اے ابر کرم آج اتنا برس۔۔۔
کچھ امداد کا اعلان اور مرنے والوں سے تھوڑی سی ہمدردی کا اظہار
برسات کا زمانہ ہے۔ رم جھم، رم جھم تو ہوتی ہی رہتی ہے کبھی رات کے پچھلے پہر تو کبھی دن میں تو کبھی سورج کی تپش کے ساتھ ایک طرف سورج چاچو کے جلوے تو دوسری طرف ابر رحمت دھوپ بھی ہے اور ننھی منی بوندوں کی پھوار بھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ جہاں بادل گھر گھر کر آئے اور اودے نیلے، سرمئی اورکالے بادل آسمان پر لہرائے وہیں ریڈیو پر بارش کے حوالے سے دل والوں نے گانے چلا دیے ''رم جھم رم جھم پڑے پھوار'' یا پھر یہ کہ ''اے ابر کرم آج اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں'' جانے کا سوال تو جب پیدا ہوتا ہے کہ جب مقررہ جگہ پر پہنچا جائے، چونکہ ادھر بارش کی جھڑی لگی اور ادھر نالے ندی بھر گئے راستے بند ہوگئے۔
جو راستے میں تھے وہ پناہ کی تلاش میں جو گھر پر تھے وہ اپنوں کے انتظار میں، گاڑیاں پانی میں پھنس گئیں کتنے لوگ ندی نالوں میں بہہ گئے اور پاپی سنسار سے جان چھڑا گئے، کچے مکان، بوسیدہ عمارتیں زمین بوس ہوگئیں، لیکن حکومت قبل ازوقت کام کرنے کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں، جب کوئی بڑا حادثہ ہوجاتا ہے تب صاحب اقتدار اپنے عالی شان گھروں سے نکلتے ہیں۔
کچھ امداد کا اعلان اور مرنے والوں سے تھوڑی سی ہمدردی کا اظہار، ہوگئی تعزیت بھی اور مدد بھی، زندگی پھر اسی طرح رواں دواں ہوگئی پھر کسی بڑے سانحے کا انتظار، سالہا سال سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ تلخ تجربات اور سانحات سے سبق سیکھنے والا کوئی نہیں، ویسے سندھ حکومت کا ان تمام مسائل سے دور دور کا واسطہ نہیں، جو وزرا اور صدور اپنے گاؤں کی اپنے شہر کی حالت کو درست نہیں کرسکتے ہیں وہ ملک کو کیسے بنا سنوار سکتے ہیں، وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو اربوں روپیہ دیا تھا تاکہ سندھ کی خستہ حالی کو درست راہ پر گامزن کیا جائے۔
وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے سندھ میں سی این جی بسوں کے چلانے کا وعدہ بھی کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ غالباً پچاس کے قریب بسوں کی مرمت عنقریب ہوجائے گی اور وہ جلد ہی کراچی کی شاہراہوں پر دوڑیں گی اور یہ بسیں مسافروں کو موت کے منہ میں جانے سے بچائیں گی۔ اس لیے کہ بے چارے بے شمار مزدور پیشہ مسافر بسوں کی چھتوں پر سوار اور پائے دان پر کھڑے ہوکر سفر کرتے ہیں۔
ان کے گرنے اور جان گنوانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ایسا ہوتا بھی رہتا ہے لیکن جناب وعدہ 4 لفظوں تک ہی محدود رہا یعنی و۔ع۔د۔ہ ۔ اس سے آگے کی کہانی مزید دردناک ہے کہ عید کے موقعے پر بھی سمندر کی موجوں نے چالیس کے قریب نوجوانوں کو گھسیٹ لیا اور ان کی سانسوں کو موت کی گہری وادی میں لے جا کر دفن کردیا۔ چالیس گھروں کے چراغ گل ہوگئے۔ لواحقین کے لیے اندھیرا دور دور تک پھیل گیا، اس موقعے پر رقت آمیز مناظر نے دلوں کو دکھی کردیا ایک ستم رسیدہ خاتون ساحل سمندر کی ریت پر جہاں فضا میں ہیلی کاپٹر کی پرواز تھی۔
اپنے دوسرے بیٹے کی تصویر لیے لوگوں سے اس طرح کہہ رہی تھیں کہ میرا بیٹا ادھر ہی ہے اسی سمندر میں ہے اسے نکالنے میں میری مدد کی جائے جیسے ان کا بیٹا دور کہیں میلے میں گم گیا ہو اور تلاش بسیار کے بعد آخرکار زندہ سلامت لوٹ ہی آئے گا وہ ایک بیٹے کو دفنا چکی تھیں اور ساحل سمندر پر تنہا نظر آرہی تھیں، بے حد صابر اور شاکر خاتون کہ اللہ نے ان معزز خاتون کو صبر و شکر سے نوازا تھا۔
