تیسرا آپشن

انقلاب کسی فرمائشی پروگرام کا نام نہیں ہے یہ اپنی مرضی سے جب بھی آتا ہے جاری نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔

منظم، مستحکم اور متحرک کارکنوں پر مشتمل سیاسی پارٹی اسٹریٹ پاور سے شروع ہوکر پارلیمانی پاور پر ختم ہوتی ہے۔ جس کا مقصد صرف حصول اقتدار ہوتا ہے تاکہ پارٹی منشور میں عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس اسٹریٹ پاور ہے لیکن پارلیمانی (Legislative) پاور بالکل نہیں ہے۔ ان کے ورکر منظم، جانثار اور سوجھ بوجھ والے ہیں جو دماغ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے پاس اسٹریٹ پاور اور پارلیمانی پاور کے علاوہ ایک صوبہ KPK کی حکومت بھی ہے، ان کے کارکن بہت جوشیلے ہیں ۔ دل والے ہیں پیچھے ہٹنے کوگالی سمجھتے ہیں۔ دل کی رہنمائی میں چلتے ہیں۔

اب یہ بات سب کی سمجھ میں آگئی ہے کہ اگر گلشن کا کاروبار یوں ہی چلتا رہا۔ PTI اور PAT میں اکٹھ نہیں ہوا تو قادری صاحب کا انقلاب اور عمران خان کا سونامی اپنا جلوہ نہیں دکھا سکے گا۔ دونوں کا غنچہ امید بن کھلے ہی مرجھا جائے گا۔ کیونکہ دونوں کی حیثیت فی الوقت آدھی گواہی جیسی ہے جب تک دوسری آدھی گواہی میسر نہ آجائے گواہی مکمل ہوگی نہ موثر۔ عوام کا کیا ہے وہ تو پہلے ہی مایوسی اور مسائل کا شکار ہیں۔

انقلاب کسی فرمائشی پروگرام کا نام نہیں ہے یہ اپنی مرضی سے جب بھی آتا ہے جاری نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ اس کے بعد اگر قوم باشعور اور متحد، رہنما قدآور اور غیر متنازعہ ہوں تو اپنی مرضی کا نیا نظام قائم کرلیں ورنہ طاقت کا خلا پیدا ہوگا جس سے خانہ جنگی جنم لے گی اور قوم تاریک راہوں میں ماری جائے گی لیکن قادری صاحب کا انقلاب یہ ہے کہ آئین کے عوام دوست آرٹیکلز کا اس کی روح کے مطابق نفاذ۔ جس کے نتیجے میں عوام کی زندگیوں میں انقلاب آجائے گا۔

اسی طرح عمران خان کے سونامی کا مطلب عوامی طاقت کے جنون کے ذریعے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، اور سماجی انصاف قائم کرنا ہے وغیرہ۔ چنانچہ قادری صاحب کے انقلاب اور عمران خان کے سونامی کو اس کے لغوی معنوں کے بجائے اس کے حقیقی اور مرادی معنوں کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔


الیکشن 2013 سے پہلے بھی قادری صاحب تشریف لائے تھے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ڈی چوک اسلام آباد پر دھرنا دیا تھا، ڈی چوک کا ایک محدود علاقہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ چوتھے دن آصف علی زرداری نے ایک نمایندہ مشترکہ وفد طاہر القادری سے مذاکرات کے لیے بھیجا۔ مذاکرات کامیاب ہوئے۔ دھرنا پرامن طور پر منتشر ہوگیا۔ ایک کھڑکی کا شیشہ تک نہ ٹوٹا۔ حکومت پیپلز پارٹی کی تھی۔

اس کے ایک سال بعد قادری صاحب الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا مطالبہ لے کر دوبارہ اسلام آباد تشریف لائے تاکہ اسلام آباد سے لاہور لانگ مارچ کی قیادت کرسکیں۔ قادری صاحب کے طیارے کا رخ موڑ کر ان کو لانگ مارچ سے پہلے ہی لاہور پہنچادیا گیا۔ اس کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آیا۔ 14 لاشیں گریں۔

الیکشن میں دھاندلی کے خلاف عمران خان نے 14 اگست کو لاہور سے اسلام آباد آزادی مارچ اور طاہر القادری نے 10 اگست کو ماڈل ٹاؤن میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کی یاد میں دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ 10 اگست کو ساری رکاوٹیں توڑ کر عوامی تحریک کے ہزاروں کارکن ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے۔ طاہر القادری نے 14 اگست انقلاب کی تاریخ کا اعلان کردیا کہ اس وقت تک کارکن دھرنا دیں گے اور قرآن خوانی کریں گے اور 14 اگست کو انقلاب مارچ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوگا اور عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ مل جائے گا۔ اس طرح تحریک انصاف، عوامی تحریک، (ق) لیگ، عوامی مسلم لیگ، متحدہ علما کونسل اور وحدت المسلمین کا حکومت کے خلاف ایک نیا اتحاد وجود میں آگیا۔

حکومت نے طاہر القادری کے خلاف قانون کا ڈنڈا اور عمران خان کے ساتھ مذاکرات کی گاجر استعمال کرنے کا تہیہ کرلیا ہے اور طاہر القادری کو ISOLATE کرنے کے لیے بلاوجہ ماڈل ٹاؤن لاہور سے ڈی چوک اسلام آباد تک مسائل کے انبار لگالیے۔ 1۔اسلام آباد کو فوج کے اور باقی پنجاب کو کنٹینروں کے حوالے کردیا گیا۔ 2۔گلیاں سڑکیں شاہراہیں بند، صرف اوپر جانے کا راستہ کھلا ہوا۔ 3۔پٹرول پمپ اور CNG اسٹیشن بند۔ مختصراً ٹرانسپورٹ بند، لاہور کا ایک علاقہ مفلوج ہر طرف پولیس ہی پولیس، جدھر دیکھو کنٹینر ہی کنٹینر یوں لگتا تھا طاہر القادری کے انقلاب مارچ کے جواب میں ماڈل ٹاؤن لاہور سے ڈی چوک اسلام آباد تک پہیہ جام ہے۔

اس وقت MQM کے قائد الطاف حسین، وزیر اعظم، گورنر سندھ اور گورنر پنجاب کے درمیان بیک ڈور بات چیت کے نتیجے میں 14 اگست کو عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ طاہر القادری کا انقلاب مارچ بھی لاہور سے اسلام آباد روانہ پہنچ چکا ہے۔ قادری صاحب پر ایک پولیس والے کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوچکی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو قادری صاحب ایک کورٹ میں پیشی نمٹاتے دوسری عدالت میں درخواست ضمانت داخل کرتے اور تیسری عدالت میں نئی تاریخ کی استدعا کرتے نظر آئیں گے۔ عدالت کے اندر ایک میں رہا ہوں گے اور عدالت کے باہر دوسرے کیس میں گرفتار۔ نام ECL میں ڈال دیا جائے گا نہ کینیڈا کے رہیں گے نہ پاکستان کے۔

قادری صاحب نواز شریف کے آج کے دشمن ہی نہیں کل کے دوست بھی تھے۔ حکومت نے عمران خان سے ڈیل کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کردی یعنی ان کو دیوار سے لگا دیا۔ یوں چاہے آسمان ٹوٹ پڑے عمران خان اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس طرح اب ملک کے تمام سیاستدانوں کے تدبر کا امتحان ہے کہ وہ سسٹم کو بچانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ عوامی تحریک کے کارکنوں کے رویے میں 14 لاشوں کی تلخی ہوگی اور تحریک انصاف کے کارکن تو پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر بات دمادم مست قلندر تک پہنچی تو پھر معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔
Load Next Story