بڑے عرصے تک ساحر کے سحر میں رہا
بلوچستان میں لگی آگ معافیوں، وعدوں اور پیکیجز کے فائربریگیڈ سے نہیں بُجھنے والی!
بہ ظاہر ایک شانت، خاموش طبع، بے ضرر نوجوان، جو محبت کے تلخ تجربے سے اُبھرنے کے بعد ایک بار پھر اِس تحیرخیز احساس کی آرزو رکھتا ہے۔
پر حقیقتاً ایک وسیع النظر ادیب، بُلند حوصلہ صحافی، واضح نظریات کا حامل ایک پُرعزم انسان!
عابد میر پکے ترقی پسند ہیں، البتہ بلوچستان کی زمین سے جُڑی اُن کی تخلیقات میں کہیں کہیں غیرترقی پسند رنگ بھی ملتا ہے کہ تخلیقی عمل میں وہ اخلاقیات کے تو قائل ہیں۔
محدودات کے نہیں۔ کہتے ہیں،''میں ادب سمیت کسی بھی معاملے میں تقلید پرست نہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ فن کار کسی کی دی ہوئی لائن پر چل بھی نہیں سکتا!'' سیاسی فکر پختہ ہے، مگر نظریے کو ''عقیدہ'' بنا لینے کے حامی نہیں۔
''جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی، بدقسمتی سے لیفٹ کی تحاریک دم توڑ چکی تھیں، البتہ خوش قسمتی یہ رہی کہ ہم پر کسی کی تقلید کی شرط عاید نہیں ہوتی تھی، سو لیفٹ کے ہر مکتبۂ فکر کو قبول کیا۔
اور پھر ترقی پسند فکر کے تمام دھارے ایک ہی سمندر میں گرتے ہیں۔'' صحافتی سفر میں حق گوئی اور بے باکی مسائل کا بھی سبب بنی۔ تعاقب ہوا، ''نصیحتیں'' ملیں، ''مانوس اجنبی'' ٹکرائے، تاہم تدریس کے پیشے سے وابستہ اِس نوجوان نے حالات کے پتھریلے پن کو درخوراعتنا نہ جانا، ٹھہرنے کے بجائے سفر جاری رکھا۔
مستوئی قبیلے کے اِس سپوت نے 14 ستمبر 1981 کو سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ضلع جعفر آباد کے زرعی و صنعتی شہر، اوستہ محمد میں آنکھ کھولی۔
اصل نام عابد حسین ہے۔ ''عابد میر'' وہ اپنے ماموں، ڈاکٹر سعید مستوئی کے مشورے پر ہوئے۔ اُن کے والد، میر حسن سول اسپتال، اوستہ محمد میں ڈسپنسر ہیں۔ عابد کے بہ قول، بچپن میں غلطیوں پر ٹھیک ٹھاک سزا ملا کرتی تھی، لیکن وہ ''بامقصد سزا'' ہوتی۔
''ایک جانب جہاں وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کی پاداش میں والد نے رات بھر درخت کے تنے سے باندھے رکھا، وہیں علم کی جستجو میں آوارگی اختیار کرنے پر کبھی روک نہیں لگائی۔ اولاد کے تعلیمی سلسلے کی تکمیل میں، اپنی غربت کے باوجود، ہر ممکن مدد کی۔'' چار بھائی، چار بہنوں میں عابد بڑے ہیں۔ کم سنی میں گلی ڈنڈا اور کنچے کھیلے، کالج کے زمانے میں کرکٹ کا تجربہ کیا۔
چُھٹی والے روز ٹرین میں سوار ہو کر وہ جیکب آباد پہنچ جاتے کہ ننھیال جیکب آباد میں تھا، اور وہاں کا ادبی ماحول اُنھیں طبیعت کے قریب معلوم ہوتا تھا۔ ماموں کا کُتب خانہ وقت گزاری کا بہترین مصرف رہا۔ اُن کے نانا، حاجی خان خاندان کے پہلے پڑھے لکھے آدمی تھے۔
بتاتے ہیں،''گوکہ وہ سردار کے منشی تھے، لیکن اُنھوں نے اپنی اولاد کو یہی سِکھایا کہ سردار تمھارا سب سے بڑا دشمن ہے۔'' اِسی فکر کے طفیل حاجی خان کے صاحب زادوں نے شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد ترقی پسند نظریات اپنائے، اُن ہی کا اثر عابد نے قبول کیا۔
مطالعاتی سفر میں پہلے ساحر لدھیانوی سے پالا پڑا۔ بڑے عرصے ساحر کے سحر میں رہے۔ اُس وقت کوئی اور شاعر جچتا ہی نہیں تھا۔ ساحر کے ہر مجموعے کا ہر تازہ ایڈیشن، پاکستان کے جس شہر سے شایع ہوتا، خرید لیا کرتے۔
اِسی عشق نے علی سفیان آفاقی سے جُوڑ دیا، جنھوں نے ایک تحریر میں اپنے اور ساحر کے روابط کا ذکر کیا تھا۔ برسوں عابد اور اُن کے درمیان خط و کتابت رہی۔ اِسی رابطے کے طفیل لاہور کے ایک مؤقر ہفت روزہ سے تعلق پیدا ہوا، جس کے لیے پانچ برس تک بلوچستان کی سیاسی ڈائری لکھی۔
ساحر کی طرز پر اظہار کا شوق چرایا، تو نظم کے میدان میں طبع آزمائی کی۔ یونیورسٹی کے زمانے تک شعر کہتے رہے۔
مشاعرے بھی پڑھے، ادبی جرائد میں نظمیں بھی شایع ہوئیں، لیکن پھر خودشناسی نے تخلیقی رخ نثر کی جانب موڑ دیا۔ شفیق استاد، ڈاکٹر فاروق احمد کی ہدایت پر افسانہ نگاری پر بھرپور توجہ دی۔ جلد ہی نگارشات منصۂ شہود پر آنے لگیں۔
عابد کمرۂ جماعت میں پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے طلبا میں سے تھے کہ "Low profile" رہنا اُن کی ترجیح تھی۔ ''پچھلی نشستوں پر بیٹھنے کا ایک سبب تو یہ تھا کہ کسی کی نظروں میں نہ آئوں، دوسری وجہ یہ تھی کہ جب کچھ اچھا کروں، تو پوری کلاس مجھے مُڑ کر دیکھے۔'' چوتھی جماعت میں تھے، جب معروف صحافی، افضل مراد کی تحریک پر کہانیاں لکھنی شروع کیں۔
جس مؤقر روزنامے سے افضل مراد وابستہ تھے، اُسی کے بچوں کے صفحے پر ابتدائی نگارشات شایع ہوئیں۔ اور پھر اُسی صفحے پر ایک روز، بہ طور لکھاری اُن کا انٹرویو شایع ہوگیا۔ یہ انٹرویو کلاس کے ''مونیٹر'' نے استاد کی ہدایت پر بہ آواز بُلند پڑھا۔ اُس وقت بھی پچھلی نشست پر بیٹھے تھے!
ساتویں جماعت میں اوستہ محمد کے ہم خیال دوستوں کے ساتھ ''سویرا'' نامی ایک پرچہ شروع کیا۔
اِس وقت یہ علم نہیں تھا کہ کسی زمانے میں اِس نام سے ایک پروگریسو پرچہ شایع ہوا کرتا تھا۔
ابتدا میں تو ''سویرا'' بچوں کا پرچہ تھا، جُوں جُوں شعور کا زینہ عبور کرتے گئے، پرچے کے مزاج میں تبدیلی آتی گئی۔ بتاتے ہیں، یار دوست سادہ صفحات پر مضامین، کہانیاں لکھتے، غزلیں، نظمیں بھی ہاتھ لگ جاتیں۔ مواد اکٹھا کرکے فوٹو کاپی کروالی جاتی۔
یوں پرچہ تیار ہوجاتا، جس کی مزید فوٹو کاپیاں کروا کر پڑھنے والوں میں تقسیم کر دی جاتیں۔
بعد کے برسوں میں اِس پرچے کے مختلف نمبر بھی نکلے۔ 2003 تک ''سویرا'' باقاعدگی سے چھپتا رہا۔
تعلیمی سفر کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ اُنھوں نے 98ء میں حق باہو ہائی اسکول، اوستہ محمد سے، سائنس سے میٹرک کیا۔ ڈگری کالج اوستہ محمد سے 2002 میں گریجویشن کرنے کے بعد کوئٹہ کا رخ کیا۔
2004 میں بلوچستان یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کیا، جس کے فوراً بعد ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھانا شروع کر دیا۔ 2008 میں مقابلے کا امتحان دے کر لیکچرر ہوگئے۔
گورنمنٹ انٹر موسیٰ کالج اور سائنس کالج، کوئٹہ میں پڑھایا، اِس وقت ویندر میں ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ تخلیقی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ نگارشات باقاعدگی سے شایع ہورہی ہیں۔
''سنگت اکیڈمی آف سائنسز'' کے پلیٹ فورم سے خاصے فعال ہیں۔ ''مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن'' کے بانی ارکان میں سے ہیں، جس کے تحت، بلوچستانی ادب کو مرکزی ادبی دھارے سے جُوڑنے کے لیے ''مہرنامہ'' کے زیرعنوان ایک ادبی پرچہ شروع کیا گیا ہے۔ عابد ادارتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ مدیر، دانیال طریر ہیں۔
اِس تخلیق کار کی خوشیاں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے وابستہ ہیں۔ اچھی کتابیں پڑھ کر، مخلص لوگوں سے مل کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ غموں کے ذکر پر کہتے ہیں، محبت میں ناکامی سے کرب ناک تجربہ بھلا کیا ہوسکتا ہے، تاہم خوش قسمت رہے کہ اُنھیں اچھے لوگ ملے، جو زندگی کی جانب کھینچ لائے۔
کس نے متاثر کیا؟ اِس سوال کا جواب فکری پیرائے میں دیتے ہیں۔ ''بنیادی طور پر دو ہی چیزیں متاثر کرتی ہیں، ایک ذہانت، دوسرا حسن! ایک اور زاویے سے دیکھا جائے، تو کئی چیزوں نے متاثر کیا، مثلاً مارکس کے فلسفے نے، گلزار کی شعری حسیت نے، فہمیدہ ریاض کے نسائی شعور نے، امرتا پریتم اور سارا شگفتہ کے مصرعوں نے۔
راجا انور کے اسلوب نے، رسول حمزہ توف کی کتاب 'میرا داغستان' نے، انسانوں کی نظریاتی کمٹ منٹ نے، اور بہ طور فرد شاہ محمد مری نے!''
ماہ نامہ سنگت کے توسط سے عابد، ڈاکٹر شاہ محمد مری کو جانتے تو تھے، پر باقاعدہ ملاقات نہیں تھی۔ جس زمانے میں یونیورسٹی میں تھے، ڈاکٹر صاحب کی کتاب ''سورج کا شہر'' شایع ہوئی۔
تنقید کی جانب مائل عابد نے کتاب پر ایک سخت تنقیدی مضمون لکھ ڈالا، جو ڈاکٹر صاحب کو پیش کرتے ہوئے تقاضا کیا، اِسے سنگت میں چھاپیں۔ خیر، وہ مضمون سنگت سے پہلے روزنامہ مشرق میں شایع ہوگیا، لیکن رابطے کی صورت نکل آئی۔
ڈاکٹر صاحب کی بابت کہتے ہیں،''میں اُنھیں ایک بڑے انسان کے طور پر دیکھتا ہوں۔ شاید پاکستان میں اُن سے اچھے لکھنے والے ہوں، لیکن اُن جیسا بڑا آدمی تلاش کرنا مشکل ہے۔''
بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟ اِس سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں،''مسئلہ سیاسی ہے، سیاسی لوگ ہی حل بتائیں گے۔ البتہ میرے نزدیک جب تک متاثرہ فریق صلح کے عمل میں شامل نہیں ہوں گے ، مسئلے کا حل نہیں نکلے گا،
کیوں کہ بلوچستان میں لگی آگ معافیوں، وعدوں اور پیکیجز کے فائربریگیڈ سے نہیں بُجھنے والی!'' بلوچستان میں اردو کے مستقبل کے تعلق سے کہتے ہیں،''اور کسی کا مستقبل ہو یا نہ ہو، بلوچستان میں اردو کا مستقبل روشن ہے، کیوں کہ یہاں کے ادیبوں کے پاس اظہار کا ذریعہ اردو ہی ہے۔ بلوچستان میں حقیقی معنوں میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔''
عابد میر، معروف ناموں کے علاوہ، ادبی میدان میں آغاگل کے مداح ہیں۔ ہم عصروں میں دانیال طریر، نوشین قمبرانی، ظہیر ظرف اور عمران ثاقب کا نام لیتے ہیں۔ سردی کے موسم میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ گوشت سے رغبت ہے، سجی پسندیدہ ڈش ہے۔ گائیکی میں لتا اور جگجیت کے مداح ہیں۔
لباس کا انتخاب موسم کی مناسبت سے کرتے ہیں۔ فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ گلزار صاحب کی فلم ''اجازت'' بہت اچھی لگی۔ اداکاروں میں نصیرالدین شاہ کو سراہتے ہیں۔
2011 میں شادی ہوئی۔ شادی کے لیے محبت کا عالمی دن، یعنی 14 فروری منتخب کیا۔ مستقبل میں بلوچستان پر ایک ناول لکھنے، اُس کی کہانیوں کو ڈراموں کے قالب میں ڈھالنے، اور معیاری دستاویزی فلمیں بنانے کا ارادہ ہے۔
ایک نظر تخلیقات پر
2007 میں ان کی پہلی کتاب ''کہانی صلیب پر'' منظرعام پر آئی، جو کہانی نُما کالموں پر مشتمل تھی۔
پس منظر کچھ یوں ہے کہ وہ روز نامہ آساپ کے زمانے میں سیاسی و سماجی مسائل پر کہانی کے پیرائے میں۔
کالم لکھا کرتے تھے، جو قارئین میں خاصے مقبول تھے، اُنھیں ریکارڈ پر لانے کے لیے کتابی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔
اگلی کتاب ''جدائی کا پیش لفظ'' 2009 میں شایع ہوئی، جو اِن معنوں میں منفرد ہے کہ اِس میں، یونیورسٹی کے زمانے میں پیش آنے والے محبت کے ناکام، کرب ناک تجربے کو 20 افسانوں میں سمو دیا ہے۔
یعنی تمام افسانے، اپنی انفرادی حیثیت کے باوجود، ایک ہی کہانی کے گرد گھومتے ہیں۔ کہتے ہیں،''یونیورسٹی کے زمانے میں مَیں راجا انور کا محبت ناموں پر مشتمل ناول 'جھوٹے روپ کے درشن' پڑھ چکا تھا۔
محبت کے تجربے سے گزرنے کے بعد خیال آیا، اپنے محبت نامے شایع کر دوں، تاہم دوستوں نے مشورہ دیا، اِس میں کوئی نیا پن نہیں ہوگا۔
پھر راجا انور کے تسلسل میں بلوچستان ہی سے عبدالحئی کاکڑ کی کتاب 'مگر یہ ہو نہ سکا' بھی شایع ہوچکی تھی۔ اِسی وجہ سے اِس تجربے کو دہرانے سے اجتناب برتا۔
چُوں کہ کہانی کا آدمی ہوں، اِس لیے فیصلہ کیا کہ یہ تجربہ فکشن کی صورت بیان کیا جائے۔'' کتاب کا ردِعمل ملاجُلا تھا۔ ''کچھ لوگوں نے تنقید بھی کی، لیکن نوجوان قارئین کا ردِعمل بہت مثبت اور دل کو بڑا کرنے والا تھا۔''
صحافتی سفر میں تراجم پر بھی جم کر کام کیا۔ انگریزی اور سندھی زبان میں بلوچستان کی بابت لکھی جانے والی تحریروں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔
ان ہی مضامین کو ''سُلگتا بلوچستان'' کے عنوان سے 2010 میں کتابی شکل دی۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد، ایک مؤقر سندھی روزنامے میں شایع ہونے والے کالم منتخب کرکے اُن کا ترجمہ کیا۔
یہ کتاب ''نواب اکبر بگٹی کی شہادت، سندھ کا خراج'' کے عنوان سے شایع ہوئی۔ کسی زمانے میں چینی جنگی ماہر، سن زوکی کتاب The Art of War کا قسط وار ترجمہ کیا تھا۔ اُسے بھی کتابی شکل دی۔
فیچرز پر مشتمل کتاب ''بلوچستان کا عکس'' کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اُنھوں نے معروف ترقی پسند کارکن اور نذیر عباسی شہید کی بیوہ، حمیدہ گھانگھرو کی آپ بیتی کا سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا، جو آساپ اور سنگت میں قسط وار شایع ہوا، لیکن کتابی شکل میں منظرعام پر نہیں آسکا۔
2011 میں دوسرا افسانوی مجموعہ ''جنگ محبت اور کہانی'' شایع ہوا۔ دورانِ جنگ جنم لینے والی محبت کی اِن کہانیاں کی ضمن میں کہنا ہے۔
''جب سے ہماری نسل نے شعور کی دہلیز عبور کی ہے، اردگرد جنگ کی صورت حال ہے، حالاں کہ ہم محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ جب محبت کرنے والے جنگ کی لپیٹ میں آجائیں، تو کیسی کہانیاں جنم لیں گی، اِسی پر میں نے لکھا ہے۔''
کئی منصوبے زیرتکمیل ہیں۔ برٹرینڈرسل کے معاشقوں پر مشتمل ''رسل کے رومان'' نامی کتاب مکمل کر چکے ہیں۔ کالموں کے علاوہ مختلف نام وَر ادیبوں کے محبت ناموں کو بھی کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے۔
پر حقیقتاً ایک وسیع النظر ادیب، بُلند حوصلہ صحافی، واضح نظریات کا حامل ایک پُرعزم انسان!
عابد میر پکے ترقی پسند ہیں، البتہ بلوچستان کی زمین سے جُڑی اُن کی تخلیقات میں کہیں کہیں غیرترقی پسند رنگ بھی ملتا ہے کہ تخلیقی عمل میں وہ اخلاقیات کے تو قائل ہیں۔
محدودات کے نہیں۔ کہتے ہیں،''میں ادب سمیت کسی بھی معاملے میں تقلید پرست نہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ فن کار کسی کی دی ہوئی لائن پر چل بھی نہیں سکتا!'' سیاسی فکر پختہ ہے، مگر نظریے کو ''عقیدہ'' بنا لینے کے حامی نہیں۔
''جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی، بدقسمتی سے لیفٹ کی تحاریک دم توڑ چکی تھیں، البتہ خوش قسمتی یہ رہی کہ ہم پر کسی کی تقلید کی شرط عاید نہیں ہوتی تھی، سو لیفٹ کے ہر مکتبۂ فکر کو قبول کیا۔
اور پھر ترقی پسند فکر کے تمام دھارے ایک ہی سمندر میں گرتے ہیں۔'' صحافتی سفر میں حق گوئی اور بے باکی مسائل کا بھی سبب بنی۔ تعاقب ہوا، ''نصیحتیں'' ملیں، ''مانوس اجنبی'' ٹکرائے، تاہم تدریس کے پیشے سے وابستہ اِس نوجوان نے حالات کے پتھریلے پن کو درخوراعتنا نہ جانا، ٹھہرنے کے بجائے سفر جاری رکھا۔
مستوئی قبیلے کے اِس سپوت نے 14 ستمبر 1981 کو سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ضلع جعفر آباد کے زرعی و صنعتی شہر، اوستہ محمد میں آنکھ کھولی۔
اصل نام عابد حسین ہے۔ ''عابد میر'' وہ اپنے ماموں، ڈاکٹر سعید مستوئی کے مشورے پر ہوئے۔ اُن کے والد، میر حسن سول اسپتال، اوستہ محمد میں ڈسپنسر ہیں۔ عابد کے بہ قول، بچپن میں غلطیوں پر ٹھیک ٹھاک سزا ملا کرتی تھی، لیکن وہ ''بامقصد سزا'' ہوتی۔
''ایک جانب جہاں وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کی پاداش میں والد نے رات بھر درخت کے تنے سے باندھے رکھا، وہیں علم کی جستجو میں آوارگی اختیار کرنے پر کبھی روک نہیں لگائی۔ اولاد کے تعلیمی سلسلے کی تکمیل میں، اپنی غربت کے باوجود، ہر ممکن مدد کی۔'' چار بھائی، چار بہنوں میں عابد بڑے ہیں۔ کم سنی میں گلی ڈنڈا اور کنچے کھیلے، کالج کے زمانے میں کرکٹ کا تجربہ کیا۔
چُھٹی والے روز ٹرین میں سوار ہو کر وہ جیکب آباد پہنچ جاتے کہ ننھیال جیکب آباد میں تھا، اور وہاں کا ادبی ماحول اُنھیں طبیعت کے قریب معلوم ہوتا تھا۔ ماموں کا کُتب خانہ وقت گزاری کا بہترین مصرف رہا۔ اُن کے نانا، حاجی خان خاندان کے پہلے پڑھے لکھے آدمی تھے۔
بتاتے ہیں،''گوکہ وہ سردار کے منشی تھے، لیکن اُنھوں نے اپنی اولاد کو یہی سِکھایا کہ سردار تمھارا سب سے بڑا دشمن ہے۔'' اِسی فکر کے طفیل حاجی خان کے صاحب زادوں نے شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد ترقی پسند نظریات اپنائے، اُن ہی کا اثر عابد نے قبول کیا۔
مطالعاتی سفر میں پہلے ساحر لدھیانوی سے پالا پڑا۔ بڑے عرصے ساحر کے سحر میں رہے۔ اُس وقت کوئی اور شاعر جچتا ہی نہیں تھا۔ ساحر کے ہر مجموعے کا ہر تازہ ایڈیشن، پاکستان کے جس شہر سے شایع ہوتا، خرید لیا کرتے۔
اِسی عشق نے علی سفیان آفاقی سے جُوڑ دیا، جنھوں نے ایک تحریر میں اپنے اور ساحر کے روابط کا ذکر کیا تھا۔ برسوں عابد اور اُن کے درمیان خط و کتابت رہی۔ اِسی رابطے کے طفیل لاہور کے ایک مؤقر ہفت روزہ سے تعلق پیدا ہوا، جس کے لیے پانچ برس تک بلوچستان کی سیاسی ڈائری لکھی۔
ساحر کی طرز پر اظہار کا شوق چرایا، تو نظم کے میدان میں طبع آزمائی کی۔ یونیورسٹی کے زمانے تک شعر کہتے رہے۔
مشاعرے بھی پڑھے، ادبی جرائد میں نظمیں بھی شایع ہوئیں، لیکن پھر خودشناسی نے تخلیقی رخ نثر کی جانب موڑ دیا۔ شفیق استاد، ڈاکٹر فاروق احمد کی ہدایت پر افسانہ نگاری پر بھرپور توجہ دی۔ جلد ہی نگارشات منصۂ شہود پر آنے لگیں۔
عابد کمرۂ جماعت میں پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے طلبا میں سے تھے کہ "Low profile" رہنا اُن کی ترجیح تھی۔ ''پچھلی نشستوں پر بیٹھنے کا ایک سبب تو یہ تھا کہ کسی کی نظروں میں نہ آئوں، دوسری وجہ یہ تھی کہ جب کچھ اچھا کروں، تو پوری کلاس مجھے مُڑ کر دیکھے۔'' چوتھی جماعت میں تھے، جب معروف صحافی، افضل مراد کی تحریک پر کہانیاں لکھنی شروع کیں۔
جس مؤقر روزنامے سے افضل مراد وابستہ تھے، اُسی کے بچوں کے صفحے پر ابتدائی نگارشات شایع ہوئیں۔ اور پھر اُسی صفحے پر ایک روز، بہ طور لکھاری اُن کا انٹرویو شایع ہوگیا۔ یہ انٹرویو کلاس کے ''مونیٹر'' نے استاد کی ہدایت پر بہ آواز بُلند پڑھا۔ اُس وقت بھی پچھلی نشست پر بیٹھے تھے!
ساتویں جماعت میں اوستہ محمد کے ہم خیال دوستوں کے ساتھ ''سویرا'' نامی ایک پرچہ شروع کیا۔
اِس وقت یہ علم نہیں تھا کہ کسی زمانے میں اِس نام سے ایک پروگریسو پرچہ شایع ہوا کرتا تھا۔
ابتدا میں تو ''سویرا'' بچوں کا پرچہ تھا، جُوں جُوں شعور کا زینہ عبور کرتے گئے، پرچے کے مزاج میں تبدیلی آتی گئی۔ بتاتے ہیں، یار دوست سادہ صفحات پر مضامین، کہانیاں لکھتے، غزلیں، نظمیں بھی ہاتھ لگ جاتیں۔ مواد اکٹھا کرکے فوٹو کاپی کروالی جاتی۔
یوں پرچہ تیار ہوجاتا، جس کی مزید فوٹو کاپیاں کروا کر پڑھنے والوں میں تقسیم کر دی جاتیں۔
بعد کے برسوں میں اِس پرچے کے مختلف نمبر بھی نکلے۔ 2003 تک ''سویرا'' باقاعدگی سے چھپتا رہا۔
تعلیمی سفر کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ اُنھوں نے 98ء میں حق باہو ہائی اسکول، اوستہ محمد سے، سائنس سے میٹرک کیا۔ ڈگری کالج اوستہ محمد سے 2002 میں گریجویشن کرنے کے بعد کوئٹہ کا رخ کیا۔
2004 میں بلوچستان یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کیا، جس کے فوراً بعد ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھانا شروع کر دیا۔ 2008 میں مقابلے کا امتحان دے کر لیکچرر ہوگئے۔
گورنمنٹ انٹر موسیٰ کالج اور سائنس کالج، کوئٹہ میں پڑھایا، اِس وقت ویندر میں ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ تخلیقی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ نگارشات باقاعدگی سے شایع ہورہی ہیں۔
''سنگت اکیڈمی آف سائنسز'' کے پلیٹ فورم سے خاصے فعال ہیں۔ ''مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن'' کے بانی ارکان میں سے ہیں، جس کے تحت، بلوچستانی ادب کو مرکزی ادبی دھارے سے جُوڑنے کے لیے ''مہرنامہ'' کے زیرعنوان ایک ادبی پرچہ شروع کیا گیا ہے۔ عابد ادارتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ مدیر، دانیال طریر ہیں۔
اِس تخلیق کار کی خوشیاں چھوٹی چھوٹی چیزوں سے وابستہ ہیں۔ اچھی کتابیں پڑھ کر، مخلص لوگوں سے مل کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ غموں کے ذکر پر کہتے ہیں، محبت میں ناکامی سے کرب ناک تجربہ بھلا کیا ہوسکتا ہے، تاہم خوش قسمت رہے کہ اُنھیں اچھے لوگ ملے، جو زندگی کی جانب کھینچ لائے۔
کس نے متاثر کیا؟ اِس سوال کا جواب فکری پیرائے میں دیتے ہیں۔ ''بنیادی طور پر دو ہی چیزیں متاثر کرتی ہیں، ایک ذہانت، دوسرا حسن! ایک اور زاویے سے دیکھا جائے، تو کئی چیزوں نے متاثر کیا، مثلاً مارکس کے فلسفے نے، گلزار کی شعری حسیت نے، فہمیدہ ریاض کے نسائی شعور نے، امرتا پریتم اور سارا شگفتہ کے مصرعوں نے۔
راجا انور کے اسلوب نے، رسول حمزہ توف کی کتاب 'میرا داغستان' نے، انسانوں کی نظریاتی کمٹ منٹ نے، اور بہ طور فرد شاہ محمد مری نے!''
ماہ نامہ سنگت کے توسط سے عابد، ڈاکٹر شاہ محمد مری کو جانتے تو تھے، پر باقاعدہ ملاقات نہیں تھی۔ جس زمانے میں یونیورسٹی میں تھے، ڈاکٹر صاحب کی کتاب ''سورج کا شہر'' شایع ہوئی۔
تنقید کی جانب مائل عابد نے کتاب پر ایک سخت تنقیدی مضمون لکھ ڈالا، جو ڈاکٹر صاحب کو پیش کرتے ہوئے تقاضا کیا، اِسے سنگت میں چھاپیں۔ خیر، وہ مضمون سنگت سے پہلے روزنامہ مشرق میں شایع ہوگیا، لیکن رابطے کی صورت نکل آئی۔
ڈاکٹر صاحب کی بابت کہتے ہیں،''میں اُنھیں ایک بڑے انسان کے طور پر دیکھتا ہوں۔ شاید پاکستان میں اُن سے اچھے لکھنے والے ہوں، لیکن اُن جیسا بڑا آدمی تلاش کرنا مشکل ہے۔''
بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟ اِس سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں،''مسئلہ سیاسی ہے، سیاسی لوگ ہی حل بتائیں گے۔ البتہ میرے نزدیک جب تک متاثرہ فریق صلح کے عمل میں شامل نہیں ہوں گے ، مسئلے کا حل نہیں نکلے گا،
کیوں کہ بلوچستان میں لگی آگ معافیوں، وعدوں اور پیکیجز کے فائربریگیڈ سے نہیں بُجھنے والی!'' بلوچستان میں اردو کے مستقبل کے تعلق سے کہتے ہیں،''اور کسی کا مستقبل ہو یا نہ ہو، بلوچستان میں اردو کا مستقبل روشن ہے، کیوں کہ یہاں کے ادیبوں کے پاس اظہار کا ذریعہ اردو ہی ہے۔ بلوچستان میں حقیقی معنوں میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔''
عابد میر، معروف ناموں کے علاوہ، ادبی میدان میں آغاگل کے مداح ہیں۔ ہم عصروں میں دانیال طریر، نوشین قمبرانی، ظہیر ظرف اور عمران ثاقب کا نام لیتے ہیں۔ سردی کے موسم میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ گوشت سے رغبت ہے، سجی پسندیدہ ڈش ہے۔ گائیکی میں لتا اور جگجیت کے مداح ہیں۔
لباس کا انتخاب موسم کی مناسبت سے کرتے ہیں۔ فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ گلزار صاحب کی فلم ''اجازت'' بہت اچھی لگی۔ اداکاروں میں نصیرالدین شاہ کو سراہتے ہیں۔
2011 میں شادی ہوئی۔ شادی کے لیے محبت کا عالمی دن، یعنی 14 فروری منتخب کیا۔ مستقبل میں بلوچستان پر ایک ناول لکھنے، اُس کی کہانیوں کو ڈراموں کے قالب میں ڈھالنے، اور معیاری دستاویزی فلمیں بنانے کا ارادہ ہے۔
ایک نظر تخلیقات پر
2007 میں ان کی پہلی کتاب ''کہانی صلیب پر'' منظرعام پر آئی، جو کہانی نُما کالموں پر مشتمل تھی۔
پس منظر کچھ یوں ہے کہ وہ روز نامہ آساپ کے زمانے میں سیاسی و سماجی مسائل پر کہانی کے پیرائے میں۔
کالم لکھا کرتے تھے، جو قارئین میں خاصے مقبول تھے، اُنھیں ریکارڈ پر لانے کے لیے کتابی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔
اگلی کتاب ''جدائی کا پیش لفظ'' 2009 میں شایع ہوئی، جو اِن معنوں میں منفرد ہے کہ اِس میں، یونیورسٹی کے زمانے میں پیش آنے والے محبت کے ناکام، کرب ناک تجربے کو 20 افسانوں میں سمو دیا ہے۔
یعنی تمام افسانے، اپنی انفرادی حیثیت کے باوجود، ایک ہی کہانی کے گرد گھومتے ہیں۔ کہتے ہیں،''یونیورسٹی کے زمانے میں مَیں راجا انور کا محبت ناموں پر مشتمل ناول 'جھوٹے روپ کے درشن' پڑھ چکا تھا۔
محبت کے تجربے سے گزرنے کے بعد خیال آیا، اپنے محبت نامے شایع کر دوں، تاہم دوستوں نے مشورہ دیا، اِس میں کوئی نیا پن نہیں ہوگا۔
پھر راجا انور کے تسلسل میں بلوچستان ہی سے عبدالحئی کاکڑ کی کتاب 'مگر یہ ہو نہ سکا' بھی شایع ہوچکی تھی۔ اِسی وجہ سے اِس تجربے کو دہرانے سے اجتناب برتا۔
چُوں کہ کہانی کا آدمی ہوں، اِس لیے فیصلہ کیا کہ یہ تجربہ فکشن کی صورت بیان کیا جائے۔'' کتاب کا ردِعمل ملاجُلا تھا۔ ''کچھ لوگوں نے تنقید بھی کی، لیکن نوجوان قارئین کا ردِعمل بہت مثبت اور دل کو بڑا کرنے والا تھا۔''
صحافتی سفر میں تراجم پر بھی جم کر کام کیا۔ انگریزی اور سندھی زبان میں بلوچستان کی بابت لکھی جانے والی تحریروں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔
ان ہی مضامین کو ''سُلگتا بلوچستان'' کے عنوان سے 2010 میں کتابی شکل دی۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد، ایک مؤقر سندھی روزنامے میں شایع ہونے والے کالم منتخب کرکے اُن کا ترجمہ کیا۔
یہ کتاب ''نواب اکبر بگٹی کی شہادت، سندھ کا خراج'' کے عنوان سے شایع ہوئی۔ کسی زمانے میں چینی جنگی ماہر، سن زوکی کتاب The Art of War کا قسط وار ترجمہ کیا تھا۔ اُسے بھی کتابی شکل دی۔
فیچرز پر مشتمل کتاب ''بلوچستان کا عکس'' کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اُنھوں نے معروف ترقی پسند کارکن اور نذیر عباسی شہید کی بیوہ، حمیدہ گھانگھرو کی آپ بیتی کا سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا، جو آساپ اور سنگت میں قسط وار شایع ہوا، لیکن کتابی شکل میں منظرعام پر نہیں آسکا۔
2011 میں دوسرا افسانوی مجموعہ ''جنگ محبت اور کہانی'' شایع ہوا۔ دورانِ جنگ جنم لینے والی محبت کی اِن کہانیاں کی ضمن میں کہنا ہے۔
''جب سے ہماری نسل نے شعور کی دہلیز عبور کی ہے، اردگرد جنگ کی صورت حال ہے، حالاں کہ ہم محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ جب محبت کرنے والے جنگ کی لپیٹ میں آجائیں، تو کیسی کہانیاں جنم لیں گی، اِسی پر میں نے لکھا ہے۔''
کئی منصوبے زیرتکمیل ہیں۔ برٹرینڈرسل کے معاشقوں پر مشتمل ''رسل کے رومان'' نامی کتاب مکمل کر چکے ہیں۔ کالموں کے علاوہ مختلف نام وَر ادیبوں کے محبت ناموں کو بھی کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے۔