سعید اجمل نئی مشکل سے نکل پائیں گے
سعید اجمل کے بولنگ ایکشن پر اعتراض سے سازش کی بو آنے لگی
قومی ٹیم بھاری بھرکم کوچنگ سٹاف اور بلند عزائم کیساتھ سری لنکا روانہ ہوئی تو کرکٹ کی ذرا سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے شائقین کو بخوبی اندازہ تھا کہ یہ سفر آسان نہیں ہوگا۔
طویل عرصہ بعد ٹیسٹ کرکٹ کا مزا چکھنے والے کھلاڑیوں کا مزاج اور اعتماد دونوں اس قابل نہیں تھے کہ سخت ترین کنڈیشنز میں میزبان ٹائیگرز کیلیے مشکلات پیدا کرسکتے، گال کے میدان پر قسمت نے پاکستان کو غلبہ پانے کا سنہری موقع بھی دیا لیکن ٹیم نے پے درپے غلطیوں سے فتح میزبان ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، کپتان مصباح الحق نے ٹاس جیتا تو تسلی ہوئی کہ چوتھی اننگز کھیلنے کا چیلنج درپیش نہیں ہوگا۔
ابتدائی 3 وکٹیں جلد گرنے کے بعد یونس خان نے تباہی سے بچایا، دیگر بیٹسمینوں خاص طور پر ٹیل اینڈرز نے بھی قابل قدر مجموعہ حاصل کرنے میں کردار ادا کیا، سری لنکن اننگز شروع ہوئی تو محسوس ہوا کہ کرکٹرز تربیتی کیمپ اور پریکٹس میچز کے دوران پڑھائے گئے سارے سبق بھلا بیٹھے ہیں، ہیڈ کوچ وقار یونس جیسے سابق پیسر کی موجودگی میں جنید خان اور محمد طلحہ پر مشتمل پیس بیٹری بے اثر ثابت ہوئی، عبدالرحمان کی فارم بھی کہیں کھو گئی اور وہ صرف ایک کامیابی حاصل کرسکے۔
سعید اجمل نے اینجیلو میتھیوز کے سوا ٹیل انڈرز کی وکٹیں حاصل کرنے کیلیے بہت زیادہ رنز دیدیئے، ڈبل سنچری میکر سنگاکارا کیخلاف ابتدا میں ہی ریویو نہ لینے کا فیصلہ کرنے کے بعد ایک آسان کیچ بھی چھوڑا گیا،اس کے علاوہ بھی بولرز، وکٹ کیپر،کلوز فیلڈرز ناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی فیصلے اپنے میں حق میں کرانے کے مواقع گنواتے رہے اور میزبان ٹیم کا پلڑا بھاری ہوگیا، خسارے میں جانے کے بعد بھی میچ ڈرا کرنے کا راستہ اتنا دشوار نہیں تھا لیکن اوپننگ جوڑی نے ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے ناکامی کی بنیاد رکھ دی، پہلی اننگز میں پیسر کے مقابل کمزور تکنیک کا مظاہرہ کرنے والے خرم منظور دوسری باری میں سپنرز کے مقابل بھی 3 تک محدود رہے۔
احمد شہزاد نے بھی اسی انداز میں وکٹ گنوائی، میچ بچاؤ مہم میں یونس خان کا تجربہ بھی کسی کام نہ آیا، ماضی میں اس طرح کے حالات میں ڈٹ جانے والے مصباح الحق بھی اعتماد کی دولت کھو بیٹھے، سرفراز احمد کے سواکسی کی کارکردگی میں اتنا تسلسل نہیں تھا کہ چند گھنٹے وکٹ پر گزار کر آئی لینڈرز کے فتح کی طرف بڑھتے قدم روک دیتا، وکٹ کیپر نصف سنچری سکور کرچکے تھے، انہیں ٹیل انڈرز کو سٹرائیک سے دور رکھتے ہوئے اننگز کو مزید 5 یا 6 اوورز تک طول دینا تھا جس کے بعد سری لنکا کیلیے ہدف 100 بڑا اور گیندیں کم ہوجاتیں لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی، بیٹنگ لائن 2 سیشنز تک بھی بقا کی جنگ نہ لڑ سکی جس کے بعد بادل بھی مہربان ہوگئے اور آئی لینڈرز نے بارش کی مداخلت سے قبل ہی فتح کا مشن مکمل کرلیا۔
قومی ٹیم ابھی شکست کے صدمے سے سنبھل نہ پائی تھی کہ ایک اور بری خبر بجلی بن کر گری کہ سعید اجمل کا بولنگ ایکشن ایک بار پھر شکوک کی زد میں آگیا ہے، گال ٹیسٹ کے دوران فیلڈ امپائرز بروس آکسنفورڈ اور ای این گولڈ، تھرڈ امپائر رچرڈ النگ ورتھ اور میچ ریفری اینڈی پے کرافٹ کی طرف سے آف سپنر کی کئی گیندیں غیر قانونی ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ ٹیم منیجر معین خان کے حوالے کردی گئی، ان کو آئی سی سی کے مروجہ قوانین کے مطابق 21 روز کے اندر بائیو مکینک تجزیئے کے مرحلے سے گزرنا ہے۔
تاہم اس ٹیسٹ کا نتیجہ آنے تک لٹکتی ہوئی تلوار کے نیچے انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اجازت ہے۔ اس سے قبل 2009 میں آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز کے دوران بھی ان کی مخصوص گیند '' دوسرا'' پر شکوک ظاہر کئے گئے تھے تاہم بعد ازاں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ٹیسٹ کے بعد انہیں کلیئر کر دیا گیا، یو اے ای میں فروری 2012 میں پاکستان نے ورلڈ نمبر ون انگلینڈ کو کلین سویپ کیا تو بھی سابق انگلش پیسر باب ولس سمیت انگلش میڈیا نے ان کے ایکشن کے بارے میں سوال اٹھائے لیکن آئی سی سی نے تمام تر اعتراضات کو رد کر دیا تھا۔
ایک بھارتی ٹی وی چینل نے مارچ 2012 میں بنگلہ دیش میں پاک بھارت میچ کے دوران سعید اجمل کے ایکشن کی شکایت کئے جانے کی خبر نشر کی تو بھی آئی سی سی نے وضاحت کی تھی کہ آف سپنر کی بولنگ میں کوئی خرابی نہیں دیکھی گئی، چیف ایگزیکٹو ہارون کا کہنا تھا کہ ان کا ٹیسٹ کیا جاچکا، میچز کے دوران بھی انہیں چیک اور مانیٹر کیا گیا ہے، وہ مقرر کردہ حد کے اندر رہ کر بولنگ کرتے ہیں۔رواں سال مئی انگلش پیسر سٹورٹ براڈ نے بھی سماجی ویب سائیٹ پر پیغام جاری کرکے نیا تنازع کھڑا کردیا تھا کہ میچز میں سعید اجمل کا بولنگ ایکشن کچھ اور جبکہ بائیو مکینکس ٹیسٹ کے دوران کچھ اور ہوتا ہے۔
دوسری بار ایکشن رپورٹ کئے جانے کے بعد معین خان اور مصباح الحق نے اس امید کا اظہار کیا کہ سعید اجمل ایک بار پھر کلیئر ہوجائیں گے، امپائر این گولڈ کے خلاف شکایت درج کروانے سے گریز کرنے والے پی سی بی کا موقف ہے کہ ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار کرنے سوا کوئی راستہ نہیں، بولر کی ایک بار رپورٹ کئے جانے کے بعد آئی سی سی قوانین کے تحت ہی تمام مراحل مکمل کرنا پڑینگے، تاہم کرکٹ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں سعید اجمل کے ایکشن کی کلیئرنس آسان نہیں ہوگی، بولر کو اوور دی وکٹ گیند کرانے میں مشکل کا سامنا ہے، خاص طور پر لمبے سپیلز کے باعث تھکن کا شکار ہونے کے بعد ان کی بعض گیندوں پر اعتراضات اٹھائے جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
سابق کپتان ماجد خان کے مطابق بیشتر سلو بولرز ٹرن کرنے پر توجہ دیں تو گیند کو بیٹسمین تک پہنچانے کیلیے زور لگانا ہی پڑتا ہے، ایسا نہ کریں تو بال پچ کا نصف بھی عبور نہیں کرپائے گی،اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شاید سپنرز کی اکثریت کا بولنگ ایکشن شکوک کی زد میں آجائے گا،ٹیسٹ میچز میں زیادہ بولنگ کے باعث تھکاوٹ کی صورت میں امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں،ایکشن کے حوالے سے قوانین کا بغور جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے،کئی سابق کرکٹرز سعید اجمل کی بولنگ پر اعتراض میں سازش کی بو محسوس کرنے لگے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پی سی بی کیلیے آف سپنر کو کسی ممکنہ سزا سے بچانا آسان نہیں ہوگا، پہلی بار ایکشن رپورٹ کئے جانے پر انہیں یونیورسٹی ویسٹرن آسٹریلیا نے کلیئر کیا تھا جبکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران آئی سی سی حکام پرتھ میں قائم اس بائیو مکینک لیب کے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کرچکے، حال ہی میں سپنرز سری لنکن سچترا سنانائیکے اور کیوی کین رچرڈسن کے ٹیسٹ ویلز میں واقع کارڈف میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے سکول آف سپورٹس میں کروائے گئے جن کے نتیجے میں وہ پابندی کا شکارہوئے، تینوں فارمیٹس میں پاکستان کے اہم ترین بولر سعید اجمل کو بھی یہیں بھجواکر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو پی سی بی کی ورلڈ کپ 2015 کی تیاریوں کو شدید دھچکا لگے گا،قومی ٹیم کی 40 فیصد بولنگ صلاحیت کے حامل آف سپنر کا متبادل تیار کرنا منیجمنٹ کیلیے انتہائی مشکل کام ہوگا۔
دوسری جانب سیریز اور ٹیسٹ رینکنگ میں تیسری پوزیشن بچانے کا چیلنج لئے میدان میںاترنے والی قومی ٹیم نے کولمبو کے سنہالیز سپورٹس کلب میں بھی اچھا آغاز کیا، ٹاس ہارنے کے باوجود بیٹنگ کیلیے سازگار وکٹ پر فاسٹ بولرز نے کسی گبھراہٹ کا شکار ہوئے بغیر آئی لینڈرز کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا، جنید خان اور وہاب ریاض نے بے جان وکٹ پر عمدہ لائن اور لینتھ سے بیٹسمینوں کو پریشان کیا،تاہم نروس نائنٹیز کا شکار ہونے والے اپل تھارنگا کو 28 پر موقع دینے کے علاوہ بھی فیلڈرز نے چند ڈراپ کیچ کئے۔
آخری 2 وکٹیں گنوانے سے قبل میزبان ٹیم نے 59 قیمتی رنز کا اضافہ کرکے 321 کا معقول ٹوٹل سکور بورڈ پر سجادیا۔گال ٹیسٹ کے برعکس اس بار ٹاپ آرڈر نے قدرے بہتر کارکردگی دکھائی تو بعد میں آنے والے تجربہ کار بیٹسمین اچھے آغاز کو بڑی اننگز کی صورت دینے میں کامیاب نہ ہوسکے، 6 وکٹیں 233 پر گنوانے کے بعد سرفراز احمد ایک بار پھر مرد بحران ثابت ہوئے،انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی سنچری کے دوران ٹیل انڈرز کیساتھ چھوٹی چھوٹی شراکتوں سے ٹیم کو خسارے میں جانے سے بچالیا، تاہم گال ٹیسٹ میں 9 وکٹیں حاصل کرنے والے رنگانا ہیراتھ نے اس بار اننگز میں اتنے ہی شکار کرکے پاکستانی بیٹنگ لائن کی تکنیکی خامیوں کا پول کھول دیا۔
تیزی سے ٹرن ہونے والی ''دوسرا '' اور حیران کن فلیپر جیسے ہتھیار نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے مخصوص اینگل، لائن اور لینتھ سے ہی مشکلات پیدا کرتے ہوئے ناک میں دم کردیا، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور ذہنی طور پر کمزور بیٹسمینوں کو کوئی ایسا سبق نہ پڑھا سکے کہ ان کی روایتی گھبراہٹ دور ہوجاتی،ان سطور کے لکھے جانے تک سری لنکا کی بیٹنگ جاری تھی۔
فکر کی بات یہ ہے کہ مہمان ٹیم کو چوتھی اننگز میں شکستہ وکٹ پر ہدف کا تعاقب کرنا ہے، منزل آسان بھی ہو، مشکل بنانے کا ''ہنر'' پاکستانی کرکٹرز کو آتا ہے، رنگنا ہیراتھ کے آہنی ہاتھ سے بچ نکلنا بڑی ہمت کی بات ہوگی۔
دوسری طرف نئے پی سی بی آئین کے گورکھ دھندے سے مستقل چیئرمین برآمد کرنے کی تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں، ذرائع کے مطابق وزارت برائے بین الصوبائی امور کی جانب سے نامزد کردہ 2 حکومتی ارکان میں سے ایک شہریار خان کو اس مسند پر بٹھانے کیلیے راستہ صاف ہوگیا ہے کیونکہ سابق سفارتکار کے مقابل کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے، الیکشن کے پردے میں سلیکشن کے عمل میں شاید اس کام کو بھی وقت کا ضیاع سمجھا گیا ہے، ایسا کوئی قدم اٹھا بھی لیا گیا تو اس کی حیثیت رسمی کارروائی سے زیادہ نہیں ہوگی، ذکاء اشرف سے لیکر نجم سیٹھی تک کی جمہوریت میں کوئی زیادہ فرق نہیں،نیا سیٹ اپ کتنا مختلف ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
abbas.raza@express.com.pk
طویل عرصہ بعد ٹیسٹ کرکٹ کا مزا چکھنے والے کھلاڑیوں کا مزاج اور اعتماد دونوں اس قابل نہیں تھے کہ سخت ترین کنڈیشنز میں میزبان ٹائیگرز کیلیے مشکلات پیدا کرسکتے، گال کے میدان پر قسمت نے پاکستان کو غلبہ پانے کا سنہری موقع بھی دیا لیکن ٹیم نے پے درپے غلطیوں سے فتح میزبان ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، کپتان مصباح الحق نے ٹاس جیتا تو تسلی ہوئی کہ چوتھی اننگز کھیلنے کا چیلنج درپیش نہیں ہوگا۔
ابتدائی 3 وکٹیں جلد گرنے کے بعد یونس خان نے تباہی سے بچایا، دیگر بیٹسمینوں خاص طور پر ٹیل اینڈرز نے بھی قابل قدر مجموعہ حاصل کرنے میں کردار ادا کیا، سری لنکن اننگز شروع ہوئی تو محسوس ہوا کہ کرکٹرز تربیتی کیمپ اور پریکٹس میچز کے دوران پڑھائے گئے سارے سبق بھلا بیٹھے ہیں، ہیڈ کوچ وقار یونس جیسے سابق پیسر کی موجودگی میں جنید خان اور محمد طلحہ پر مشتمل پیس بیٹری بے اثر ثابت ہوئی، عبدالرحمان کی فارم بھی کہیں کھو گئی اور وہ صرف ایک کامیابی حاصل کرسکے۔
سعید اجمل نے اینجیلو میتھیوز کے سوا ٹیل انڈرز کی وکٹیں حاصل کرنے کیلیے بہت زیادہ رنز دیدیئے، ڈبل سنچری میکر سنگاکارا کیخلاف ابتدا میں ہی ریویو نہ لینے کا فیصلہ کرنے کے بعد ایک آسان کیچ بھی چھوڑا گیا،اس کے علاوہ بھی بولرز، وکٹ کیپر،کلوز فیلڈرز ناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی فیصلے اپنے میں حق میں کرانے کے مواقع گنواتے رہے اور میزبان ٹیم کا پلڑا بھاری ہوگیا، خسارے میں جانے کے بعد بھی میچ ڈرا کرنے کا راستہ اتنا دشوار نہیں تھا لیکن اوپننگ جوڑی نے ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے ناکامی کی بنیاد رکھ دی، پہلی اننگز میں پیسر کے مقابل کمزور تکنیک کا مظاہرہ کرنے والے خرم منظور دوسری باری میں سپنرز کے مقابل بھی 3 تک محدود رہے۔
احمد شہزاد نے بھی اسی انداز میں وکٹ گنوائی، میچ بچاؤ مہم میں یونس خان کا تجربہ بھی کسی کام نہ آیا، ماضی میں اس طرح کے حالات میں ڈٹ جانے والے مصباح الحق بھی اعتماد کی دولت کھو بیٹھے، سرفراز احمد کے سواکسی کی کارکردگی میں اتنا تسلسل نہیں تھا کہ چند گھنٹے وکٹ پر گزار کر آئی لینڈرز کے فتح کی طرف بڑھتے قدم روک دیتا، وکٹ کیپر نصف سنچری سکور کرچکے تھے، انہیں ٹیل انڈرز کو سٹرائیک سے دور رکھتے ہوئے اننگز کو مزید 5 یا 6 اوورز تک طول دینا تھا جس کے بعد سری لنکا کیلیے ہدف 100 بڑا اور گیندیں کم ہوجاتیں لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی، بیٹنگ لائن 2 سیشنز تک بھی بقا کی جنگ نہ لڑ سکی جس کے بعد بادل بھی مہربان ہوگئے اور آئی لینڈرز نے بارش کی مداخلت سے قبل ہی فتح کا مشن مکمل کرلیا۔
قومی ٹیم ابھی شکست کے صدمے سے سنبھل نہ پائی تھی کہ ایک اور بری خبر بجلی بن کر گری کہ سعید اجمل کا بولنگ ایکشن ایک بار پھر شکوک کی زد میں آگیا ہے، گال ٹیسٹ کے دوران فیلڈ امپائرز بروس آکسنفورڈ اور ای این گولڈ، تھرڈ امپائر رچرڈ النگ ورتھ اور میچ ریفری اینڈی پے کرافٹ کی طرف سے آف سپنر کی کئی گیندیں غیر قانونی ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ ٹیم منیجر معین خان کے حوالے کردی گئی، ان کو آئی سی سی کے مروجہ قوانین کے مطابق 21 روز کے اندر بائیو مکینک تجزیئے کے مرحلے سے گزرنا ہے۔
تاہم اس ٹیسٹ کا نتیجہ آنے تک لٹکتی ہوئی تلوار کے نیچے انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اجازت ہے۔ اس سے قبل 2009 میں آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز کے دوران بھی ان کی مخصوص گیند '' دوسرا'' پر شکوک ظاہر کئے گئے تھے تاہم بعد ازاں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ٹیسٹ کے بعد انہیں کلیئر کر دیا گیا، یو اے ای میں فروری 2012 میں پاکستان نے ورلڈ نمبر ون انگلینڈ کو کلین سویپ کیا تو بھی سابق انگلش پیسر باب ولس سمیت انگلش میڈیا نے ان کے ایکشن کے بارے میں سوال اٹھائے لیکن آئی سی سی نے تمام تر اعتراضات کو رد کر دیا تھا۔
ایک بھارتی ٹی وی چینل نے مارچ 2012 میں بنگلہ دیش میں پاک بھارت میچ کے دوران سعید اجمل کے ایکشن کی شکایت کئے جانے کی خبر نشر کی تو بھی آئی سی سی نے وضاحت کی تھی کہ آف سپنر کی بولنگ میں کوئی خرابی نہیں دیکھی گئی، چیف ایگزیکٹو ہارون کا کہنا تھا کہ ان کا ٹیسٹ کیا جاچکا، میچز کے دوران بھی انہیں چیک اور مانیٹر کیا گیا ہے، وہ مقرر کردہ حد کے اندر رہ کر بولنگ کرتے ہیں۔رواں سال مئی انگلش پیسر سٹورٹ براڈ نے بھی سماجی ویب سائیٹ پر پیغام جاری کرکے نیا تنازع کھڑا کردیا تھا کہ میچز میں سعید اجمل کا بولنگ ایکشن کچھ اور جبکہ بائیو مکینکس ٹیسٹ کے دوران کچھ اور ہوتا ہے۔
دوسری بار ایکشن رپورٹ کئے جانے کے بعد معین خان اور مصباح الحق نے اس امید کا اظہار کیا کہ سعید اجمل ایک بار پھر کلیئر ہوجائیں گے، امپائر این گولڈ کے خلاف شکایت درج کروانے سے گریز کرنے والے پی سی بی کا موقف ہے کہ ٹیسٹ کے نتیجے کا انتظار کرنے سوا کوئی راستہ نہیں، بولر کی ایک بار رپورٹ کئے جانے کے بعد آئی سی سی قوانین کے تحت ہی تمام مراحل مکمل کرنا پڑینگے، تاہم کرکٹ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں سعید اجمل کے ایکشن کی کلیئرنس آسان نہیں ہوگی، بولر کو اوور دی وکٹ گیند کرانے میں مشکل کا سامنا ہے، خاص طور پر لمبے سپیلز کے باعث تھکن کا شکار ہونے کے بعد ان کی بعض گیندوں پر اعتراضات اٹھائے جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
سابق کپتان ماجد خان کے مطابق بیشتر سلو بولرز ٹرن کرنے پر توجہ دیں تو گیند کو بیٹسمین تک پہنچانے کیلیے زور لگانا ہی پڑتا ہے، ایسا نہ کریں تو بال پچ کا نصف بھی عبور نہیں کرپائے گی،اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شاید سپنرز کی اکثریت کا بولنگ ایکشن شکوک کی زد میں آجائے گا،ٹیسٹ میچز میں زیادہ بولنگ کے باعث تھکاوٹ کی صورت میں امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں،ایکشن کے حوالے سے قوانین کا بغور جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے،کئی سابق کرکٹرز سعید اجمل کی بولنگ پر اعتراض میں سازش کی بو محسوس کرنے لگے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پی سی بی کیلیے آف سپنر کو کسی ممکنہ سزا سے بچانا آسان نہیں ہوگا، پہلی بار ایکشن رپورٹ کئے جانے پر انہیں یونیورسٹی ویسٹرن آسٹریلیا نے کلیئر کیا تھا جبکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران آئی سی سی حکام پرتھ میں قائم اس بائیو مکینک لیب کے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کرچکے، حال ہی میں سپنرز سری لنکن سچترا سنانائیکے اور کیوی کین رچرڈسن کے ٹیسٹ ویلز میں واقع کارڈف میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے سکول آف سپورٹس میں کروائے گئے جن کے نتیجے میں وہ پابندی کا شکارہوئے، تینوں فارمیٹس میں پاکستان کے اہم ترین بولر سعید اجمل کو بھی یہیں بھجواکر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو پی سی بی کی ورلڈ کپ 2015 کی تیاریوں کو شدید دھچکا لگے گا،قومی ٹیم کی 40 فیصد بولنگ صلاحیت کے حامل آف سپنر کا متبادل تیار کرنا منیجمنٹ کیلیے انتہائی مشکل کام ہوگا۔
