حلال کی اسلامی اصطلاح ۔۔۔ اب سرمایا داری نظام معیشت کے پنجے میں
حلال مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے جہاں مسلم ممالک ہاتھ پا=ں مارہے ہیں وہیں غیر مسلم بھی سرفہرست ہیں۔
KAKUL/ABBOTABAD:
آج کل عالمی سطح پر حلال خوراک اور اس کی ذیلی مصنوعات کی صنعت کی مالیت کئی سو ارب ڈالر لگائی جارہی ہے۔
مسلمان صارفین کے لیے تیار کردہ حلال فوڈ اور حلال پروڈکٹس کی بین الاقوامی منڈی اس لیے بھی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی آبادی اور قوت خرید میں تیزی سے اضافہ ہواہے جس کی وجہ سے حلال مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے جہاں مسلم ممالک ہاتھ پاوں مارہے ہیں وہیں اس کاروبار اور پیداواری صنعت سے فائدہ اٹھانے کے لیے غیر مسلم بھی سرفہرست ہیں۔
ورلڈ حلال فورم کے مطابق بین الاقوامی سطح پر 2009 میں حلال فوڈ کی مارکیٹ 632 ارب ڈالر تھی۔ جب کہ حلال انڈسٹری کے ماہرین کاکہنا ہے کہ عالمی سطح پر حلال مارکیٹ کا سالانہ حجم ایک سے دو کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔صرف یورپ میں قریباً 66 ارب ڈالر سالانہ کاحلال گوشت فروخت ہوتا ہے ۔ امریکی مسلمان تقریباً 13ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈ پر خرچ کرتے ہیں جب کہ خلیجی ممالک حلال درآمدات پر سالانہ تقریباً 44 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔ بھارت میں حلال فوڈ کی فروخت کا اندازہ21 ارب ڈالر سالانہ ہے جب کہ انڈونیشیا میں یہ درآمد70 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے ۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی کل آبادی کا اندازہ 1.6 ارب لگایا جارہا ہے،اس آبادی کی بہت بڑی اکثریت سؤر کا گوشت یا اس سے تیار کردہ مصنوعات اور شراب پینے سے پرہیز کرتی ہے جب کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسی مصنوعات کا استعمال ہی نہیں کرتی۔ لیکن دوسری جانب عام صارف کو علم ہی نہیں ہوتا کہ پانی کس طرح حلال یا حرام ہوسکتا ہے؟
منرل واٹر جس پلانٹ کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی کچھ آمیزش لازمی ہوتی ہے جو کئی ذرائع سے ممکن ہے ان میں ایک ذریعہ ہڈیاں بھی ہیں، اگر ہڈیاں خنزیر (سور) کی ہوں تو پانی حلال کے زمرے میں نہیں آئے گا۔چاولوں کی پا لشنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکل میں کوئی بھی ایسا عنصر شامل نہیںہونا چاہیے جو حرام اشیاء سے تیار ہو۔ لیدر مصنوعات اور جینز بنانے میں جو کیمیکل استعمال ہوتے ہیں وہ سور کی چربی سے حاصل ہوتے ہیں، شرعی اعتبار سے ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں۔
اسی طرح پرفیومز میں عموماً الکوحل اور ایتھانول استعمال ہوتا ہے جو حلال نہیں، اس کو لگاکر عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر مصنوعات کی فنانسنگ کے لیے بینکنگ کا سودی نظام استعمال ہو تو یہ بھی حلال نہیں رہتا۔ اس لیے حلال فوڈ سے مراد محض مختلف قسم کا گوشت ہی نہیں بل کہ اس اصطلاح میں اب سروسز (خدمات)، مشروبات، کاسمیٹکس، فارماسیوٹیکلز، پرفیوم ، چاول، پانی، پولٹری کی خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات بھی شامل ہو چکی ہیں۔
ان مصنوعات کی تیاری کے طریقہ کار میں تمام کیمیکلز اور اجزاء اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہونے چاہیں اور حرام عنصر کسی بھی لحاظ سے شامل نہیں ہونا چاہیے۔ حلال کا تصور ایک اسلامی قدرہے جس کی رو سے ان مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں کوئی حرام عنصر یا عمل شامل نہیں ہونا چاہیے ۔ حلال سرٹیفکیشن کرتے وقت پروڈکٹ اور اسے بنانے کے پروسیس دونوں کو ٹیسٹ کیا جانا لازمی ہوتا ہے اور اگر ان دونوں میں کوئی حرام چیز استعمال نہیں کی گئی تو اس کا حلال سرٹیفکیشن جاری کیا جاسکتا ہے۔
دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ انڈونیشیا کو سب سے زیادہ بیف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح برازیل ایک ملین حلال چکن 100 سے زائد ممالک کو برآمد کرنے کے علاوہ 3 لاکھ میٹرک ٹن حلال بیف سعودی عرب، خلیجی ممالک، مصر اور ایران کو برآمد کرتا ہے۔دوسری جانب فرانس سالانہ ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔
امریکا اب دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے، جس کی حلال بیف کی برآمد 80 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ نیوزی لینڈ دنیا میں بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے اور اس کی حلال بیف کی برآمدات 40 فی صد ہے۔ دبئی انڈسٹریل سٹی کے سربراہ عبداللہ بلھول کے مطابق حلال مصنوعات کی صنعت اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ عالمی سطح پر اس کی مالیت اگلے پانچ سال کے دوران دگنی ہو جائے گی۔ چین، یورپ اور امریکا اسلامی ممالک میں حلال فوڈ برانڈ متعارف کروا کے ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ کررہے ہیں۔
سعودی عرب میں عمرے اور حج کے دوران اربوں ڈالر کی تسبیح ، جائے نماز اور ٹوپیاں چین سے درآمد کی جاتی ہیں جو مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آج کل حلال مصنوعات حفظان صحت اور کوالٹی کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہوچکی ہیں اس لیے ان کی طلب صرف مسلمان صارفین تک ہی محدود نہیں بل کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی حلال اشیاء خریدنے لگے ہیں۔ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی حلال مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ حصے کیلئے کوشاں ہیں۔
حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن( اسٹینڈرڈ کی سند) انڈونیشیا، ملائیشیا اور بہت سے غیر مسلم ممالک بشمول چین، تھائی لینڈ، فلپائن، فرانس، نیدرلینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، برازیل اور امریکا میں نافذ العمل ہے۔ اس وقت دنیا کے 25 ممالک میں حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کے 200 سے زیادہ ادارے کام کر رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان ممالک میں زیادہ ملک غیر مسلم ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب ہے۔ 2050 تک دنیا کی یہ آبادی بڑھ کر نو ارب ہو جائے گی۔ تب عالمی آبادی میں اضافے کا 70 فی صد حصہ مسلمان ملکوں میںہو گا۔
امریکا میں حلال مصنوعات کے تیار کنندگان کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے ادارے فوڈ اینڈ نیوٹریشن کونسل آف امریکا کے مطابق دنیا میں حلال مصنوعات کی منڈی کی مالیت کا اندازہ 20 ارب ڈالر لگایا جارہا ہے، یہ ادارہ اس کی مارکیٹنگ تو کر رہا ہے لیکن دوسری یہ نہیں بتاتا کہ یورپ میں ٹافیوں اور میک اپ پراڈکٹس کی 80 فی صد ورایٹی میں100 فی صد سْور کی چربی استعمال ہوتی ہے۔حال ہی میں ایک الجیرین نژاد فرانسیسی مسلمان نے ایک کتاب حلال فوڈ اور حلال گوشت کے حوالے سے لکھی ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ نوے فی صد حلال گوشت حقیقت میں غیر اسلامی طریقے سے ملتے جُلتے طریقے سے ذبح کر دیا جاتا ہے، جو حلال نہیں رہتا۔
اُن کا کہنا ہے کہ یورپ بھر میں ذبح کرتے وقت ایک لمبی چین پر مرغی کوچونچ سے لٹکادیا جاتا ہے پھر جب یہ مرغی کٹر یعنی کہ چْھری کے سامنے پہنچتی ہے تو آڈیو ٹیپ سے تکبیر کی آواز آتی رہتی ہے یوں چکن کو ذبح کر کے حلال کہ دیا جاتاہے۔ ان کا یہ موقف ہے کہ جب چکن کو ذبح کیا جاتاہے تو اس وقت کسی مسلمان تکبر پڑھنے والے کو وہاں کھڑا ہونا چاہیے یہ مکینکل ذبح کاعمل اسلامی نہیں ۔ اس لئے ایسے گوشت کو حلال نہیں کہا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ یورپ میں بکنے والے چکن کو نوے فی صد حرام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آڈیو ٹیپ سے تکبیر پڑھنے کا انتظام بھی صرف تیس فی صد ذبح خانوں میں ہے باقی تمام ذبح خانے یورپی طریقے سے ہی مرغیوں کو ہلاک کرکے ہی حلال کا اسٹیکر لگا کر گوشت مارکیٹ میں سپلائی کردیتے ہیں۔
ماضی قریب میں یورپ کے اندر کوئیک فاسٹ فوڈ کے منافع کو دیکھتے ہوئے تمام بڑے اسٹور حلال اشیا ء بیچنے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ عوامی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہر اسٹور میں حلال گوشت،حلا ل ٹافیاں،حلال بیکری اور حلال میک اپ کا سامان بھی فروخت ہورہا ہے۔ فرانس بھر میں چکن شاپ،چکن کارنر اور چکن سپاٹ کے نا م سے بہت سے حلال فاسٹ فوڈ کھل چکے ہیں جن کی اکثریت کے مالک تومسلمان ہیں لیکن ان فاسٹ فوڈز کوگوشت سپلائی کرنے والی کمپنی غیر مسلموں کی ہی ہے۔ اس لیے اس بات کی گارنٹی نہیں کہ جوگوشت مہیا کیا جارہا ہے وہ حلال ہے۔
بیلجیم سے تعلق رکھنی والی ایک مسلم تنظیم کے سربراہ کریم جینارق کا کہنا ہے کہ اگرمیں حلال کے معاملے میں نرمی سے بھی کام لوں، تو پھر بھی میں یہ کہوں گا کہ صرف پانچ فی صد مرغیاں ہی حلال ہوتی ہیں۔آج تک جتنے بھی گوشت کے لیبارٹریز ٹیسٹ سامنے آئے ہیں۔ان سب میں سْور کے گوشت کے نشانات پائے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی مشین سے حلال اور حرام جانور کاٹے جاتے ہیں۔ بیلجیم میں بھی یہ قانون ہے کہ جانور کو تکلیف نہ ہواس لیے جانور کو ذبح کرنے سے قبل الیکٹرک شاک لگا کر ماربنا ضروری قرار دیا گیا ہے، جسے اسلامی نکتہ نظر میں حرام قرار دیا گیا ہے۔
فرانس کی کیٹل فارمر کی تنظیم کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پیرس میں عام شہریوں کے پاس یہ چوائس نہیں ہے کہ وہ کیا کھائیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ جانوروں کو یورپی اندازمیں ذبح کرنے ساتھ مذہبی طریقے سے ذبح کرنے کا بھی انتظام ہو جائے۔ قوم پرست جماعت کی طرف سے حلال گوشت کا اسکینڈل سامنے لانے کا مقصد سراسر سیاسی تھا حالاں کہ انہیں بہ خوبی علم ہے کہ ملک بھر کے سیکڑوں ذبح خانوں میں سے صرف چار ذبح خانوں میں حلال گوشت کا انتظام ہے۔ باقی فرانس میں جو گوشت سب کو سپلائی کیا جارہا ہے وہ حلال نہیں ہوتا ۔ فرانس میں گوشت کی ہول سیل مارکیٹ میں تین لاکھ ٹن سالانہ گوشت فروخت کیا جاتا ہے جس میں دس فی صد حصہ حلال بھی بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن ہے۔
ایک بین الاقوامی گروپ نے فرانس میں حلال مصنوعات کی شناخت کے لیے ایک سافٹ وئیر" Halal "Just بنایا ہے یہ سافٹ وئیرآئی فون اور اینڈورائڈ موبائل فون کے ذریعہ کام کرے گا ۔ایران کی ایک خبررساں ایجنسی نے media" "agro نیٹ ورک حوالے سے کہا ہے کہ یہ سافٹ وئیر کوڈ ریڈر ہے اور پچاس ہزار غذائی مصنوعات کی پہچان کرسکتا ہے، یہ سافٹ وئیرمطلوبہ مصنوعات کو تین قسموں حلال ، حرام اور مشتبہ قرار دیتا ہے۔
اسمارٹ گیگ کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل ''ریس مابیک نے اس سافٹ وئیر بنانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: میں مسلمان ہوں اور اسلامی تعلیمات پر اعتقاد رکھتا ہوں اور مجھے علم ہے بڑے بڑے سپر سٹورز سے حلال مصنوعات کی خریداری بڑا مشکل کام ہے ۔ کیوں کہ کھانے کی مصنوعات میں 1200 کے قریب غذائی اجزاء استعمال ہوتے ہیں۔اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جو کچھ کھارہے ہیں اس میں استعمال ہونے والا مواد حلال ہے یا حرام ہے۔ یہ سافٹ وئیر رمضان المبارک میں فروخت کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
حلال اور حرام مصنوعات کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ بیس سے پچیس فی صد مہنگی فروخت ہوتی ہیں اسی لیے اس میں فراڈ کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔ حلال فوڈ کے بارے میں بہت سے شبہات پائے جاتے ہیں کیوں کہ یورپ میں جتنی بھی کمپنیاں حلال فوڈسپلائی کرتی ہیں،اُن میں سے زیادہ تر یورپی طرز کے گوشت کی اسپلائی کا کام بھی کرتی ہیں اسی لئے شکو ک شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ منافع کمانے کی خاطر عام گوشت کو بھی حلال کا نام دے بڑی آسانی سے فروخت کرجاتے ہیں۔
فرانس بھر میں ٹرکش سینڈوچ، ڈونرکباب اور برگر کا رواج عام ہے ان کے مالکا ن کی اکثریت کْرد نسل کے ترکوں کی ہے جنہیں حلال اور حرام اور اسلامی تعلیمات سے زیادہ لگاؤ نہیں،وہ صرف اپنے گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے دوکانوں پر حلال سرٹیفکیٹ چپکائے رکھتے ہیں۔
اسی طرح حلال ریسٹورنٹس کی اکثریت شراب بھی فروخت کرتی ہے ان سے حلال گوشت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت خرید اور آبادی بڑھنے کے خوف اور اس مارکیٹ میں یہود و نصارہ کو اپنی مرضی کا حصہ نہ ملنے کے خوف سے اب حلال گوشت پر پابندی لگوانے کے لیے یورپ میں ایک طبقہ متحرک ہو چکا ہے جس کا خیال ہے کہ اگر یورپ میں اسکارف، نقاب اور برقع پر پابندی کے بعد حلال مصنوعات پر بھی پابندی لگوا دی جائے تو بہت سے مسلمان یورپ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یعنی مسلمانوں کو یورپ اور اسلامی تعلیمات میں اب ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
اِن لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان حلال کھانے پر سودا بازی نہیں کریں گے اور یوں وہ یورپ چھوڑدیں گے۔نائن الیون کے مسلمانوں اور اسلام پر تنقید کا یہ ایک نیا ہتھیار سامنے آیا ہے۔جب کہ دوسری طرف حلال اور حرام کی تمیز سے نا بلد غیرمسلم ممالک اور ان کے ماہرین اس صنعت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں حلال مصنوعات کی سرٹیفکیشن کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے لیکن حکم رانوں کے پاس اس کام کے لیے وقت ہی نہیں۔
گذشتہ دنوں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے حلال مصنوعات کی سرٹیفیکیشن کے حوالے سے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیاہے اگر قانون سازی میں مزید تاخیر کی گئی تو علماء و مشائخ سمیت اس ضمن میں کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
کے سی سی آئی نے حلال مصنوعات کی سرٹیفیکیشن سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔ اُن دنوں کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے پر تھائی حلال سائنس سینٹر چولالونگ کورن (Chulalongkorn) یونیورسٹی (ایچ ایس سی سی یو)کے ایک4 رکنی وفد نے بھی اس بات زور دیاتھا ۔اس موقع پر تجویز پیش تھی کہ حلال سرٹیفیکیشن اور اس کے تصور کو اجاگر کرنے کے لئے اسٹیک ہولڈرز، ماہرین اور علماء و مشائخ کو ایک چھت تلے مشترکہ طور پر تحقیقی کام سرانجام دینے کی دعوت دی جانی چاہیے تاکہ حلال سرٹیفیکیشن کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے باآسانی نمٹا جا سکے۔
آج کل عالمی سطح پر حلال خوراک اور اس کی ذیلی مصنوعات کی صنعت کی مالیت کئی سو ارب ڈالر لگائی جارہی ہے۔
مسلمان صارفین کے لیے تیار کردہ حلال فوڈ اور حلال پروڈکٹس کی بین الاقوامی منڈی اس لیے بھی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی آبادی اور قوت خرید میں تیزی سے اضافہ ہواہے جس کی وجہ سے حلال مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے جہاں مسلم ممالک ہاتھ پاوں مارہے ہیں وہیں اس کاروبار اور پیداواری صنعت سے فائدہ اٹھانے کے لیے غیر مسلم بھی سرفہرست ہیں۔
ورلڈ حلال فورم کے مطابق بین الاقوامی سطح پر 2009 میں حلال فوڈ کی مارکیٹ 632 ارب ڈالر تھی۔ جب کہ حلال انڈسٹری کے ماہرین کاکہنا ہے کہ عالمی سطح پر حلال مارکیٹ کا سالانہ حجم ایک سے دو کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔صرف یورپ میں قریباً 66 ارب ڈالر سالانہ کاحلال گوشت فروخت ہوتا ہے ۔ امریکی مسلمان تقریباً 13ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈ پر خرچ کرتے ہیں جب کہ خلیجی ممالک حلال درآمدات پر سالانہ تقریباً 44 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔ بھارت میں حلال فوڈ کی فروخت کا اندازہ21 ارب ڈالر سالانہ ہے جب کہ انڈونیشیا میں یہ درآمد70 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے ۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی کل آبادی کا اندازہ 1.6 ارب لگایا جارہا ہے،اس آبادی کی بہت بڑی اکثریت سؤر کا گوشت یا اس سے تیار کردہ مصنوعات اور شراب پینے سے پرہیز کرتی ہے جب کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسی مصنوعات کا استعمال ہی نہیں کرتی۔ لیکن دوسری جانب عام صارف کو علم ہی نہیں ہوتا کہ پانی کس طرح حلال یا حرام ہوسکتا ہے؟
منرل واٹر جس پلانٹ کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی کچھ آمیزش لازمی ہوتی ہے جو کئی ذرائع سے ممکن ہے ان میں ایک ذریعہ ہڈیاں بھی ہیں، اگر ہڈیاں خنزیر (سور) کی ہوں تو پانی حلال کے زمرے میں نہیں آئے گا۔چاولوں کی پا لشنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکل میں کوئی بھی ایسا عنصر شامل نہیںہونا چاہیے جو حرام اشیاء سے تیار ہو۔ لیدر مصنوعات اور جینز بنانے میں جو کیمیکل استعمال ہوتے ہیں وہ سور کی چربی سے حاصل ہوتے ہیں، شرعی اعتبار سے ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں۔
اسی طرح پرفیومز میں عموماً الکوحل اور ایتھانول استعمال ہوتا ہے جو حلال نہیں، اس کو لگاکر عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر مصنوعات کی فنانسنگ کے لیے بینکنگ کا سودی نظام استعمال ہو تو یہ بھی حلال نہیں رہتا۔ اس لیے حلال فوڈ سے مراد محض مختلف قسم کا گوشت ہی نہیں بل کہ اس اصطلاح میں اب سروسز (خدمات)، مشروبات، کاسمیٹکس، فارماسیوٹیکلز، پرفیوم ، چاول، پانی، پولٹری کی خوراک، چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات بھی شامل ہو چکی ہیں۔
ان مصنوعات کی تیاری کے طریقہ کار میں تمام کیمیکلز اور اجزاء اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہونے چاہیں اور حرام عنصر کسی بھی لحاظ سے شامل نہیں ہونا چاہیے۔ حلال کا تصور ایک اسلامی قدرہے جس کی رو سے ان مصنوعات کی فنانسنگ، سورسنگ، پروسیسنگ، اسٹوریج اور مارکیٹنگ میں کوئی حرام عنصر یا عمل شامل نہیں ہونا چاہیے ۔ حلال سرٹیفکیشن کرتے وقت پروڈکٹ اور اسے بنانے کے پروسیس دونوں کو ٹیسٹ کیا جانا لازمی ہوتا ہے اور اگر ان دونوں میں کوئی حرام چیز استعمال نہیں کی گئی تو اس کا حلال سرٹیفکیشن جاری کیا جاسکتا ہے۔
دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ انڈونیشیا کو سب سے زیادہ بیف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح برازیل ایک ملین حلال چکن 100 سے زائد ممالک کو برآمد کرنے کے علاوہ 3 لاکھ میٹرک ٹن حلال بیف سعودی عرب، خلیجی ممالک، مصر اور ایران کو برآمد کرتا ہے۔دوسری جانب فرانس سالانہ ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال چکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔
امریکا اب دنیا میں بیف کا تیسرا بڑا ایکسپورٹر ہے، جس کی حلال بیف کی برآمد 80 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ نیوزی لینڈ دنیا میں بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے اور اس کی حلال بیف کی برآمدات 40 فی صد ہے۔ دبئی انڈسٹریل سٹی کے سربراہ عبداللہ بلھول کے مطابق حلال مصنوعات کی صنعت اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ عالمی سطح پر اس کی مالیت اگلے پانچ سال کے دوران دگنی ہو جائے گی۔ چین، یورپ اور امریکا اسلامی ممالک میں حلال فوڈ برانڈ متعارف کروا کے ملین ڈالرز کی ایکسپورٹ کررہے ہیں۔
سعودی عرب میں عمرے اور حج کے دوران اربوں ڈالر کی تسبیح ، جائے نماز اور ٹوپیاں چین سے درآمد کی جاتی ہیں جو مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آج کل حلال مصنوعات حفظان صحت اور کوالٹی کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہوچکی ہیں اس لیے ان کی طلب صرف مسلمان صارفین تک ہی محدود نہیں بل کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی حلال اشیاء خریدنے لگے ہیں۔ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی حلال مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ حصے کیلئے کوشاں ہیں۔
حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن( اسٹینڈرڈ کی سند) انڈونیشیا، ملائیشیا اور بہت سے غیر مسلم ممالک بشمول چین، تھائی لینڈ، فلپائن، فرانس، نیدرلینڈ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، برازیل اور امریکا میں نافذ العمل ہے۔ اس وقت دنیا کے 25 ممالک میں حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کے 200 سے زیادہ ادارے کام کر رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان ممالک میں زیادہ ملک غیر مسلم ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب ہے۔ 2050 تک دنیا کی یہ آبادی بڑھ کر نو ارب ہو جائے گی۔ تب عالمی آبادی میں اضافے کا 70 فی صد حصہ مسلمان ملکوں میںہو گا۔
امریکا میں حلال مصنوعات کے تیار کنندگان کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والے ادارے فوڈ اینڈ نیوٹریشن کونسل آف امریکا کے مطابق دنیا میں حلال مصنوعات کی منڈی کی مالیت کا اندازہ 20 ارب ڈالر لگایا جارہا ہے، یہ ادارہ اس کی مارکیٹنگ تو کر رہا ہے لیکن دوسری یہ نہیں بتاتا کہ یورپ میں ٹافیوں اور میک اپ پراڈکٹس کی 80 فی صد ورایٹی میں100 فی صد سْور کی چربی استعمال ہوتی ہے۔حال ہی میں ایک الجیرین نژاد فرانسیسی مسلمان نے ایک کتاب حلال فوڈ اور حلال گوشت کے حوالے سے لکھی ہے جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ نوے فی صد حلال گوشت حقیقت میں غیر اسلامی طریقے سے ملتے جُلتے طریقے سے ذبح کر دیا جاتا ہے، جو حلال نہیں رہتا۔
