میڈیا واچ ڈاگ میڈیا دھرنے اور اشتہارات

مجھے یقین ہے کہ انقلاب اورآزادی مارچ کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،72گھنٹےکی نشریات دیکھنے کےبعد بھی آپ اندازہ نہیں لگاسکتے۔


وقاص علی August 18, 2014
ایک بات تو واضح ہے کہ چینلز بغیر اشتہارات کے نہیں چل سکتے تو پھر کیونکہ 72 گھنٹے کے دوران میڈیا اشتہارات کے بجائے مسلسل دھرنوں کی کوریج پر مصروف ہے؟ فوٹو: ایکسپریس

کیا انجن والی گاڑی ڈیزل یا پیڑول کے بغیر رواں دواں رہ سکتی ہے ؟ سوال انتہائی بچکانہ اور غیر اہم ہے ۔ اِس کو چھوڑیں یہ بتائیں کیا چینلز اشتہارات کے بغیر نشریات جاری رکھ سکتے ہیں؟ ارے بھئی، کیا فضول اور احمقانہ سوال کردیئے۔ نہیں! نہ ہی انجن والی گاڑی ایندھن کے بغیر اور نہ ہی چینلز بغیر اشتہارات کے چل سکتے ہیں۔ شکریہ !فنی اعتبار سے آپ کا جواب درست ہے لیکن اس پر کوئی انعام نہیں ہے

میں شرط لگا سکتا ہوں کہ انقلاب اور آزادی مارچ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، 72گھنٹے کی نشریات دیکھنے کے بعد بھی آپ اندازہ نہیں لگا سکتے ۔

لیکن صحافت کے اسلاف پسند دیکھ رہے ہیں کہ چینل مالکان کے مالی مفاد صحافتی قوائد وصوابط کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔

مندرجہ ذیل نکات کو محض میرے ذاتی مشاہدے سے جوڑیئے گا ۔ میں انقلاب کے حق یا آزادی کے داعی کی حیثیت سے کوئی جملہ یا لفظ تحریر نہیں کررہا۔ لیکن یاد رہے کہ انقلاب اور آزادی مارچ نے صحافت کے رائج طریقہ کار پر خاصے سوالات اٹھائے ہیں ۔

چینل کسی بھی درجے کا ہو، اسکا مالک اشتہارات کے بغیر نشریات چند گھنٹے بھی نہیں چلائے گا کیونکہ شاید وہ چلا ہی نہیں سکتا۔ یہ ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جو ذرائع ابلاغ سے جڑے لوگ بخوبی جانت ہیں۔ لیکن ادھر معاملہ یہ ہے کہ 12 اور 24گھنٹے کی بلا تعطل برائے راست نشریات چل رہی ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ آزادی اور انقلاب مارچ اس سیاسی بساط میں اہم موڑ ہیں لیکن ریٹنگ کے پیچھے بھاگنے والے چینلز کبھی بھی اپنے مالی خسارے کے اوپر مارچ کی اتنی طویل کوریج نہیں کریں گے۔

جو اشتہارات گزشتہ تین چار روز میں چلے ہیں، عام حالات میں اتنی تعداد میں اشتہارات تو چار گھنٹے کے دورانیہ میں چل جاتے ہیں ۔ لیکن آزادی اور انقلاب کے ساتھ ہی اشتہارات غائب ہو گئے اور صرف نشریات، تجزیئے ، تبصرے اوربحث و مباحثے جاری ہیں ۔ آخر چینل یہ خسارہ کیوں برداشت کرہی ہے جبکہ سیاسی کشمکش میں چلنے والے اشتہارا ت لاکھوں کی گنتی سے نکل کر کروڑوں کی دہلیز چومتے ہیں۔ اول وآخر سوال بہرحال یہ ہی ہے کہ چینل یہ خسارہ کن بنیادوں پر برداشت کررہا ہے؟

اگر آپ اخبار کے قاری اور نیوز چینل کے ناظر ہیں تو زرا بتائیں کہ 12گھنٹے کی مسلسل کوریج میں کتنے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے ؟

اینکر پرسن تبصرے کررہے تھے یا ذہن سازی میں مشغول تھے؟ رپورٹرز بھی سیاسی جوش و جذبے سے متاثر ہوکر اپنے خیال کی عکس بندی کرتارہا یا غیر جانبدارانہ روئیہ اختیار کیئے ہوئے تھے ؟

وہ صحافی جو سیاستدانوں کو اپنے پروگرامز میں دست وگریباں دیکھتے رہے۔ انہی چند دنوں کی نشریات میں ہم نے دیکھا کہ وہ ہی صحافی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلے ہوئے تھے۔ اختلاف رائے کی اہمیت اوربرداشت اس حلقے میں بھی دم توڑی نظر آرہی ہے۔ عوام ان سنیئر صحافیوں سے امید کرتی ہے کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر نئی رائے اور زوایئے کا اظہار کریں لیکن افسوس ایک سوال کے بعد دوسرا سوال پیش کرکے ناظرین کو تہہ درتہہ الجھن میں چھوڑ کر بریک پر چلے جاتے ہیں۔

اپریل 2014کو جاوید جبار کی سربراہی میں میڈیا کمیشن رپورٹ مقامی ہوٹل میں پیش کی گئی۔ میڈیا کمیشن رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ الیکشن 2013میں میڈیا ہاؤسز نے پرائم ٹائم نشریات کو سیاسی کھلاڑیوں کے ہاتھوں فروخت کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق بعض اینکر پرسن سیاسی پارٹیوں کے غیر محسوس انداز میں گن گاتے رہے تاکہ عوام میں حمایتی روئیہ جنم لے سکے۔ لیکن لگتا ہے ایک بار پھر میڈیا کمیشن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحافت کو غیر جانبدارانہ بنانے میں مالکان کے حقو ق کا تعین کریں تاکہ صحافت کے مسلمہ حقوق ادا کیئے جا سکیں۔

آپ کو میری رائے بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوگی ، مجھے اسکا اندازہ ہے ۔ لیکن جب سیاسی پارٹیاں اپنے غیر معروف اور امیر تاجروں کی مدد سے ذرائع ابلاغ کے مالکانہ حقوق حاصل کرلیں گے تو اس وقت ہم سب ہاتھ ملتے رہے جائیں گے ۔ پھر وہ ہی ہو گا جیسا سیاسی میمون باز چاہئے گا۔

اسلئے اس گمان میں مت رہئے گا کہ پاکستان میں چینل بغیر اشتہارات کے نہیں چل سکتا ۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |