تبدیلی کا راگ

پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا ووٹ ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے اور گرانڈ ٹرنک روڈ کے ووٹروں کا تو یہ گڑھ ہے ۔۔۔


جاوید قاضی August 16, 2014
[email protected]

مضمون لکھتے وقت ابھی قافلہ رواں تھا اور یقینا آپ کی نظر ہونے تک یہ قافلہ تھم چکا ہو گا۔ اسلام آباد کی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا دھرنا اور تاریخی دھرنا۔ اس سے آگے صرف اتنا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ بات چیت میں وزن پڑ گیا۔ وہ ایک حقیقت بن کے حکمرانوں کے سامنے آ گئے ہیں۔ طاقت کے اعتبار سے تیس سال اور اس سے کم عمر ووٹروں کے لیے مقناطیس کی شکل رکھتے ہیں۔ ان کی تبدیلی کا علمبردار بننے کی حکمت عملی کام دکھا چکی ہے۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا ووٹ ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے اور گرانڈ ٹرنک روڈ کے ووٹروں کا تو یہ گڑھ ہے۔ یہ بھی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب میں اب ایک اسٹریٹ پاور پہلی مرتبہ ابھری ہے، جس طرح دو دہائیوں سے یہ اسٹریٹ پاور کراچی میں متحدہ کے پاس رہی ہے بالکل اسی طرح یہ اسٹریٹ پاور جو کسی زمانے میں پنجاب میں جماعت اسلامی کے پاس ہوا کرتی تھی یا خود لانگ مارچ کی چابی وکلا تحریک والی وکلا کے پاس یا نواز شریف کے پاس ہوا کرتی تھی وہ اب عمران خان کے پاس منتقل ہو چکی ہے۔

ضروری نہیں کہ ہر اسٹریٹ پاور آپ کو عوام کا حقیقی نمایندہ ہونے کا بھی شرف دے اور وہ بھی پنجابی ووٹ جو پنجاب کے دیہی علاقوں کا مظہر ہے وہاں اب بھی نواز شریف حقیقت ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ پہلے راؤنڈ میں عمران خان پنجاب کے بڑے شہروں کے لیڈر بن کے ابھریں اور بعد میں پنجاب کے دیہی علاقوں کے بھی۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پہلے بھٹو نے راج کیا، پھر نواز شریف نے اور اب عمران خان کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ان لیڈروں میں ایک اور بات بھی مشترک ہے۔ 70ء کی دہائی میں بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے قریب تھے پھر 90ء کی دہائی میں یہ مقام نواز شریف کو ملا اور اب عمران خان۔ یوں کہیے کہ یہاں اسٹیبلشمنٹ دیہی پنجاب کا ووٹر بھی۔ بہت سے لوگوں نے قیاس آرائیاں کیں کہ فوج براہ راست آ جائے گی، اس کو میں نے اسی جگہ رد کیا۔ مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ میاں صاحب استعفیٰ دیں گے، لیکن ان کی حکومت بہت بری طرح ہل گئی ہے۔

بہت سے زاویے ہیں اس لانگ مارچ کو دیکھنے کے۔ منفی بھی، مثبت بھی۔ عمران خان کو غیر جمہوری قوت سمجھا جاتا ہے وہ ہوں گے بھی۔ میاں صاحب کو جمہوری قوت سمجھا گیا، وہ ہوں گے بھی۔ لیکن بہت باریک سا فرق ہے عوامی نیشنل پارٹی ہو یا پیپلز پارٹی ہو، ان کی اچھائیاں برائیاں اپنی جگہ مگر وہ اسٹیٹس کو کی پارٹیاں تھیں اور عمران خان اسٹیٹس کو توڑنے والی پارٹی ہے دو طریقے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے کھڑے ہونے کے۔ ایک تو وہ عوامی پارٹیوں میں لوگ پیدا کرکے اندر سے پھوٹ ڈالتی ہے، کچھ مدت تک تو ٹھیک ہے مگر پھر ایسے لوگ اکیلے رہ جاتے ہیں جس طرح فاروق لغاری وغیرہ۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کچھ لوگوں کو موقع دیتی ہے اور مدد بھی کرتی ہے کہ وہ عوام میں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کریں، اگر وہ کامیاب گئے تو شرط یہ ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا خیال اور ان کا کہنا ماننا پڑے گا اور اگر کامیاب نہیں تو خدا حافظ۔ عمران خان عوامی لیڈر بن کر ابھرے ۔ بھٹو کے سحر سے کم، نواز شریف سے زیادہ وہ سحر بھی رکھتے ہیں۔

