عدلیہ میں بھی رشتہ داری اور تعلق کا عنصر موجود ہے اور پھر ضلعی عدلیہ جسے (Subordinate judiciary) کہا جاتا ہے، ان کی اعلیٰ عدالتوں تک ترقی تقریباً معدوم ہے۔
حالانکہ یہ لوگ یعنی سول جج مقابلے کے امتحان کی چھلنی سے گزر کر میرٹ پر آتے ہیں۔ اس محکمہ میں بھی ذاتی پسند اور ناپسند موجود ہے جس کا بنیادی کام انصاف مہیا کرنا ہے۔ باقی محکموں میں کیا حال ہو گا۔ جتنا کم بولا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ سرکاری نوکری میں میرٹ مکمل ختم ہو چکا ہے۔ اب یہ ہمارے سیاستدانوں کی ذیلی چاکریاں ہیں۔ آپ کسی انتظامی عہدے پر جا نہیں سکتے، جب تک آپ کو کسی سیاستدان کی آشیر آباد حاصل نہ ہو۔
میں نے جتنی اندورنی سازش سول سروس میں دیکھی ہے، اگر بیان کروں تو شاید آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ یہاں اگر مقتدر حلقے میں ایک بھی شخص آپ سے ناراض ہوگیا، تو وہ وقت کے وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کو آپ کے متعلق ایسی منفی باتیں کریگا جو غیر حقیقی ہونے کے باوجود حقیقت بن کر سامنے آ جائیں گی۔ صوبہ پنجاب کی بیوروکریسی اس کام میں انتہائی ماہر ہے۔ اس کی درجنوں مثالیں ہیں، مگر میں یہ تمام سچی حکایتیں کسی اور وقت بیان کروں گا۔
یہاں ہر وقت ''دختر رز'' میں دھت رہنے والے سرکاری افسر دوسروں کو پارسائی کے طویل لیکچر دیتے ہیں۔ اگر آپ غیر جانبدار رہ کر ملکی نظام کو پرکھیں، تو یہ اَمر سامنے آ جاتا ہے کہ ہمارا تمام نظام ایک بوسیدگی کا شکار ہو چکا ہے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ اعلیٰ سرکاری ملازم لوٹ مار کے نظام میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں آنے والے دنوں میں محیر العقول اور انتہائی مشکل حالات دیکھ رہا ہوں۔
دنیا میں بہت سے عوامی مارچ ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کامیاب اور کچھ ناکام رہے۔ مگر ان میں چند ایسے بھی تھے، جنکی بدولت یہ دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو گئی۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو آج کے انسانی حقوق اور فکری آزادی اسی طرح کے سیل رواں سے حاصل ہوئے ہیں۔1963 سے پہلے، امریکا میں لوگ مکمل طور پر دو طبقات میں بٹے ہوئے تھے۔ کاغذ کی حد تک سیاہ فام لوگوں کو تمام قانونی مراعات حاصل تھیں مگر عملی طور پر ایسا کچھ نہیں تھا۔ لوگوں میں معاشی تفاوت بہت زیادہ تھا۔
نوکریاں بہت کم تھیں اور اگر تھیں بھی، تو اس پر سفید فام لوگوں کو ترجیح دیجاتی تھیں۔ شمال میں ایک قانون جم کرو(Jim Crow Law) نافذالعمل تھا جسکی بدولت سیاہ فام لوگ دوسرے درجے کے ادنیٰ شہری بن چکے تھے۔ ووٹ ڈالنے کی آزادی کو عملاً سلب کر لیا گیا تھا کیونکہ کالوں کو دبائو کے ذریعے اپنا حق رائے دھی استعمال کرنے سے روکا جاتا تھا۔ غریب لوگوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ آزادی سے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔
امریکا کی اکیس ریاستوں میں سفید اور کالے لوگوں میں باہمی شادیوں پر مکمل پابندی تھی۔ یعنی گوری لڑکی کسی بھی سیاہ فام سے شادی نہیں کر سکتی تھی۔ کام کرنے کی اجرت میں بھی بہت زیادتی روا تھی۔ کالے لوگوں کو اپنی محنت مزدوری کے عوض بہت کم پیسے ملتے تھے۔ صاحبان فہم! میں امریکا کی بات کر رہا ہوں، جو اُس وقت بھی دنیا کا طاقتور ترین ملک تھا۔ کالوں کا تو کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ ان حالات میں کوئی بھی باہر نکل کر انسانی حقوق کی سیاست کی بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ران ڈولف اور رسٹن(Randolph and Rustin) دو سیاسی کارکن تھے۔ انھوں نے1963میں کالوں کے یکساں حقوق کے لیے مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے جا بجا تقاریر کرنی شروع کر دیں۔ انھوں نے ایک بہت بہادرانہ فیصلہ کیا۔ امریکا کا صدر مقام واشنگٹن ڈی سی ہے۔ تحریک کو دارالحکومت میں منعقد کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ مارچ سے پہلے ہر طرح کے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ چند لوگوں کا خیال تھا کہ ایک ایسی تحریک چلائی جائے جس میں امریکی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے۔
چند کا خیال تھا کہ پورے کے پورے شہر کو بند کر دیا جائے۔ زندگی کے تمام معمولات کو منجمد کر دیا جائے۔ کچھ کہتے تھے کہ دارالحکومت کے بجائے امریکا کے ہر شہر میں مظاہرے کیے جائیں۔ مگر تمام لوگوں کا خیال تھا کہ امریکی صدر کینیڈی(Kenedy) نے الیکشن میں صرف جذباتی نعرے لگائے۔ صدر بننے کے بعد وہ اپنے الیکشن کے دوران وعدوں سے مکمل انحراف کر رہا ہے۔ جب اس عظیم مارچ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو گوروں کو یہ لگا کہ کالے رنگ والے لوگ ان کی برابری کا سوچ رہے ہیں۔
امریکا کے کئی شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے۔ پائن بلف، ارکنساس، میری لینڈ، فلوریڈا اور ٹینیسی وغیرہ بہت متاثر ہوئے۔ ابھی مارچ شروع نہیںہوا تھا کہ امریکی صدر دبائو کا شکار ہو گیا۔ اس نے ریڈیو اور ٹی وی پر تقریر کر ڈالی جو کہ برابر انسانی حقوق کے متعلق تھی۔ ران ڈولف اور رسٹن کی محنت سے کئی سیاسی گروہ اور جھتے اس مارچ میں شامل ہونے پر آمادہ ہو گئے۔ اس میں ویٹر ریوٹر، جیمز فارم، جون لیوائز، مارٹن لوتھر کنگ، رود ویلکن اور وٹنی ینگ بھی شامل تھے۔ یہ لوگ تمام انتہائی متحرک اور سنجیدہ اشخاص تھے۔ مارٹن لوتھر کنگ بنیادی طور پر شمال کی ایک مذہبی تنظیم کا صدر تھا۔
وہ بلا کا مقرر تھا۔ تقریر کا جادوگر تھا۔ مگر ابھی مارٹن لوتھر کو یہ علم نہیں تھا کہ اس نے تحریک میں زندگی کی لافانی تقریر کرنی ہے۔ صدر کینیڈی کے اردگرد بے شمار مشیر تھے۔ تمام نے کینیڈی کو مشورہ دیا کہ طاقت کا استعمال کرنا چاہیے۔ بقول ان کے اس تحریک کو کچل دینا چاہیے۔ مگر صدر کینیڈی ایک زیرک سیاستدان تھا۔ اس نے بھانپ لیا کہ یہ تحریک اتنی مضبوط ہے کہ اس کی حکومت کو خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔
کینیڈی نے اس تحریک کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے مارچ کے تمام اکابرین کو وائٹ ہائوس (ایوان صدر) آنے کی دعوت دی۔ تمام شرکاء حیران ہو گئے کہ کینیڈی نے تحریک کی اجازت دیدی۔ شرط صرف ایک تھی کہ شرکاء شہریوں کی جان و مال کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ مارچ کی تاریخ 28 اگست 1963طے کر دی گئی۔
اس عظیم مارچ میں تین لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ تمام لوگ واشنگٹن جمع ہو گئے۔ حکومت نے مارچ کے شرکاء کے لیے سیکڑوں بسیں مہیا کر دیں۔ صرف نیویارک کے ہارلم علاقے سے450 بسیں روانہ ہوئیں۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے مارچ کرنے والوں کو کھانا فراہم کرنا شروع کر دیا۔ حکومت نے شرکاء کی حفاظت کے لیے ہزاروں پولیس اہلکار تعینات کر دیے۔ کسی بلوے کی صورت میں پینٹاگون نے19,000 فوجی بھی تعینات کر دیے جو لوگوں کی نظر سے تھوڑے سے دور مضافاتی علاقوں میں موجود تھے۔
مارچ میں پولیس کی تعداد5900 تھی جس میں3000 پولیس کے اہلکار واشنگٹن کے نزدیک ترین علاقوں سے منگوائے گئے تھے۔ تحریک میں2000 بسیں،100 ہوائی جہاز، اکیس ٹرینیں اور لاتعداد کاریں استعمال ہوئیں۔ تمام شرکاء کی تقاریر ایک طرف مگر مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر نے لوگوں کو دیوانہ بنا دیا۔ بنیادی طور پر وہ ایک خطیب تھا۔""I have a dream" میرا ایک خواب ہے" کے نام سے یہ تقریر انسانی حقوق کے لیے آج بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس کی تقریر کو 36 غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ مظلوم اور غریب طبقہ یہ جنگ جیت گیا۔ اس تحریک کے دبائو میں امریکا کا انسانی حقوق اور ووٹ ڈالنے کا قانون بنایا گیا۔ ان دو قوانین نے امریکا کی سیاسی اور معاشی حالت تبدیل کر دی۔ پہلی بار سیاہ فام کو گورے لوگوں کے برابر حقوق میسر آئے اور وہ بغیر کسی دبائو کے ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرنے کے قابل ہوئے۔ آج کا امریکا صرف اور صرف اس لانگ مارچ کی بنیاد پر ترقی کے یکساں مواقعے کی آماجگاہ ہے۔
ہمارے ملک میں اس وقت دو عوامی تحریکیں وقوع پذیر ہیں۔ ان کا انجام یا اختتام کیا ہو گا! مجھے قطعاً معلوم نہیں! مگر میری دعا ہے کہ یہ مارچ ناکام ہو جائیں؟ کیونکہ میرے جیسے سرکاری افسر اب اس عمر میں تبدیل نہیں ہو سکتے! ہم میں سے اکثریت سازش کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی! اگر یہ تحریکیں کامیاب ہو گئیں، تو پھر ہمارا کیا ہو گا؟