تخلیقی کام گھڑی دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا

ممتاز ظروف ساز شہرزاد عالم کے حالات و خیالات

زندگی میں سب سے زیادہ خوشی ماں بننے پر ہوئی۔ فوٹو : ایکسپریس

وہ مٹی کو کائنات کی ماں قرار دیتی ہیں۔اسے اپنا استاد سمجھتی ہیں۔

زندگی میں ملنے والی خوشیوں کا ناتا مٹی سے جوڑتی ہیں، اور غم کا مداوا کرنے کے واسطے بھی مٹی کو تریاق جانتی ہیں۔ہربشرکی طرح وہ مٹی سے بنی ہیں مگر بحیثیت فنکارجو بھی کچھ بنایا، وہ مٹی کے رہین منت رہا۔

ان کا ظروف سازی سے متعلق علم حیرت میں ڈالتا ہے۔ بات شروع کردیں تو پھر وہ تادیر چلتی رہتی ہے۔

کوزہ گرکی اصل حقیقت بتانے کے لیے وہ اس مشہور مصرع '' خود کوزہ وخود کوزہ گرو خود گل کوزہ'' کو کافی جانتی ہیں۔

یہ مصرع چند ماہ قبل کراچی میں، ان کے فن پاروں کی نمائش کا عنوان بھی ٹھہرا۔ن م راشد کی معروف نظم ''حسن کوزہ گر''کا پڑھنا بھی انہیں سرشار کرتا ہے۔ مہذب اور بااخلاق ہیں۔

شائستہ آدمی کی کہیں یہ تعریف پڑھی تھی کہ وہ اپنے منہ میاں مٹھو کبھی نہیں بنتا، شائستگی کے اس معیار پر شہرزاد عالم بھی پورا اترتی ہیں۔ کس بھی موضوع پربات کریں،گفتار میں عجز و انکسار غالب رہتا ہے۔

شہرزاد عالم اپنے فن میں طاق ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کے ممتاز ظروف سازوں میں ہوتا ہے۔ خواتین میں ان کا ثانی تو ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گا۔

انہیں وطن عزیز کی پہلی اسٹوڈیو ظروف سازہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ اس زمانے میں اس میدان میں آئیں، جب ادھر آنے کا تصور زیادہ پروان نہیں چڑھا تھا۔

نیشنل کالج آف آرٹس کی عمارت کی پیشانی پر ''کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی''(دنیا میں کمال حاصل کر،تاکہ تو دنیا میں ہر دل عزیز ہو) لکھاتو ہزاروں طالب علموں نے پڑھا ہوگالیکن جو معدودے چند، اس فرمودے کی عملی تفسیر بن گئے، ان میں سے ایک شہرزاد عالم بھی ہیں۔ان کے فن کا لوہا اندرون و بیرون ملک دونوں جگہ مانا گیا۔

ان کے فن کی نقادنیلوفر فرخ کے بقول '' شہرزاد عالم کے ظروف میں،ان کے ذاتی مزاج کی کیفیتوں اور سروکاروں کا عکس نظرآتا ہے۔تحرک اور موسیقی کی، پر انبساط دھوم دھام سے ان کے رقصاں ظروف وجود میں آئے۔ان کے ظروف، جنھوں نے جدیداور روایتی تخلیقی اقدار سے جنم لیاہے، ہمارے عہد کے استعارے ہیں۔وہ یہ کہتے معلوم ہوتے ہیںکہ تبدیلی ناگزیر سہی، تاہم یہ لازم نہیںکہ تبدیلی کی خاطرماضی کو تج دیا جائے۔

شہرزاد کے ظروف اپنی شکل و صورت اور مافیہ (content )کے ذریعے سے یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ وہ آج کی دنیا میں صوفیانہ روایت کے جاری وساری عمل کا حصہ ہیں۔''

شہرزاد عالم کا تخلیقی اعتبار سے مقام تو ہم نے اپنی کج مج زبان میں بیان کردیا ہے، اور اب ان کی زندگی کے اس رخ پر بات کرلی جائے، جس نے 13سال قبل ہر حساس دل رکھنے والے کو دہلا کررکھ دیا ۔

شہرزاد عالم کا سفر زیست فطری روانی سے رواں دواں تھا، کہ کسی شقی القلب نے ان کے دو جان سے پیاروں کو موت کی نیند سلا دیا۔ 19جنوری1999ء کی شب، ان کے لیے شب غم بن گئی، جس میں دو چراغ گل ہونے سے، ان کی زندگی اندھیر ہو گئی۔

شہرزادعالم کے شوہر اور نامور مصور ظہورالاخلاق اور رقاصہ بیٹی جہاں آراء کا قتل، ان کے لیے ذاتی سانحہ تو رہا، اس ملک کے لیے بہت بڑا ثقافتی خسارہ بھی تو ہے، جہاں فنکاروں کے لیے زمین ویسے ہی تنگ ہے۔

معروف ادیب آصف فرخی کے بقول ''شہرزاد نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھال لیا ہے ورنہ ان کی جگہ کوئی اور ہوتاتو اس سانحے کے بعد بکھر کر رہ جاتا۔ یہ تو خیران کا انفرادی مسئلہ ہے لیکن عشق اور فن کے ان دو پیکروں کا یہ انجام، ہمارے معاشرے کے اجتماعی چہرے کا بھیانک اور مکروہ رخ سامنے لاتا ہے۔''

ان کے گھرانے کا معاملہ بلاشبہ ''ایںخانہ تمام آفتاب است'' کے مصداق ہے۔شہرزاد عالم واقعتا باہمت خاتون ہیں۔ شوہر اور بیٹی کو کھو دینے کے بعد اپنے اوسان قائم رکھے اور اپنا تخلیقی کام موقوف کرکے، جانے والوں کے باقی ماندہ کام کو محفوظ کرنے میں جٹ گئیں۔

بتاتی ہیں: '' میرا جو کچھ لٹ چکا ، اس کے بارے میں جانتی تھی،لیکن جو رہ گیا، اسے بچانے کی فکر تھی۔ ظہور کا بہت سا بکھرا کام سمیٹا۔ جہاں آراء کے رقص کی ویڈیوز کو جدید طریقوں سے محفوظ کیا۔ پانچ سال میں نے اپنی توجہ اسی طرف مرکوز رکھی۔''

شہرزاد عالم ہر کام میں انفرادی رنگ جمانے کے لیے عشق کو ضروری سمجھتی ہیں۔ ''ظروف سازی میں تردد بہت ہے۔لیکن کام سے عشق ہوجائے تو ہر چیز کا احساس جاتا رہتا ہے۔ کام سے دل لگ جائے تو پھر محنت کو شمار تھوڑی کیا جاتا ہے۔گھڑی دیکھ کرتخلیق کام نہیں ہوتا۔''

الف لیلہ کی شہرزاد تو کہانیاں سناتی تھیں اور یہ شہرزاد جو کوزہ گری کرتی ہیں، اب ان کی ذاتی زندگی کی کہانی کا تھوڑا بیان ہو جائے۔ شہرزادعالم نے 1948ء میں ومبلڈن میں پاکستان کی طرف سے پہلی بار نمائندگی کرنے والے محمود عالم کے ہاں لاہور میں آنکھ کھولی۔

دو بھائیوں کی وہ اکلوتی بہن ہیں۔ والد لکھنٔو یونیورسٹی جبکہ والدہ آئی ٹی کالج لکھنو سے پڑھے ہیں۔ محمود عالم تقسیم کے ہنگام دلی میں سیمنٹ کمپنی برڈ اینڈ کو میں ملازم تھے۔ 48ء میں پاکستان ہجرت کے بعد بھی اس کمپنی سے جڑے رہے اور ساتھ میں بین الاقوامی اور قومی سطح کے ٹینس مقابلوں میں بھی حصہ لیا۔

شہرزاد کی والدہ، ثریا عالم، لاہور میں پہلے مونٹیسوری اسکول کی بنیاد گزار ہیں۔ شہرزادعالم نے ابتدائی تعلیم تو والدہ کے قائم کردہ اسکول ٹوڈلر اکیڈمی سے حاصل کی، پھر سیکرڈ ہارٹ کا رخ کیا، جہاں سے وہ 1964ء سے میٹرک کرتی ہیں۔ 66ء میں کنیرڈ کالج سے ایف اے کرنے کے بعد، انہوں نے این سی اے میں داخلہ لیا۔

وہ سائیکولوجسٹ یا پھرڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، لیکن والدہ کی خواہش کے احترام میں وہ آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔

عام چالو سوچ کے برخلاف آپ کی والدہ ڈاکٹر کے بجائے آرٹسٹ کیوں بنانا چاہتی تھیں؟ ''میرے خیال میں خود آرٹسٹ بننے کی انہیں آرزو رہی، جس کی تکمیل وہ اب بیٹی کے ذریعے چاہتی تھیں۔'' این سی اے میں ان کا وقت بہت اچھا گزرا۔ ممتاز مصور شاکر علی اس زمانے میں پرنسپل تھے، جن کا یہ قول کہ کامیابی کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، انہوں نے ہمیشہ حرزجاں بنائے رکھا۔

تھرڈ ائیر میں طالب علم کوکسی خاص مضمون میں اسپیشلائزیشن کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ان کا میلان تو ٹیکسٹائل کی طرف تھا لیکن بوجوہ انہوں نے ظروف سازی کے شعبے کا انتخاب کیا۔ ان کے بقول ''ظروف سازی کا انتخاب میں نے چیلنج کے طور پر کیا، این سی اے میںاس شعبے میں کوئی جاتا ہی نہیں تھا۔'' وجہ؟ ''مجھ سے پہلے اور بعد میں طالب علم، شعبۂ ظروف سازی کے چیئرمین صلاح الدین میاں کے رویے کی وجہ سے نہیں جاتے تھے۔ وہ اپنے کام کے بہت بڑے ماہر تھے لیکن استاد اچھے نہیں تھے۔

باتیں بڑی مزے کی کرتے تھے، اس لیے ان کے پاس گھنٹوں بیٹھا جا سکتا لیکن ظروف سازی پر بات نہیں کرتے تھے۔ وہ بڑے فنکار تھے، لیکن کام سے متعلق ابلاغ کرنے سے قاصر تھے۔ تدریس ان کا میدان ہی نہیں تھا۔ میری بڑی کوشش رہی کہ ان سے سیکھا جائے لیکن اسائنمنٹ دے کر وہ چلے جاتے۔

طنزیہ بات کر کے دل بھی دکھا دیتے تھے۔ میرے خیال میں استاد کو کبھی طنز نہیں کرناچاہیے، اس سے طالب علم کا حوصلہ پست ہوتا ہے۔''

این سی اے ہی شہرزاد عالم کے ظہور الاخلاق سے تعلق کی بنیاد بنا۔ اس زمانے میں طالب علموں اور نوجوان اساتذہ پر مشتمل ایک گروپ میں دونوں شامل تھے۔ رفتہ رفتہ دونوں میں اچھی خاصی انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی تو دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ شہرزاد نے والدین کے سامنے عندیہ ظاہر کیا توانہوں نے بیٹی کا ہاتھ کسی آرٹسٹ کے ہاتھ میں دینے سے انکار کر دیا۔

وہ بتاتی ہیں: ''ایک مائنڈ سیٹ تھا کہ آرٹسٹ کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔'' شہرزاد نے بہرحال والدین سے ٹکر لے کر ظہور الاخلاق سے شادی کر لی۔ ماں باپ دوچار ماہ روٹھے رہے لیکن بعد میں من گئے اور بیٹی اور داماد کو دل سے قبول کر لیا۔ ان کے بقول '' والد نے تھوڑے ماہ بعد ہی کہہ دیا تھا کہ ان سے غلطی ہو گئی تھی اور ظہوربہت اچھے ہیں۔''
وہ خود کو آرٹسٹ ماننے سے انکارکرتی ہیں اور کرافٹس مین قرار دیتی ہیں۔ ''خود کو آرٹسٹ نہ سمجھنا عجز نہیں، آگاہی اور جانکاری ہے۔ میرا ٹمپرامنٹ فنکارانہ ضرور رہا۔ آپ مجھے کرافٹس مین کہہ سکتے ہیں۔

مہارت کے اعتبار سے، میرے کام کی وقعت ہے۔''

ظہورالاخلاق کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں کہ وہ چوٹی کے مصور تھے۔ ہم نے جواں مرگ جہاں آرا کے بارے میں جاننا چاہا کہ ان کا فن تکمیل کے کس مرحلے میں تھا؟ ''جہاں آرانے چھے سال رقص سیکھا۔ کتھک کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک حادثے میں اس کی آنکھ متاثر ہوئی۔


مجھے کسی پہنچے ہوئے انسان نے کہا کہ انسان اندر سے خوبصورت محسوس ہونا چاہیے۔ پرفارمنگ آرٹ سے وابستہ ہونے سے انسان اندر سے خوبصورت ہو جاتا ہے۔ وہ رقص کرنے لگی، تومجھے تو ویسے بھی خوبصورت لگتی تھی لیکن ڈانس کرتے اور بھی پیاری لگتی، اس کے بازو اور ٹانگیں لمبی تھیں، جو رقص کے لیے بہت ضروری ہوتی ہیں۔

اس کی استاد ناہید صدیقی کا خیال ہے کہ جہاں آرا کی زندگی وفا کرتی تو اس شعبے میں بہت آگے جاتی۔ میری دوسری بیٹی نورجہاں، فلم میکنگ کے شعبے سے منسلک ہے۔''

شہرزاد عالم کوبچوں کے ٹیلنٹ کی قدر نہ کرنے والے والدین سے شکوہ ہے۔ ان کے بقول: ''میں والدین کو سمجھاتی ہوں کہ ٹیلنٹ خدائی دین ہے، آپ اس کی عزت کریں، لیکن ہمارے ہاں جو بچے تھوڑے مختلف مزاج کے ہوں، ان کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میںبھی والدین کا پہلے جیسا سروکار نظر نہیں آتا۔ نوجوان نسل میں اقدار کا پاس نہیں رہا۔ بڑوں کو سلام دعا کرنا بھی بھول گئے ہیں۔ اپنے آپ سے لاتعلقی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اپنا پتا ہے نہ اپنی اقدار و روایات کا۔'' انہیں زندگی میں سب سے زیادہ خوشی ماں بننے پر ہوئی۔

نگری نگری پھرنے والی اس مسافر کو دنیا جہاں میں سب سے بڑھ کر سکاٹ لینڈ پسند ہے اور اس کے مکین بھی انہیں دنیا بھر میں سب سے اچھے لگے۔ دنیا بھر گھومنے کا سفر جوانی سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ عمر عزیز کے چودہ برس کینیڈا میں گزرے۔ پاکستان، ترکی، سکاٹ لینڈ، انگلینڈ اور کینیڈا کے تعلیمی اداروں میں وزیٹنگ استاد کے طور پر انہیں پڑھانے کا تجربہ بھی خوشگوار لگا۔

چالیس برس سے فن ظروف سازی سے وابستہ شہرزاد عالم کے خیال میں، تحسین کے بغیر فن کا مستقبل نہیں ہوتا۔ زبانی طور پرتعریف پھر بھی ہوجاتی ہیں لیکن کام پرکوئی ڈھنگ سے لکھ دے، ایسا ہمارے ہاں بہت کم ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں اپنے فن پاروں کی نمائش پر ملنے والے رسپانس پر وہ مایوس ہوئیں لیکن کراچی میں نمائش سے انہیں تھوڑا حوصلہ ہوا۔

ان کے بقول ''کراچی کی نمائش میں تحسین ہوئی۔ ادھر ایسے لوگ ہیں، جو صرف تعریف نہیں کرتے، بلکہ لکھتے بھی ہیں اور خریدتے بھی ہیں۔ فن پاروں کا فروخت ہونا بھی لائف لائن کا درجہ رکھتا ہے۔ اس سے آپ کو اپنا کام جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے۔'' شہر زاد عالم کے خیال میں دنیا میں فن ظروف سازی کے سب سے بڑھ کر جاپانی قدر دان ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی اسلام آباد میں ان کے فن پاروں کی نمائش ہوئی، اس کا افتتاح انہوں نے جاپانی سفیر سے کرایا۔

مٹی کائنات کی ماں ہے
میرے لیے مٹی صرف مٹی نہیں ہے بلکہ ایک عمل بھی ہے۔کچھ عرصہ مٹی سے کام کریںتو وہ آپ کو سمجھنے لگتی ہے، بولنے لگتی ہے۔مٹی نے مجھے صبر، دوستی، وفا، سچائی، کسی کا خیال رکھنا، الغرض بہت کچھ سکھایا۔ ایک تو ہم دین سے سیکھتے ہیں۔

دوسرے ہم والدین اور اردگرد کے ماحول سے سیکھتے ہیں۔مٹی سے کام کے لیے مٹی ہونا پڑتا ہے۔ مٹی استاد بھی ہے، کیوں کہ یہ بھی آپ کا امتحان لیتی رہتی ہے۔

مثلاً،آپ نے کتنی مٹی مَلی ہے،اس سے چیز کتنی خوب صورت بنی ہے۔اسے کیسے پکایا گیا ہے۔ رنگ کون سا استعمال کرنا ہے۔احمد جاوید صاحب کی اس بات پر کہ مٹی کائنات کی ماں ہے، میرا ایمان ہے۔

ہم اپنے کام کے لیے مٹی اٹھاتے ہیں تو اس میں کثافتیں ہوتی ہیں،مٹی کو خشک کرتے ہیں، پھر پانی میں ڈال کراسے چھانتے ہیں۔چھن جاتی ہے تواب وہ تیاری کے پہلے قدم کے طور پرآپ کے پاس موجود ہے۔

چھاننے کے لیے تو وہ آپ کے پاس مائع شکل میں ہوتی ہے ۔پھر اسے سخت کیاجاتاہے، اور دھوپ میں اسے کریکس پڑنے لگتے ہیں تو اس کو جما کر گیند جیسی گول شکل دی جاتی ہے۔تازی مٹی اس لیے استعمال نہیں کرتے کہ اس میں لچک اور ملائمت نہیں ہوتی،جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر ٹھہرنہیں سکتی۔مٹی جتنی زیادہ پرانی ہوگی، اتنی ہی ہمارے لیے سونا بن جاتی ہے۔

ظروف بنانے کے لیے مٹی کا اچھا چھنا ہونا ضروری ہے۔دوسرے مٹی مَلنے کے بعد کتنی دیر بیٹھی رہی ہے، خشک صورت میں نہیں بلکہ گیلی صورت میں۔

چھنائی اور ملنے کے بعد مرحلہ آتا ہے اسے چاک پر گھمانے کا۔اس کے بعد ہم اسے شکل دے کر بنانا شروع کردیتے ہیں ۔یہ ظروف سازی میں ضروری چیزیں ہیں۔

مجھے ظروف کی نیچے سے گول ساخت پسند ہے، بعض لوگ نیچے سے چوڑی ساخت رکھتے ہیں۔ ظروف سازی کے کام میں آگ ، پانی ، مٹی اور ہوا، بنیادی عنصرہوتے ہیں۔انسان کے لیے بھی چاروں ناگزیر ہیں۔

مٹی سے ہم بنتے ہیں، مٹی سے ظروف بنتاہے۔پانی ہمارے لیے ضروری ہے، ظروف سازی کا کام اس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔آگ ہمارے لیے بھی ضروری ہے اوراس کام کے لیے بھی۔ ظروف آگ میں پکتاہے۔

اس کو بھٹی میں ڈال کربند کردیتے ہیں۔اب صرف ظروف ہی اندر نہیں ہوتا، آپ بھی اندر ہوتے ہیں۔جب تک وہ باہر نہیں آجاتا، آپ کے جان پھنسی رہتی ہے۔

کبھی آپ سوچتے ہیں، اب یہ درجہ حرارت ہوگیا ہوگا۔اب لال ہوگئے ہوں گے۔اب ان کی مٹی پگھل رہی ہوگی۔بھٹی میں جتنی دیر وہ رہے گا، ایک عجب بیقراری سی رہے گی۔

کبھی یہ سوچ کے آگ زیادہ ہونے سے کہیں ٹوٹ نہ جائیں اورکبھی یہ کہ زیادہ دیر نہ ہوجائے۔مطلوبہ حرارت کے بغیر ظروف درست طور پر تیار نہیں ہوتا ، اس لیے آگ بند کرنے کے سلسلے میں ٹائمنگ کا بڑا حساب رکھنا پڑتا ہے۔ ہوا کے بغیرظروف سوکھ نہیں سکتا۔ہوا زیادہ لگ جائے تو پھر اسے گیلا کرنا پڑتا ہے۔

مٹی سے کام کرنے والے سبھی موسم سے بہت زیادہ جڑے ہوتے ہیں۔ بادل آجائیں تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں، اور ہمیں فوراًاپنی چیزوں کی پڑ جاتی ہے۔نمی کاموسم کام کے لیے ٹھیک نہیں۔میری کوشش ہوتی ہے، ستمبر، اکتوبراور نومبر میں نمونے کی بنت اور صورت گری ختم ہوجائے۔

دسمبر اور جنوری میں جب ٹھنڈ ہوجاتی ہے تو فائرنگ کرتی ہوں۔ہمارے کام میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ بھٹی جس میں آپ ظروف کو پکارہے ہیں، وہ بیٹھ جاتی ہے، اور سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتاہے مگر یہ سب کام کا حصہ ہے اور اسے قبول کرتے ہی بنتی ہے۔

جنھوں نے متاثر کیا
شروع شروع میں جاپانی ظروف سازوں نے زیادہ متاثرکیا۔جاپانی اپنے آرٹسٹ کو بہت عزت دیتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فلسفہ کے بارے میں کتابیں چھپتی ہیں۔

میرے لیے ان کتب کا مطالعہ بہت مفید رہا۔جس زمانے میںبات کرنے کو کوئی نہیں ہوتا تھا تو میں کتابوں کے ذریعے ان فنکاروں سے مکالمہ کرتی۔ بھارت کے گرچرن سنگھ کے کام کی بہت معترف ہوں۔

انہوں نے اسٹوڈیو ظروف سازی میں میں بڑا نام بنایا۔ظروف سازی کی اسی صنف میں میرا کام ہے۔ پروڈکشن ظروف سازی میں ایک بار سانچہ بنالیں اور پھر جتنے مرضی نمونے تیار کرتے جائیں لیکن اسٹوڈیو ظروف سازی میں ہر بار نیا سانچہ بنانا پڑتا ہے۔اس

طرز میں اپنا انفرادی رنگ جمتا ہے۔انسان ایک اور فلسفیانہ سطح پرکام کرتا ہے۔انگلینڈ کے برنارڈ لیچ کا کام بھی ازحد پسند ہے لیکن گرچرن سنگھ ہماری زمین کے ہیں، لہٰذا ان سے زیادہ سیکھا۔

ہیرٹیج ایجوکیشن
میرے خیال میں ہیریٹج ایجوکیشن کے بغیرکوئی بھی ایجوکیشن مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی۔اس تعلیم کا پھیلائو تو بہت ہے، لیکن چار اہم شاخوں پر میری توجہ ہے۔ سب سے پہلے نیچرل ہیریٹج ہے ، جس میں پانی، اور درخت وغیرہ آجاتے ہیں۔

دوسرے بلڈنگ ہیریٹج ہے، اس میں یہ ہے کہ پرانی عمارتوں کے بارے میں لوگوں کو پتا ہو۔تیسرے کلچرل ہیریٹج ہے، جس میں پرفارمنگ آرٹس آجاتے ہیں۔اور آخری نمبر پر لیونگ ہیرٹیج ہے،اس میں وہ کرافٹ ہیں، جو ہاتھ سے بنتے ہیں۔

اس سلسلۂ تعلیم کو میں نے لاہور میں قائم اپنے ادارے ''جہان جہاں آراء'' میں متعارف کرایا ہے۔ میں اس طرز تعلیم کو اور بھی پھیلانا چاہتی ہوں لیکن لاہور میں مجھے لگا، جیسے انگریزیت زیادہ ہے اور ثقافتی ورثے سے متعلق زیادہ تر تعلیمی اداروں میں تعصب سا ہے، اس لیے مجھے اس بارے میں زیادہ حوصلہ افزاجواب نہیں ملا۔اب چترال میں تین اسکول ڈھونڈے ہیں، جہاں میں ہیریٹج ایجوکیشن پر کام کروں گی۔

ادھر میرے آئیڈیے کو سراہا گیاہے۔وہ لوگ فطرت کے بہت قریب ہیں۔چترال میں کام کرنے کی آزادی ہوگی ، اس لیے زیادہ تجربات کرسکوں گی۔
Load Next Story