پوتے کی جیب میں دادا کا گوشت
جب خاندان کا کوئی بزرگ مر جاتا ہے یا اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں خاندان والوں کی نظر میں اب اسے نہ دوا کی ضرورت ۔۔۔
ہیرو ڈوٹس نے اپنی دلچسپ تاریخ میں بڑے دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں، دارا یا داریوش کبیر کی سلطنت کے بائیس صوبوں کا بیان اس نے تفصیل سے کیا ہے ان میں ایک آخری بائیسواں صوبہ ٹھیک اسی مقام پر بتاتا ہے جہاں آج کل ہم رہ رہے ہیں یعنی افغانستان جو اس وقت ''باکتریا'' سے مشرق کی طرف، یہاں کے لوگوں کے بارے میں دوسرے انکشافات کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کو اتنا احترام دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کی لاشوں کو دفنانے یا جلانے کے بجائے نہایت احترام سے کاٹ کر اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے اپنے ''پیٹوں'' میں محفوظ کر لیتے تھے۔
جب خاندان کا کوئی بزرگ مر جاتا ہے یا اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں خاندان والوں کی نظر میں اب اسے نہ دوا کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ دعا کی تب وہ چاقو چھرے اٹھا کر اسے ''کیفر کردار'' تک پہنچا دیتے ہیں جو ان کے پیٹ کے اندر ہوتا ہے، غالباً آج کل اس خطے میں سیاسی لوگ جو کیفر کردار کا ذکر کرتے ہیں وہ یہی مقام ہے کیوں کہ اکثر یہاں فنڈز وغیرہ کو اسی ''کیفرکردار'' تک پہنچایا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو پوری حکومت ہی کو یہیں پہنچا دیا جاتا ہے، مزید تفصیل بتاتے ہوئے اور وہ بھی خالص مزے لے لے کر ہیرو ڈوٹس نے لکھا ہے کہ اکثر بزرگوں کو بھی اپنے ''ویزے'' کی منظوری کا احساس ہو جاتا ہے کہ اب ہماری ''باری'' ہے:
اس کے قتل پہ میں چپ تھا میری باری اب آئی
میرے قتل پہ تم چپ ہو تیری باری کل ہو گی
چنانچہ وہ اکثر چپکے سے سٹک کر جنگل بیابان کو فرار ہو جاتے ہیں تا کہ وہاں اپنے ''پیاروں'' کے پیار سے محفوظ رہ کر کچھ دن زیادہ گزاریں، لیکن رشتے دار بھی دھیان رکھتے ہیں کہ کوئی بزرگ ''فرار'' کے مرحلے میں تو نہیں ہے اس لیے اس پر نظر رکھنے لگتے ہیں خواہ کتنے ہی مصروف ہوں لیکن ایک آنکھ متوقع ڈش پر رہتی ہے گھر سے باہر جاتے ہوئے (اپنے یا اس بزرگ کے) ایک دوسرے کو تلقین بھی کرتے ہیں کہ میں تو ذرا ضروری کام سے جا رہا ہوں لیکن بابو جی یا ددو کا خیال رکھو کہیں عنقریب کی ضیافت سے محروم نہ کر ڈالے، اب یہ اپنی اپنی قسمت اور ہوشیاری پر ہوتا تھا کہ کون کامیاب ہوتا ہے بزرگ یا اس سے محبت کرنے والے لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بزرگ بڑی مشکل سے اپنی زندگی کو ایکسٹینشن دینے میں کامیاب ہو پاتا کیونکہ فرار ہونے کے بعد بھی تلاش تو بہرحال جاری رہتی، اکثر کہنا ہی پڑتا
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے ''جاگے'' صبح ہوئی آرام کیا
کسی کے ہاں اس قسم کی ''بزرگانہ'' دعوت ہوتی تو اکثر قریبی عزیروں کو بھی بلایا جاتا اور سب مل کر بزرگ کو اپنے اپنے پیٹ میں حصہ بقدر جُثہ محفوظ کرتے بلکہ یہاں وہاں کے عزیزوں کے ہاں ''تبرک'' بھی بجھواتے کہ آپ ہمیں بڑے عزیز ہیں اس لیے خاص طور پر دادائے محترم یا بابائے مکرم کے سینے کا گوشت نذر ہے گر قبول افتد زہے عزو شرف، خواتین کی محفلوں میں اکثر اس قسم کا مکالمہ بھی ہوتا ۔۔۔ بہن تم نے فلاں کے خسر کا گوشت چکھا ۔۔۔ ؟ ۔۔۔ نہیں ان کم بختوں نے ہمیں بھیجا ہی نہیں حالانکہ پچھلے سال جب ہمارے دادا خسر مرے تھے تو ہم نے اتنا سارا گوشت بھجوایا تھا۔
اچھا ہوا جو نہیں بجھوایا کسی کام کا نہیں تھا ربڑ سے بھی سخت اور پھیکا بے مزہ ۔۔۔ وہ لوگ اسے کچھ کھلاتے پلاتے تو گوشت میں کوئی ذائقہ ہوتا، ہاں بہن ۔۔۔ اب ہمیں دیکھو میری ساس جب سے ''امید'' بنی ہے ہم اسے گھی میں تر بتر کرکے کھلاتے ہیں کہ کل کوئی اس کے گوشت پر باتیں نہ بنائے، ٹھیک کہا بہن ۔۔۔ میرے سسر میں ابھی کافی دن پڑے ہیں لیکن ہم نے ان کا خیال رکھنا شروع کر دیا ہے آخر بزرگوں کا حق ہوتا ہے ہمارے اوپر ۔۔۔ لیکن خیال رکھنا نہیں ۔۔۔ کہیں سٹک نہ جائے میری ساس بتا رہی تھی کہ اس کا ایک بھائی اپنے خاندان کو غچہ دے کر کامیاب ہوگیا تھا بعد میں بڑی مشکل سے اس کی لاش ملی تھی جو تین دن کی باسی تھی، کسی کو بالکل بھی مزہ نہیں آیا پتہ نہیں ان بعض بزرگوں کو کیا ہو جاتا ہے صرف دو چار دن زیادہ زندگی کے لیے اپنی اولادوں کے دشمن ہو جاتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ قصہ ہم نے یونہی محض داستان گوئی کی خاطر آپ کو سنایا ہے بالکل بھی نہیں بلکہ گزشتہ روز ہم اپنے غور کے حوض میں بیٹھے تھے جیسا کہ ہم آپ کو پہلے بھی بتا چکے ہیں جو ایک بڑے مٹکے پر مشتمل ہے کوئی کام نہیں تھا سوچا چلو دو چار ڈبکیاں لگا کر کالم کے لیے کچھ مال مسالہ ڈھونڈیں اور اتفاق سے بڑا کام کا موتی ملا، ہیرو ڈوٹس کو جغرافیہ کا پورا علم نہیں تھا کیونکہ وہ بابل سے اس طرف آیا نہیں تھا اور وہیں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں سے معلومات حاصل کرتا تھا۔
چنانچہ اس نے اس وقت کی نشانیوں کے مطابق جو خطہ بتایا ہے وہ ٹھیک ہمارے اس علاقے پر منطبق ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شک و شبہ ہو بھی تو اس بات سے تصدیق ہو جاتی ہے کہ اس خطے میں اب بھی ان روایات کا تسلسل پایا جاتا ہے، یہاں کے لوگ اپنے بزرگوں کا گوشت تو نہیں کھاتے کیوں کہ اس زمانے کی طرح آج کل خوراک کی قلت نہیں ہے اور پھر انسان کی ''ضرورت'' بھی بدل گئی ہے گوشت کی جگہ اب پیسے نے لے لی ہے چنانچہ اب اپنے بزرگوں کو کاٹ کوٹ کر کھایا نہیں جاتا بلکہ ان کو دفن کر کے مزار بنائے جاتے ہیں اور کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں۔
مثل بھی مشہور ہے کہ ''گائے کو کھو کر کھانے سے دوھ کر کھانا بہتر ہے'' چاہے وہ ''گائے'' اپنے خاندان کا کوئی ''جد'' ہی کیوں نہ ہو، یوں کہیے کہ اپنے بزرگوں کی لاشوں کو کاٹ کوٹ کر صرف ایک دن کی ضیافت کے بجائے ان کو مزارات کی ہانڈی میں ڈالا جاتا ہے اور مدت مدید تک اس کی یخنی اور شوربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے ایک دوست تھے جو ایک بڑے مزار عالیہ سے نسبت رکھتے تھے حالانکہ اکثر لوگ بڑے وثوق سے بتاتے تھے کہ وہ بزرگ کنوارے اور غیر شادی شدہ تھے تو ان کی اولادیں کہاں سے آئیں لیکن ہمیں اس سے کیا۔
لیکن ہم اکثر اس کے ''وارے نیارے'' دیکھ کر کہتے تھے کہ دادا ہو تو ایسا ۔۔۔ جو مر کر بھی اپنی اولادوں کے لیے کمائے جا رہا ہے۔ وہ ہمارے والے تو زندہ تھے تب بھی کچھ نہیں کر پائے۔ ان بزرگوں نے جو عبادتیں کی ہوں گی ان کے بدلے میں تو ان کو ''وہاں'' بھی بہت کچھ ملا ہو گا لیکن ان کی اولادوں نے کیا تیر مارا ہے۔ اصل میں اپنے بزرگوں سے بعد از مرگ فائدہ اٹھانے کا یہ رجحان یہاں صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اب تو ہیرو ڈوٹس نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔
اپنے یہاں دینی اور سیاسی طور پر اپنے اجداد کو کیش کرنے کا جو رجحان ہے قدیم زمانوں سے چلا آ رہا ہے۔ اور ابھی چیزوں کو محفوظ کرنے کے ذرایع مثلاً فریج فریزر کولڈ اسٹوریج او ر''مزار'' بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اب انسان نے کتنی ترقی کر لی ہے ایک ہی جد امجد یا شہید اگر کسی کو مل جائے تو پھر پشت ہا پشت تک انھیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کھائے جا کمائے جا ۔۔۔ ویسے بعض لوگ جو سیاست کی وجہ سے دور اندیش ہوتے ہیں ایک مزار کے ساتھ ساتھ احتیاطاً ایک دو مزار اور بھی رکھ لیتے ہیں۔
مطلب یہ کہ طریقہ واردات وہی پرانا ہے اپنے بزرگوں کو کھانے پینے کا سامان بنانا۔ جس دوست کا ہم نے ذکر کیا ہے جو اپنے دادا کے مزار کا دیا کھاتے تھے اسے ایک دن دوستوں نے گھیر لیا اور نمک منڈی لے گئے کہ آج اس سے خوب جی بھر کر ''تکہ کڑاہی'' کھانا چاہیے سازش کامیاب ہوئی بِل اسے بھی بھرنا پڑا لیکن خلاف توقع اس نے کچھ زیادہ چوں چرا کیے بغیر بِل ادا کر دیا اس پر ایک دوست بولا ۔۔۔ اس کا کیا جاتا ہے ایسے دادا ہوں تو تکے اور کڑاہیاں بے شمار ۔۔۔ یوں سمجھو کہ آج ہم نے بھی اس کے دادا کا گوشت کھایا ہے۔
جب خاندان کا کوئی بزرگ مر جاتا ہے یا اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں خاندان والوں کی نظر میں اب اسے نہ دوا کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ دعا کی تب وہ چاقو چھرے اٹھا کر اسے ''کیفر کردار'' تک پہنچا دیتے ہیں جو ان کے پیٹ کے اندر ہوتا ہے، غالباً آج کل اس خطے میں سیاسی لوگ جو کیفر کردار کا ذکر کرتے ہیں وہ یہی مقام ہے کیوں کہ اکثر یہاں فنڈز وغیرہ کو اسی ''کیفرکردار'' تک پہنچایا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو پوری حکومت ہی کو یہیں پہنچا دیا جاتا ہے، مزید تفصیل بتاتے ہوئے اور وہ بھی خالص مزے لے لے کر ہیرو ڈوٹس نے لکھا ہے کہ اکثر بزرگوں کو بھی اپنے ''ویزے'' کی منظوری کا احساس ہو جاتا ہے کہ اب ہماری ''باری'' ہے:
اس کے قتل پہ میں چپ تھا میری باری اب آئی
میرے قتل پہ تم چپ ہو تیری باری کل ہو گی
