یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو…
ملال تو اس بات کا ہے کہ منزل عموماً ان ہی کو ملتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوتے۔
کوئی دن تھے جب زندگی رواں دواں تھی پھر نہ جانے کیا ہوا کہ سو چلی غیب سے وہ ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا، وہ آنکھیں جو فرط مسرت سے دمک اٹھتی تھیں دہلیز کو تکتے تکتے منجمد ہوگئیں جیسے پتھر کی بن گئی ہوں سب ہی کچھ تو بدل گیا، اقدار تبدیل ہوئیں تو انسان کے اندر کا انسان مرگیا پھر نفسا نفسی کا ایسا دور آیا کہ ہر شخص اپنی ہی دنیا میں مگن ہوگیا، خلوص، محبت، انسانیت کسی بے جل مچھلی کی طرح تڑپتی رہ گئی، جیسے سارا معاشرہ پیسے کے تعاقب میں سرگرم عمل ہوگیا بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ جو شخص دولت سے پیار کرتا ہے وہ انسانوں سے محبت کر ہی نہیں سکتا تو بڑوں کے یہ مشاہدات اور تجربات آج نظر کے سامنے ہیں۔
اس تیز رفتار دور میں مصروفیات کا دائرہ اتنا بڑھا کہ برسوں کے تعلقات اور خون کے رشتے بھی بے معنی ہوگئے کسی کو کسی کے دکھ کی پرواہ نہیں کسی کو اس بات کا احساس نہیں کہ اس کے پاس پڑوس میں کوئی ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے گویا زندگی صرف Give And Take ہوکر رہ گئی اب خاندان سمٹ کر بیوی بچوں تک محدود ہوگیا ہے، ماں باپ اور بہن بھائی تو انھیں خاندان میں شمار نہیں کیا جاتا۔
آج کتنے ایسے ادارے ہیں جہاں اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ہاؤس میں اسی طرح ڈال دیتی ہے جیسے بقرعید پر بعض لوگ گوشت کولڈ اسٹوریج میں رکھ کر بھول جاتے ہیں کیونکہ اللہ نے انھیں اتنا عطا کیا ہوتا ہے کہ وہ بازار سے خریدے گئے ، تازہ گوشت کو استعمال کرتے ہیں مگر انھیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ڈیپ فریزر میں رکھا ہوا گوشت ناداروں اور غریبوں میں بانٹ دیں۔
لوگوں کی یہ قسم وہ ہے جس کی ساری محبت صرف اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے وہ دوسروں کا بھلا تو خیر کیا کریں کسی کی بھلائی کے بارے میں سوچتے تک نہیں یہ دوریاں اور خود غرضیاں کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان نہیں ایک ہی خاندان کے دو افراد ہونے کے باوجود بعض صاحب ثروت اپنے غریب رشتے دارکو دنیا والوں کے سامنے اپنا ماننے سے محض اس لیے گریزاں ہیں کہ ان کی رشتے داری کا اقرار کرنے سے ان کی حیثیت میں کمی ہوجائے گی یہ حقیقت ہے جس کا زندہ ثبوت پچھلے دنوں میری نظروں سے گزرا۔
شجی ایک غریب مگر خوددار لڑکا تھا جس کے انکل کی بہت بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنی تھی۔ شجی پروفیشنل فوٹوگرافر تھا اور نوکری کے لیے دربدر مارا مارا پھر رہا تھا، شجی کے والد نے اپنے بھائی سے درخواست کی کہ بھائی جان ہمارے گھر کے حالات بہت خراب ہیں۔ شجی سخت ڈپریشن میں مبتلا ہے اسے اپنی کمپنی میں رکھ لیجیے اس وقت چھوٹے بھائی کے دل میں جانے کیا نیکی آئی کہ انھوں نے شجی کو اپنے ہاں ملازم رکھ لیا، ایک دن ان کے گھر میں بڑا ہائی فائی قسم کا ڈنر تھا۔ شجی سے کہا گیا کہ اس موقعے پر وہ تصاویر کا اہتمام کرے جب سارے M.D کھانے کی میز پر بیٹھے تو شجی نے اپنے چچا سے کہا:
ؔ''انکل! کیا میں اسٹل فوٹوگراف کے علاوہ مووی بھی بنالوں؟'' اس وقت دولت مند چچا صاحب نے سب کے سامنے تڑخ کر کہا۔
''یو آر آن ڈیوٹی، ڈونٹ کال میں انکل۔''
جب معزز مہمان چلے گئے تو چچا صاحب نے شجی کو خوب لتاڑا کہ تم نے اتنے بڑے لوگوں کے سامنے میری انسلٹ کی ہے کیا تمہیں پتا نہیں کہ ایسی formal تقریبات میں اپنے باس کو انکل نہیں کہا جاتا، کل سے ڈیوٹی پر مت آنا۔
وہ شجی کی زندگی کا آخری دن تھا صبح وہ اپنے بستر پر مردہ پایا گیا جس کے سرہانے نیند کی گولیوں کی خالی شیشی پڑی تھی وہ واقعہ موجودہ دورکا ہے جب کہ مجھے یاد ہے میرے بچپن کا ایک واقعہ۔
میرے ایک انکل جو ملک کے بڑے نامور آرکیٹکٹ تھے اور جن کی بنائی ہوئی انتہائی خوبصورت مساجد اور مکانات پاکستان کے تمام شہروں میں موجود ہیں بڑے غریب پرور تھے انھوں نے پی ای سی ایچ میں اپنی کمپنی کھولی تو اپنے خاندان کے تمام ہنر مند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنے ہاں جاب دیں۔ ان کی ٹریننگ کی ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ حق ان کا ہے یہ اقربا پروری نہیں قرابت داری ہے کہ پہلا حق اپنے خاندان کے غریب اور بے روزگار لوگوں کا ہے اگر میں ان کے لیے کچھ نہ کرسکا تو کیا اتنی دولت سمیٹ کر میں اپنی قبر میں لے جاؤں گا۔یہ وہ دور تھا کہ جب ایک ہاتھ سے دیا جاتا تھا تو دوسرے کو خبر نہیں ہوتی تھی اپنوں کا پاس تھا محبتیں تھیں خیال تھا کنبہ پروری تھی۔
اس دور میں آج کی طرح کسی غریب کو چیک یا نقد دیتے وقت اخبارات میں فوٹو سیشن نہیں ہوتے تھے مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ آج یہ ساری پاسداری وضعداری خواب و خیال ہوگئی مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ایک دوسرے کے کام نہ آنے میں ہمارے اردو بولنے والے سب سے آگے ہیں۔ سب سے زیادہ یہی قوم ہے جو ایک دوسرے کی جڑیں کاٹتی ہے، ہاں اگر آپ نے اپنی سیاسی پارٹی سے حلف لیا ہے وفاداری کا تو ظاہر ہے کہ وفاداری بشرط استواری ہے تو پھر بہت ممکن ہے کہ آپ کے دلدر دور ہوجائیں مگر محض اس بنیاد پر کہ آپ کی اور ان کی زبان ایک ہے۔ آپ کو خود ہی کنواں کھودنا اور خود ہی پانی نکالنا ہے بصورت دیگر خود ہی گڑھا کھود کر خودی اس میں دفن ہوجانا ہے۔
ملال تو اس بات کا ہے کہ منزل عموماً ان ہی کو ملتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ آج ہم اپنے محسنوں کو بھول گئے ہیں۔ غیبت اور بدگوئی ہماری سرشت میں شامل ہوچکی ہے ہم اس تھالی میں سوراخ کرتے ہیں جس میں کھاتے ہیں۔ اب مہر و وفا سب ختم ہوچکی ہے اب ترک ہنرکرنے والے ہی سب سے بڑے ہنرمند ہیں کبھی کبھی خیال آتا ہے اس معاشرے میں چلتی پھرتی یہ مخلوق جسے انسان کہا جاتا ہے۔ کیا واقعی انسان کہلانے کی مجاز ہے اور خاص طور پر ہم جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کسی نے کہا تھا کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو مگر اب ایسا نہیں موجودہ دور کی بے حسی دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ
سو درد دینے کے لیے پیدا ہوا انسان آج
خدا لگتی کہیے کیا ہم نے غلط کہا؟