خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
کلدیپ نیئر صاحب نے کراچی پریس کلب میں بھی پرزور طریقے سے یہ بات کئی دفعہ کہی تھی...
سینئر بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کے کالم کی چند سطریں پڑھ کر میری طرح بہت سے لوگ پریشان ہو گئے کہ دیکھیں، اب کیا ہونے والا ہے؟ ابھی اور کتنا خون بہے گا؟ اور ان ایجنڈا شدہ نفرتوں کا بھگتان کسے بھگتنا پڑے گا ...؟ پہلے کلدیپ نیئر صاحب کے کالم کا اقتباس دیکھئے (8 اگست، ایکسپریس)
''میں واہگہ امر تسر سے بڑے مغموم دل کے ساتھ واپس آیا ہوں۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہاں غروب آفتاب کے موقعے پر ہونے والی فوجیوں کی تقریب کے کروفر میں کوئی نرمی پیدا نہیں ہوئی، بلکہ وہاں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی دکھائی دی۔ پاکستانی بارڈر پر بہت بڑے بڑے دس بینر لگا دیے گئے، جن میں دکھایا گیا کہ ہندوؤں اور سکھوں نے تقسیم کے وقت کس طرح مسلمانوں کو قتل کیا اور لوٹ مار کی۔ یہ تمام بینرز اس رخ سے لگائے گئے ہیں کہ وہ صرف بھارتی جانب سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بورڈ گزشتہ دو مہینوں میں نصب کیے گئے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ پاکستان میں بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کی آواز مضبوط ہو رہی ہے۔''
کلدیپ نیئر صاحب نے کراچی پریس کلب میں بھی پرزور طریقے سے یہ بات کئی دفعہ کہی تھی کہ جب جب دونوں ملکوں کے درمیان دوستی، یگانگت اور تجارت بڑھانے کی بات اعلیٰ سطح پر ہوتی ہے تو کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ ہم دس قدم آگے بڑھنے کے بجائے چالیس قدم پیچھے ہو جاتے ہیں۔ دونوں ہمسایہ ممالک میں تناؤ دور ہونا چاہیے۔ عوامی سطح پر ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی کے جذبات رکھنے کے باوجود دونوں طرف کے لوگوں کو آنے جانے کے لیے ویزا کے کن کن عذابوں اور جھمیلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
دہلی کو چھوڑ کر دیگر شہروں میں پاکستانیوں کو کس شک و شبہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جونہی کسی کو بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کا مخاطب پاکستانی ہے تو وہ لاشعوری طور پر ٹھٹھک جاتے ہیں پھر جب انھیں احساس دلایا جاتا ہے کہ ہر پاکستانی دہشتگرد یا انتہا پسند نہیں تو وہ مان بھی جاتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت میں بھی مذہبی انتہا پسندوں کی سرکاری سرپرستی کی جا رہی ہے۔ چار ہم نے مارے، آٹھ دس وہ بھی مار کر حساب برابر کریں گے ... تو یہ سلسلہ کہاں ختم ہو گا ... ؟ ختم ہو گا بھی یا نہیں۔
کلدیپ نیئر صاحب کی پوری تحریر دکھ میں ڈوبی ہوئی ہے ... لیکن ہمیں اس کا ادراک نہیں ہو رہا کہ نفرتوں کی پرورش کرنے والے در اصل وہ خوں آشام بھیڑیے ہیں جن کی پیاس صرف انسانی لہو بجھا سکتا ہے۔ 1947 میں ایک طرف اگر ہندو، سکھوں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے گلے کاٹے ہیں، ٹرینوں کی ٹرینیں انسانی لا شوں سے لبریز دونوں طرف سے بھیجی گئیں ... نقصان سب کا ہوا... لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان ہندوؤں اور مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
جنھوں نے ایک دوسرے کو بچایا اور اگر خود کو کمزور پایا تو ہمسائے کو جا کر دو تین دن پہلے خبردار کر دیا کہ جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلے جاؤ ... ایسے اعلیٰ ظرفوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی جنھوں نے اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کے جانے کے بعد ان کے گھروں کی حفاظت کی اور بعد میں جائیداد فروخت کر کے روپیہ پاکستان بھی بھیجا... یہاں کے مخلص اور ہمدرد لوگوں نے اپنے پیارے نبیؐ کی تعلیم پہ عمل کر کے ان ہندو خاندانوں کو نہ صرف اپنے گھر میں جگہ دی بلکہ انھیں بحفاظت بھارت بھی بھجوایا۔ میں اپنے کالموں میں ان سانحات اور واقعات کا ذکر پہلے بھی کر چکی ہوں کہ کس طرح ہمارا خاندان میرے والد کے ہندو دوست کی مدد سے کراچی پہنچا۔ اور پھر اس نیکی کا بدلہ میری والدہ، بھائی اور والد نے دیا ... لیکن چند نہایت بدبودار انتہا پسند جماعتوں کے پالے ہوئے سانپوں کی پھنکار میں نے موبائل پر SMS اور ای میل کے ذریعے محسوس کی ... لیکن میں آج بھی برملا کہتی ہوں کہ دونوں ممالک کے لوگوں کی اکثریت امن کی خواہاں ہے ... لیکن مٹھی بھر انتہا پسندوں نے ہمیں نہ صرف یرغمال بنا رکھا ہے بلکہ وہ سچ بولنے والی زبانیں کاٹنا بھی جانتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دیمک کو جڑ سے نہ نکالا جائے تو وہ اندر ہی اندر پوری عمارت کو منہدم کر دیتی ہے ... پاکستان کی صورت حال بالکل ایسی ہی ہے کہ وہ لوگ جنھیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پڑوسیوں سے تعلقات بحال کے بغیر کوئی ملک سکون سے نہیں رہ سکتا۔ سرحدوں پر جھڑپیں اور تصادم کی پالیسی ایک عام بات ہے۔ اسی لیے کسی حکمران جماعت کو داخلی مسائل کی پرواہ نہیں... سارا بجٹ، ساری توجہ صرف دشمنی بڑھانے پر دی جا رہی ہے۔ خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو ... بیرونی طاقتیں اس المناک صورت حال سے پوری طرح با خبر ہیں۔ لیکن ہمارے لیڈر صرف اپنے دوست احباب کو کلیدی عہدوں پہ بٹھانے اور مال بنانے میں مصروف ہیں۔
کبھی کبھی جذباتی طور پر انسان ان لوگوں کے حوالے سے بہت حساس ہو جاتا ہے جنھوں نے اسے یا اس کے خاندان کو اذیت پہنچائی ہو ... میں نے اپنے پہلے سفر نامے میں برملا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مجھے سکھوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ کیوں کہ میرے ننھیالی قریبی رشتے دار اور خاص کر چند ماہ کی بیاہی میری بڑی بہن اور ان کی سسرال سکھوں کے ہاتھوں کس طرح برباد اور قتل ہوئے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں اس تکلیف کا اظہار بھی کیا تھا کہ دلی کی خونی دروازہ اور چاندنی چوک پہ سکھوں اور ان کے گوردواروں کو دیکھ کر خوف کی ایک لہر میرے پورے وجود میں پھیل جاتی ہے۔
کیوں کہ ان ہی گوردواروں کی درمیانی سڑک پہ میرے ماموں زاد بھائی محسن سکھوں کی تلواروں کے وار سے شہید ہو گئے تھے۔ اور میری ماموں زاد بہن جو چند ماہ کی حاملہ تھیں ان کی کوکھ بھی ایک سکھ کی تلوار سے اجڑی تھی۔ وہ زندگی بھر اس بچے کے خون کو فراموش نہ کر پائی تھیں۔ نیز یہ کہ ہم دہلی میں جب بھی سفر کرتے تو کوشش کرتے کہ رکشہ ڈرائیور سکھ نہ ہو تو بہتر ہے۔ پتہ نہیں کیوں سکھوں کو کسی بھی جگہ دیکھ کر میں لرزنے لگتی تھی۔ خاندان پہ گزرنے والی قیامتیں فوراً سامنے آ جاتی تھیں۔ لیکن ستمبر 2013 میں یہ خوف اور دہشت کافی حد تک کم ہو گئی (دعا کرتی ہوں کہ مکمل طور پر ختم ہو جائے) انڈیا سے واپسی امر تسر میں دو سکھ ٹیکسی ڈرائیوروں نے جس طرح ہماری مدد کی۔
اس نے وہ خوف اور دہشت میرے اندر سے ختم کر دی۔ یہ دونوں انتہائی مخلص تھے۔ ایک کا نام دلیر سنگھ تھا اور دوسرے کا بلرام سنگھ ... یقین کیجیے کہ بھارتی ویزا پالیسی کی احمقانہ شقوں کی وجہ سے ہم دونوں جس اذیت کا شکار ہوئے تھے اس کا تصور کرنے سے جھرجھری آتی ہے۔ کسی کالم میں پوری روداد سناؤں گی۔ جس کے لیے یہ کہنا کافی ہوگا، گڑ تو کھا سکتے ہیں۔ لیکن گلگلوں سے پرہیز لازم ہے۔ ورنہ گردن زدنی ٹھہرائے جاؤ گے۔ ایک دہشت بھری رات نے نفرت اور خوف کو ختم کر کے ایک نیا سویرا طلوع کر دیا۔
کبھی بھی چند سر پھرے لوگوں کے جرائم کی سزا وار پوری قوم نہیں ہوتی۔ اندھیروں میں ساری زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ اور پھر ان معزز تجزیہ نگاروں کو بھی اپنے اپنے ذاتی ایجنڈوں سے ہٹ کر ہمسایہ ممالک سے امن اور شانتی کی فضاء کو فروغ دینے کی بات کرنی چاہیے۔ نفرتوں کو پھیلانے والے ہر طرف بکھر گئے ہیں لیکن ہم سب کو مل کر اس نفرت کو ختم کرنا ہو گا۔ جس طرح قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے اسی طرح قطرہ قطرہ محبت بھی امن و سلامتی کا سمندر بن سکتا ہے۔