چنانچہ وہ اکثر چپکے سے سٹک کر جنگل بیابان کو فرار ہو جاتے ہیں تا کہ وہاں اپنے ''پیاروں'' کے پیار سے محفوظ رہ کر کچھ دن زیادہ گزاریں، لیکن رشتے دار بھی دھیان رکھتے ہیں کہ کوئی بزرگ ''فرار'' کے مرحلے میں تو نہیں ہے اس لیے اس پر نظر رکھنے لگتے ہیں خواہ کتنے ہی مصروف ہوں لیکن ایک آنکھ متوقع ڈش پر رہتی ہے گھر سے باہر جاتے ہوئے (اپنے یا اس بزرگ کے) ایک دوسرے کو تلقین بھی کرتے ہیں کہ میں تو ذرا ضروری کام سے جا رہا ہوں لیکن بابو جی یا ددو کا خیال رکھو کہیں عنقریب کی ضیافت سے محروم نہ کر ڈالے، اب یہ اپنی اپنی قسمت اور ہوشیاری پر ہوتا تھا کہ کون کامیاب ہوتا ہے بزرگ یا اس سے محبت کرنے والے لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بزرگ بڑی مشکل سے اپنی زندگی کو ایکسٹینشن دینے میں کامیاب ہو پاتا کیونکہ فرار ہونے کے بعد بھی تلاش تو بہرحال جاری رہتی، اکثر کہنا ہی پڑتا
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے ''جاگے'' صبح ہوئی آرام کیا
کسی کے ہاں اس قسم کی ''بزرگانہ'' دعوت ہوتی تو اکثر قریبی عزیروں کو بھی بلایا جاتا اور سب مل کر بزرگ کو اپنے اپنے پیٹ میں حصہ بقدر جُثہ محفوظ کرتے بلکہ یہاں وہاں کے عزیزوں کے ہاں ''تبرک'' بھی بجھواتے کہ آپ ہمیں بڑے عزیز ہیں اس لیے خاص طور پر دادائے محترم یا بابائے مکرم کے سینے کا گوشت نذر ہے گر قبول افتد زہے عزو شرف، خواتین کی محفلوں میں اکثر اس قسم کا مکالمہ بھی ہوتا ۔۔۔ بہن تم نے فلاں کے خسر کا گوشت چکھا ۔۔۔ ؟ ۔۔۔ نہیں ان کم بختوں نے ہمیں بھیجا ہی نہیں حالانکہ پچھلے سال جب ہمارے دادا خسر مرے تھے تو ہم نے اتنا سارا گوشت بھجوایا تھا۔
اچھا ہوا جو نہیں بجھوایا کسی کام کا نہیں تھا ربڑ سے بھی سخت اور پھیکا بے مزہ ۔۔۔ وہ لوگ اسے کچھ کھلاتے پلاتے تو گوشت میں کوئی ذائقہ ہوتا، ہاں بہن ۔۔۔ اب ہمیں دیکھو میری ساس جب سے ''امید'' بنی ہے ہم اسے گھی میں تر بتر کرکے کھلاتے ہیں کہ کل کوئی اس کے گوشت پر باتیں نہ بنائے، ٹھیک کہا بہن ۔۔۔ میرے سسر میں ابھی کافی دن پڑے ہیں لیکن ہم نے ان کا خیال رکھنا شروع کر دیا ہے آخر بزرگوں کا حق ہوتا ہے ہمارے اوپر ۔۔۔ لیکن خیال رکھنا نہیں ۔۔۔ کہیں سٹک نہ جائے میری ساس بتا رہی تھی کہ اس کا ایک بھائی اپنے خاندان کو غچہ دے کر کامیاب ہوگیا تھا بعد میں بڑی مشکل سے اس کی لاش ملی تھی جو تین دن کی باسی تھی، کسی کو بالکل بھی مزہ نہیں آیا پتہ نہیں ان بعض بزرگوں کو کیا ہو جاتا ہے صرف دو چار دن زیادہ زندگی کے لیے اپنی اولادوں کے دشمن ہو جاتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ قصہ ہم نے یونہی محض داستان گوئی کی خاطر آپ کو سنایا ہے بالکل بھی نہیں بلکہ گزشتہ روز ہم اپنے غور کے حوض میں بیٹھے تھے جیسا کہ ہم آپ کو پہلے بھی بتا چکے ہیں جو ایک بڑے مٹکے پر مشتمل ہے کوئی کام نہیں تھا سوچا چلو دو چار ڈبکیاں لگا کر کالم کے لیے کچھ مال مسالہ ڈھونڈیں اور اتفاق سے بڑا کام کا موتی ملا، ہیرو ڈوٹس کو جغرافیہ کا پورا علم نہیں تھا کیونکہ وہ بابل سے اس طرف آیا نہیں تھا اور وہیں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں سے معلومات حاصل کرتا تھا۔
چنانچہ اس نے اس وقت کی نشانیوں کے مطابق جو خطہ بتایا ہے وہ ٹھیک ہمارے اس علاقے پر منطبق ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شک و شبہ ہو بھی تو اس بات سے تصدیق ہو جاتی ہے کہ اس خطے میں اب بھی ان روایات کا تسلسل پایا جاتا ہے، یہاں کے لوگ اپنے بزرگوں کا گوشت تو نہیں کھاتے کیوں کہ اس زمانے کی طرح آج کل خوراک کی قلت نہیں ہے اور پھر انسان کی ''ضرورت'' بھی بدل گئی ہے گوشت کی جگہ اب پیسے نے لے لی ہے چنانچہ اب اپنے بزرگوں کو کاٹ کوٹ کر کھایا نہیں جاتا بلکہ ان کو دفن کر کے مزار بنائے جاتے ہیں اور کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں۔
مثل بھی مشہور ہے کہ ''گائے کو کھو کر کھانے سے دوھ کر کھانا بہتر ہے'' چاہے وہ ''گائے'' اپنے خاندان کا کوئی ''جد'' ہی کیوں نہ ہو، یوں کہیے کہ اپنے بزرگوں کی لاشوں کو کاٹ کوٹ کر صرف ایک دن کی ضیافت کے بجائے ان کو مزارات کی ہانڈی میں ڈالا جاتا ہے اور مدت مدید تک اس کی یخنی اور شوربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے ایک دوست تھے جو ایک بڑے مزار عالیہ سے نسبت رکھتے تھے حالانکہ اکثر لوگ بڑے وثوق سے بتاتے تھے کہ وہ بزرگ کنوارے اور غیر شادی شدہ تھے تو ان کی اولادیں کہاں سے آئیں لیکن ہمیں اس سے کیا۔
لیکن ہم اکثر اس کے ''وارے نیارے'' دیکھ کر کہتے تھے کہ دادا ہو تو ایسا ۔۔۔ جو مر کر بھی اپنی اولادوں کے لیے کمائے جا رہا ہے۔ وہ ہمارے والے تو زندہ تھے تب بھی کچھ نہیں کر پائے۔ ان بزرگوں نے جو عبادتیں کی ہوں گی ان کے بدلے میں تو ان کو ''وہاں'' بھی بہت کچھ ملا ہو گا لیکن ان کی اولادوں نے کیا تیر مارا ہے۔ اصل میں اپنے بزرگوں سے بعد از مرگ فائدہ اٹھانے کا یہ رجحان یہاں صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اب تو ہیرو ڈوٹس نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔
اپنے یہاں دینی اور سیاسی طور پر اپنے اجداد کو کیش کرنے کا جو رجحان ہے قدیم زمانوں سے چلا آ رہا ہے۔ اور ابھی چیزوں کو محفوظ کرنے کے ذرایع مثلاً فریج فریزر کولڈ اسٹوریج او ر''مزار'' بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اب انسان نے کتنی ترقی کر لی ہے ایک ہی جد امجد یا شہید اگر کسی کو مل جائے تو پھر پشت ہا پشت تک انھیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کھائے جا کمائے جا ۔۔۔ ویسے بعض لوگ جو سیاست کی وجہ سے دور اندیش ہوتے ہیں ایک مزار کے ساتھ ساتھ احتیاطاً ایک دو مزار اور بھی رکھ لیتے ہیں۔
مطلب یہ کہ طریقہ واردات وہی پرانا ہے اپنے بزرگوں کو کھانے پینے کا سامان بنانا۔ جس دوست کا ہم نے ذکر کیا ہے جو اپنے دادا کے مزار کا دیا کھاتے تھے اسے ایک دن دوستوں نے گھیر لیا اور نمک منڈی لے گئے کہ آج اس سے خوب جی بھر کر ''تکہ کڑاہی'' کھانا چاہیے سازش کامیاب ہوئی بِل اسے بھی بھرنا پڑا لیکن خلاف توقع اس نے کچھ زیادہ چوں چرا کیے بغیر بِل ادا کر دیا اس پر ایک دوست بولا ۔۔۔ اس کا کیا جاتا ہے ایسے دادا ہوں تو تکے اور کڑاہیاں بے شمار ۔۔۔ یوں سمجھو کہ آج ہم نے بھی اس کے دادا کا گوشت کھایا ہے۔