تماشا بننے سے پہلے…

سنا ہے کہ انسان میں غیرت ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرتا ہے۔ صاحب یہاں تو چلو بھر پانی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے یہاں۔۔۔

BEIJING:
مجھ سے غلطی ہوئی دوست سے پوچھا ذرا صفت تضاد کی مثال تو دو۔ شعری ذوق تھا نہیں ہنس کر بولی ''غریب ملک کے امیر حکمران'' یا پھر طاقت ور ایٹمی طاقت کے کمزور حکمران۔ مثال کچھ غلط بھی نہ تھی اور اس کا خیال تھا کہ شاعری کے مقابلے میں نثر زیادہ طاقتور ذریعہ اظہار ہے، اس لیے نثر میں مثالیں بھی زیادہ طاقت ور ہوتی ہیں۔ ایک طویل بحث سے اجتناب برتتے ہوئے ہم نے اس کی بات تسلیم کرلی۔

بحث در بحث سے فائدہ کیا لیکن ہم ''غریب ملک کے امیر حکمران'' اسی مثال پر غور کرتے رہے اور متضاد الفاظ کے ساتھ متضاد معنویت اور طبقوں پر بھی گہری نظر ڈالی۔ لیکن اس نظر میں ہم تنہا نہ تھے بلکہ ہمارے ساتھ بہت سی نظریں ہیں۔ جو اسی تضاد پر اکثر غور وفکر کرتی ہیں۔ حساس طبقے، مبصرین، ناقدین اور مقررین و لکھاری طبقے کا کام ہی یہی ہے۔ برسہا برس سے لفاظی ہو رہی ہے لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 68 برس گزر گئے۔ ہماری آزادی کو جی ہاں کوئی فرق نہیں پڑا ہم مستقل مزاجی کے ساتھ وہیں پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔

سنا ہے کہ انسان میں غیرت ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرتا ہے۔ صاحب یہاں تو چلو بھر پانی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے یہاں تو بوند بوند پانی کو لوگ ترس رہے ہیں۔ اسی لیے اب ڈوب مرنے کی گنجائش نہیں۔ دوسری قومیں طویل المیعاد منصوبے بناتی ہیں۔ قبل از وقت مسائل کو دیکھتے ہوئے وسائل بڑھانے کی سعی پیہم کرتی ہیں۔ ڈیم کی اہمیت، بجلی گھروں کی افادیت ہم سب کچھ جانتے ہیں پھر بھی انجان ہیں۔

یہ سوچ کر کہ ہمیں کیا فائدہ۔ یہ لفظ فائدہ کبھی کبھی بڑے بڑے نقصانات کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ ہماری انفرادی خواہش جب اجتماعی مفاد پر غالب آجاتی ہیں تو ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے سفر کرنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے کبھی کبھی شریک سفر راستے میں کہیں بھٹک کر کھوجاتے ہیں اور منزل پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے۔ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

سفر کے دوران مسافتوں کے تکلیف دہ مرحلوں کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ہی ہے جو کہ منزل کی قدرو قیمت کا تعین کرتا ہے لیکن جنھوں نے سفر ہی نہ کیا ہو جو آبلہ پائی کی راہوں سے ہی نہ گزرے ہوں وہ کیا جانیں۔ قربانی کا مفہوم کیا ہے۔ سنبھال کر وہ رکھتے ہیں جو کچھ کھوچکے ہوں لیکن جنھیں پانے کا سلیقہ ہی نہ ہو۔ وہ کھونے یا کھو جانے کے مفہوم اور اذیت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔

68 برس میں کیا کھویا کیا پایا ذرا حساب تو لگائیں۔ حساب کتاب میں سوائے شرمندگی کے کچھ باقی نہ بچا۔ افسوس صد افسوس۔ تمام تحریک پاکستان کے رہنمائوں کی کاوشوں اور قربانیوں کو ہم ضایع کررہے ہیں۔ مملکت خداداد کا قائم رہنا یقینا معجزہ خداوندی ہے۔ بے شمار ان گنت قدرتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود ہاتھوں میں امداد کا کشکول لیے پھر رہے ہیں۔ امداد، بھیک، خیرات، صدقہ، قرضہ ان تمام الفاظوں کے درمیان غیرت کہیں نظر نہیں آتی۔


خودی، تقدیر، شاہین، نالہ شب، ہائے پیغام اقبالؒ ہم بھول گئے۔ ہم تو اپنے اسلاف کی میراث بھی بھلا بیٹھے۔ یاد رہا تو صرف اتنا کہ شاید پھر موقع نہ ملے سمیٹ لو۔ جتنا سمیٹ سکتے ہو۔ کفن لپٹے خالی ہاتھ تو صرف لمحہ بھر کے لیے بے ثباتی زمانہ کا احساس دلاتے ہیں۔ ورنہ عبرت کے لیے ہماری تاریخ ہی کافی ہے۔ ابتدا سے آج تک بے شمار واقعات ہمیں غور و فکر کا درس دیتے ہیں۔ غور و فکر کے لیے جاگنے کی شرط ہے۔ لیکن جب آپ سو رہے ہوں تو فکر رہتی ہے نہ ہی سوچ۔

صرف بے خبری ہوتی ہے اور یہ بے خبری انسان کو مار دیتی ہے۔ بے موت وقت سے پہلے، دشمن ہمیشہ تاک میں رہتا ہے کہ کب موقع ملے اور شکار کرلے۔ لیجیے صاحب اسے تو زحمت ہی نہیں کرنی پڑی۔ میر صادق و جعفر کے کردار ہماری کہانی میں اس قدر پختہ و فعال ہیں کہ زوال کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی ''لڑائو اور حکومت کرو'' کا اصول صدیوں سے کار فرما ہے۔ ہم اسی اصول سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ خود ہی کھلی آنکھوں کے ساتھ گڑھے میں گرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔

اپنی ہر کوتاہی اور ناکامی کو قسمت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ قسمت بھی ان لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جنھیں اپنی حالت بدلنے کی خواہش ہو۔ ہم نے بھی اپنے آپ کو بدلا ہے لیکن ایک فاتح اور غیرت مند قوم سے ایک شکست خوردہ اور کمزور قوم میں بدل گئے ۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کمزور قوم کیوں ہیں۔ اسی لیے کہ ہم کٹھ پتلی ہیں۔

ہمارے حواس خمسہ و اعضا ہماری مرضی سے کام نہیں کرتے۔ ہماری ڈور کسی اور پس پردہ کردار کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اور یہی پس پردہ کردار آہستہ آہستہ ہمیں اس قدر مجبور کردیتا ہے کہ ہم اپنے تمام اختیارات اور قوت کے باوجود خوفزدہ رہتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر غلامانہ ذہنیت و تابعداری کے جذبات و احساسات ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

شخصیت شاید میں نے غلط لفظ استعمال کرلیا ہے۔ شخصیت تو باکردار لوگوں کی ہوتی ہے ہمارا تو کوئی کردار ہی نہیں۔ اپنے ہی گھر میں دیوار کے سائے سے ڈر جانے والے، نہ ہی گھر میں محفوظ اور نہ ہی گھر سے باہر۔ گھر پیارا گھر، ہمارا گھر، ہمارا چمن ،ہمارا وطن کس قدر محبت کے ساتھ ہم اپنے اپنے گھروں کو سجاتے ہیں۔ سنوارتے ہیں کیوں کہ وہ ہمارا گھر ہوتا ہے۔ اگر ٹوٹ پھوٹ ہو تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

نقصان کا افسوس لیکن یہ وطن جو ہمارا ہے اس کو سنوارنے سجانے کے بجائے ہم توڑنے پھوڑنے اور نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں اور احساس زیاں بھی نہیں۔ بننے کے عمل میں صدیاں لگتی ہیں۔ ہم طوفان سے اسی کشتی کو بچاکر لائے ہیں معلوم نہیں کیوں دل ڈرتا ہے کہ کہیں گھر کے چراغ سے ہی گھر کو آگ لگ جائے۔ اور ہم کچھ بھی نہ بچاسکیں۔ سانپ گزر جائے اور لکیر پیٹتے رہ جائیں۔ کاش ہمارے گھر کے مسئلے گھر میں ہی طے ہوجائیں۔ لڑائی کی آوازیں اتنی بلند نہ ہوں کہ باہر تک پہنچیں اور لوگ تماشا دیکھیں۔ تماشا بننے سے پہلے تماشا ختم ہوجائے تو بہتر ہے۔
Load Next Story