ہندوستانی جمہوریت…
دلی جہاں ایک طرف دھندہ میں گھرے ہوئے کشادہ روڈ، صدارتی وہ وزارتی محلات نظر آتے ہیں، تو پرانی دلی ۔۔۔۔
ادب میں بوکر پرائز، نوبل پرائز کے بعد سب سے بڑا پرائز سمجھا جاتا ہے، جو برطانیہ، اپنے دولت مشترکہ کے ممالک یا ماضی میں کالونیاں رہنے والے ممالک کے لکھاریوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ انعام حاصل کرنیوالوں میں زنجبار کے عبدالرزاق گرنا (شیدی) سے لے کر ہندوستان کے سلمان رشدی، ارون دھتی رائے، کرن ڈیسائی جیسے مصنفین کو اپنے پہلے ہی ناولوں پر ملا۔
اسی لسٹ میں ایک اور اضافہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیمیافتہ، ٹائم میگزین کے سابقہ نمایندے، مدراس میں جنم لینے والے 38 سالہ اروند اڑیگا، جسے 2008 میں اپنے ناول ''وائٹ ٹائیگر'' پر یہ ملا۔اس ناول میں اروند نے ہندوستانی جمہوریت پر زبردست قسم کی طنزوتنقید کی ہے جو زمین کی حقیقتوں پر مشتمل ایک کھرا سچ بھی ہے اور ہندوستانی سیاستدانوں کے لیے ایک آئینہ بھی۔ انھوں نے ٹائم میگزین کے نمایندے کی حیثیت سے ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھا ہے اور وہاں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔
ریلوے اسٹیشنز سے لے کر جھوپڑ پٹی ہوٹلوں تک، بڑے بڑے شہروں سے لے کر بیابان کا منظر پیش کرنیوالے دیہی علاقوں تک جوتیاں گھسائی ہیں لیکن اس نے سب سے زیادہ جس چیز کو محسوس کیا وہ ہے امیروں اور غریبوں کی زندگی میں دن رات جیسی تفریق۔ یہ امرا ء دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کے روپ میں غریب لوگوں کا خون چوستے اور شہروں میں عیاشیاں کرتے ہوئے ملیں گے، جب کہ وہاں کے غریب لوگ ٹی۔بی اورکالرا کی بیماریوں میں مبتلا اور بھوکے پیٹ نظر آئینگے۔
شہروں میں صنعتکار ہشاش بشاش اورعام لوگ فٹ پاتھوں، اوور ہیڈ برجز، راستوں اور چھوٹے چھوٹے کواٹرز میں خون کے آنسوں روتے اور ملیریا کی جکڑ میں ملیں گے۔ اپنے ناول کی شروعات وہ ماضی قریب میں ڈیڑھ دو ارب کی آبادی ہوتے ہوئے بھی ترقی کی منازل طے کرنیوالے پڑوسی ملک چین کے وزیر اعظم کو خط لکھ کر مخاطب ہونے سے کرتا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار بلرام ہلوائی ہے، جو ایک غریب رکشے والا کا بیٹا ہے، جس کے کاندھوں پے ایک بڑی فیملی کا بوجھ ہے جو شمالی ہندوستان کا ضلع گایا کے گاؤں لکشمن گڑھ سے تعلق رکھتا ہے۔
گایا وہ مقام ہے جہاں گوتم بدھ نے ایک درخت کے نیچے گیان کرنے کے بعد تبلیغ شروع کی تھی جہاں سے گنگا ندی بے لگام ہو کر بہتی ہے۔ بلرام اسکول میں پڑھنے کے دوران کتابوں کی بجائے اپنے مشاہدات کی بنیاد پر سوالوں کے جوابات دیتا ہے جس کی وجہ سے اسے وائٹ ٹائیگر کا خطاب ملتا ہے، یوں وہ وائٹ ٹائیگر بننے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے، آگے چل کر اپنے خاندان کی مالی مجبوریوں کی وجہ سے اسکول چھوڑ کر ہوٹل پر بیرا گیری کرتا ہے۔
یہاں کوئلے کی کانوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کی گفتگو سن کراوریجنل تھنکر بن جاتا ہے۔ اب ذرا اروند کی ہندستانی جمہوریت اور اسے ملنے والے عام لوگوں کے درد کے متعلق ناول میں موجود خیالات بھی پڑھ لیں: شمالی انڈیا میں گنگا کے کنارے چائے کی دکانیں، وہاں کام کرنیوالے گرگٹ نما مزدور، چالیس پچاس سال عمر ہوتے ہوئے بھی کنوارے بیرا گیری کرتے ہوئے نظر آئینگے، انھیں ہوٹلز پر بیٹھنے والے ہزاروں لوگ پرانے اخبارات، رسائل، کتابیں پڑھتے اور ریڈیو سنتے ہوئے ملیں گے۔
آگے چل کر ان کے ذہنوں میں کچے پھیکے خیالات جنم لیتے ہیں اس لیے یہ لوگ Half Baked ہوتے ہیں جو کبھی بھی اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ اس پورے علاقے میں بجلی کا نظام درھم برھم، واٹر سپلائی اور سیوریج سسٹم ناکارہ، صحت کی ناکافی سہولیات، آلودگی، نا انصافی، معاشرتی فرق اور ٹی۔ بی کی بیماری کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں نیزے پر اٹکی ہوئی ہیں جب کہ جاگیردار اور سماجی کارکن اپنے ذاتی مفادات کی خاطر گٹھ جوڑ کرکے عام لوگوں کا استحصال کرتے ہیں، جو ہندوؤں کے پوتر شہر بنارس سے گذرنے والی گنگا ندی کا پانی مردوں کے ارتھیوں، مویشیوں کے گوبر اور خارج ہونیوالے فاضل مادوں کی وجہ سے بدبو کا شکار ہیں، سیاح ایک بار آنے کے بعد یہاں کا رخ نہیں کرتے، پھر بھی اس ملک میں جمہوریت اور انٹر پرینیوئر شپ ہے۔
دلی شہر، جہاں ایک طرف بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں، لگژری اپارٹمنٹس، شاندار ہوٹل جن میں صرف امیر لوگ داخل ہو سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف ان کے نوکروں کے لیے چھوٹے چھوٹے کواٹرز جن میں رہتے ہوئے کیڑوں مکوڑوں، کھٹملوں اور مچھروں سے لڑائی لڑنی پڑتی ہے، جن میں دوزخ کی گرمی بسیرا ڈالے ہوتی ہے۔
دلی جہاں ایک طرف دھندہ میں گھرے ہوئے کشادہ روڈ، صدارتی وہ وزارتی محلات نظر آتے ہیں، تو پرانی دلی میں ٹوٹے ہوئے روڈ، پرانی عمارتیں، تنگ گلیاں اور راستے، کھلی ہوئی گٹر نالیاں ہیں، اتنے بڑے شہر میں بھی امیر اور غریب کا فرق چودھویں کے چاند کی طرح نمایاں۔ دلی کے فٹ پاتھ اور اوور ہیڈ برجز اندھیر نگری یعنی شمالی ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کا سایہ بنے ہوئے، جنھیں کوئی نہیں پتا کہ ان کے کتنے بچے ہیں، ان کے نام کیا ہیں؟ اور کتنے شام کو واپس لوٹ آتے ہیں! ایک طرف غریبوں کی زندگی روڈز پر تڑپ رہی ہے تو دوسری طرف وزراء اور مشیران کک بیکس لینے میں مصروف ہیں۔
بقول اروند ہندوستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ پارلیمانی جمہوریت ہے جس کے کرتا دھرتا دن رات مال کمانے میں مصروف ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہر میں قانون کی بالادستی نہ ہونے اور کرپشن کے کاروبار کی وجہ سے عام لوگ جرم کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں، جہاں بڑی بڑی مافیائیں انھیں روزگار کے ساتھ مرنے کے بعد ان کی فیملی کی ذمے داریاں بھی اپنے سر لے لیتی ہیں۔
ٹیکنالوجی کا شہر، جہاں امریکن آؤٹ سورس کمپنیوں کا جال بچھا ہے، جن میں پڑھے لکھے نوجوان بھارتی لڑکیاں اور لڑکے کام کرتے ہیں جن کی تعلیم اور تنخواہ میں زمیں آسمان کا فرق ہے لیکن مجبوری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ یہاں صرف پیسہ چلتا ہے، کالا ہو یا سفید۔ اس ناول میں غریب لوگوں کو ایسے مرغے کہا گیا ہے، جو امیروں کے پنجرے میں قید ہیں، اور وہ جب چاہیں انھیں بازوں سے پکڑ کر قربان کردیں۔ اس لیے ملک میں انقلاب لانا ہے، تو امیروں کو پنجروں میں بند کرنا ہوگا غریبوں کو اعلیٰ تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔
اب اس ناول میں سے کچھ چٹخے دار جملے: اس ملک میں صرف دو تقدیریں ہوتی ہیں مارو یا مر جاؤ۔ اب یہاں صرف دو قومیں رہتی ہیں، امیر اور غریب۔ اس ملک میں غریب کی زندگی کی کہانی ان کے جسم پر لکھی ہوتی ہے۔ دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ امیر اور غریب کے درمیان ذہنی جنگ سے بھری پڑی ہے۔ میری ماں بستر پرچیختی رہی اور باپ رکشہ دھکیلتا رہا، ان کے پاس وقت کہاں تھا میرا نام رکھنے کا۔ ہندوستان کی دھرتی کا تیسرا حصہ، جہاں زرخیز زمینیں، دھانوں کے لہلہاتے کھیت ہیں، جہاں بھینسیں نہاتیں اور نرگس کے پھول کھاتی ہیں، اسے اندھیروں کا گڑھ کہتے ہیں۔
یہ سب کچھ جاننے کے بعد کیا ہمیں یہ نہیں لگتا کہ ہمارے پاک سرزمین کے لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہی مسائل درپیش ہیں۔ یہاں بھی ہمارے سیاستدان، فوجی حکمران، جاگیردار، بیورو کریٹس اور انقلابیے کبھی اقتدار، کبھی انصاف، کبھی احتجاج کی آڑ میں عوام سے گھناؤنا کھیل نہیں کھیل رہے، جس میں صرف عام آدمی کو ایندھن بنایا جا رہا ہے، جب کہ امیر لوگوں کی امارات اور وسیع ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے پتا نہیں کہ ہمارے لوگ کب جذبات میں بہنے کی بجائے ہوش سے کام لیں گے، جو فکر اور ذہنی جمود کا شکار ہیں۔ بقول علامہ اقبال :
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
سو ہم بھی امید کرتے ہیں کہ ایک دن یہ مملکت خداداد حقیقی طور پر آزاد ہوگی، جب سب پاکستانیوں کے دکھ سکھ سانجھے ہونگے۔
اسی لسٹ میں ایک اور اضافہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیمیافتہ، ٹائم میگزین کے سابقہ نمایندے، مدراس میں جنم لینے والے 38 سالہ اروند اڑیگا، جسے 2008 میں اپنے ناول ''وائٹ ٹائیگر'' پر یہ ملا۔اس ناول میں اروند نے ہندوستانی جمہوریت پر زبردست قسم کی طنزوتنقید کی ہے جو زمین کی حقیقتوں پر مشتمل ایک کھرا سچ بھی ہے اور ہندوستانی سیاستدانوں کے لیے ایک آئینہ بھی۔ انھوں نے ٹائم میگزین کے نمایندے کی حیثیت سے ہندوستان کا چپہ چپہ دیکھا ہے اور وہاں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔
ریلوے اسٹیشنز سے لے کر جھوپڑ پٹی ہوٹلوں تک، بڑے بڑے شہروں سے لے کر بیابان کا منظر پیش کرنیوالے دیہی علاقوں تک جوتیاں گھسائی ہیں لیکن اس نے سب سے زیادہ جس چیز کو محسوس کیا وہ ہے امیروں اور غریبوں کی زندگی میں دن رات جیسی تفریق۔ یہ امرا ء دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کے روپ میں غریب لوگوں کا خون چوستے اور شہروں میں عیاشیاں کرتے ہوئے ملیں گے، جب کہ وہاں کے غریب لوگ ٹی۔بی اورکالرا کی بیماریوں میں مبتلا اور بھوکے پیٹ نظر آئینگے۔
شہروں میں صنعتکار ہشاش بشاش اورعام لوگ فٹ پاتھوں، اوور ہیڈ برجز، راستوں اور چھوٹے چھوٹے کواٹرز میں خون کے آنسوں روتے اور ملیریا کی جکڑ میں ملیں گے۔ اپنے ناول کی شروعات وہ ماضی قریب میں ڈیڑھ دو ارب کی آبادی ہوتے ہوئے بھی ترقی کی منازل طے کرنیوالے پڑوسی ملک چین کے وزیر اعظم کو خط لکھ کر مخاطب ہونے سے کرتا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار بلرام ہلوائی ہے، جو ایک غریب رکشے والا کا بیٹا ہے، جس کے کاندھوں پے ایک بڑی فیملی کا بوجھ ہے جو شمالی ہندوستان کا ضلع گایا کے گاؤں لکشمن گڑھ سے تعلق رکھتا ہے۔
گایا وہ مقام ہے جہاں گوتم بدھ نے ایک درخت کے نیچے گیان کرنے کے بعد تبلیغ شروع کی تھی جہاں سے گنگا ندی بے لگام ہو کر بہتی ہے۔ بلرام اسکول میں پڑھنے کے دوران کتابوں کی بجائے اپنے مشاہدات کی بنیاد پر سوالوں کے جوابات دیتا ہے جس کی وجہ سے اسے وائٹ ٹائیگر کا خطاب ملتا ہے، یوں وہ وائٹ ٹائیگر بننے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے، آگے چل کر اپنے خاندان کی مالی مجبوریوں کی وجہ سے اسکول چھوڑ کر ہوٹل پر بیرا گیری کرتا ہے۔
یہاں کوئلے کی کانوں میں کام کرنیوالے مزدوروں کی گفتگو سن کراوریجنل تھنکر بن جاتا ہے۔ اب ذرا اروند کی ہندستانی جمہوریت اور اسے ملنے والے عام لوگوں کے درد کے متعلق ناول میں موجود خیالات بھی پڑھ لیں: شمالی انڈیا میں گنگا کے کنارے چائے کی دکانیں، وہاں کام کرنیوالے گرگٹ نما مزدور، چالیس پچاس سال عمر ہوتے ہوئے بھی کنوارے بیرا گیری کرتے ہوئے نظر آئینگے، انھیں ہوٹلز پر بیٹھنے والے ہزاروں لوگ پرانے اخبارات، رسائل، کتابیں پڑھتے اور ریڈیو سنتے ہوئے ملیں گے۔
آگے چل کر ان کے ذہنوں میں کچے پھیکے خیالات جنم لیتے ہیں اس لیے یہ لوگ Half Baked ہوتے ہیں جو کبھی بھی اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ اس پورے علاقے میں بجلی کا نظام درھم برھم، واٹر سپلائی اور سیوریج سسٹم ناکارہ، صحت کی ناکافی سہولیات، آلودگی، نا انصافی، معاشرتی فرق اور ٹی۔ بی کی بیماری کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں نیزے پر اٹکی ہوئی ہیں جب کہ جاگیردار اور سماجی کارکن اپنے ذاتی مفادات کی خاطر گٹھ جوڑ کرکے عام لوگوں کا استحصال کرتے ہیں، جو ہندوؤں کے پوتر شہر بنارس سے گذرنے والی گنگا ندی کا پانی مردوں کے ارتھیوں، مویشیوں کے گوبر اور خارج ہونیوالے فاضل مادوں کی وجہ سے بدبو کا شکار ہیں، سیاح ایک بار آنے کے بعد یہاں کا رخ نہیں کرتے، پھر بھی اس ملک میں جمہوریت اور انٹر پرینیوئر شپ ہے۔
دلی شہر، جہاں ایک طرف بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں، لگژری اپارٹمنٹس، شاندار ہوٹل جن میں صرف امیر لوگ داخل ہو سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف ان کے نوکروں کے لیے چھوٹے چھوٹے کواٹرز جن میں رہتے ہوئے کیڑوں مکوڑوں، کھٹملوں اور مچھروں سے لڑائی لڑنی پڑتی ہے، جن میں دوزخ کی گرمی بسیرا ڈالے ہوتی ہے۔
دلی جہاں ایک طرف دھندہ میں گھرے ہوئے کشادہ روڈ، صدارتی وہ وزارتی محلات نظر آتے ہیں، تو پرانی دلی میں ٹوٹے ہوئے روڈ، پرانی عمارتیں، تنگ گلیاں اور راستے، کھلی ہوئی گٹر نالیاں ہیں، اتنے بڑے شہر میں بھی امیر اور غریب کا فرق چودھویں کے چاند کی طرح نمایاں۔ دلی کے فٹ پاتھ اور اوور ہیڈ برجز اندھیر نگری یعنی شمالی ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کا سایہ بنے ہوئے، جنھیں کوئی نہیں پتا کہ ان کے کتنے بچے ہیں، ان کے نام کیا ہیں؟ اور کتنے شام کو واپس لوٹ آتے ہیں! ایک طرف غریبوں کی زندگی روڈز پر تڑپ رہی ہے تو دوسری طرف وزراء اور مشیران کک بیکس لینے میں مصروف ہیں۔
بقول اروند ہندوستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ پارلیمانی جمہوریت ہے جس کے کرتا دھرتا دن رات مال کمانے میں مصروف ہیں، یہی وجہ ہے کہ شہر میں قانون کی بالادستی نہ ہونے اور کرپشن کے کاروبار کی وجہ سے عام لوگ جرم کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں، جہاں بڑی بڑی مافیائیں انھیں روزگار کے ساتھ مرنے کے بعد ان کی فیملی کی ذمے داریاں بھی اپنے سر لے لیتی ہیں۔
ٹیکنالوجی کا شہر، جہاں امریکن آؤٹ سورس کمپنیوں کا جال بچھا ہے، جن میں پڑھے لکھے نوجوان بھارتی لڑکیاں اور لڑکے کام کرتے ہیں جن کی تعلیم اور تنخواہ میں زمیں آسمان کا فرق ہے لیکن مجبوری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ یہاں صرف پیسہ چلتا ہے، کالا ہو یا سفید۔ اس ناول میں غریب لوگوں کو ایسے مرغے کہا گیا ہے، جو امیروں کے پنجرے میں قید ہیں، اور وہ جب چاہیں انھیں بازوں سے پکڑ کر قربان کردیں۔ اس لیے ملک میں انقلاب لانا ہے، تو امیروں کو پنجروں میں بند کرنا ہوگا غریبوں کو اعلیٰ تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔
اب اس ناول میں سے کچھ چٹخے دار جملے: اس ملک میں صرف دو تقدیریں ہوتی ہیں مارو یا مر جاؤ۔ اب یہاں صرف دو قومیں رہتی ہیں، امیر اور غریب۔ اس ملک میں غریب کی زندگی کی کہانی ان کے جسم پر لکھی ہوتی ہے۔ دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ امیر اور غریب کے درمیان ذہنی جنگ سے بھری پڑی ہے۔ میری ماں بستر پرچیختی رہی اور باپ رکشہ دھکیلتا رہا، ان کے پاس وقت کہاں تھا میرا نام رکھنے کا۔ ہندوستان کی دھرتی کا تیسرا حصہ، جہاں زرخیز زمینیں، دھانوں کے لہلہاتے کھیت ہیں، جہاں بھینسیں نہاتیں اور نرگس کے پھول کھاتی ہیں، اسے اندھیروں کا گڑھ کہتے ہیں۔
یہ سب کچھ جاننے کے بعد کیا ہمیں یہ نہیں لگتا کہ ہمارے پاک سرزمین کے لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہی مسائل درپیش ہیں۔ یہاں بھی ہمارے سیاستدان، فوجی حکمران، جاگیردار، بیورو کریٹس اور انقلابیے کبھی اقتدار، کبھی انصاف، کبھی احتجاج کی آڑ میں عوام سے گھناؤنا کھیل نہیں کھیل رہے، جس میں صرف عام آدمی کو ایندھن بنایا جا رہا ہے، جب کہ امیر لوگوں کی امارات اور وسیع ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے پتا نہیں کہ ہمارے لوگ کب جذبات میں بہنے کی بجائے ہوش سے کام لیں گے، جو فکر اور ذہنی جمود کا شکار ہیں۔ بقول علامہ اقبال :
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
سو ہم بھی امید کرتے ہیں کہ ایک دن یہ مملکت خداداد حقیقی طور پر آزاد ہوگی، جب سب پاکستانیوں کے دکھ سکھ سانجھے ہونگے۔