افغانستان سامراجی گرداب میں
افغانستان کا وسیع حصہ جنوب مشرق میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی لپیٹ میں ہے
افغانستان کے صدارتی امیدوار اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ 2001 میں طالبان حکومت کے گرنے کے بعد سامراجی پشت پناہی سے قائم ہونے والی افغان حکومت میں اہم وزارتوں پر فائز رہ چکے ہیں اور دونوں کا ماضی بھی مختلف سامراجی قوتوں کے ساتھ قریبی مراسم سے لتھڑا ہوا ہے۔ اشرف غنی عالمی بینک کے ملازم رہ چکے ہیں اور امریکی سامراج کے لیے زیادہ قابل اعتماد ہیں، وہاں پر عبداللہ عبداللہ کو بھارت اور ایران کا خاصا اعتماد حاصل ہے۔ اور اسی مناسبت سے عام تاثر یہ ہے کہ وہ بھی سا مراجی حلقہ بگوش ہے۔
2014 کے بعد طالبان اور شمالی اتحاد، حزب اسلامی کے مابین کوئی سمجھوتہ کروانے میں عبداللہ عبداللہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس صورت حال کو جنگجو علاقائی سرداروں، کالے دھن کے بڑے کھلاڑیوں اور بدعنوان سینئر ریاستی اہلکاروں پر مشتمل افغانستان کی مقامی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے باہم تضادات نے حالات کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔
اشرف غنی کا نائب صدر کا امیدوار جنرل عبدالرشید دوستم ازبک ہے جو اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے مسلسل وفاداریاں بدلنے اور زیرکنٹرول علاقوں میں وحشیانہ جبرکی وجہ سے خاصا بدنام ہے لیکن ازبک آبادی کے، بندوق کی نوک پرووٹ حاصل کرنے کے لیے اشرف غنی کو اسی وحشی جنگجو سردار سے الحاق کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔
دوسری طرف عبداللہ عبداللہ کا شمالی افغانستان میں سب سے طاقتور حمایتی تاجک جنگجو سردار عطا محمد نور ہے جو صوبہ بلخ کا گورنر ہے اور کہا جاتا ہے کہ بلخ میں کوئی کاروبار کرنا عطا محمد کو بھتہ دیے بغیر ناممکن ہے۔ جان کیری سے ملاقات سے پہلے ہی دونوں صدورکی خفیہ طور پر حامد کرزئی اور موجودہ دونوں نائب صدور یونس قانونی اور کریم خلیلی سے ملاقاتیں ہوئیں اور پھر دونوں صدور بننے کے لیے رضا مند ہو گئے۔ عام تاثر کے برعکس افغانستان ایک کثیرالقومی ملک ہے۔
افغانستان پر حاوی کالے دھن پر مبنی مافیا سرمایہ داری اور سامراجی مداخلتیں افغانستان میں محنت کشوں اور شہریوں کو طبقات کے بجائے قومیتوں میں بانٹ کر اپنے مذموم مفادات حاصل کر رہی ہیں۔ 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' کے نعرے کے تحت افغانستان پر سامراجی قوتوں کی یلغار کے 13 سال بیت چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس 13 سالہ سامراجی مہم جوئی کے نتیجے میں افغانستان میں دہشت گردی کم ہونے کی بجائے بڑھی ہے۔
افغانستان کا وسیع حصہ جنوب مشرق میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس تمام عسکریت پسند طالبان نہیں ہیں اور نہ ہی طالبان بذات خود کوئی ایک متحد اکائی ہیں۔ یہ دونوں طرف پھیلی ہوئی پوست کی کاشت، ہیروئین، چرس اور اسلحے کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دیگر جرائم پر مشتمل کالے دھن کا وسیع نیٹ ورک ہے جس میں بے شمار چھوٹے بڑے گروہ اور جنگجو سردار ہیں جو نہ صرف کالے دھن میں زیادہ سے زیادہ حصے داری کے لیے آپس میں برسرپیکار رہتے ہیں بلکہ مختلف علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتوں کے لیے کرائے پر اپنی خدمات بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان میں سے بعض گروپ سعودی عرب، قطر، ایران بھارت، چین اور امریکا سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی کرزئی انتظامیہ کے پے رول پر ہیں۔ جرا ئم پر مبنی اس کالی معیشت میں زیادہ بولی لگ جانے پر یا مالیاتی مفادات تبدیل ہو جانے پر وفاداریاں بھی فوراً تبدیل ہو جاتی ہیں۔ دہشت گردی باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ایسی صورتحال میں پاکستانی اور افغانی طالبان یا غیر طالبان عسکریت پسندوں جیسی اصلاحات بے معنی اور سطحی ہیں۔
ایسی صورتحال میں ایساف افواج کا مکمل انخلا ممکن نہیں کیونکہ امریکی سامراج کے بعد اپنے بل بوتے پر افغانستان کی بدعنوان اور نااہل اشرافیہ چند ماہ بھی معاملات کو نہ چلا پائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج 2014 کے آخر تک فوج کے انخلا کے بعد بھی دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے کے تحت کم از کم 12 ہزار ایساف فورسز کو افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کو ملنے والی بیرونی امداد کے جاری رکھنے کے لیے بھی 2014 کے بعد کسی نہ کسی شکل میں امریکی سامراج کی افغانستان میں مو جودگی ضرو ری ہے۔
اگر بائی لیٹرل سیکیورٹی معاہدہ (بی ایس اے) طے نہیں ہو پاتا، جس کے امکان بہت کم ہیں تو 2014 کے بعد افغانستان کے لیے بیرونی امداد میں نمایاں کمی ہو جائے گی اور اس امداد کے بغیر افغان حکومت کے لیے فوج اور پولیس کی تنخواہیں دینا بھی ناممکن ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے بار بار اپنی انتخابی مہم میں بی ایس اے پر دستخط کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ افغان حکومت اور فوج کے امریکی سامراج پر اس معاشی اور فوجی انحصار کی بدولت غالب امکانات یہی ہیں کہ امریکی سامراج بہت جلد دونوں صدور کی حمایت کرے گا۔
صدارتی انتخابات کے اس سارے کھلواڑ میں سب سے زیادہ گھاٹے میں افغانستان کے محنت کش عوام ہیں خواہ وہ کسی بھی رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ افغانستان کی مافیا سرمایہ داری کے پاس آبادی کی ایک وسیع ترین اکثریت کو دینے کے لیے صرف بھوک، غربت، محرومی، لاعلاجی، بے روزگاری اور دہشت گردی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کا منظر نامہ اشرافیہ اور عسکریت پسندوں کے مختلف دھڑوں کے مابین خونریز تصادم پر مشتمل ہے جس میں کسی ایک دھڑے کے غالب آ جانے کے امکانات بہت کم ہیں اور نتیجہ ایک طویل خانہ جنگی افق پر نظر آ رہی ہے۔
افغانستان کا محنت کش طبقہ جہاں اپنے تلخ تجربات کی بنیاد پر سامراج کے کردار کو بخوبی سمجھتا تو ہے لیکن وہیں اسے طالبان کی نام نہاد اسلامی حکومت کے اقدامات بھی یاد ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے جسے دہائیوں کی غربت اور بربادی نے طبقے میں لڑنے کی سکت ختم کر دی ہے لیکن افغانستان کے عوام بھی 1978 کے 'سوشلسٹ انقلاب' کی روایات کے امین ہیں جس کے بارے میں خلق پارٹی کے رہنما نور محمد تراکئی نے کہا تھا کہ 'یہ صرف افغانستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں، کسانوں اور سپاہیوں کا انقلاب ہے'۔
یہ بات آج زیادہ درست ثابت ہو رہی ہے۔ اس کا واضح ثبوت 'وال اسٹریٹ قبضہ تحر یک' نے نیویارک سے نیوزی لینڈ تک 900 شہروں میں 'ہم 99 فیصد ہیں' کا نعرہ دیکر ثابت کر دیا ہے۔ اب دنیا بھر کے محنت کش عوام رنگ نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر عالمی اشتمالی انقلاب برپا کر کے ایک خوشحال سماج کی تشکیل دے گا۔