ان کی آنکھ میں آنسو نہیں تھا بلکہ وہ راضی بہ رضا تھیں کہ جیسا رب نے چاہا ویسا ہی ہوا کہ انسان کو ایک نہ ایک دن لوٹ کر جانا اور خالق حقیقی سے ملنا ہے۔ آفرین ہے ان معزز و محترم خاتون پر اور بھی بے شمار لوگ تھے جو صبر کا مجسمہ بن چکے تھے اور اپنے جگر پاروں کی لاشیں وصول کر رہے تھے یا انتظار کر رہے تھے۔ ایک 19 سالہ نوجوان کے والد صاحب بھی بینچ پر بیٹھے منتظر تھے کہ کب یہ ظالم سمندر ان کے بیٹے کو ان فوجی نوجوانوں سے ملادے جو سمندر سے لاشیں نکال رہے تھے۔ اور وہ اسے اپنی اشک بار آنکھوں سے دیکھ لیں کہ یہ ان کا وہی بیٹا ہے جو سیر و تفریح کے لیے نکلا تھا لیکن اس کی واپسی اس کے پیروں پر نہ ہوسکی۔
یہاں بھی صورتحال وہی ہے جیسی کہ برسات کے زمانے میں ہوتی ہے۔ ساحل پر کھدائی کردی گئی شاید کچھ تعمیری کام ہو رہا تھا لہٰذا گڑھے پڑگئے اور اسے بند کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور نہ ہی راستے بند کیے اور نہ خطرناک یا Danger کا بورڈ لگایا۔ عید منانے چلے گئے اور یہ مرحومین بھی اپنے اہل خانہ، دوست احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ عید ہی منانے آئے تھے پاؤں پھسلا یا دانستہ تفریح کی غرض سے پانی کی لہروں سے آنکھ مچولی کرنے آگے بڑھے، لہٰذا گڑھے میں گرے، وہاں سے نکلنا آسان نہ تھا ان گڑھوں نے قبروں کا کام کیا۔
اس افسوسناک موقعے پر ایک خاص بات کی طرف توجہ دلانی ہے کہ خدارا! عوام کو بھی سمجھداری سے کام لینا چاہیے، سمندر چڑھا ہوا یا بپھرا ہوا ہو، یہ نوجوان احتیاط سے کام ہرگز نہیں لیتے ہیں اور شاید نہ ہی ان کے والدین ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ کوشش کیا خاک کریں گے کہ وہ خود ہی سیروتفریح کی غرض سے سوزوکیاں کرائے پر لیتے ہیں اور پورے خاندان کو بھر کر لے آتے ہیں۔ عید پر یہ نظارہ بھی عام تھا کہ دور دراز سے آئے ہوئے لوگ الٰہ دین اور سفاری پارک اور دوسرے پارکوں میں بجری بھرنے والے ٹرکوں پر لد کر مع رشتے داروں اور محلے والوں کے عید منانے چلے آئے عورتیں، بچے، مرد، قابل دید نظارہ تھا، عید کی خوشیاں چہروں پر رقص کر رہی تھیں، بہرحال عوام کو شعور دینے کے لیے تعلیم کی اشد ضرورت ہے، گھوسٹ اساتذہ اور بند اسکولوں کے لیے کارروائی کرنا ناگزیر ہے۔ ورنہ یوں ہی عوام اپنی جانیں گنواتے رہیں گے اور اب بارش میں کیا کیا نقصانات ہونے والے ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ گلستان جوہر بلاک 13 میں ایک بہت بڑا نالہ کھلا ہوا ہے اسی طرح نارتھ ناظم آباد کے کئی بلاک اور کئی جگہوں پر ایسے ہی نالے اور بڑے بڑے گڑھے موجود ہیں، بارش کے زمانے میں نالے نالیاں اور سڑکیں سمندر کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ اجنبی لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ اس جگہ موت کا سامان بڑے ہی اہتمام سے کیا گیا ہے۔
کنٹونمنٹ کا ادارہ باقاعدہ سالانہ فیس وصول کرتا ہے وہ بلاک 13 کے نالے بارش سے پہلے پاٹ نہیں سکتا ہے؟ سب لوگ موت کے ہی تماشائی ہیں کیا؟ اسی طرح بجلی کے کھلے تار زندگیوں کی ڈور کو کاٹنے کے لیے کافی ہیں۔ اب ان حالات میں بھلا کون یہ گانا گائے گا۔ گھنگھور گھٹا چھائی ہے۔ اب یاد تیری آئی ہے۔