شِسٹو پِسٹو کنکر
اب ہم ڈرامے کے پُراسرار ایوان سے نکل کر حقیقت کے میدان میں داخل ہوتے ہیں ۔۔۔
لاہور:
قارئینِ کرام! حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نہ تو تامل ٹائیگرزکی للکار ہے اور نہ زولو قبائل کی پُکار۔ نیز یہ کوئی پرتگالی گالی بھی نہیں ہے۔ تو پھر یہ کیا ہے؟ الفاظ ضرور بگڑے ہوئے ہیں لیکن یہ تو انگلش (گڈاولڈ انگلش) کا معصوم سا فقرہ۰
She stoops to conquer
(سرنگوں ہوکے فتح مند ہوئی)
اور یہ ایک شاندار مزاحیہ ڈرامے کا نام بھی ہے جو مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔ اس ڈرامے کا مصنف تھا آلیورگولڈ اسمتھ Oliver Goldsmithجس نے ایک خوبصورت نظم اور ایک کامیاب ناول بھی لکھا۔ مگر وہ خوشحال کبھی نہ ہوا اور 44سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ وہ ڈاکٹر جانسن کا قریبی دوست بھی تھا۔
لیکن جب کوئی بچہ اپنے بڑوں کو اس ناٹک کی تعریف کرتے سنتا ہے تو وہ بہت حیران ہوتا ہے۔ ڈرامے کا نام اس کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ وہ''شِسٹو پِسٹو کنکر'' مزے لے لے کرکہتا ہے اور اِسے کوئی منتر سمجھتا ہے۔ پھر وہ ڈرامے کی ہیروئن ''کیٹ'' کے بارے میں سوچنے لگتا ہے جو اپنے منگیتر کو رِجھانے کے لیے خود کو ''فضول ریشم'' (Superfluous Silk)سے آزاد کرکے نوکرانی کا لباس پہن لیتی ہے تاکہ اُس کا دل پسند منگیتر جو''اونچی ذات'' کی تعلیم یافتہ خواتین سے گھبراتا ہے 'لیکن ''نیچی ذات'' کی اَن پڑھ عورتوں کے درمیان ترنگ میں ہوتا ہے' اس کے قریب آسکے۔
اب ہم ڈرامے کے پُراسرار ایوان سے نکل کر حقیقت کے میدان میں داخل ہوتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ یہ عجیب وغریب ،طلسمی جملہ ہماری زندگی میں بھی کوئی معنی رکھتا ہے ' کوئی پیغام دیتا ہے ۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم''شِسٹو پِسٹو کنکر'' کی بھول بھلیّوں میں آگے بڑھیں ہم اس میں ایک اضافہ کریں گے ۔ اس ریشمی و مخملی لباس میں ٹاٹ کا پیوند بھی لگادیں گے ۔ کیونکہ :
مرد ہو اسمارٹ پھر بھی ٹاٹ کا پیوند ہے
مثلِ مخمل مثلِ ریشم خوبصورت عورتیں
(تشنہ)
یعنی اس نفیس نظام میں مردوںکو بھی شامل کرلیں گے۔ اور یہاں یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ لفظ Stoopکا ترجمہ سَرنگوںہونا یا جُھکنا ہرگز نہ کیا جائے کیونکہ یہ قدم بوسی یا حد سے بڑھی ہوئی خوشامد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔بلکہ اس کی جگہ خوش خُلقی یا خوش مزاجی استعمال کیا جائے یعنی ہم دوسرے کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور وقت پڑنے پر اپنی غلطی بھی تسلیم کرلیتے ہیں ' اس طرح کہ ہماری اپنی عزت مجروح نہیں ہوتی۔
جہاںتک طبقۂ نسواں کا تعلق ہے تو خواتین ِ جہاں تو ازل سے سرنگوں ہورہی ہیں وہ فاتح بھی ہوتی ہیں اور (زیادہ تر) مفتوح بھی۔ مشرق میں مرد حضرات بڑے غرور کے ساتھ کہتے ہیں کہ عورت کو تو خدا نے سرنگوں ہونے ہی کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ مرد کی خدمت کرتی رہے اور اس تابعداری میں خوش رہے۔
