جیپونیکا چاول کی کاشت اور ایکسپورٹ کا منصوبہ سرد خانے کی نذر

وزارت فوڈ سیکیورٹی کی عدم دلچسپی کے سبب کامیاب تجربے کے باوجود جیپونیکا کی کمرشل کاشت شروع نہ ہوسکی


حکومتی اداروں نے پروجیکٹ کو آگے بڑھانے میں دلچسپی لی نہ تجارتی بنیادوں پر بیج درآمد کیے گئے، سربراہ میٹکو رائس۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں جیپونیکا چاول کی کاشت اور جاپان کو ایکسپورٹ کا منصوبہ سردخانے کی نذر ہوگیا، مواصلات اور پاور سیکٹر میں اربوں روپے کے منصوبوں کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے لیکن سابقہ حکومت کے دور میں حاصل ہونے والی اہم کامیابی کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی عدم دلچسپی کے سبب سابقہ دور حکومت میں جیپونیکا چاول کی کامیاب تجرباتی کاشت کے باوجود پاکستان میں کمرشل بنیادوں پر جیپونیکا چاول کی کاشت شروع نہ ہو سکی جس سے ملکی برآمدات میں نمایاں اضافے اور ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے دعوئوں کی حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے فروری 2011 میں جاپان کے دورے کے موقع پر انٹرنیشنل مارکیٹ میں ہائی ویلیو کراپ سمجھے جانے والے جیپونیکا چاول کی کاشت اور جاپان کو برآمد کے ذریعے پاکستان کی برآمدات میں اضافے اور معیشت میں ٹھوس بنیادوں پر بہتری کا سنہری موقع فراہم کیا تھا۔

سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ جاپان جانے والے پاکستانی چاول کے ایکسپوٹرز اور جاپان کے زرعی شعبے کے سرمایہ کاروں کے درمیان تجرباتی بنیادوں پر پاکستان میں جیپونیکا چاول کی کاشت کے منصوبے پر اتفاق کیا گیا، جاپانی سرمایہ کاروں نے پاکستان کو تجرباتی بنیادوں پر جیپونیکا چاول کی کاشت کے لیے تعاون کی پیشکش کی، اس وقت جاپان زلزلے کے نتیجے میں ایٹمی تابکاری کے خدشے سے دوچار تھا اور جاپانی سرمایہ کار کسی دوسرے ملک میں جیپیونیکا چاول کاشت کرنے کے خواہش مند تھے۔

جاپانی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں جیپونیکا چاول کی کامیاب کاشت اور پیداوار جاپانی معیار کے مطابق ہونے کی صورت میں سالانہ 1لاکھ ٹن جیپونیکا چاول خریدنے کی یقین دہانی کرائی، اس اشتراک کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جاپانی سرمایہ کاروں نے پاکستان کو جیپونیکا چاول کے 100کلو گرام بیج فراہم کیے جو رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اور رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد کے ذریعے مختلف علاقوں میں کاشت کیے گئے۔

پاکستانی کمپنی میٹکو رائس نے اس تجربے کو کامیاب بناتے ہوئے بہترین معیار کا جیپونیکا چاول تیار کاشت کیا جسے اکتوبر 2011میں ہونے والی ایکسپو پاکستان نمائش میں جاپانی خریداروں اور سفارتکاروں کے سامنے پیش کیا گیا، جاپانی خریداروں نے پاکستان میں جیپونیکا چاول کی کامیاب کاشت کو پاکستان کی ایگری کلچر اور رائس انڈسٹری کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا، جاپانی خریداروں نے پاکستان میں پیدا ہونے والے جیپونیکا چاول کی ویلیو ایڈیشن اور اس چاول سے کریکرز اور دیگر اشیا بنانے کے لیے بھی پاکستان کے ساتھ تعاون اور مشترکہ سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

پاکستانی وزارت تجارت نے اس موقع پر جیپونیکا چاول کی بھرپور پروجیکشن کی، مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا نے اس کامیابی کی بھرپور کوریج کی لیکن یہ اہم ترین کامیابی پاکستان کی سیاسی روایت کی نذر چڑھ گئی، موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی ترقی اور استحکام کے لیے سابقہ حکومت کے منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا جن میں جیپونیکا چاول کی کاشت اور جاپان چین تھائی لینڈ فلپائن سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں کو پاکستان سے جیپونیکا چاول کی ایکسپورٹ کا باب بھی بند ہوگیا۔

پاکستان میں جیپونیکا چاول کاشت کرنے والی پاکستانی کمپنی میٹکو رائس کے سربراہ جاوید غوری نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جیپونیکا چاول ہائی ویلیو اور حساس ورائٹی ہے جس کی چین اور جاپان سمیت فار ایسٹ ملکوں میں بڑی طلب ہے، اس چاول سے کریکرز اور دیگر اشیا بھی بنائی جاتی ہیں، میٹکو رائس نے جیپونیکا چاول کی کاشت کو ممکن کردکھایا اور خود جاپانی خریداروں نے بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کیا تاہم اس کے بعد متعلقہ حکومتی اداروں نے اس پراجیکٹ کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہ لی، کمرشل بنیادوں پر جیپونیکا چاول کے بیج اب تک درآمد نہیں کیے گئے۔

یہ بیج وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ماتحت اداروں کو درآمد کرنا تھے، جیپونیکا چاول کی کاشت اور ایکسپورٹ پاکستان کی معیشت کیلیے ایک بہترین موقع تھا لیکن ایکسپورٹ میں اضافے اور نئی منڈیاں تلاش کرتے ہوئے مقامی سطح پر روزگار کی فراہمی اور سرمایہ کاری کا ایک بہترین موقع نظر انداز کر دیا گیا، پاکستان اپنا نان باسمتی چاول 400ڈالر فی ٹن قیمت پر ایکسپورٹ کر رہا ہے، اس کے مقابلے میں جیپونیکا چاول 1000ڈالر فی ٹن قیمت تک فروخت کیا جاسکتا ہے اور ویلیو ایڈیشن کی صورت میں کئی گنا زائد زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں