عقل کی دنیا پر حکمرانی
کرامویل کے بارے میں کارئل کا کہنا تھا ’’خطرناک جنگ کی تاریکیوں میں وہ امید کا الائو بن کر روشن ہوا۔‘‘
چارلس اول 1625 میں انگلستان کا بادشاہ بنا، پارلیمنٹ نے 1628 میں '' اعلان حقوق عوام '' کے نام سے اسے ایک تاریخی یادداشت پیش کی ۔انگلستان کی تاریخ میں یہ ایک معروف دستاویز ہے اس یادداشت میں بادشاہ کو کہا گیا کہ وہ کوئی مطلق العنان حکمران نہیں ہے اور اپنی مرضی سے ہر کام نہیں کرسکتا وہ لوگوں کو غیرقانونی طورپر قید و بند کی سزا نہیں دے سکتا عوام پر اپنی مرضی سے ٹیکس نہیں عائد کرسکتا۔
بادشاہ چارلس اس بات پر سیخ پا ہوا کہ اسے کچھ باتوں میں پارلیمنٹ کا پابند کیا جا رہا ہے اس نے پارلیمنٹ توڑ دی اور اس کے بغیر حکمرانی کرنے لگا لیکن کچھ برسوں کے بعد بادشاہ چارلس مجبور ہوگیا کہ وہ دوبارہ پارلیمنٹ تشکیل دے کیونکہ ملک بھر میں اس بات پر شدید رد عمل پایا جاتا تھا کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی مشاورت کے بغیر سلطنت چلا رہا ہے۔
نئی پارلیمنٹ بن تو گئی لیکن بادشاہ کے ساتھ اس کی محاذ آرائی شروع ہوگئی 1642 میں خانہ جنگی شروع ہوئی ایک طرف بادشاہ تھا جس کا ساتھ امرا اور جاگیرداروں کے علاوہ فوج کا ایک بڑا حصہ دے رہا تھا ۔ دوسری طرف پارلیمنٹ تھی جس کے ساتھ امیر تاجر اورلندن شہر تھا۔ یہ خانہ جنگی کئی برسوں تک چلتی رہی۔ پارلیمنٹ کی حمایت میں ایک بہت بڑا لیڈر کرامویل سامنے آگیا۔
کرامویل کے بارے میں کارئل کا کہنا تھا ''خطرناک جنگ کی تاریکیوں میں وہ امید کا الائو بن کر روشن ہوا۔'' کرامویل نے ایک نئی فو ج تشکیل دی ،کرامویل نے ان میں جوش و جذبہ بھر دیا پارلیمنٹ کا حامی مرد آہن اور چارلس بادشاہ کی فوج ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے ۔کرامو یل بالآخر جیت گیا اور بادشاہ چارلس پارلیمنٹ کا قیدی بن گیا اسے ایک دہشت گرد، سازشی، قاتل ، اور ملک دشمن قرار دے کر سزائے مو ت سنا دی گئی۔ 1649 میں یہ شخص جو کبھی ان کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اور جو اپنے حکمرانی کے حق کو خدائی حق کہا کرتا تھا۔
لندن کے وائٹ ہال میں اس کا سر قلم کر دیا گیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، بادشاہ بھی عام لوگوں کی طرح مرتے ہیں، تاریخ میں بہت سے بادشاہ موت سے دوچار ہوئے ہیں، مطلق العنانی اور بادشاہت ، قتل اور خون ریزی کو جنم دیتی ہے۔ لیکن کسی پارلیمنٹ کا خود کو عدالت بنا لینا، بادشاہ پر مقدمہ چلانا اس کو سزائے موت کا مجرم ٹھہرانا اور پھر اس کا سر قلم کردینا ایک انوکھی بات تھی۔ انھوں نے ایک مثال قائم کرکے رکھ دی کہ سازشی اور ظالم بادشاہوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے ۔ بادشاہ پر پارلیمنٹ کی فتح دراصل عوام کی فتح تھی ۔
قائد اعظم نے نئی دہلی میں رائٹر کے نمایند ے ڈون کیپمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا '' نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہو گی اور نئی قوم کے اراکین بلا تمیز مذہب، ذات اور نسل کے یکساں حقوق کے مالک ہونگے۔'' یاد رہے قیام پاکستان کا سب سے بڑا مقصد عوام کی خوشحالی اور ان کا بااختیار ہونا تھا ۔ بدقسمتی سے 67سال بعد بھی ہم قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں کرسکے۔
ہیگل کہتا ہے کہ ''عقل کی دنیا پر حکمرانی ہے'' جب کہ افلاطون نے کہا کہ انسان پر اس سے بڑی مصیبت کوئی آہی نہیں سکتی کہ وہ عقل کی مخالفت شروع کر دے '' عوام کو طاقتور، بااختیار اور خوشحال بنائے بغیر کبھی بھی پاکستان مضبوط و مستحکم اور خوشحال نہیں بن سکتا ۔ دنیا بھر میں لوگوں نے تکلیفیں اٹھائیں ان سے انھوں نے سیکھا اور وہ تبدیل ہوگئے اوروہ سب کے سب ہمیں آسودگی، آزادی،خوشحالی،چین وسکون اور راحت کا راستہ دکھا رہے ہیں لیکن ہم نجانے کیوں اندھے بنے ہوئے ہیں۔
ہم حیرت انگیز قوم واقع ہوئے ہیں، 67سال سے مسلسل تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھا رہے ہیں مسلسل ذلیل و خوار ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو ہم سیکھ رہے ہیں اور نہ ہی تبدیل ہو رہے ہیں۔ فطرت نے انسان کو دو استاد مہیا کیے ہیں ایک دکھ اور دوسرا راحت ، یہ ان کاکام ہے کہ ہمیں بتائیں اور سکھائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے یا کیا کرنا ہے۔ ہمارے استاد ہمیں مسلسل سبق دے رہے ہیں کہ قسمت اور نصیب بنے بنائے نہیں مل جاتے بلکہ انھیں بنانا پڑتا ہے اور وہ اس وقت بنتے ہیں جب ہم اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں سے سیکھتے ہیں تکلیفیں اور مصیبتیں ہمارے لیے زندگی کے اندھیروں میں روشنی کا کام دیتی ہیں جو ہمیں نجات کا راستہ دکھاتی ہیں۔
میرے دوستوں کیا تمہیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا کیا تمہارے سینوں میں محرومیوں کی گونجتی چیخوں سے تمہارے دل نہیں پھٹتے، یاد رکھو تم سب سے بڑی طاقت ہو۔ اپنے اندر اعتماد اور اتفاق پیدا کرو کیونکہ یہ ہی ترقی، کامیابی اور خوشحالی کا راز ہے، اتحاد و اتفاق کے ذریعے ہی سماج میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور پھر پرانے فرسودہ سماج کے بجائے ایک نیا سماج پیدا ہو جاتا ہے، ایک نئے سماج کی تشکیل کی راہ پر ہمیشہ اولین قدم آسان نہیں ہوتے ہیں جمود پسند اور رجعت پسند و استحصال پسند ہمیشہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور یہ ہی کچھ ہمیں آج اپنے سماج میں دیکھنے کو مل رہا ہے کیونکہ رجعت پسند، جمود پسند اور استحصالی قوتوں کو عوامی راج ایک بھوت کی شکل میں نظر آتا ہے۔
یہ لوگ دراصل ہر وقت عوام سے خوفزدہ رہتے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر عوام بااختیار اور خوشحال ہوگئے تو انھیں پوچھنے والا کوئی نہ ہوگا لیکن اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ موجودہ فرسو دہ اور استحصالی نظام کو برقرار رکھ سکیں وہ اپنی ساری جاگیریں، ساری دولت ، سارے محلات، بھی اس مقصد کے لیے خرچ کردیں تو بھی کچھ نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔ لہذا ان کے لیے اب یہ ہی بہتر ہے کہ وہ عوامی حاکمیت کے فلسفے پر یقین لے آئیں اور عوام کے راستے سے ہٹ جائیں ۔
نپولین نے کہا تھا کہ لکڑیاں علیحدہ علیحدہ جلائو تو وہ دھواں دیتی ہیں اور اگر اکٹھی جلائو تو روشنی فراہم کرتی ہیں '' ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا مقابلہ عوام دشمنوں سے ہے اور فتح کی واحد ضمانت ہمارے مکمل اتحاد میں ہے ۔پرانی کہاوت ہے کہ شکاری نے جال لگایا کبوتر پھنس گئے کبوتروں نے باہم صلاح مشورے سے وحدت کا رنگ اختیار کیا اور جال سمیت اڑ گئے۔ ہم سب کو لنکن کی طرح ان الفاظ کو اپنانا ہوگا کہ آزادی اور اتحاد ہمیشہ کے لیے ایک چیز ہیں اور ناقابل تقسیم ہیں۔یاد رکھو ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور پانے کے لیے سارا جہان ہے۔