مگر مغرب میں صورتِ حال مختلف رہی ہے۔ عورتوں کو مساوی حقوق ملنے سے پہلے بھی وہاں عورت کی حالت اتنی خراب نہیں تھی۔ انگلش سوسائٹی میں تو عورت صرف ایک کام کرتی تھی۔ کرٹسی(Curtsy(جھک کر آداب بجالانا) اور اس عمل کا ' جو خاصی پریکٹس مانگتا ہے ' نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ مرد عورت کے لیے (Courtesies)(عنایات) کے ڈھیر لگادیا کرتاتھا۔ عورت کوووٹ دینے کا حق نہیںتھا اور وہ تجارت اور سیاست سے بھی دور تھی۔ مگر چونکہ یورپ میںChivalry(بانکپن) اور Gallantry(دلیری) کی شاندارروایت موجود رہی تھی اس لیے عورتوں کے لیے ممکن ہواکہ وہ اپنے جمال و کمال کے ذریعے اور اپنے عشوؤں اور غمزوں کی مدد سے مَردوں کوفتح کریں اور ان پر حکومت کریں۔
نمونے کے طور پر دیکھیے مادام پامپا دوغ Pompadourکو جس نے ملکہ نہ ہوتے ہوئے بھی ملکہ کا رول ادا کیا اور بھوکے عوام کو ''روٹی نہیں تو کیک'' کا قیمتی مشورہ دے کر لازوال شہرت حاصل کی۔ مرد عورتوں کی ہمیشہ تعظیم کرتے تھے۔ہیٹ اتارکر سلام پیش کرتے تھے اور ''لیڈیزفرسٹ'' کے تحت جلسوں اور محفلوں میں ہمیشہ عورتوں کو اوّلیت دیتے تھے ۔مرد عورتوں کے ساتھ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتا اور اُس زخم کے لیے معافی مانگتا تھا جو اس نے ''عورت تیرا نام کمزوری ہے'' کے تحت لگایا تھا۔
اُس نے عورت کے گلیمر(کشش) کو سراہا اور اُسے اپنے دل کے مندر میں بٹھایا ۔اُسے ''جنسِ لطیف'' Fair Sexکہااور ماضی کے بانکوںKnightsکی طرح مصیبت میں گِھری ہر حسینہ Damsel in Distressکو بچانے کی خاطر جاں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیّار تھا ۔واضح رہے کہ ہمارے اپنے بے حس اور گُھٹے ہوئے معاشرے میں مصیبت میں گِھری حسینہ کو بچانے کوئی سر پھرا نہیں آئے گا اور اگر آیا تو فوراً گرفتار ہوجائے گا۔
اور اب جب کہ مغربی عورتوں کو برابر کے حقوق مل گئے ہیں تو وہ اور بھی زیادہ مزے میں ہیں کیونکہ شیولری کی اعلیٰ روایت' جو اُسی طرح موجود ہے ' مردوں کو عورتوں کی حسبِ سابق تعظیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یعنی مغربی عورت کے دونوں ہاتھوں میں لڈّو ہیں۔ ماضی میںاُسے برابری کے کیک میں سے حصہ تو نہیں ملتا تھا لیکن Icing سے خوب نوازا جاتاتھا اب وہ کیک پر بھی ہاتھ مار رہی ہے اور ختم نہ ہونے والی Icingتو اس کی ہے ہی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرد حضرات کس طرح اِس میدان میں عورتوں سے آگے نکل جاتے ہیں اور دل فتح کرتے ہیں ۔ہمارا ایک مست ملنگ دوست ہے۔ اس کی ہی زبانی سنیے:
'' صبح بہت خوشگوار تھی۔ رات بارش ہوئی ۔ اب دھوپ تھی ہوا میں نمی دل میں تراوٹ پیدا کررہی تھی۔ سڑکوں پر پانی گڑھوں میں بھرا ہوا تھا۔ میں گنگناتا ہوا گاڑی ڈرائیو کررہاتھا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص آگے چلاجارہا ہے۔اچانک میری گاڑی کالفٹ فرنٹ وھیل ایک گڑھے میں ہوتا ہوا اِس طرح آگے بڑھا کہ گدلا پانی اس شخص کو سر سے پاؤں تک شرابور کرگیا۔
''واہ رے واہ۔ مزہ آگیا ۔'' میرے منہ سے بے ساختہ ہنسی کا فوارہ پھوٹا۔ اور میں آگے بڑھ گیا۔ کہانی ختم ۔ عام طور سے کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے لیکن اِس بار نہیں۔ آسمان سے ایک غیر مرئی تلوارنازل ہوئی اور میرے سینے میں پیوست ہوگئی۔
''اگر میں اِس اجنبی کی جگہ ہوتا اور میرا یہ حال ہوا ہوتا ؟''
بجلی کے بڑے جھٹکے کی طرح یہ سوال میرے دل کی گہرائی سے اٹھا اور میں ندامت سے پانی پانی ہوگیا ۔ میں نے گاڑی روکی اور بھاگ کر اس حیران و پریشان شہری کے پاس پہونچا۔
''ہزار بار معافی کا خواستگار ہوں'سر ۔'' میں اپنے الفاظ کی روانی پر خود بھی حیران تھا۔
''میں معذرت خواہ اپنی حماقت پر اور Am Perfectly Willing to so Anything by way of a Redressمیں نے انگریزی کا سہارا لیا۔
وہ بھیگا ہوا اجنبی مجھے اِس طرح گھورکر دیکھتا رہا جیسے میں کوئی عجوبہ ہوں ۔اس کی بھنویں تنی ہوئی تھیں اور سانس پھولی ہوئی۔ غالباً وہ سوچ رہا تھا کہ میں کوئی شریر جوکر ہوں جو دوسروں کو تکلیف پہونچا کر خوش ہوتا ہے' کوئی پاگل ہوں یا شریف انسان ہوں جو اپنی غلطی پر نادم ہو۔ چند لمحے بعد اس کے سخت چہرے نے نرمی اختیار کی اور ہونٹوں پر ایک تبسم کی کرن پیدا ہوئی۔
''صبح سویرے گدلے پانی سے یہ غسل میری قسمت میں تھا ۔ لیکن میرے محترم آپ اِسے بھول جائیے۔ آپ کا کوئی قصور نہیں۔ اب جہاں تک Redressکا سوال ہے تو جناب میرا گھر قریب ہی ہے۔ اور میں آپ کی مدد کے ''بغیر'' Re-Dressہونا پسند کروں گا ۔ صبح بخیر "Happy Motorist
ہم دونوں نے ہاتھ ملائے اور دوستوں کی طرح رخصت ہوئے۔ تماشائی جو ''تماشے'' کے لیے جمع ہوگئے' مایوسی سے ہمیں دیکھتے رہے۔
کہانی ختم۔ ہاں بھی اور نہیں بھی۔ میں بہت خوش تھا اور چاہتا تھا کہ ساری دنیا کو بازؤوں میں لپیٹ کر بوسوںکی بارش کردوں ۔ میں نے اپنی غلطی تسلیم کرکے اور معافی مانگ کر خود اپنے اوپر زبردست احسان کیاتھا۔ اگر میں غلطی تسلیم نہ کرتا تو وہ شخص تو گھر جا کر لباس بدلنے کے بعد نارمل ہوجاتا لیکن میں نارمل اور پرسکون کبھی نہیںہوتا۔ ایک کانٹا میرے دل میں کھٹکتا رہتا۔ میری دل کی عدالت میں روز مجھے سزا ملتی اور میں چڑچڑا اور قابل ِ نفر ت ہوجاتا ۔لیکن:
پہلے ہوجائے ترے دل کی ذرا کچھ تطہیر
پھر سنوارے گی تجھے صبحِ ازل کی تنویر
(تشنہ)
خدا کا شکر میری معافی سے میرے دل کی ''تطہیر'' ہوگئی اور صبحِ ازل کی تنویر نے اُسے سنوارنا شروع کردیا ۔ چند ایسے لوگوں کو چھوڑ کر جو''فاؤسٹ'' (Faust)کی طرح شیطان کے ہاتھ اپنی روح بیچ دیتے ہیں' ہم میں سے ہر کوئی کسی کو تکلیف یا نقصان پہونچا کر چین سے نہیں بیٹھ پاتا۔ اُس کا ضمیر اُسے برابر ملامت کرتارہتا ہے۔
اور پھر یہ کس قدر آسان ہے کہ آپ اپنا ''روشن رُخ '' مناسب موقعے پر سب کے سامنے کردیں اور معاشرہ کو پُر لطف بنادیں۔
قارئینِ کرام! حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نہ تو تامل ٹائیگرزکی للکار ہے اور نہ زولو قبائل کی پُکار۔ نیز یہ کوئی پرتگالی گالی بھی نہیں ہے۔ تو پھر یہ کیا ہے؟ الفاظ ضرور بگڑے ہوئے ہیں لیکن یہ تو انگلش (گڈاولڈ انگلش) کا معصوم سا فقرہ۰
She stoops to conquer
(سرنگوں ہوکے فتح مند ہوئی)
اور یہ ایک شاندار مزاحیہ ڈرامے کا نام بھی ہے جو مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔ اس ڈرامے کا مصنف تھا آلیورگولڈ اسمتھ Oliver Goldsmithجس نے ایک خوبصورت نظم اور ایک کامیاب ناول بھی لکھا۔ مگر وہ خوشحال کبھی نہ ہوا اور 44سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ وہ ڈاکٹر جانسن کا قریبی دوست بھی تھا۔
لیکن جب کوئی بچہ اپنے بڑوں کو اس ناٹک کی تعریف کرتے سنتا ہے تو وہ بہت حیران ہوتا ہے۔ ڈرامے کا نام اس کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ وہ''شِسٹو پِسٹو کنکر'' مزے لے لے کرکہتا ہے اور اِسے کوئی منتر سمجھتا ہے۔ پھر وہ ڈرامے کی ہیروئن ''کیٹ'' کے بارے میں سوچنے لگتا ہے جو اپنے منگیتر کو رِجھانے کے لیے خود کو ''فضول ریشم'' (Superfluous Silk)سے آزاد کرکے نوکرانی کا لباس پہن لیتی ہے تاکہ اُس کا دل پسند منگیتر جو''اونچی ذات'' کی تعلیم یافتہ خواتین سے گھبراتا ہے 'لیکن ''نیچی ذات'' کی اَن پڑھ عورتوں کے درمیان ترنگ میں ہوتا ہے' اس کے قریب آسکے۔
اب ہم ڈرامے کے پُراسرار ایوان سے نکل کر حقیقت کے میدان میں داخل ہوتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ یہ عجیب وغریب ،طلسمی جملہ ہماری زندگی میں بھی کوئی معنی رکھتا ہے ' کوئی پیغام دیتا ہے ۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم''شِسٹو پِسٹو کنکر'' کی بھول بھلیّوں میں آگے بڑھیں ہم اس میں ایک اضافہ کریں گے ۔ اس ریشمی و مخملی لباس میں ٹاٹ کا پیوند بھی لگادیں گے ۔ کیونکہ :
مرد ہو اسمارٹ پھر بھی ٹاٹ کا پیوند ہے
مثلِ مخمل مثلِ ریشم خوبصورت عورتیں
(تشنہ)
یعنی اس نفیس نظام میں مردوںکو بھی شامل کرلیں گے۔ اور یہاں یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ لفظ Stoopکا ترجمہ سَرنگوںہونا یا جُھکنا ہرگز نہ کیا جائے کیونکہ یہ قدم بوسی یا حد سے بڑھی ہوئی خوشامد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔بلکہ اس کی جگہ خوش خُلقی یا خوش مزاجی استعمال کیا جائے یعنی ہم دوسرے کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور وقت پڑنے پر اپنی غلطی بھی تسلیم کرلیتے ہیں ' اس طرح کہ ہماری اپنی عزت مجروح نہیں ہوتی۔
جہاںتک طبقۂ نسواں کا تعلق ہے تو خواتین ِ جہاں تو ازل سے سرنگوں ہورہی ہیں وہ فاتح بھی ہوتی ہیں اور (زیادہ تر) مفتوح بھی۔ مشرق میں مرد حضرات بڑے غرور کے ساتھ کہتے ہیں کہ عورت کو تو خدا نے سرنگوں ہونے ہی کے لیے پیدا کیا ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ مرد کی خدمت کرتی رہے اور اس تابعداری میں خوش رہے۔
مگر مغرب میں صورتِ حال مختلف رہی ہے۔ عورتوں کو مساوی حقوق ملنے سے پہلے بھی وہاں عورت کی حالت اتنی خراب نہیں تھی۔ انگلش سوسائٹی میں تو عورت صرف ایک کام کرتی تھی۔ کرٹسی(Curtsy(جھک کر آداب بجالانا) اور اس عمل کا ' جو خاصی پریکٹس مانگتا ہے ' نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ مرد عورت کے لیے (Courtesies)(عنایات) کے ڈھیر لگادیا کرتاتھا۔ عورت کوووٹ دینے کا حق نہیںتھا اور وہ تجارت اور سیاست سے بھی دور تھی۔ مگر چونکہ یورپ میںChivalry(بانکپن) اور Gallantry(دلیری) کی شاندارروایت موجود رہی تھی اس لیے عورتوں کے لیے ممکن ہواکہ وہ اپنے جمال و کمال کے ذریعے اور اپنے عشوؤں اور غمزوں کی مدد سے مَردوں کوفتح کریں اور ان پر حکومت کریں۔
نمونے کے طور پر دیکھیے مادام پامپا دوغ Pompadourکو جس نے ملکہ نہ ہوتے ہوئے بھی ملکہ کا رول ادا کیا اور بھوکے عوام کو ''روٹی نہیں تو کیک'' کا قیمتی مشورہ دے کر لازوال شہرت حاصل کی۔ مرد عورتوں کی ہمیشہ تعظیم کرتے تھے۔ہیٹ اتارکر سلام پیش کرتے تھے اور ''لیڈیزفرسٹ'' کے تحت جلسوں اور محفلوں میں ہمیشہ عورتوں کو اوّلیت دیتے تھے ۔مرد عورتوں کے ساتھ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتا اور اُس زخم کے لیے معافی مانگتا تھا جو اس نے ''عورت تیرا نام کمزوری ہے'' کے تحت لگایا تھا۔
اُس نے عورت کے گلیمر(کشش) کو سراہا اور اُسے اپنے دل کے مندر میں بٹھایا ۔اُسے ''جنسِ لطیف'' Fair Sexکہااور ماضی کے بانکوںKnightsکی طرح مصیبت میں گِھری ہر حسینہ Damsel in Distressکو بچانے کی خاطر جاں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیّار تھا ۔واضح رہے کہ ہمارے اپنے بے حس اور گُھٹے ہوئے معاشرے میں مصیبت میں گِھری حسینہ کو بچانے کوئی سر پھرا نہیں آئے گا اور اگر آیا تو فوراً گرفتار ہوجائے گا۔
اور اب جب کہ مغربی عورتوں کو برابر کے حقوق مل گئے ہیں تو وہ اور بھی زیادہ مزے میں ہیں کیونکہ شیولری کی اعلیٰ روایت' جو اُسی طرح موجود ہے ' مردوں کو عورتوں کی حسبِ سابق تعظیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یعنی مغربی عورت کے دونوں ہاتھوں میں لڈّو ہیں۔ ماضی میںاُسے برابری کے کیک میں سے حصہ تو نہیں ملتا تھا لیکن Icing سے خوب نوازا جاتاتھا اب وہ کیک پر بھی ہاتھ مار رہی ہے اور ختم نہ ہونے والی Icingتو اس کی ہے ہی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرد حضرات کس طرح اِس میدان میں عورتوں سے آگے نکل جاتے ہیں اور دل فتح کرتے ہیں ۔ہمارا ایک مست ملنگ دوست ہے۔ اس کی ہی زبانی سنیے:
'' صبح بہت خوشگوار تھی۔ رات بارش ہوئی ۔ اب دھوپ تھی ہوا میں نمی دل میں تراوٹ پیدا کررہی تھی۔ سڑکوں پر پانی گڑھوں میں بھرا ہوا تھا۔ میں گنگناتا ہوا گاڑی ڈرائیو کررہاتھا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص آگے چلاجارہا ہے۔اچانک میری گاڑی کالفٹ فرنٹ وھیل ایک گڑھے میں ہوتا ہوا اِس طرح آگے بڑھا کہ گدلا پانی اس شخص کو سر سے پاؤں تک شرابور کرگیا۔
''واہ رے واہ۔ مزہ آگیا ۔'' میرے منہ سے بے ساختہ ہنسی کا فوارہ پھوٹا۔ اور میں آگے بڑھ گیا۔ کہانی ختم ۔ عام طور سے کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے لیکن اِس بار نہیں۔ آسمان سے ایک غیر مرئی تلوارنازل ہوئی اور میرے سینے میں پیوست ہوگئی۔
''اگر میں اِس اجنبی کی جگہ ہوتا اور میرا یہ حال ہوا ہوتا ؟''
بجلی کے بڑے جھٹکے کی طرح یہ سوال میرے دل کی گہرائی سے اٹھا اور میں ندامت سے پانی پانی ہوگیا ۔ میں نے گاڑی روکی اور بھاگ کر اس حیران و پریشان شہری کے پاس پہونچا۔
''ہزار بار معافی کا خواستگار ہوں'سر ۔'' میں اپنے الفاظ کی روانی پر خود بھی حیران تھا۔
''میں معذرت خواہ اپنی حماقت پر اور Am Perfectly Willing to so Anything by way of a Redressمیں نے انگریزی کا سہارا لیا۔
وہ بھیگا ہوا اجنبی مجھے اِس طرح گھورکر دیکھتا رہا جیسے میں کوئی عجوبہ ہوں ۔اس کی بھنویں تنی ہوئی تھیں اور سانس پھولی ہوئی۔ غالباً وہ سوچ رہا تھا کہ میں کوئی شریر جوکر ہوں جو دوسروں کو تکلیف پہونچا کر خوش ہوتا ہے' کوئی پاگل ہوں یا شریف انسان ہوں جو اپنی غلطی پر نادم ہو۔ چند لمحے بعد اس کے سخت چہرے نے نرمی اختیار کی اور ہونٹوں پر ایک تبسم کی کرن پیدا ہوئی۔
''صبح سویرے گدلے پانی سے یہ غسل میری قسمت میں تھا ۔ لیکن میرے محترم آپ اِسے بھول جائیے۔ آپ کا کوئی قصور نہیں۔ اب جہاں تک Redressکا سوال ہے تو جناب میرا گھر قریب ہی ہے۔ اور میں آپ کی مدد کے ''بغیر'' Re-Dressہونا پسند کروں گا ۔ صبح بخیر "Happy Motorist
ہم دونوں نے ہاتھ ملائے اور دوستوں کی طرح رخصت ہوئے۔ تماشائی جو ''تماشے'' کے لیے جمع ہوگئے' مایوسی سے ہمیں دیکھتے رہے۔
کہانی ختم۔ ہاں بھی اور نہیں بھی۔ میں بہت خوش تھا اور چاہتا تھا کہ ساری دنیا کو بازؤوں میں لپیٹ کر بوسوںکی بارش کردوں ۔ میں نے اپنی غلطی تسلیم کرکے اور معافی مانگ کر خود اپنے اوپر زبردست احسان کیاتھا۔ اگر میں غلطی تسلیم نہ کرتا تو وہ شخص تو گھر جا کر لباس بدلنے کے بعد نارمل ہوجاتا لیکن میں نارمل اور پرسکون کبھی نہیںہوتا۔ ایک کانٹا میرے دل میں کھٹکتا رہتا۔ میری دل کی عدالت میں روز مجھے سزا ملتی اور میں چڑچڑا اور قابل ِ نفر ت ہوجاتا ۔لیکن:
پہلے ہوجائے ترے دل کی ذرا کچھ تطہیر
پھر سنوارے گی تجھے صبحِ ازل کی تنویر
(تشنہ)
خدا کا شکر میری معافی سے میرے دل کی ''تطہیر'' ہوگئی اور صبحِ ازل کی تنویر نے اُسے سنوارنا شروع کردیا ۔ چند ایسے لوگوں کو چھوڑ کر جو''فاؤسٹ'' (Faust)کی طرح شیطان کے ہاتھ اپنی روح بیچ دیتے ہیں' ہم میں سے ہر کوئی کسی کو تکلیف یا نقصان پہونچا کر چین سے نہیں بیٹھ پاتا۔ اُس کا ضمیر اُسے برابر ملامت کرتارہتا ہے۔
اور پھر یہ کس قدر آسان ہے کہ آپ اپنا ''روشن رُخ '' مناسب موقعے پر سب کے سامنے کردیں اور معاشرہ کو پُر لطف بنادیں۔