دوسری جانب سیریز اور ٹیسٹ رینکنگ میں تیسری پوزیشن بچانے کا چیلنج لئے میدان میںاترنے والی قومی ٹیم نے کولمبو کے سنہالیز سپورٹس کلب میں بھی اچھا آغاز کیا، ٹاس ہارنے کے باوجود بیٹنگ کیلیے سازگار وکٹ پر فاسٹ بولرز نے کسی گبھراہٹ کا شکار ہوئے بغیر آئی لینڈرز کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا، جنید خان اور وہاب ریاض نے بے جان وکٹ پر عمدہ لائن اور لینتھ سے بیٹسمینوں کو پریشان کیا،تاہم نروس نائنٹیز کا شکار ہونے والے اپل تھارنگا کو 28 پر موقع دینے کے علاوہ بھی فیلڈرز نے چند ڈراپ کیچ کئے۔
آخری 2 وکٹیں گنوانے سے قبل میزبان ٹیم نے 59 قیمتی رنز کا اضافہ کرکے 321 کا معقول ٹوٹل سکور بورڈ پر سجادیا۔گال ٹیسٹ کے برعکس اس بار ٹاپ آرڈر نے قدرے بہتر کارکردگی دکھائی تو بعد میں آنے والے تجربہ کار بیٹسمین اچھے آغاز کو بڑی اننگز کی صورت دینے میں کامیاب نہ ہوسکے، 6 وکٹیں 233 پر گنوانے کے بعد سرفراز احمد ایک بار پھر مرد بحران ثابت ہوئے،انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی سنچری کے دوران ٹیل انڈرز کیساتھ چھوٹی چھوٹی شراکتوں سے ٹیم کو خسارے میں جانے سے بچالیا، تاہم گال ٹیسٹ میں 9 وکٹیں حاصل کرنے والے رنگانا ہیراتھ نے اس بار اننگز میں اتنے ہی شکار کرکے پاکستانی بیٹنگ لائن کی تکنیکی خامیوں کا پول کھول دیا۔
تیزی سے ٹرن ہونے والی ''دوسرا '' اور حیران کن فلیپر جیسے ہتھیار نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے مخصوص اینگل، لائن اور لینتھ سے ہی مشکلات پیدا کرتے ہوئے ناک میں دم کردیا، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور ذہنی طور پر کمزور بیٹسمینوں کو کوئی ایسا سبق نہ پڑھا سکے کہ ان کی روایتی گھبراہٹ دور ہوجاتی،ان سطور کے لکھے جانے تک سری لنکا کی بیٹنگ جاری تھی۔
فکر کی بات یہ ہے کہ مہمان ٹیم کو چوتھی اننگز میں شکستہ وکٹ پر ہدف کا تعاقب کرنا ہے، منزل آسان بھی ہو، مشکل بنانے کا ''ہنر'' پاکستانی کرکٹرز کو آتا ہے، رنگنا ہیراتھ کے آہنی ہاتھ سے بچ نکلنا بڑی ہمت کی بات ہوگی۔
دوسری طرف نئے پی سی بی آئین کے گورکھ دھندے سے مستقل چیئرمین برآمد کرنے کی تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں، ذرائع کے مطابق وزارت برائے بین الصوبائی امور کی جانب سے نامزد کردہ 2 حکومتی ارکان میں سے ایک شہریار خان کو اس مسند پر بٹھانے کیلیے راستہ صاف ہوگیا ہے کیونکہ سابق سفارتکار کے مقابل کسی امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے، الیکشن کے پردے میں سلیکشن کے عمل میں شاید اس کام کو بھی وقت کا ضیاع سمجھا گیا ہے، ایسا کوئی قدم اٹھا بھی لیا گیا تو اس کی حیثیت رسمی کارروائی سے زیادہ نہیں ہوگی، ذکاء اشرف سے لیکر نجم سیٹھی تک کی جمہوریت میں کوئی زیادہ فرق نہیں،نیا سیٹ اپ کتنا مختلف ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
abbas.raza@express.com.pk