دنیا بھر سے آخر کار استعفٰی دے ہی دیا

نور المالکی کا دور ہر ہر اعتبار سے عراق کے لیے ایک بُرا دور ثابت ہوا ہے۔

نور المالکی کے استعفے کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یا تو امریکہ بہادر ناراض ہوگیا ہے یا پھر اُن کا ضمیر واقعی جاگ گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تازہ ترین خبروں کے مطابق عراق کے آٹھ سالوں تک وزیر اعظم رہنے والے نورالمالکی نے جمعرات کی رات کو اپنے عہدے سے استعفیٰ سے دیا ہے۔ نور المالکی کے استعفے نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے،جس کی وجہ اُنکے وہ بیانات اور اقدامت ہیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنے عہدے سے ہٹنے کے لیے بلکل بھی راضی نہیں۔اُن سے جب جب استعفے کا مطالبہ کیا گیا اُنہوں نے خوب مزاحمت کی اور وہ ایک دن پہلے تک یہ کہتے رہے کہ وہ کسی صورت مستعفی نہیں ہوں گے اور اگلے الیکشن میں بھی بھرپور حصہ لیں گے،اُنہوں نے صدر فواد معصوم کی جانب سے پارلیمان کے ڈپٹی سپیکر حیدر العبادی کو بطور وزیر اعظم نامزدگی اور اُنہیں حکومت تشکیل دینے کی دعوت کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کر رکھا تھا، ایسے میں اُن کے اچانک استعفے نے سب کو ششدر کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ نور المالکی کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے جس کے باعث وہ اتنے عرصے تک مقتدر رہے،مگر جہاں تک اُن کی اپنی اہلیت کا سوال ہے ، تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کا دور اقتدار عراق کے بدترین ادوار میں سے تھا، گو کہ نورالمالکی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور امریکی افواج کے انخالاء کا کریڈت لیتے ہیں مگر یہ عیاں ہے کہ یہ اُن کے دور میں عراق خانہ جنگی اور عالمی سازشوں کا نشانا رہااور آخری مہینوں میں تو عراق کے کئی علاقوں پر ''داعش ''نامی تنظیم نے قبضہ کر کے الگ ریاست کا اعلان کر دیا اور عراقی فوج ریاست کا اقتدارِاعلیٰ قائم رکھنے میں بری طرح ناکام رہی۔اس کے علاوہ نور المالکی پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے خود عراق میں فرقہ پرستی اور اس کی آڑ میں پر تشدد کاروائیوں کی پشت پناہی کی اور انہی کے دور میں شیعہ،سنی فسادات بھیانک ترین نہج پر پہنچے۔ اس سب کے علاوہ اُن کے دور میں افواج کی قوت اور مہارت بھی ختم ہوتی دکھائی دی اور ریاستی ادارے بھی شدید انتشار کا شکار رہے۔


یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نور المالکی مضبوط اعصاب کے مالک سمجھے جاتے تھے ،پچھلے کچھ عرصہ سے اُن پر استعفے کے لیے بہت زور دیا جارہاتھا مگر وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے ذرا بھی راضی نہ تھے۔ امریکہ کا بھی عراقی سیاست میں بہت گہرا عمل دخل ہے اور امریکی صدر اوبامہ بھی کئی دفعہ متوقع نئی حکومت کا خیر مقدم کر چکے ہیں۔ اور اس کے ساتھ عراق کے سپریم لیڈر، '' آیت اللہ علی السستائی '' نے بھی اُنہیں حکومت چھوڑنے کا کہا تھا۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ نور المالکی اندرونی اور بیرونی قوتوں کی حمایت سے محروم ہو چکے ہیں اوراب تمام حمایت،وزارت عظمیٰ کے نئے اُمیدوار حیدر العبادی کو حاصل ہو گئی ہے۔نور المالکی کے استعفے کے بعد عراق کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقت کا محفوظ انتقال ہونے کو جارہا ہے اور امریکہ کا کہنا ہے کہ اُسے اُمید ہے کہ اس طرح حالات بہتر ہو جائیں گے اور عراق اپنے عدم استحکام پر قابو پا لے گا۔ یہ بات کہاں تک درست ثابت ہوتی ہے،آنے والا وقت بتا دے گا۔

نور المالکی کی حکومت ،دہشت گردی کو تشدد اور طاقت کے ذریعے دبانے کی حامی تھی،اس کے علاوہ نورالماکی پر کرپشن اور مخالفین کے ساتھ ظلم و جبر کرنے کے الزامات بھی ہیں جس سے وہ اب تک وزیر اعظم ہونے کے باعث بچتے رہے تھے مگر اب کیا اُن پر وہ مقدمات کھولے جائیں گے،اس کا جواب کچھ عرصہ میں سامنے آجائے گا۔ مگر حالات یہی بتاتے ہیں کہ اُنہیں کوئی سیف ایگذٹ دے دیا جائے گا۔ نور المالکی کے استعفے پر دو قسم کی آراء پائی جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ سابق وزیر اعظم کے صاحب بہادر، امریکہ نے اُن کے سر سے اپنا دست شفقت اُٹھا دیا ہے۔اور اب وہ کسی نئے مہرے کی تلاش میں ہیں کہ جتنا کام پہلے پیادے سے لیا جانا تھا وہ لے لیا گیا ہے، اور اس بات کا انکشاف ہوتے ہی نور المالکی نے اقتدار سے کنارہ کر لیا،کیونکہ وہ اگر خود نہ ہٹتے تو اُنہیں کسی دوسرے طریقے سے ہٹا دیا جاتا اور ایسا اکثر تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور یا پھر شاید نورالمالکی کو خواب میں کوئی ہدایت مل گئی ہے اور اُنہیں اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ اُن کی گردن پر کئی بے گناہوں کاخون ہے اس لیے بہتر ہے کہ اب اس خوفناک کھیل سے الگ ہو کراللہ توبہ کی جائے۔ اور اپنی باقی کی زندگی ،اپنے پاپ دھونے کی سعی کرنے میں گزاری جائے۔ ویسے ایسا بھی تو ہو سکتا ہے یہ دونوں باتیں بیک وقت ہوئی ہوں، کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب''باپ'' کا سایہ سر پر نہ رہے توانسان کی عقل ٹھکانے آہی جاتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story