کتنے چراغ مزید گل ہوں گے
اگر فلسیطنیوں کو مسلمان بھائی نہیں سمجھتے ہو تو کم ازکم انسانی بنیادوں پر ان کی عملی مدد کریں
ذرا تصور کریں! سمندر کے کنارے پر کچھ بچے آپس میں کھیل رہے ہیں اتنے میں فضا میں ایک جنگی طیارہ نمودار ہوتا ہے۔ طیارے کے پائلٹ کی نظر ان پر پڑتی ہے اور وہ بارود کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے، بچے خود کو ان سے بچانے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں، پھر طیارے میں سوار شخص ان بچوں کو باقاعدہ نشانہ بناکر فائر کھول دیتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے ان معصوم ننھی سی جانوں کے ٹکڑے فضا میں بکھر جاتے ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں یہ درد ناک منظر کیسا بھیانک ہوگا۔ یہ خیال نہیں حقیقت ہے۔ ایسا ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے درندہ صفت فوجی نے فلسطین کے 7 معصوم بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔
ایک اور منظر ملاحظہ کریں! ایک دو سال کا بچہ جو اپنے گھر کے اندر ہے، اچانک بمباری شروع ہوجاتی ہے اور وہ بمباری کا نشانہ بن جاتا ہے، اسرائیلی بم اس کے اوپر گرتا ہے اور وہاں گہرا گڑھا پڑ جاتا ہے۔ اس کے والد سالم یہ منظر دیکھ کر بدحواس ہوکرگڑھے میں اتر جاتا ہے اور اپنے ننھے شہید بچے کے اعضا ایک تھیلی میں اکٹھے کر لیتا ہے اور روتے ہوئے وہاں موجود عزیزوں اور اہل محلہ سے کہتا ہے کہ ''دیکھو! دیکھو اس تھیلی میں میرا پیارا بیٹا لیٹا ہے۔
جاؤ! جاؤ اسرائیلیوں سے پوچھو کیا یہ دو سالہ بچہ فوجی تھا؟ کیا یہ صیہونیوں کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا؟ جاؤ معلوم کرو کہ یہ ظالم لوگ اور کتنے گھروں کے چراغ گل کریں گے؟'' غمزدہ باپ کی یہ دلخراش فریاد سن کر وہاں موجود لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں اور کسی میں اتنی سکت بھی نہ رہی کہ وہ دلاسہ بھی دے سکے۔ ایسے سیکڑوں واقعات ہیں جو صبح و شام اسرائیلی بمباری سے رونما ہو رہے ہیں۔ اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد اس سے دگنی ہے۔ غزہ شہر کی عمارتیں اسرائیلی بمباری میں کھنڈر بن چکی ہیں۔ اسرائیل کی اس ظالم، بربریت کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں۔
دنیا کی واحد سپرپاور کھلم کھلا وحشی اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے اور اسے شاباشی بھی مل رہی ہے کہ تم حق پر ہو۔ امریکی صدر اوباما پینٹاگون سے کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں صیہونی فوجیوں کی مدد کے لیے دو ہزار فوجیوں کو مقبوضہ فلسطین بھیجنے کے لیے تیار کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مایوسی کے بعد فلسطینیوں نے اسرائیلی حملوں کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں شکایت دائر کردی ہے۔ لیکن امید نہیں ہے کہ فلسطین کو یہاں انصاف ملے کیونکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ عالمی قوتیں اسرائیل کی پشت پر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد کو مسترد کرچکا ہے۔ عالمی انصاف دم توڑ چکا ہے۔ دنیا میں جنگل کا راج ہے۔
مغرب کی مانگی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے والے ادیب، شاعر، صحافی، دانشور، انسانی حقوق کے علمبردار این جی اوز نے چپ سادھ لی ہے،ان کے کانوں تک معصوم بچوں کی چیخ و پکار نہیں پہنچتی جنھیں یتیم کردیا گیا ہے، کیوں ان عورتوں کے آنسو ان کے قلم کی سیاہی نہیں بن رہے ہیں جن کا سہاگ لوٹ لیا گیا ہے، ایک ملالہ جو طالبان کے ہاتھوں زخمی ہوئی تو مشرقی و مغربی دنیا چلا اٹھی اور ملالہ کو سر پر بٹھا دیا اور اقوام متحدہ کے دروازے اس کے لیے کھول دیے گئے اور اسے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔ ملالہ یوسف زئی کو جب معلوم ہوا کہ افریقی ملک نائیجیریا میں اسکول کی لڑکیوں کو اغوا کیا گیا تو اسے لگا کہ جیسے ان کی بہنیں قید میں ہیں اور پیغام دیا کہ ''لوگوں کو اس معاملے پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے'' شاید اسے پتا نہیں کہ اسرائیلیوں نے غزہ میں بے شمار معصوم بچیوں کو جان سے مار ڈالا ہے۔مسلم حکمراں خواب غفلت میں ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ یہ ہمارا نہیں فلسطینیوں کا مسئلہ ہے۔
اگر فلسیطنیوں کو مسلمان بھائی نہیں سمجھتے ہو تو کم ازکم انسانی بنیادوں پر ان کی عملی مدد کریں جس طرح امریکا اور دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحت ایک ظالم اسرائیل کی عملاً مدد کر رہے ہیں تم بھی ایک دردمند دل ہوکر ایک انسان کے ناتے مظلوم فلسطینیوں کی جانی و مالی مدد کرو۔ بات مذمتی بیانات اور اظہار تشویش سے آگے بڑھ چکی ہے یہ مت بھولو! یہ برا وقت یکے بعد دیگرے مسلم ممالک پر پہلے بھی آچکا ہے اور آئندہ بھی آنے کے صاف آثار ہیں۔
ہمت کرو، ڈٹ جاؤ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف جو اس نے فلسطین پر کی ہوئی ہے ایک مذمتی قرارداد منظور کروالو جس میں اسرائیلی بمباری کی بندش، غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔ اور یہ ثابت کیا جائے کہ جس طرح دنیا کی طاقت ور ممالک ایک ہیں اسی طرح دنیا کے کمزور ممالک جس میں مسلم ممالک اکثریت میں ہیں ایک قلب ایک جسم ہیں۔
اسرائیل کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ مسلم حکمرانوں کو اپنی حیثیت اور مرتبہ پہچان لینا چاہیے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، خدارا! عالمی سطح پر دباؤ ڈال کر مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام رکوائیں۔ فلسطینی نوجوانوں کی نسل کشی مسلم نسل کشی کے مترادف ہے۔ آج ہمیں پھر صلاح الدین ایوبی جیسے جرنیل کی ضرورت ہے۔ بحیثیت مسلمان کے ہمیں آپس کے فروعی اختلافات کو بھلاکر ایک قوم (مسلم قوم) بننا ہوگا ورنہ یاد رکھو! تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
قیام الیل کے موقعے پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں خاص طور پر فلسطینیوں اور امت مسلمہ کے لیے مجموعی طور پر خصوصی دعائیں کی گئیں۔ امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس نے فلسطین کے مسلمانوں کے لیے خصوصی دعاکرائی۔ آئیے! مل کر اس دعا کو دہراتے ہیں۔ یا اللہ! فلسطینی مسلمانوں کو یہودی دشمنوں سے محفوظ رکھ اور اسلام دشمن قوتوں کو پارہ پارہ کردے(آمین)