جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
انسانی شعور اپنی منزلیں طے کرتا ہے تو لوگوں پر حکمرانی کی خواہش رکھنے والے بھی نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر رائج جمہوری نظام اور عوام کی حکمرانی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا مدتوں اس دنیا پر حکمران بادشاہوں اور عوام میں ان کی پذیرائی اور قبولیت میں فرق ہوتا تھا۔ بڑے بڑے فاتحین خواہ وہ سکندر ہو یا چنگیز خان، اپنے گھروں سے بڑی بڑی افواج لے کر نہیں نکلا کرتے تھے۔ آج سے دو سو سال پہلے تک جن پانچ ممالک نے پوری دنیا کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کیا ان کا حجم اور افرادی قوت دیکھیں تو ہنسی آتی ہے کہ یہ اتنے مختصر سے ملک اتنے بڑے بڑے علاقوں پر کیسے قابض ہوگئے۔
برطانیہ' فرانس' اسپین' ہالینڈ اور پرتگال جن کی کل آبادی ملا کر بھی اس دور کے ہندوستان سے کم تھی، لیکن امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک ہر خطہ ان کے زیر تسلط تھا۔ ان طاقتوں نے بھی علاقے فتح کرنے کا گر قدیم فاتحین سے سیکھا تھا۔ پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کرو کہ کس علاقے کی رعایا اپنے حکمران سے ناراض اور غیرمطمئن ہے، پھر اس رعایا میں اپنے ایسے حمایتی ڈھونڈو جو اقتدار کی خواہش رکھتے ہوں لیکن حکمرانوں کی طاقت کے سامنے ان کا بس نہ چلتا ہو اور ان کے ذہن میں کسی بیرونی طاقت کی مدد سے سازش کے ذریعے اپنے علاقے پر حکمرانی کرنے کی خواہش مچل رہی ہو۔
جب یہ دونوں عوامل جمع ہو جاتے تو حملہ کرنے کا اذن مل جاتا، اور چند دنوں میں وہ علاقہ، شہر یا ریاست فتح کر لی جاتی۔ ابن علقمی اگر عباسی خلفاء کا وزیر نہ ہوتا اور اس حیثیت میں بھی خلیفہ کے خلاف سازشوں میں مصروف نہ ہوتا تو ہلاکو کسی دوسری جانب اپنی فوجوں کا رخ موڑ دیتا۔ سکندر کو راجہ امبی کی صورت میں استقبال کرنے والا نہ ملتا تو وہ شاید وہیں سے پلٹ جاتا۔ اسی طرح میر جعفر اور میر صادق جیسے کردار میسر نہ آتے تو نہ جنگ پلاسی کی جرأت ہوتی اور نہ ہی میسور کے سرنگا پٹم پر حملے کا تصور۔
ان تمام فاتحین اور عظیم بادشاہوں کا ایک طریقۂ کار تھا۔ جہاں کوئی ہمدرد یا تعاون کرنے والا مل جاتا اس سے مدد حاصل کرتے' وہ لڑنے کے لیے افراد بھی فراہم کرتا' مالی امداد بھی کرتا اور کھانے پینے کا بندوبست بھی۔ یوں فوج میں اضافہ ہوتا تو اگلا علاقہ فتح کر کے سلطنت کو وسیع کرتے جاتے۔ وہیں سے لوگوں کو اپنی فوج کے لیے بھرتی کیا جاتا اور مزید علاقے فتح کیے جاتے۔ 1848 میں جب پنجاب میں سکھوں کی حکومت کے خلاف انگریز نے لڑائی شروع کی تو اس میں برطانیہ سے آئے فوجی نہیں بلکہ بنگال اور مدراس رجمنٹ کے چھوٹے چھوٹے قد کے سپاہی ان گبھرو جوانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔
کوئی اس دور میں سکھوں کی آپس کی چپقلش کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لے کہ کیسے ایک غیر مطمئن رعایا نے اپنی ہی فوج کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اسی طرح پنجاب فتح ہونے کے صرف آٹھ سال بعد 1857 کا معرکا آزادی ہوا تو وہ پنجاب جسے ایک غیر ملکی طاقت نے فتح کیا تھا وہیں سے جوق در جوق لشکر انگریزوں کی مدد اور نصرت کے لیے گئے تھے اور لال قلعہ دہلی کو فتح کر کے واپس لوٹے تھے۔ جنگوں میں ساتھ دینے والے راجوں' مہاراجوں' سرداروں' وڈیروں کے لیے انعام وا کرام اور نوازشات کے بھی درجات ہوتے تھے۔
کسی کو اقتدار میں شریک کرکے اس علاقے کا حکمران' وزیر یا پھر مرکزی سطح پر اپنا معتمد خاص مقرر کر دیا جاتا تھا۔ کچھ کو جائیدادیں عطا کی جاتی تھیں اور بہت سوں کو شاہی دربار کی سند اور قبولیت کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ بادشادہت کرنے کے گروں میں دو گر سب سے زیادہ اہم سمجھے گئے ہیں اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس حکمران نے یہ دو گُر آزمائے اس کے اقتدار کو طوالت ملتی گئی۔ ایک یہ کہ رعایا خوشحال ہو اور ان کے درمیان انصاف کیا جائے۔ مطمئن اور پر سکون رعایا دنیا کے ہر حکمران کی سب سے مضبوط دفاعی لائن سمجھی جاتی تھی۔
دوسرا گر طرز حکمرانی کا شاطرانہ استعمال ہے۔ اس کی مثال اسپارٹا کے حکمران نے یوں سمجھائی جس کے پاس دیگر ریاستوں کے لوگ اپنے بچوں کو حکمرانی کے گر سکھانے بھیجتے تھے۔ وہ جاتے ہوئے ان کو ایک مکئی کے کھیت میں سے گزارتا جہاں تمام پودے تقریباً ایک سائز ہوتے، لیکن جو چند ایک سر اٹھاتے ہوتے انھیں تلوار سے کاٹ کر برابر کر دیتا۔ جس حکمران کو اپنی رعایا میں اقتدار کے خواہش مند، سر اٹھاتے لوگوں کا علم نہ ہوتا، اس کا زوال یقینی تھا۔
انسانی شعور اپنی منزلیں طے کرتا ہے تو لوگوں پر حکمرانی کی خواہش رکھنے والے بھی نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ پہلے بادشاہ لوگوں کو خوشحال اور مطمئن رکھتے تھے اور وہ ہردلعزیز حکمران کہلاتے تھے۔ ان کا عتاب صرف چند لوگوں تک محدود ہوتا، جس کی ایک پر سکون رعایا پروا بھی نہ کرتی۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہوتا جا رہا تھا۔ اقتدار میں شرکت کے خواہش مند بڑھتے جا رہے تھے۔ خواہشوں کا طوفان ہر سینے میں امڈتا تھا۔
عام سپاہی کے بادشاہ بننے یا عام سے شخص کے اپنی بصیرت کے بل بوتے پر وزیر بن جانے کی کہانیوں اور عوام کی حکمرانی کی خواب انگیز داستانوں نے حکمرانوں کے خلاف ہجوم کی صورت میں باہر نکلنے کا رواج ڈالا۔ فرانس کے ورسائی محل کی کھڑکی سے باہر نکل کر جب بادشاہ نے 1774 میں جھانکا تو حیرت میں گم ہو گیا کہ اتنی مخلوق یہاں کیسے جمع ہو گئی۔ یہ شہر تو بہت چھوٹا سا ہے۔ بادشاہوں کے سر کٹنے لگے تو وہ قوتیں جو صدیوں سے اقتدار پر قابض تھیں انھیں خطرے کا احساس ہوا۔ یہ سب اپنے اپنے علاقوں کے جاگیردار، وڈیرے، تاجر، قبائلی سردار تھے۔
ان کی طاقت اپنے علاقوں میں مستحکم تھی لیکن اگر بہت سے علاقوں کے پسے ہوئے عوام مل جاتے تو پھر ان کی طاقت کا چراغ گل ہو جاتا۔ اب ''ہردلعزیز'' حکمرانی کا ایک نسخہ ایجاد کیا گیا۔ یہ نسخہ تھا جمہوریت۔ بس چند دن کے لیے سہی مگر عوام کو حکمرانی میں شریک کیا جائے۔ وہ دن جب وہ اپنی رائے کا اظہار یا ووٹ دینے آتے ہیں۔ اسے ایک سیاسی عمل کا نام دیا گیا۔ سب سے پہلے عوام کو تقسیم کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کا نظام وضع کیا گیا۔ پہلے ایک بادشاہ کو افرادی قوت اور سرمائے سے مدد فراہم کی جاتی تھی، اب پارٹی فنڈنگ کا راستہ نکالا اور افرادی قوت کی جگہ پارٹی ورکرز نے لے لی۔
پارٹیوں کو سرمائے کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے خریدنا آسان تھا، اسی لیے غیر جماعتی طریق انتخاب کو گالی بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ یک جماعتی نظام کو بھی آمریت کا روپ قرار دیا گیا۔ امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک کوئی پارٹی ایسی نہیں جسے اربوں ڈالر میسر نہ ہوں اور وہ الیکشن جیت جائے۔ اس کے بعد نسخہ وہی جو بادشاہوں کا تھا کہ عوام کو خوشحال اور مطمئن رکھا جائے تو اقتدار قائم۔ اس کے لیے اپنی لوٹ مار سے ایک تھوڑا سا حصہ عوام پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس نے دنیا میں پچاس ایسے افراد کو جنم دیا ہے جن کے پاس دنیا کی ساٹھ فیصد کے قریب دولت ہے۔
اب اہرام مصر، تاج محل اور سونے کے منقش محل نہیں بنتے بلکہ کاروباری سلطنتیں وجود میں آتی ہیں۔ انھی کاروباری سلطنتوں کی ہوس افریقہ کو پسماندہ، غلام اور قتل و غارت کا گڑھ بنائے ہوئے ہے اور اسی کا نشہ جمہوری حکمرانوں کو ویت نام، عراق اور افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ کوئی حکمرانی میں ''نام نہاد شریک عوام'' سے نہیں پوچھتا کہ ہم تمہارے بچوں کو قتل گاہوں میں بھیج رہے ہیں۔
ان ہزاروں مقتولین کی یادگاریں بنائی جا رہی ہیں، انھیں وطن و قوم کا محسن قرار دیا جا رہا ہے، کسی کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ جنگ عظیم اول سے لے کر آج تک کروڑوں لوگ اسی جمہوریت اور آزادی کے نام پر قتل کیے گئے لیکن صرف اسلحہ ساز فیکٹریوں کے منافع میں اضافہ ہوا۔ جنہوں نے مزید پارٹی فنڈنگ سے اپنے لیے سیاسی رہنما اور جمہوری حکمران خرید لیے اور پھر ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ اور کانگریس جیسے اداروں کو عوام کا نمایندہ کہہ کر ہر وہ کام کیا جس کا تعلق صرف اور صرف اس کارپوریٹ دنیا کے تحفظ کا تھا۔ لیکن یہ اپنی دولت کا مختصر سا حصہ عوام میں بانٹ کر انھیں مطمئن اور خوشحال رکھتے کہ کل کوئی جم غفیر فرانس کے شاہی محل کی طرح ان کے اس فراڈ نظام کی دھجیاں نہ بکھیر دے۔
دنیا میں بادشاہت ہو یا جمہوریت، نظام الٹنے، تہس نہس کرنے کے لیے صرف ایک ہی لازم شرط ہے۔ عوام کا غیر مطمئن، پریشان اور بدحال ہونا۔ رحم دل بادشاہ اور ظالم ترین جمہوری حکمران بھی اس شرط کو ضرور ذہن میں رکھتے اور اپنے اقتدار کو طول دیتے تھے۔
دنیا بھر کے میں بادشاہ ہوں یا جمہوری حکمران، جہاں کہیں تخت الٹے گئے یا تاج اچھا لے گئے، وہاں ایسا کام مٹھی بھر بپھرے ہوئے ہجوم نے کیا۔ لیکن ان کا یہ غصہ اور انتقام، کروڑوں غیر مطمئن، پریشان اور بدحال عوام کے دل کی آواز بن چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں حکمرانوں کی آوازیں، سسٹم تباہ ہو جائے گا، ترقی کا پہیہ رک جائے گا، دوسرے حکمران ملوث ہیں ہم نے تمہارے لیے بہت کچھ کیا، سب صدا بصحرا ہو جاتی ہیں۔ لٹے پٹے، مفلوک الحال، پریشان اور غیر مطمئن لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کس کا محل مسمار ہوتا ہے اور کس کا اقتدار رخصت۔ انھیں تو اپنی بدحالی کے موسم میں کسی اور کی خوشحالی اچھی نہیں لگ رہی ہوتی۔