پاکستان ایک نظر میں پتھر نہیں پانی بنیے

خان صاحب وزیراعظم کےاستعفی سےدستبردار ہوکرکچھ ایسا کرجائیں کہ اگلےانتخابات میں وہ کچھ نہ ہوجو اِس انتخابات میں ہوا ہے۔

خان صاحب آپ کے پاس بھی اور میاں صاحب کے پاس بھی چار برس۔ اپنی اپنی کارکردگی سے عوام کو کچھ ریلیف دیجیے۔خدمت کیجیے اور آئندہ انتخابات کے صاف شفاف بنانے کے لیے کوشش و جستجو کیجیے۔ فوٹو: فائل

سیاست کیا ہے اور اِس میدان میں کھلاڑیوں کو کس قسم کے رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے ؟ اِس بارے میں مجھ سے نہ پوچھیے بلکہ کسی بھی ذی شعور شخص سے پوچھ لیں۔ مجھے تو اب تک یہی جواب ملاہے کہ سیاست انتہائی لچکدار شہ کا نام ہے جو پانی کی مانند ہو اور اِس کو جب اور جہاں سے بھی راستہ میسر آئے یہ اپنے لیے جگہ بنالے۔

میری اول دن سے یہی خواہش تھی کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی کا کوئی نہ کوئی سیاسی حل نکل جائے اور یہ محض خواہش نہیں تھی بلکہ کچھ نہ کچھ اُمید بھی تھی کہ دونوں فریقین واپسی کا راستہ ضرور چھوڑیں گے۔ مگر افسوس کے ایسا نہیں ہوسکا اور اب بات ''کرو یا مرو'' تک پہنچ گئی ہے۔جس میں یقینی طور پر ایک فریق کا فائدہ اور ایک کا نقصان ہوگا۔

ماضی سے حاصل ہونے والے تجربات سے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ فائدہ حکمرانوں کا اور نقصان عوام کا ہی ہوگا۔ تو اب جب تیر کمان سے نکل ہی گیا ہےتو پھر عمران خان سے گزارش ہے کہ اگر آپ کو تحریک انصاف سے نکال دیا جائے تو پھر آپ کی جماعت اور مسلم لیگ ن و پیپلزپارٹی میں شاید ہی کوئی فرق رہ جائے گا کیونکہ جتنے لوٹیں اُن کے پاس ہیں اُتنے ہی لوٹے تو آپ کے ارد گرد بھی موجود ہیں اور اُن کے منہ سے تبدیلی کی بات اچھی نہیں لگتی مگر پھر بھی آپ کی شخصیت سے اُمید ہے کہ آپ ہماری لاج رکھیں گے۔ آپ کے بقول ن لیگ بادشاہت پر مبنی جماعت ہے جس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں تو ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ اِس وقت ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت ہے جس کے خاتمے کے لیے اور عوام کو اُن کے حقوق دلوانے کے لیے آپ سڑکوں پر آگئے ہیں۔


مگر اب جو التجا کرنی ہے وہ یہ کہ خدارا اب جب اسلام آباد آہی گئے ہیں تو کوئی مک مکا مت کیجیے گا بلکہ الیکشن کمیشن کی اصلاحات پر جم جائیں۔ میں اب بھی آپکی حکومت ہٹاو تحریک کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ یہ پورے نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔اگر یہ تحریک آپ انتخابات سے پہلے چلاتے تو ہم یقین کرسکتے تھے کہ شاید آپ تبدیلی لانے والے تھے مگر اب خیبر پختونخواہ کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حالات جس قدر خراب ہوچکے ہیں اُس کا فوری حل تو آپ کے پاس بھی نہیں ہے۔

لہذا ہمارے مستقبل کا خیال کریں۔ کچھ ایسا کرجائیں کہ اگلے انتخابات میں دوبارہ وہ کچھ نہ ہو جو اِس انتخابات میں ہوا ہے۔آپ کے پاس بھی چار برس ہیں اور میاں صاحب کے پاس بھی چار برس۔ اپنی اپنی کارکردگی سے اِس مملکت خداداد کی بے بس عوام کو کچھ ریلیف دیجیے۔خدمت کیجیے اور آئندہ انتخابات کے صاف شفاف بنانے کے لیے کوشش و جستجو کیجیے۔

لیکن جو کچھ اطلاعات آرہی ہیں کہ آپ کی اسلام آباد میں کچھ طاقتور لوگوں سے ملاقاتیں جاری ہیں اور میثاق جمہوریت کی طرز جیسا معاہدہ ہونے کا امکان ہے جس پر عملدرآمد کے لیے سیاسی جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوگیا اور آپ نے بھی لوگوں کے سامنے مبارک ہو مبارک ہو کے نعرے لگا دیے تو یاد رکھیے گا کہ آج آپ جس کو بادشاہ کہہ رہے ہیں پھر وہ عملی طورپر بادشاہی نظام کا روپ دکھانا شروع کردیں گے۔ پھر نہ آپ کے پاس کرنے کے لیے کچھ ہوگا اور نہ اِس مفلس عوام کے پاس۔لہذا پانی بنیے پتھر نہ بنیے۔ اپنے مطالبوں کی فہرست میں سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ حذف کردیں اور ہمارے اور آپکے مستقبل کی فکر کیجیے۔ایک ایسا الیکشن کمیشن تشکیل دیں جو چاہتے ہوئے بھی اگلے انتخابات میں دھاندلی کا نام بھی نہ لے سکے اور عوام کو اپنے حقیقی نمائندوں کے انتخاب کا موقع مل سکے۔ میری ناقص رائے میں تو یہی ایک راستہ ہے جس سے حالات بہتری کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں لیکن بہرحال آپ کم از کم مجھ سے زیادہ ہی سمجھدار آدمی ہیں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ بہتر ہی ہوگا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story