اے وطن کی ہوا
ممکن ہے بقول عمران خان میاں نواز شریف اور ان کی جماعت نے اپنے فرائض کو ٹھیک طرح سے نہ نبھایا ہو ۔۔۔۔
وطن عزیز کے قیام کے 67 برس پورے ہو چلے ہیں لیکن بے حد سچی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں بے شمار نشیب و فراز کے باوجود ایسا مشکل اور خوشیوں بھرا یوم آزادی کبھی نہیں آیا' ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟
اس کے بارے میں آرا مختلف ہو سکتی ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جو بھی ہوا اور جس کا امکان ہے وہ بہر حال اچھا اور خوش آیند نہیں ہے میں بھی بیشتر اہل وطن کی طرح مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کی سوچ' طرز عمل کارکردگی اور ترجیحات سے خوش نہیں ہوں اور اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ عمران خان کا چار انتخابی حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ غلط نہیں تھا لیکن ہم ان دونوں باتوں کو اس تناظر اور پس منظر سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتے جس میں ہماری سیاسی تاریخ کی تشکیل ہوئی ہے کہ یہ ہمارا اجتماعی ورثہ ہے اور اس ہمہ گیر زوال اور انتشار کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ انھیں ایک دوسرے پر تنقید سے (چاہے وہ کتنی ہی درست اور مدلل کیوں نہ ہو) نہ تو کاٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی راتوں رات کسی جادو کی چھڑی سے تمام چیزیں ہمارے حسب منشا ہو سکتی ہیں۔
ممکن ہے بقول عمران خان میاں نواز شریف اور ان کی جماعت نے اپنے فرائض کو ٹھیک طرح سے نہ نبھایا ہو اور ان پر عائد کردہ دھاندلی اور اقربا پروری کی چارج شیٹ بھی درست ہو لیکن عمران خان سمیت ہم سب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وطن عزیز کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل بھی کسی الجھی ہوئی ڈور سے کم نہیں حزب اختلاف میں رہتے ہوئے جن باتوں پر اعتراض اور احتجاج کیا جاتا ہے اقتدار میں آنے کے بعد وہ بدل تو نہیں جاتیں صرف ان کو دیکھنے کا انداز بدلتا ہے غلطی کرنے والا کوئی بھی ہو اس کا تاوان بعد میں آنے والوں کو بھرنا ہی پڑتا ہے۔
سو یہ حکومت اگر کسی طرح گر بھی گئی تب بھی وہ مسائل اور مختلف النوع دراندازیاں تو اپنی جگہ ہی رہیں گی جن کا تعلق ریاست پاکستان سے ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو رعایت ہم اپنے لیے مانگتے ہیں اس کا حق دوسروں کو بھی پہنچتا ہے ہمارے جزیرے مختلف ہو سکتے ہیں مگر ہم سب ایک ہی سمندر میں رہتے بستے ہیں۔ اس وقت ہمارا معاشرہ جہالت' تشدد' دہشت گردی' کام چوری' بنیادی انسانی حقوق سے انکار' ہر شعبہ حیات میں کرپشن' غیر ذمے داری' پیشہ ورانہ بددیانتی اور بین الاقوامی سیاسی بساط پر اپنی مخصوص اہمیت کے حوالے سے جس طرح چاروں طرف سے گھرا ہوا ہے اس سے نکلنے کے لیے ساری قوم کو مل کر سخت اور مسلسل جدوجہد کرنی پڑے گی۔
عمران خان کے کچھ فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے جوش اور جذبے اور وطن کے لیے کچھ کرنے کے لیے عزم سے انکار ممکن نہیں، اس کی نگہ بھی بلند ہے اور جاں بھی پرسوز مگر جہاں تک ''سخن دل نواز''کا تعلق ہے وہاں معاملات کچھ توجہ طلب ہیں اسی طرح اس کا اصول سے زیادہ شخصی حوالے پر زور دینا بھی اصلاح کا متقاضی ہے۔ انتخابات میں جو دھاندلی ہوئی اس کی وجوہات گوناگوں ہیں اور جب تک ان وجوہات کو ختم نہیں کیا جاتا کسی بھی حکومت کے آنے یا جانے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
احتجاج اور مزاحمت یقیناً سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن یہ گاڑی اصل میں مکالمے اور افہام و تفہیم سے چلتی ہے (واضح رہے کہ افہام و تفہیم سے میری مراد ''مک مکا'' قطعاً نہیں ہے) ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی یقیناً مثالی جمہوریت نہیں ہے مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے سسٹم میں اتنی لچک اور وسعت ہے کہ وہاں سچ مچ کا غریب آدمی بھی اعلیٰ ترین عہدوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے بدقسمتی سے پاکستانی سیاست کے تقریباً تمام قابل ذکر کردار نچلی سطح پر عوام کی زندگی اور معاملات کو سیاسی اہمیت کو سمجھے اور ان سے گزرے بغیر کہیں درمیان میں سے وارد ہوتے رہے ہیں۔
تقریباً 40 برس قبل ''اے وطن کی ہوا'' کے نام سے ایک نظم لکھی تھی ممکن ہے فنی حوالے سے اس میں کچھ ڈھیلا پن ہو مگر جہاں تک اس کے نفس مضمون کا تعلق ہے اس کی دھار آج بھی اتنی ہی تیز ہے بلکہ شاید اب یہ ایک ایسی دو دھاری تلوار کی شکل اختیار کر گئی ہے جسے دستے کے بجائے درمیان سے پکڑنا پڑ رہا ہے۔ رب کریم ہمیں توفیق دے کہ ہم اس دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو سکیں اور ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے کہ وہ بڑا ہی رحیم اور کریم ہے۔
وطن کی ہوا
اے وطن کی ہوا
ہم ابھی ننھے منے سے معصوم بچے تھے جب ایک دن
تو انھی آنگنوں' روزنوں' چلمنوں' وادیوں'
پربتوں' بستیوں اور جزیروں کی تقدیر میں
روشنی کے پھریرے اڑاتی ہوئی آتی تھی اور ہم
جن کے کانوں نے ماں کی سبک لوریوں کے سوا کچھ سنا ہی نہ تھا
جوش انگیز نعروں کی آواز پر مسکرانے لگے تھے
کہ اس میں سماعت کو راحت ملی تھی' وہی نغمگی
بچپنے سے جوانی کے ہر موڑ تک
مثل موج نفس' ساتھ چلتی رہی۔
اے وطن کی ہوا
تیری خوشبوئیں سحر کی مثل ہے جس میں ہم بند ہیں
ہم جہاں بھی رہیں تیرے پابند ہیں
ہم میں کتنے ہیں جو تیری خوشبو کی میٹھی مدھر تان پر
اپنا سب کچھ گنوا کر تری سمت بازو کشادہ چلے
اور کتنے ہیں جو تیرا رستہ بتانے کی پاداش میں
اور کتنے ہیں جو آنکھ کھلنے سے اب تک ظلم سہتے رہے تجھی میں پلے
پر سبھی ایک دوجے کے مانند ہیں۔