اُن کا کہنا ہے کہ یورپ بھر میں ذبح کرتے وقت ایک لمبی چین پر مرغی کوچونچ سے لٹکادیا جاتا ہے پھر جب یہ مرغی کٹر یعنی کہ چْھری کے سامنے پہنچتی ہے تو آڈیو ٹیپ سے تکبیر کی آواز آتی رہتی ہے یوں چکن کو ذبح کر کے حلال کہ دیا جاتاہے۔ ان کا یہ موقف ہے کہ جب چکن کو ذبح کیا جاتاہے تو اس وقت کسی مسلمان تکبر پڑھنے والے کو وہاں کھڑا ہونا چاہیے یہ مکینکل ذبح کاعمل اسلامی نہیں ۔ اس لئے ایسے گوشت کو حلال نہیں کہا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ یورپ میں بکنے والے چکن کو نوے فی صد حرام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آڈیو ٹیپ سے تکبیر پڑھنے کا انتظام بھی صرف تیس فی صد ذبح خانوں میں ہے باقی تمام ذبح خانے یورپی طریقے سے ہی مرغیوں کو ہلاک کرکے ہی حلال کا اسٹیکر لگا کر گوشت مارکیٹ میں سپلائی کردیتے ہیں۔
ماضی قریب میں یورپ کے اندر کوئیک فاسٹ فوڈ کے منافع کو دیکھتے ہوئے تمام بڑے اسٹور حلال اشیا ء بیچنے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ عوامی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہر اسٹور میں حلال گوشت،حلا ل ٹافیاں،حلال بیکری اور حلال میک اپ کا سامان بھی فروخت ہورہا ہے۔ فرانس بھر میں چکن شاپ،چکن کارنر اور چکن سپاٹ کے نا م سے بہت سے حلال فاسٹ فوڈ کھل چکے ہیں جن کی اکثریت کے مالک تومسلمان ہیں لیکن ان فاسٹ فوڈز کوگوشت سپلائی کرنے والی کمپنی غیر مسلموں کی ہی ہے۔ اس لیے اس بات کی گارنٹی نہیں کہ جوگوشت مہیا کیا جارہا ہے وہ حلال ہے۔
بیلجیم سے تعلق رکھنی والی ایک مسلم تنظیم کے سربراہ کریم جینارق کا کہنا ہے کہ اگرمیں حلال کے معاملے میں نرمی سے بھی کام لوں، تو پھر بھی میں یہ کہوں گا کہ صرف پانچ فی صد مرغیاں ہی حلال ہوتی ہیں۔آج تک جتنے بھی گوشت کے لیبارٹریز ٹیسٹ سامنے آئے ہیں۔ان سب میں سْور کے گوشت کے نشانات پائے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی مشین سے حلال اور حرام جانور کاٹے جاتے ہیں۔ بیلجیم میں بھی یہ قانون ہے کہ جانور کو تکلیف نہ ہواس لیے جانور کو ذبح کرنے سے قبل الیکٹرک شاک لگا کر ماربنا ضروری قرار دیا گیا ہے، جسے اسلامی نکتہ نظر میں حرام قرار دیا گیا ہے۔
فرانس کی کیٹل فارمر کی تنظیم کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پیرس میں عام شہریوں کے پاس یہ چوائس نہیں ہے کہ وہ کیا کھائیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ جانوروں کو یورپی اندازمیں ذبح کرنے ساتھ مذہبی طریقے سے ذبح کرنے کا بھی انتظام ہو جائے۔ قوم پرست جماعت کی طرف سے حلال گوشت کا اسکینڈل سامنے لانے کا مقصد سراسر سیاسی تھا حالاں کہ انہیں بہ خوبی علم ہے کہ ملک بھر کے سیکڑوں ذبح خانوں میں سے صرف چار ذبح خانوں میں حلال گوشت کا انتظام ہے۔ باقی فرانس میں جو گوشت سب کو سپلائی کیا جارہا ہے وہ حلال نہیں ہوتا ۔ فرانس میں گوشت کی ہول سیل مارکیٹ میں تین لاکھ ٹن سالانہ گوشت فروخت کیا جاتا ہے جس میں دس فی صد حصہ حلال بھی بتایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن ہے۔
ایک بین الاقوامی گروپ نے فرانس میں حلال مصنوعات کی شناخت کے لیے ایک سافٹ وئیر" Halal "Just بنایا ہے یہ سافٹ وئیرآئی فون اور اینڈورائڈ موبائل فون کے ذریعہ کام کرے گا ۔ایران کی ایک خبررساں ایجنسی نے media" "agro نیٹ ورک حوالے سے کہا ہے کہ یہ سافٹ وئیر کوڈ ریڈر ہے اور پچاس ہزار غذائی مصنوعات کی پہچان کرسکتا ہے، یہ سافٹ وئیرمطلوبہ مصنوعات کو تین قسموں حلال ، حرام اور مشتبہ قرار دیتا ہے۔
اسمارٹ گیگ کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل ''ریس مابیک نے اس سافٹ وئیر بنانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: میں مسلمان ہوں اور اسلامی تعلیمات پر اعتقاد رکھتا ہوں اور مجھے علم ہے بڑے بڑے سپر سٹورز سے حلال مصنوعات کی خریداری بڑا مشکل کام ہے ۔ کیوں کہ کھانے کی مصنوعات میں 1200 کے قریب غذائی اجزاء استعمال ہوتے ہیں۔اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جو کچھ کھارہے ہیں اس میں استعمال ہونے والا مواد حلال ہے یا حرام ہے۔ یہ سافٹ وئیر رمضان المبارک میں فروخت کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
حلال اور حرام مصنوعات کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ بیس سے پچیس فی صد مہنگی فروخت ہوتی ہیں اسی لیے اس میں فراڈ کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔ حلال فوڈ کے بارے میں بہت سے شبہات پائے جاتے ہیں کیوں کہ یورپ میں جتنی بھی کمپنیاں حلال فوڈسپلائی کرتی ہیں،اُن میں سے زیادہ تر یورپی طرز کے گوشت کی اسپلائی کا کام بھی کرتی ہیں اسی لئے شکو ک شبہات پائے جاتے ہیں کہ وہ منافع کمانے کی خاطر عام گوشت کو بھی حلال کا نام دے بڑی آسانی سے فروخت کرجاتے ہیں۔
فرانس بھر میں ٹرکش سینڈوچ، ڈونرکباب اور برگر کا رواج عام ہے ان کے مالکا ن کی اکثریت کْرد نسل کے ترکوں کی ہے جنہیں حلال اور حرام اور اسلامی تعلیمات سے زیادہ لگاؤ نہیں،وہ صرف اپنے گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے دوکانوں پر حلال سرٹیفکیٹ چپکائے رکھتے ہیں۔
اسی طرح حلال ریسٹورنٹس کی اکثریت شراب بھی فروخت کرتی ہے ان سے حلال گوشت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت خرید اور آبادی بڑھنے کے خوف اور اس مارکیٹ میں یہود و نصارہ کو اپنی مرضی کا حصہ نہ ملنے کے خوف سے اب حلال گوشت پر پابندی لگوانے کے لیے یورپ میں ایک طبقہ متحرک ہو چکا ہے جس کا خیال ہے کہ اگر یورپ میں اسکارف، نقاب اور برقع پر پابندی کے بعد حلال مصنوعات پر بھی پابندی لگوا دی جائے تو بہت سے مسلمان یورپ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یعنی مسلمانوں کو یورپ اور اسلامی تعلیمات میں اب ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
اِن لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمان حلال کھانے پر سودا بازی نہیں کریں گے اور یوں وہ یورپ چھوڑدیں گے۔نائن الیون کے مسلمانوں اور اسلام پر تنقید کا یہ ایک نیا ہتھیار سامنے آیا ہے۔جب کہ دوسری طرف حلال اور حرام کی تمیز سے نا بلد غیرمسلم ممالک اور ان کے ماہرین اس صنعت سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں حلال مصنوعات کی سرٹیفکیشن کے لیے پارلیمنٹ سے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے لیکن حکم رانوں کے پاس اس کام کے لیے وقت ہی نہیں۔
گذشتہ دنوں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے حلال مصنوعات کی سرٹیفیکیشن کے حوالے سے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیاہے اگر قانون سازی میں مزید تاخیر کی گئی تو علماء و مشائخ سمیت اس ضمن میں کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
کے سی سی آئی نے حلال مصنوعات کی سرٹیفیکیشن سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔ اُن دنوں کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے پر تھائی حلال سائنس سینٹر چولالونگ کورن (Chulalongkorn) یونیورسٹی (ایچ ایس سی سی یو)کے ایک4 رکنی وفد نے بھی اس بات زور دیاتھا ۔اس موقع پر تجویز پیش تھی کہ حلال سرٹیفیکیشن اور اس کے تصور کو اجاگر کرنے کے لئے اسٹیک ہولڈرز، ماہرین اور علماء و مشائخ کو ایک چھت تلے مشترکہ طور پر تحقیقی کام سرانجام دینے کی دعوت دی جانی چاہیے تاکہ حلال سرٹیفیکیشن کے حوالے سے درپیش چیلنجز سے باآسانی نمٹا جا سکے۔