میں نے یہاں بے نظیر کا اسی لیے ذکر نہیں کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ لیڈر نہیں تھیں۔ وہ ایک علیحدہ مظہر تھیں اور علیحدہ حقیقتوں کی پیداوار تھیں۔ جہاں تک ان کی پارٹی کا تعلق ہے، وہ کتنی بھی میری پسندیدہ پارٹی اب بھی کیوں نہ ہو لیکن تاریخی اعتبار سے بہت ہی مشکل دوراہے پر کھڑی ہے۔ اس پارٹی میں اب جیالا پن نہیں رہا، نہ کوئی ایسی شخصیت جو عوام کو بھی سحر میں رکھے اور لاکھوں لوگوں سے پنڈال جلسے کا بھر سکے۔

بلاول بھٹو نے یہ کامیاب کوشش کی مگر مستقل مزاجی نہ دکھا سکے۔ اس لیے سندھ میں بھی عمران خان پیپلز پارٹی کو خود متحدہ کے لیے بہت سے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ سندھ دیہی اور سندھ شہری میں عمران خان یکساں مقبول لیڈر ہو کے ابھریں۔ لیکن ایسی قیاس آرائیاں کرنا قبل از وقت ہے۔

رہا سوال طاہر القادری کا وہ اپنے مریدوں کے پیر ہیں۔ آج کل ان کے ساتھ چوہدری برادران ہیں۔ طاہر القادری صاحب اپنے آپ کو جمہوری قوت واضح طور فرق بنا کے دکھا سکتے تھے۔ لیکن عمران خان کے سامنے یہ کام مشکل تھا۔ اب جب یہ قیاس آرائیاں ماند پڑ جائیں گی کہ سسٹم پٹری سے اتر جائے گا۔ جمہوریت کو خطرہ ہے تو اس سے عمران پر لوگوں کا اعتماد اور بڑھے گا۔ اس مرتبہ اب بھی ایک چیز مبہم ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن میں اصلاحات دو تین مہینوں میں ہو پائیں گی۔

اور اگر نہیں ہو پائیں گی تو کیا ایک ایسی حکومت بالآخر سامنے آئے جو نگراں حکومت تو ہو مگر تین مہینوں کی مدت کے لیے بنی ہو، تو پھر ایسی حکومت کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ ہاں ایسی گنجائش کورٹ اپنے فیصلے سے نکال سکتی ہے۔ مگر ایسا فیصلہ خود نظریہ ضرورت کے تحت ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا نوجوان طبقہ اور بالخصوص پنجاب کا نوجوان طبقہ اب سیاست میں متحرک ہوچکا ہے اور اسے سیاست میں عمران خان کی شخصیت لائی ہے۔ اور لا سکتی تھی۔

اب یہ نوجوان طبقہ میڈیا کے اینکروں کے ڈوزز اور مخصوص Narrative میں رہتا ہے جس کا دعویدار خود عمران خان بھی ہے۔ ہم نے دیکھا عمران خان طالبان سے اپنے آپ کو آزاد کروا چکا، جب تک وہ حقیقت تھے تو وہ بھی اور میاں صاحب بھی دونوں طالبان کو مکھن لگاتے تھے اور اب نہیں لگاتے۔ اس طرح عمران دائیں بازو کی سیاست کے اندر مختلف فرقوں کے لیے لچکدار ہیں۔

باقی اس دھرنے سے فوری کیا شکل بنتی ہے، کوئی توڑ پھوڑ ہو گی، لوگوں پر آنسو گیس پھینکی جائے گی، لوگ بے قابو ہو جائیں گے۔ میاں صاحب استعفیٰ دیں گے کوئی نگراں حکومت بنے گی یا ٹیکنو کریٹ حکومت بنے گی۔ اس پر میں روشنی نہیں ڈال سکتا۔ اتنا پھر بھی سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کو کوئی بھی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام نے یہ بات بہت بہتر انداز میں بارآور کروا دی ہے۔ اس لیے سوائے مریدوں کے طاہر القادری صاحب مقبول نہیں ہو سکے اور عمران خان کو تو جاوید ہاشمی جیسے لوگ چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب عمران خان نے صرف ٹیکنوکریٹ حکومت کی بات کی تھی۔ کوئی بھی غیر جمہوری عمل یا اس کی حمایت کرنا عمران خان کو ایک رات میں بہت ہی غیر مقبول کر سکتا ہے۔

عمران خان نے بھٹو کی طرح کچھ نئے چہرے متعارف کروائے ہیں اور بہت سے پرانے چہروں میں سیاسی اعتبار سے آکسیجن ڈالی ہے۔ اور بہت سے موقع پرست تو بہت سے تبدیلی پرست کل جس طرح پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے آج عمران خان کے ساتھ داخل ہوں گے بائیں بازو کی سیاست بدنصیبی سے بہت ہی سکڑ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں