کینیڈا کی طرف سے کھیلنے کی پیش کش ٹھکرادی ماریہ طور

اسکواش سٹار ماریہ طور کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ خصوصی نشست


Asif Riaz August 17, 2014
سکواش سٹار ماریہ طور کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ خصوصی نشست۔ فوٹو : فائل

کھیل کبھی بھی پاکستانی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔

خاص طور پر خواتین کے کھیلوں پر برائے نام توجہ دی جاتی ہے، ان حالات میں کوئی لڑکی وزیرستان جیسے علاقے سے ابھر کر انٹرنیشنل سطح پر پہچان بنا لے تو اس کی ہمت اور جرات کی داد دینا چاہیے۔

قومی سکواش سٹار ماریہ طور ایسا ہی ایک نام ہیں، احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والی اس 23 سالہ پلیئر نے خواتین کے گھر سے باہر نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر مسلسل جد و جہد سے اسکواش کی دنیا میں جو نام کمایا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ماریہ طور کے خیال میں ہر پاکستانی خاتون ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے عزم پر ڈٹ جائے اور اسے اپنے خاندان کی مکمل حمایت حاصل رہے۔

''ایکسپریس'' کے ساتھ اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس میں ہونے والے ایک خصوصی نشست کے دوران ماریہ طور ملکی حالات پر کافی رنجیدہ نظر آئیں، ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہونے کیلیے ہمیں ابھی بہت سی منازل طے کرنی ہیں، جب واقعی معاشرے میں خواتین اور مردوں کو برابری کی نظر سے دیکھا جائے گا اس وقت ترقی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیں گے، میرا تعلق ایسے علاقے سے ہے جہاں پر لڑکی کا کھیلنا تو دور کی بات، گھرسے بھی باہر نہیں نکلنے دیا جاتا، میں خوش نصیب ہوں جس کو ایک بہترین انسان باپ کی صورت میں ملا۔



میرے والد شمس القیوم نے ان پڑھ خاتون سے شادی کی لیکن انہیں تعلیم کی دولت سے مالامال کرتے ہوئے اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال قائم کردی۔ خواہش ہے کہ ہر پاکستانی لڑکی کا والد میرے باپ جیسا ہوجائے، ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ تعلیم سے دوری ہے، تہذیب یافتہ قوم کی تشکیل کے لیے اس شعبے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنے بچپن کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے ماریہ طور نے بتایا کہ گھر کا ماحول ایسا تھا کہ خود بخود سکول جانے کا شوق پیدا ہوا،طالب علمی کے دور میں سکواش کی دنیا میں حشمت خان، رحمت خان اور جہانگیر خان کے کارنامے فخر سے بیان کئے جاتے تھے، میرے والد بھی سکواش کے دلدادہ تھے، جب بھی کوئی پاکستانی دنیا کے میدانوں میں سبز ہلالی پرچم لہراتا تو ان کا سینہ چوڑا ہوجاتا، اکثر اپنے ہیروز کا ذکر کرتے رہتے، اس وقت ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ سکواش پلیئر ہی بننا ہے، پہلی بار جب ریکٹ ہاتھ میں تھاما تو والد نے حیرت کا اظہار کیا۔

پھر ذہن میں جانے کیا آیا کہ انھوں نے فوراً کہا ''بیٹی تم ضرور سکواش کھیلنا'' پھر کیا تھا کتابوں کے ساتھ ریکٹ بھی میری زندگی کا اہم جزو بن گیا، والد کو کئی لوگوں نے کہا کہ لڑکیوں کا کھیلنا ہماری روایت کے خلاف ہے لیکن انھوں نے ان کی ایک نہ سنی، مجھے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے علاوہ سکواش کی بہترین کھلاڑی بنانے کا جنون بھی ان کے سرپر سوار رہتا، ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں، میرے خاندان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، آخر میں اتنا مجبور کردیا گیا کہ پاکستان سے کینیڈا جانے پر مجبور ہوگئی، آج جس مقام پر بھی ہوں اس کا تمام تر سہرا والدین کے سر ہے، میری ہر پاکستانی سے درخواست ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو آگے آنے سے نہ روکیں۔



آخرمیں ماریہ طور کے لبوں سے شکوے بھرے کلمات بھی نکل آئے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں اچھے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی، 2006 کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد ملک کیلئے کئی کارنامے انجام دیئے، عالمی درجہ بندی میں بھی ٹاپ 50 پلیئرز میں رسائی حاصل کرلی لیکن کبھی کسی حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، اور تو اور موجودہ گورنر نے 10 ہزار کا ماہانہ مشاہرہ بھی بند کردیا ہے، سکواش کے قومی ٹورنامنٹس میں جس ڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کرتی ہوں وہاں پر بھی لڑکوں کو 18واں گریڈ اور مجھے 16واں دیا گیا ہے۔

تمام تر ناانصافیوں کے باوجود ملک کیلیے کھیلنے کو پہلی ترجیح سمجھتی ہوں، کینیڈا کی جانب سے بارہا آفرز ہوئیں کہ ہماری طرف سے کھیلو، میرے کوچ جوناتھن پاور کا کہنا تھا کہ ماریہ ایک دفعہ ہاں کرو، وعدہ کرتا ہوں کہ کینیڈا میں تمہیں ایسی عزت دلواؤں گا کہ دنیا یادرکھے گی، میرے انکار کے باوجود وہاں پر لوگوں کی جانب سے بے انتہا پیار ملا، جوناتھن پاور کا کہنا ہے کہ ہم ماریہ کو ورلڈ چیمپئن بنانا چاہتے ہیں چاہے اعزاز پاکستان کے ہی نام ہو، وہاں پر مجھے 3 سے 4 لاکھ روپے ماہانہ آسانی سے مل سکتے ہیں لیکن تمام آفرز کو وطن کی خاطر ٹھکرا دیا۔

میری خواہش ہے کہ سپورٹس کمپلیکس میں قومی ہیروز کے ساتھ کم از کم میری تصویر ہی لگا دی جائے، میں بارہا کہتی ہوں کہ ہمارے کھلاڑیوں کو حوصلہ افزائی کی بہت ضرورت ہے، اگر انہیں دیگر ملکوں کی طرح سہولیات اور پذیرائی ملے تو تمام عالمی اعزازت پاکستان لائے جاسکتے ہیں۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں