سامراجی پالیسی کی مختلف کڑیاں
خود کو عوامی حکومت کہلوانے والی حکومت نے عوام دشمنی اور عوام کشی کی تمام اخلاقی حدود عبور کرلی ہیں
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وطنِ عزیز اس وقت اپنی 65 سالہ تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔
حکومت کی صرف رٹ ہے اور رِٹ (Writ) نام کی کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی۔ عملاً قانون کی نہیں بلکہ لاقانونیت کی حکمرانی ہے جسے Rule of Lawlessness کہنا ہی مناسب ہوگا۔
مجموعی کیفیت اندھیر نگری چوپٹ راج والی ہے جب کہ ہمارے سیاسی قائدین اپنی اپنی ڈفلیوں پر اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب لیڈر لوگ سیاسی وفاداریاں (اگر کوئی تھیں) تبدیل کرنے میں مصروف ہیں اور رنگ بدل بدل کر گرگٹ کو شرمسار کررہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور مظلوم عوام کی حالتِ زار یہ ہے کہ بہ قول کبیر داس:
چلتی چاکی دیکھ کے دِیا کبیرا روئے
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے
رہی سہی کسر حکومت کی جانب سے پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں پے درپے اضافے نے پوری کردی ہے جو کہ مفلوک الحال اور نڈھال عوام کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسانے کے مترادف ہے۔
خود کو عوامی حکومت کہلوانے والی حکومت نے عوام دشمنی اور عوام کشی کی تمام اخلاقی حدود عبور کرلی ہیں۔ دوسری جانب عوام دوستی کا دم بھرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی محض علامتی واک آئوٹ کے علاوہ کوئی ٹھوس اور حوصلہ افزا ردّعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
لوٹ مار اور ظلم و ستم کے اس قصّے کو اب پانچواں سال ہے۔ گستاخی معاف اس سے تو بہتر فوجی آمر پرویز مشرف کا دور تھا جب ڈالر 60 روپے اور پٹرول 56 روپے لیٹر ہوا کرتا تھا۔
حکمراں اپنے اللّوں تللّوں اور دوروں میں تو کوئی کمی نہیں کررہے جب کہ اپنی عیاشیوں اور اپنے اثاثوں میں اضافے کے لیے مسلسل عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں اور ان کی چمڑی ادھیڑرہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عام انتخابات سر پر ہیں اور حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ عوام سے ووٹ کس منہ سے مانگے جائیں گے۔
ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایوب خان کے دور میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں معمولی سے اضافے کے خلاف سینہ تان کر عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے، مگر حیرت ہے کہ عوام آج ظلم کی انتہا ہوجانے کے باوجود منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ہوئے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق مٹی کے مادھو بنے بیٹھے ہیں۔
عوام کی اس بے بسی اور بے حسی نے بنی اسرائیل کی تاریخ کی یاد تازہ کردی ہے۔ جب حکمران خاندان کے صرف ایک فرد کے حکم پر غلام قوم کے ایک ہٹے کٹے شخص کو چلچلاتی ہوئی دھوپ میں کھڑا کردیا گیا اور وہ تابع فرمان حکم ثانی تک زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق گھنٹوں تک اپنی جگہ پر بے حس و حرکت جوں کا توں ساکت کھڑا رہا تھا۔
افسوس کہ ہماری نام نہاد اشرافیہ نے جو عملاً ''بدترین بدمعاشیہ'' کہلانے کی مستحق ہے۔ عام آدمی کو نہ صرف جینے کی امنگ سے محروم کردیا ہے بلکہ اس کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔
ذرا ایک نظر حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف والوں پر ڈالیے تو سب کے چہرے تروتازہ اور ہشاش بشاش نظر آئیں گے۔ اب پلٹ کر بے چارے عوام کو دیکھیے تو سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑتی نظر آئیں گی۔
بس وہی انگریزوں والی پالیسی چل رہی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ لسانی، علاقائی، مسلکی اور نسلی منافرت سب کی سب Divide and rule کی سامراجی پالیسی کی مختلف کڑیاں ہیں۔
عوام کی توجہ ہوش ربا گرانی، روز افزوں بے روزگاری اور بے تحاشا لوڈشیڈنگ جیسے سنگین مسائل کی جانب سے ہٹانے کے لیے نت نئے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں۔
ان میں سب سے نیا شوشہ اب نئے صوبوں کی تشکیل کا ہے جو کہ فضول اور قطعی بے وقت ہے۔ اس شوشے کے پس پشت بھی وہی قوتیں ہیں جو ملک کے اتحاد کو کسی نہ کسی بہانے پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔
بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت کا سب سے بڑا اعجاز اور کرشمہ یہی تھا کہ انھوں نے برصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اتحاد کی لڑی میں پرو کر یک جہت کردیا تھا۔
بابائے قوم کا یہ اعجاز و اعزاز ہے کہ وہ تمام مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر اتحاد بین المسلمین کی جیتی جاگتی علامت بنے رہے، جس سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ ہمارے قائد قومی اتحاد کا رول ماڈل تھے۔ ان سے جب ان کے مسلک کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو جواباً انھوں نے فرمایا تھا کہ نبی آخر الزماںؐ کا مسلک کیا تھا؟
بھلا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتلائیے کہ اس پس منظر میں محض کسی عقیدے یا مسلک کی بِنا پر کسی بھی شخص کو نشانہ بنانے کا بھلا کیا جواز ہے؟ ویسے بھی ہمارا دین اﷲ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی تلقین و ہدایت کرتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ازروئے اسلام ایک انسان کا قتل انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
بلاشبہ اِس وقت جب کہ وطن عزیز داخلی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ وطن دشمن عناصر موجودہ صورتِ حال سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔
قارئینِ کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان سے ستمبر 1965 میں جنگ کے موقع پر بھی قوم نے اپنی مثالی یکجہتی کے ذریعے ہی دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا تھا۔
الحمدﷲ ہمارا ملک ایمان و ایقان کی دولت کے علاوہ مادّی اور افرادی قوت کے وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ علاوہ ازیں اس کی بنیادوں میں بے شمار شہیدوں کا لہو بھی شامل ہے جو انشاء اﷲ کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔
یہ ملک عالم اسلام کی اوّلین اور پوری دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے۔ دنیائے اسلام بالخصوص اور پوری دنیا کی سلامتی پاکستان کی سلامتی اور بقا سے وابستہ ہے۔ اس مملکتِ خداداد کی تخلیق اﷲ جل شانہ کی قدرت کا انوکھا کرشمہ ہے۔ لہٰذا گھبرانے اور مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ویسے بھی Geo-political نقطۂ نظر سے وطنِ عزیز کو نہایت اہم اور کلیدی مقام حاصل ہے جس کا تمام عالمی طاقتوں کو بخوبی اندازہ و احساس ہے۔
روسی صدر کا آیندہ دورۂ پاکستان اس ناقابلِ تردید حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ پاک چین سدابہار دوستی کا محور بھی یہی حقیقت ہے۔ اور تو اور ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی اب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوچکا ہے کہ:
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ ہم مایوسی پھیلانے والے عناصر کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ان کا لقمہ تر بننے کے بجائے بہ حیثیت قوم اپنی صفوں میں مکمل یکجہتی اور باہمی اتحاد پیدا کریں اور انفرادی یا گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور رنگے ہوئے بسیار (گیدڑ) جیسے 'سی آئی اے' اور 'را' کے آلۂ کار دانشوروں سے ہوشیار رہیں۔
ملکی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اختلافِ رائے کو اختلافِ ذات نہ بنایا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور اور پروگرام میں پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ یاد رکھیں کہ تمام سیاسی جماعتوں اور تمام اداروں کی سلامتی اور بقا کا دارومدار پاکستان کی سلامتی اور بقا کے ساتھ وابستہ ہے۔
ہمیں اور ہمارے وطن کو آج اس نعرے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جو اس کی تخلیق کی بنیاد ہے۔ ''پاکستان زندہ باد۔''
حکومت کی صرف رٹ ہے اور رِٹ (Writ) نام کی کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی۔ عملاً قانون کی نہیں بلکہ لاقانونیت کی حکمرانی ہے جسے Rule of Lawlessness کہنا ہی مناسب ہوگا۔
مجموعی کیفیت اندھیر نگری چوپٹ راج والی ہے جب کہ ہمارے سیاسی قائدین اپنی اپنی ڈفلیوں پر اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب لیڈر لوگ سیاسی وفاداریاں (اگر کوئی تھیں) تبدیل کرنے میں مصروف ہیں اور رنگ بدل بدل کر گرگٹ کو شرمسار کررہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور مظلوم عوام کی حالتِ زار یہ ہے کہ بہ قول کبیر داس:
چلتی چاکی دیکھ کے دِیا کبیرا روئے
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے
رہی سہی کسر حکومت کی جانب سے پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں پے درپے اضافے نے پوری کردی ہے جو کہ مفلوک الحال اور نڈھال عوام کی ننگی پیٹھ پر کوڑے برسانے کے مترادف ہے۔
خود کو عوامی حکومت کہلوانے والی حکومت نے عوام دشمنی اور عوام کشی کی تمام اخلاقی حدود عبور کرلی ہیں۔ دوسری جانب عوام دوستی کا دم بھرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی محض علامتی واک آئوٹ کے علاوہ کوئی ٹھوس اور حوصلہ افزا ردّعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
لوٹ مار اور ظلم و ستم کے اس قصّے کو اب پانچواں سال ہے۔ گستاخی معاف اس سے تو بہتر فوجی آمر پرویز مشرف کا دور تھا جب ڈالر 60 روپے اور پٹرول 56 روپے لیٹر ہوا کرتا تھا۔
حکمراں اپنے اللّوں تللّوں اور دوروں میں تو کوئی کمی نہیں کررہے جب کہ اپنی عیاشیوں اور اپنے اثاثوں میں اضافے کے لیے مسلسل عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں اور ان کی چمڑی ادھیڑرہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عام انتخابات سر پر ہیں اور حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف میں سے کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ عوام سے ووٹ کس منہ سے مانگے جائیں گے۔
ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایوب خان کے دور میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں معمولی سے اضافے کے خلاف سینہ تان کر عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے، مگر حیرت ہے کہ عوام آج ظلم کی انتہا ہوجانے کے باوجود منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ہوئے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق مٹی کے مادھو بنے بیٹھے ہیں۔
عوام کی اس بے بسی اور بے حسی نے بنی اسرائیل کی تاریخ کی یاد تازہ کردی ہے۔ جب حکمران خاندان کے صرف ایک فرد کے حکم پر غلام قوم کے ایک ہٹے کٹے شخص کو چلچلاتی ہوئی دھوپ میں کھڑا کردیا گیا اور وہ تابع فرمان حکم ثانی تک زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق گھنٹوں تک اپنی جگہ پر بے حس و حرکت جوں کا توں ساکت کھڑا رہا تھا۔
افسوس کہ ہماری نام نہاد اشرافیہ نے جو عملاً ''بدترین بدمعاشیہ'' کہلانے کی مستحق ہے۔ عام آدمی کو نہ صرف جینے کی امنگ سے محروم کردیا ہے بلکہ اس کے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔
ذرا ایک نظر حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف والوں پر ڈالیے تو سب کے چہرے تروتازہ اور ہشاش بشاش نظر آئیں گے۔ اب پلٹ کر بے چارے عوام کو دیکھیے تو سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑتی نظر آئیں گی۔
بس وہی انگریزوں والی پالیسی چل رہی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ لسانی، علاقائی، مسلکی اور نسلی منافرت سب کی سب Divide and rule کی سامراجی پالیسی کی مختلف کڑیاں ہیں۔
عوام کی توجہ ہوش ربا گرانی، روز افزوں بے روزگاری اور بے تحاشا لوڈشیڈنگ جیسے سنگین مسائل کی جانب سے ہٹانے کے لیے نت نئے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں۔
ان میں سب سے نیا شوشہ اب نئے صوبوں کی تشکیل کا ہے جو کہ فضول اور قطعی بے وقت ہے۔ اس شوشے کے پس پشت بھی وہی قوتیں ہیں جو ملک کے اتحاد کو کسی نہ کسی بہانے پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔
بانی پاکستان حضرت قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت کا سب سے بڑا اعجاز اور کرشمہ یہی تھا کہ انھوں نے برصغیر کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اتحاد کی لڑی میں پرو کر یک جہت کردیا تھا۔
بابائے قوم کا یہ اعجاز و اعزاز ہے کہ وہ تمام مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر اتحاد بین المسلمین کی جیتی جاگتی علامت بنے رہے، جس سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ بلاشبہ ہمارے قائد قومی اتحاد کا رول ماڈل تھے۔ ان سے جب ان کے مسلک کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو جواباً انھوں نے فرمایا تھا کہ نبی آخر الزماںؐ کا مسلک کیا تھا؟
بھلا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتلائیے کہ اس پس منظر میں محض کسی عقیدے یا مسلک کی بِنا پر کسی بھی شخص کو نشانہ بنانے کا بھلا کیا جواز ہے؟ ویسے بھی ہمارا دین اﷲ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی تلقین و ہدایت کرتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ازروئے اسلام ایک انسان کا قتل انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
بلاشبہ اِس وقت جب کہ وطن عزیز داخلی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ وطن دشمن عناصر موجودہ صورتِ حال سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔
قارئینِ کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان سے ستمبر 1965 میں جنگ کے موقع پر بھی قوم نے اپنی مثالی یکجہتی کے ذریعے ہی دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا تھا۔
الحمدﷲ ہمارا ملک ایمان و ایقان کی دولت کے علاوہ مادّی اور افرادی قوت کے وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ علاوہ ازیں اس کی بنیادوں میں بے شمار شہیدوں کا لہو بھی شامل ہے جو انشاء اﷲ کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔
یہ ملک عالم اسلام کی اوّلین اور پوری دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے۔ دنیائے اسلام بالخصوص اور پوری دنیا کی سلامتی پاکستان کی سلامتی اور بقا سے وابستہ ہے۔ اس مملکتِ خداداد کی تخلیق اﷲ جل شانہ کی قدرت کا انوکھا کرشمہ ہے۔ لہٰذا گھبرانے اور مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ویسے بھی Geo-political نقطۂ نظر سے وطنِ عزیز کو نہایت اہم اور کلیدی مقام حاصل ہے جس کا تمام عالمی طاقتوں کو بخوبی اندازہ و احساس ہے۔
روسی صدر کا آیندہ دورۂ پاکستان اس ناقابلِ تردید حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ پاک چین سدابہار دوستی کا محور بھی یہی حقیقت ہے۔ اور تو اور ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی اب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوچکا ہے کہ:
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ ہم مایوسی پھیلانے والے عناصر کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ان کا لقمہ تر بننے کے بجائے بہ حیثیت قوم اپنی صفوں میں مکمل یکجہتی اور باہمی اتحاد پیدا کریں اور انفرادی یا گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور رنگے ہوئے بسیار (گیدڑ) جیسے 'سی آئی اے' اور 'را' کے آلۂ کار دانشوروں سے ہوشیار رہیں۔
ملکی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اختلافِ رائے کو اختلافِ ذات نہ بنایا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور اور پروگرام میں پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ یاد رکھیں کہ تمام سیاسی جماعتوں اور تمام اداروں کی سلامتی اور بقا کا دارومدار پاکستان کی سلامتی اور بقا کے ساتھ وابستہ ہے۔
ہمیں اور ہمارے وطن کو آج اس نعرے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جو اس کی تخلیق کی بنیاد ہے۔ ''پاکستان زندہ باد۔''